• 22 جولائی, 2025

اسلامی اصطلاحات ازتفسیر قرآن حضرت مسیح موعودؑ

اسلامی اصطلاحات کےحوالے سے ملفوظات میں بیان ارشادات مؤرخہ 19 اکتوبر کے شمارہ میں بیان ہوئے ہیں۔اس آرٹیکل میں آٹھ جلدوں پر مشتمل حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات بیان ہو رہےہیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ

ہر یک ذیشان کام کے ابتداء میں تبرک اور استمداد چاہنا نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جس سے انسان کو حقیقت توحید حاصل ہوتی ہے اور اپنے جہل اور بے خبری اور نادانی اور گمراہی اور عاجزی اور خواری پر یقین کامل ہوکر مبدء فیض کی عظمت اور جلال پر نظر جا ٹھہرتی ہے اور اپنے تیئں بکلیّ مفلس اور مسکین اور ہیچ اور ناچیز سمجھ کر خداوند قادر مطلق سے اسکی رحمانیت اور رحیمیت کی برکتیں طلب کرتا ہے۔ اور اگرچہ خدائے تعالیٰ کی یہ صفتیں خودبخود اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں مگر اس حکیم مطلق نے قدیم سے انسان کے لئے یہ قانون قدرت مقرر کردیا ہے کہ اسکی دعا اور استمداد کو کامیابی میں بہت سا دخل ہے جو لوگ اپنی مہمات میں دلی صدق سے دعا مانگتے ہیں اور انکی دعا پورے پورے اخلاص تک پہنچ جاتی ہے تو ضرور فیضان الٰہی ان کی مشکل مشائی کی طرف توجہ کرتا ہے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول، صفحہ 38۔39)

اس جگہ ان خشک فلسفیوں کے اس مقولہ کو بھی کچھ چیز نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو کہتے ہیں کہ کسی کام کے شروع کرنے میں استمداد الٰہی کی کیا حاجت ہے۔ خدا نے ہماری فطرت میں پہلے سے طاقتیں ڈال رکھی ہیں۔ پس ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے پھر دوبارہ خدا سے طاقت مانگنا تحصیل حاصل ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بےشک یہ بات سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعض افعال کے بجالانے کے لیےکچھ کچھ ہم کو طاقتیں بھی دی ہیں مگر پھر بھی اس قیوم عالم کی حکومت ہمارے سر پر سے دور نہیں ہوئی اور وہ ہم سے الگ نہیں ہوا اور اپنے سہارے سے ہم کو جدا نہیں کرنا چاہا اور اپنے فیوض غیر متناہی سے ہم کو محروم کرنا روا نہیں رکھا۔ جوکچھ ہم کو اس نے دیا ہے وہ ایک امر محدود ہے اور جو کچھ اس سے مانگا جاتا ہے اسکی نہایت نہیں۔ علاوہ اسکے جو کام ہماری طاقت سے باہر ہیں ان کے حاصل کرنے کےلئے کچھ بھی ہم کو طاقت نہیں دی گئی۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 41)

جنکی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ: یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ (المآئدہ: 14) انکی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی۔ سو ایسی تحریفوں سے ہر یک مسلمان کو ڈرنا چاہیے۔ اگر کسی حدیث صحیح میں ایسی تحریف کی اجازت ہے تو بِسْمِ اللّٰہِ وہ دکھلائیے!

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 102)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

تمام محامد اللہ ہی کےلیے ہیں اس میں یہ تعلیم ہے کہ تمام منافع اور تمدنی زندگی کی ساری بہبودگیاں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی ستائش کا سزاوار جب کہ وہی ہے تو معطی حقیقی بھی وہی ہوسکتا ہے۔ ورنہ لازم آئیگا کہ کسی قسم کی تعریف و ستائش کا مستحق وہ نہیں بھی ہے جو کفر کی بات ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں کیسی توحید کی جامع تعلیم پائی جاتی ہےجو انسان کی تمام چیزوں کی عبودیت اور بالذّات نفع رساں نہ ہونے کی طرف لے جاتی ہے اور واضح اور بیّن طور پر یہ ذہن نشین کرتی ہے کہ ہر نفع اور سُود حقیقی اور ذاتی طور پر خداتعالیٰ کی ہی طرف سے آتا ہے کیونکہ تمام محامد اسی کےلئے سزاوار ہیں۔ پس ہر نفع اور سُود میں خدا تعالیٰ ہی کو مقدم کرو۔ اسکے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے اگر خلاف ہو تو اولاد بھی دشمن ہوسکتی ہے اور ہوجاتی ہے۔

(الحکم جلد32 جلد5 مؤرخہ 31 اگست 1901ء صفحہ1 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ96)

اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے پھر فرماتا ہے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور تمام پرورشیں تمام جہان پر اسی کی ہیں۔

(البدر نمبر 24 جلد 2 مؤرخہ 3 جولائی 1903ء صفحہ 186 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 112)

ترجمہ از عربی: اور اسکی جماعت نے میرے دل کو خوش کیا سو میں نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہا۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ154)

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

ترجمہ از عربی: اور تم ہر شخص کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یانہ پہچانتے ہو۔ اور (لوگوں کی) غم خواری کےلئے ہر دم تیار کھڑے رہو۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ223)

بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيْفًا انسان چند روز کےلئے زندہ ہے ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جو حی و قیوم ہے جب وقت موعود آجاتا ہے تو ہر ایک چیز اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتی اور سارے قویٰ رخصت کرکے الگ ہوجاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے۔

(الحکم جلد7 نمبر15 مؤرخہ 24 اپریل 1903ء صفحہ11 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ307)

اور جب تم دوسروں کے گھروں میں جاؤ تو داخل ہوتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہو اور اگر ان گھروں میں کوئی نہ ہو تو جب تک کوئی مالک خانہ تمہیں اجازت نہ دے ان گھروں میں مت جاؤ اور اگر مالک خانہ یہ کہے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ336)

ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جسکی عمر قریباً اسی برس کی تھی اور اس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ انکے اور بزرگ تھے اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں ان سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر کے صحن میں نکل آئے اور میں انکے پاس کھڑی تھی اتنے میں مشرق کی طرف سے ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا تب اس ستارہ کو دیکھ کر سید عبد القادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اور ایسا ہی انکے رفیق نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ اَلْمُؤْمِنُ یَرٰی وَ یُرٰی لَہٗ۔ منہ

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ششم صفحہ32)

یااللّٰہ!

یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ266)

نَعُوْذُ بِاللّٰہِ

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ (الحجر: 28) ایک قوم جانّ بھی آدم سے پہلے موجود تھی۔ بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے۔ اور یہی حق ہے کیونکہ اگرخدا کو ہمیشہ سے خالق نہ مانیں تو اسکی ذات پر (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) حرف آتا ہے اور ماننا پڑے گا کہ آدم سے پیشترخداتعالیٰ معطل تھالیکن چونکہ قرآن شریف خداتعالیٰ کی صفات کو قدیمی بیان کرتا ہے اسی لئے اس حدیث کا مضمون راست ہے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ145)

یہود نالائق نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! حضرت مسیح کو کافر اور کاذب اور مفتری ٹھہراتے تھے اور کہتے تھے کہ موسیٰ اور تمام راستبازوں کی طرح اُن کو رُوحانی رفع نصیب نہیں ہوا اور کسی حد تک نصاریٰ بھی انکی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے۔ سو خداتعالی نے یہ فیصلہ کردیا کہ یہ دونوں فریق جھوٹے ہیں۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 117)

عرش الٰہی ایک وراء الوراء مخلوق ہے جو زمین سے اور آسمان سے بلکہ تمام جہات سے برابر ہے۔ یہ نہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عرش الٰہی آسمان سے قریب اور زمین سے دور ہے۔ لعنتی ہے وہ شخص جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے عرش مقام تنزیہہ ہے اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر ناظر ہے جیسا کہ فرمایا وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ (الحدید: 5) اور مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ (المجادلہ: 8) اور فرماتا ہے کہ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ (ق: 17)

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 434)

لیکن اب چونکہ اس صحبت سے محروم ہیں اور انہوں نے ہماری باتیں سننے کا موقع کھودیا ہے اس لئے کھبی کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ دہریے ہیں۔ شراب پیتے ہیں، زانی ہیں اور کبھی یہ اتہام لگاتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ صحبت نہیں اور یہ قہر الٰہی ہے کہ صحبت نہ ہو۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ 324)

سو دیکھنا چاہیے کہ اگر مسیح دوبارہ دنیا میں آوے گا تو کیا اس کا یہ جواب جو قرآن شریف میں درج ہے سچا ہوگا اور اگر ان ملانوں کی بات درست مان لی جاوے تو روزِ قیامت حضرت عیسیٰ کو ایسا جواب دینے سے کیا انعام ملے گا؟ نادان یہ بھی نہیں جانتے کی ایسی باتیں بناکر وہ ایک خدا کے نبی کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹ بولنے والا قرار دے رہے ہیں اور پھر جھوٹ بھی قیامت کے دن اور پھر وہ بھی خداتعالیٰ کے دربار میں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ!

(البدر جلد 6 نمبر 12 مؤرخہ 21 مارچ 1907ء صفحہ 4 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ 121)

خداتعالیٰ نے جس جگہ انسان کی اعلیٰ درجہ کہ مدح بیان کی ہے اور اسکو فرشتوں پر بھی ترجیح دی ہے اس مقام میں اس کی یہی فضیلت پیش کی ہےکہ وہ ظلوم اور جہول ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔ یعنی اُس امانت کو جو ربوبیت کا کامل ابتلاء ہے جس کو فقط عبودیت کاملہ اُٹھا سکتی ہے انسان نے اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا یعنی خداتعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر سختی کرسکتا تھا اور غیر اللہ سے اسقدر دور ہوسکتا تھاکہ اس کی صورت علمی سے بھی اسکا ذہن خالی ہو جاتا تھا۔ واضح ہو کہ ہم سخت غلطی کریں گے اگر اس جگہ ظلوم کے لفظ سے کافر اور سرکش اور مشرک اور عدل کو چھوڑنے والا مراد لیں گےکیونکہ یہ ظلوم جہول کا لفظ اس جگہ اللہ جلّ شانہ نے انسان کے لئے مقام مدح میں استعمال کیا ہے نہ مقام ذم میں اور اگر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ مقام ذم میں ہو تو اسکے یہ معنیٰ ہوں گےکہ سب سے بدتر انسان ہی تھا جس نے خداتعالیٰ کی پاک امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا اور اسکے حکم کو مان لیا۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدششم صفحہ 401)

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ اس آیت میں اللہ تعالی ٰنے جسمانی طور سے آپﷺ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور روحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہوکر جاری ہوگا نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ ﷺ کی مہر ہوگی۔ ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جائے تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی ﷺ کی ہتکِ شان ہوتی ہے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدششم صفحہ 386)

کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تقول علی اللّٰہ کریں تو انکو تو گرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پرواہ نہ کی جاوے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس طرح سے تو امان اُٹھ جاتی ہے۔ صادق اور مفتری میں مابہ الامتیاز ہی نہیں رہتا۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدہشتم صفحہ 336)

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور محنتوں کے بعد آخر کی کامیابیاں بھی مراد ہیں انکے ضائع ہونے سے بھی سخت صدمہ ہوتا ہے۔ امتحان دینے والے اگر کبھی فیل ہوجاتے ہیں تو بارہا دیکھا گیا ہے کہ وہ خودکشیاں کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔ غرض اس قسم کے ابتلاء جن پر آئیں پھر اللہ تعالیٰ ان کو بشارت دیتا ہے وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ یعنی ایسے موقع پر جہد کے ساتھ برداشت کرنے والوں کو خوشخبری اور بشارت ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ یاد رکھو کہ خدا کا خاص بندہ اور مقرّب تب ہی ہوتا ہے کہ ہر مصیبت پر خدا کو مقدّم رکھے۔ غرض ایک وہ حصہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنی منوانا چاہتا ہے۔ دعا کے معنیٰ تو یہی ہیں کی انسان خواہش ظاہر کرتا ہے کہ یوں ہو، پس کبھی مولیٰ کریم کی خواہش کو مقدّم ہونی چاہیے اور کبھی اللہ کریم اپنے بندہ کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔

(الحکم جلد4 نمبر44 مؤرخہ 10 دسمبر 1900ء صفحہ2۔3 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ273)

مصیبتوں کو برا نہیں ماننا چاہیے کیونکہ مصیبتوں کو بُرا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو انکو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں۔ ان کو تباہ کردیتی ہیں غرض مصیبت کے وقت قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنا چاہیے کہ تکالیف کے وقت خداتعالی کی رضا طلب کرے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 264)

استغفار

استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسا ن کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہیں۔

(الحکم جلد 5 نمبر 3 مؤرخہ 24 جنوری 1901ء صفحہ 11)

استغفار کلید ترقیات روحانی ہے۔

(الحکم جلد 5 نمبر 4 مؤرخہ 31 جنوری 1901ء صفحہ 11)

استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔ یاد رکھو! یقین بڑی چیز ہے جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہےخداتعالی خود اس کی دستگیری کرتا ہے۔

(الحکم جلد 5 نمبر 4 مؤرخہ 31 جنوری 1901ء صفحہ 11)

جو لوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الٰہی سے ان کو بچا لیتا ہے۔ میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو، میں نُصحاً للّٰہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرواور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دُعا میں لگ جانے کےلئے کہو۔ استغفار عذاب الہٰی اور مصائب شدیدہ کےلئے سپر کا کام دیتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: 34) اسلئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الٰہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو۔

(الحکم جلد 5 نمبر 27 مؤرخہ 24 جولائی 1901ء صفحہ 1)

استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے اور یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچالے۔ سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہیے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گذشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچالے۔ مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل چاہے۔ نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے۔

(الحکم جلد5 نمبر29 مؤرخہ 10 اگست 1901ء صفحہ3 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ362)

جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سوجاکھا اور ناپاک ہے نہ طیّب۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ413)

ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کردیتا ہے۔

(الحکم جلد9 نمبر40 مؤرخہ 17 نومبر 1905ء صفحہ10 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ365)

توبہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے۔

(البدر جلد7 نمبر5 مؤرخہ 6 فروری 1908ء صفحہ5 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ365)

ایک آسمانی فرشتوں کےلئے قضاء و قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے، خدا کے قضاء وقدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے ان کو بدی کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہوسکتی ہے اور وہ گنا ہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گناہگار ہوچکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگے وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے ہیں۔

(کشتئ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ34)

توبہ و استغفار کا ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا۔

(الحکم جلد3 نمبر17 مؤرخہ 12 مئی1899ء صفحہ5 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ365)

میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ و حرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔ میں تو اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا سے صلح و موافقت پیدا کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو۔

(الحکم جلد3 نمبر 23، مؤرخہ 30 جون 1899ء صفحہ5 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ365)

سُبْحَانَ اللّٰہِ

بلکہ صحابہ کرام نے جو مذاق قرآن سے واقف تھے آیت کو سن کر اور لفظ خَلَتْ کی تشریح فقرہ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ میں پاکر فی الفور اپنے پہلے خیال کو چھوڑ دیا۔ ہاں! ان کے دل آنحضرت ﷺ کی موت کی وجہ سے سخت غمناک اور چور ہوگئے اور ان کی جان گھٹ گئی اور حضرت عمر نے فرمایا کی اس آیت کے سننے کے بعد میری یہ حالت ہوگئی کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹھا نہیں سکتے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیسے سعید اور قّاف عند القرآن تھے کہ جب آیت میں غور کرکے سمجھ آگیا کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہوچکے ہیں تب بجز اس کے کہ رونا شروع کردیا اور غم سے بھر گئے اور کچھ نہ کہا۔

(تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ230)

غور سے دیکھنا چاہیے کہ جس حالت میں اللہ جلّ شانہ آنحضرت ﷺ کا نام اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہرایا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت ﷺ کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کی جرح کرسکے۔ خدا تعالیٰ نےآیت موصوفہ بالا میں اسلام کےلئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت ﷺ کی فطرت کو عنایت فرمایا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ اَعْظَمَ شَاْنُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ

؎ موسیٰ و عیسی ٰ ہمہ خیلِ تواند
جملہ درین راہ طفیل تواند

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ164)

اسی طرح انسان کامل کے نفس کا حال ہے کہ احکام الہی کی تخم ریزی سے عجیب سرسبزی لے کر اس کے اعمال صالحہ کے پودے نکلتے ہیں اور ایسے عمدہ اور غایت درجہ کے لذیذ اسکے پھل ہوتے ہیں کہ ہر یک دیکھنے والے کو خداتعالیٰ کی پاک قدرت یاد آکر سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا پڑتا ہے۔

(تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ہشتم صفحہ263)

خدا نے قرآن شریف میں آخری زمانہ کہ نسبت جو مسیح موعود اور یاجوج ماجوج اور دجال کا زمانہ ہےیہ خبر دی ہے کہ اس زمانہ میں یہ رفیق قدیم عرب کا یعنی اونٹ جس پر وہ مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے اور بلاد شام کی طرف تجارت کرتے تھے ہمیشہ کےلئے ان سے الگ ہوجائے گا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ! کس قدر روشن پیشگوئی ہے یہاں تک کہ دل چاہتا ہے کہ خوشی سے نعرے ماریں۔

(تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ہشتم صفحہ170)

مسلم نے۔۔۔۔ آخری زمانہ کے علامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نئی سواری کا ذکر کرکے یہ کہا کہ لَیُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعٰى عَلَيْهَا اور قرآن شریف نے اس مضمون کو عبارت ِ ذیل میں بیان فرماکر اور بھی صراحت کردی کہ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔ قرآن وحدیث کا تطابق اور پھر عملی رنگ میں اس دور دراز زمانہ میں جبکہ ان پیشگوئیوں کو 13 سو برس سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے ان کا پورا ہونا ایمان کو کیسا تازہ اور مضبوط کرتا ہے۔ چنانچہ ایک اخبار میں ہم نے دیکھا ہے کہ شاہ روم نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ ایک سال کے اندر حجاز ریلوے تیار ہوجاوے۔ سبحان اللّٰہ کیسا عجیب نظارہ ہوگا اور ایمان کیسے تازہ ہونگے کہ جب پیشگوئی کے بالکل مطابق بجائے اونٹوں کی لمبی لمبی قطاروں کے ریل کی لمبی قطاریں دوڑتی ہوئی نظر آویں گی۔

(تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ہشتم صفحہ184)

اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

میں نے اس آیت پر بڑی غور کی ہے۔ اسکے یہی معنیٰ ہیں کہ ہر ایک بلندی سے دوڑیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو صورتیں ہیں اول یہ کہ ہر ایک سلطنت پر غالب آجاویں گے دوم یہ کہ بلندی کی طرف انسان قوت اور جرأت کے بغیر دوڑ اور چڑھ نہیں سکتا اور مذہب پر غالب آجانا بھی ایک بلندی ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان پر وہ زمانہ بھی آوے گا کہ مذہب کے اوپر سے بھی گزر جاویں گے یعنی اپنے اس تثلیثی مذہب سے بھی عبور کرجاویں گے اور اس کو پاؤں کے نیچے مسل دیویں گے اور اسی سے ہمیں انکے اسلام میں داخل ہونے کی بو آتی ہے۔ اب پہلی بات تو پوری ہوچکی ہے اب اِنْ شَآءَ اللّٰہ دوسری بات پوری ہوگی اور یہ باتیں خدا کے ارادہ کے ساتھ ہوا کرتی ہیں جب خدا کی مشیت ہوتی تو ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور دلوں کو حسب استعداد صاف کرتے ہیں تب یہ کام ہوا کرتے ہیں۔

(البد جلد2 نمبر14 مؤرخہ 24 اپریل 1903ء صفحہ105 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد پنجم صفحہ358)

آمین

اے قادر خدا ! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تونے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہوجائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو۔ آمین ثم آمین

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ95)

(شیخ آدم سعید۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اکتوبر 2021