نبی کریم ﷺ کے بعض رؤیا اور تعبیر نبوی
نبی کریم ﷺ کے قرآن و احادیث میں مذکور رؤیا اور کشفی واقعات
قسط نمبر 1
خواب کی حقیقت
خواب اور رؤیا روز مرہ انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی خواب ضرور دیکھتا ہے یعنی نیند کی حالت میں کوئی نہ کوئی نظارہ اسے دکھایا جاتا ہے۔ قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں بھی رؤیا کا ذکر فرمایا گیا ہے مثلا ً حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے سے متعلق رؤیا، حضرت یوسف ؑ کا رؤیا۔ حضرت یوسف ؑ کو رؤیا کی تعبیر کے علم دینے کا بھی اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ حضرت یوسفؑ کے ساتھ جو دوسرے دو قیدی تھے ان کے خوابوں اور ان کی تعبیر جو اللہ تعا لیٰ نے حضرت یو سف ؑ کو سمجھائی اس کا بھی تذکرہ ہے۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ کے دَور کے بادشاہ نے جو خواب دیکھا اور اس کی جو تعبیر حضرت یوسف ؑ نے بیان فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر بھی اپنے کلام مجید میں محفوظ فرمایا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر نبی کریم ؐ کے بعض رؤیا کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے جو نبی کریم ؐ کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مختلف اوقات میں دکھائے گئے تھے۔
اچھا خواب اوربرا خواب
خواب اچھے اور برے (ڈراؤنے) دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ: خواب تین طرح کے ہیں: دل کے خیالات، شیطان کی طرف سے ڈراؤنا خواب اور اللہ کی طرف سے خوشخبری۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب القید فی المنام)
ترمذی کی روایت میں ہے نبی کریم ؐ نے فرمایا:
خواب تین قسم کے ہو تے ہیں؛ پس اچھے اور نیک خواب تو اللہ کی طرف سے بشارت ہو تے ہیں، اور بعض پریشان کن خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور بعض خواب نفسانی خیالات ہوتے ہیں (جو نیند میں متمثل ہو جاتے ہیں)۔
(صحیح مسلم، باب فی کون الرؤیا من اللہ)
حضرت ابو قتادہؓ بیان فرماتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا:
اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب الرؤیا من اللہ)
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا:
اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگے اور بائیں طرف تھوک دے وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب الرؤیا الصالحۃ باب الحُلم من الشیطان)
نیک، اچھے اور سچے خواب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین کا موجب بھی بنتے ہیں اور خالق حقیقی کو پہچاننے کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں نیک خواب کو علم نبوت کا ایک جز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب رؤیا الصالحین)
ایک دوسری روایت میں ’’رُؤْیَا الْمُؤْمِنِ‘‘ یعنی مومن کا خواب کے الفاظ ہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب رؤیا الصالحۃ)
نیک اور سچے خواب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ؐ مقام نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل اور وحی الٰہی کے نزول سے پہلے نیک اور سچے خواب دیکھا کرتے تھے جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ؐ پر وحی کی ابتدا (نیند میں) سچے خوابوں سے ہوئی تھی۔ جو خواب بھی آپؐ دیکھتے صبح کی روشنی کی طرح پورا ہو جاتا۔
(صحیح بخاری، کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی، کتاب الرؤیا باب التعبیر و اول مابدئ بہ رسول اللہ ؐ من الوحی)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہو تا تو پھر حجت پوری نہ ہو سکتی۔ اس لئے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے۔ اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (البقرہ: 287) اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ زیر آیت وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ) الشوریٰ: 52 (جلد4 صفحہ119)
حضور علیہ السلام ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
اور خدا نے جو عام لوگوں کے نفوس میں رؤیا اور کشف اور الہام کی کچھ کچھ تخمریزی کی ہے وہ محض اس لئے ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی تجربہ سے انبیاء علیہم السلام کو شناخت کر سکیں اور اس راہ سے بھی ان پر حجت پوری ہو اور کوئی عذر باقی نہ رہے۔
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ226)
نبی کا خواب بھی وحی ہے
حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق رسول اللہؐ پر وحی کی ابتدا (نیند میں) سچے خوابوں سے ہوئی تھی۔ اور یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی یا انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت عبید بن عمیر ؒ کا قول اپنی صحیح میں درج کیا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ انبیاءؑ کے خواب وحی ہو تے ہیں اور پھر انہوں نے (یہ آیت) پڑھی اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ (الصافات: 103) میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب الوضو باب التخفیف فی الوضوء)
حضرت عبید بن عمیر ؒ مشہور تابعی ہیں جو رسول اللہ ؐ کے دور مبارک ہی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کے خواب سے یہ استدلال کیا کہ اولاد کا قتل تو حرام ہے لیکن حضرت ابراہیم ؑ خواب دیکھ کر اس کی تعمیل فرمانے لگے تھے اگر خواب وحی نہ ہوتا تو ایسا ہر گز نہ کرتے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی خواب کو وحی و الہام کی قسموں ہی میں شمار فرمایا ہے۔ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ :
صورت چہارم الہام کی یہ ہے کہ رؤیا صادقہ میں کوئی امر خدائے تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہو جاتا ہے یا کبھی کوئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہو کر کوئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کو ئی تحریر کاغذ پر یا پتھر وغیرہ پر مشہود ہو جاتی ہے جس سے کچھ اسرار غیبیہ ظاہر ہو تے ہیں۔
(براہین احمدیہ، حصہ اول روحانی خزائن جلد اول صفحہ274 حاشیہ در حاشیہ نمبر1)
اس مختصر تمہید کے بعد آئندہ سطور میں نبی کریم ؐ کے 45 رؤیا اور 18 کشفی واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اور سیرت النبی ؐ کا ایک نہایت ہی اہم اور خاص باب ہیں۔ مضمون کے طویل ہوجانے کے خوف سے اس مضمون میں احادیث کے اصل متن کی بجائے صرف ترجمہ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں مذکور رسول اللہ ؐ کے رؤیا
پہلی رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہ ؐ کے پہلے رؤیا کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت 44 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَنَامِکَ قَلِیۡلًا ؕ وَلَوۡ اَرٰکَہُمۡ کَثِیۡرًا لَّفَشِلۡتُمۡ وَلَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ۔
(یاد کرو) جب اللہ تجھے ان کو تیری نیند کی حالت میں کم دکھا رہا تھا اور اگر وہ تجھے ان کو کثیر تعداد میں دکھاتا تو اے مومنو! تم ضرور بزدلی دکھاتے اور اس اہم معاملہ میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ یقیناً وہ سینوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے۔
اس مذکورہ بالا آیت میں نبی کریم ؐ کے جس رؤیا کا ذکر ہے اس کا تعلق غزوہ بدر کے ساتھ ہے اور اس غزوہ کے موقعہ پر نبی کریم ؐ کو خواب میں کفار کے لشکر کی کیفیت یعنی دشمنوں کی تعداد کم کر کے دکھائی گئی تھی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ صحابہؓ کے حوصلے بھی بلند رہے، وہ ثابت قدم بھی رہے اور انجام کار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اور اگر اللہ تعا لیٰ خواب میں کفار کے لشکر کو زیادہ کر کے دکھاتا تو مسلمان پست حوصلہ اور بزدل ہو جاتے اور جنگ کے متعلق ان کے خیالات مختلف ہو جاتے۔ کوئی ثابت قدم رہنے کی رائے دیتا کوئی بھاگ جانے کی۔ مگر اللہ تعا لیٰ نے یہ خواب دکھا کرمومنوں کو باہمی اختلاف اور بزدلی سے محفوظ رکھا۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدالمسیح الموعود ؓ نے اپنی تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ خواب میں دشمن کی تعداد کم کر کے دکھائے جانے کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دشمن پر غلبہ ملے گا۔
(تفسیر صغیر صفحہ225)
امام ابن اکثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنے نبی ؐ کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی۔ آپ ؐ نے اپنے اصحابؓ سے ذکر فرمایااور یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی۔ ممکن تھا کہ اُن کی تعداد کی زیادتی اِن میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ اللہ تعا لیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کر کے دکھائی …. خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تا کہ مسلمان دلیر ہو جائیں اور انہیں کوئی چیز ہی نہ سمجھیں۔
عبد اللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اندازہ کر کے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہو ں گے۔ اس نے پورا اندازہ کر کے کہا؛ نہیں کوئی ایک سو ہیں۔ پھر ان میں سے ایک شخص ہمارے ہاتھ میں قید ہو گیا، ہم نے اس سے پو چھا کہ تم کتنے ہو؟ اس نے کہا ایک ہزار کا لشکر ہے۔
(تفسیر ابن کثیرؒ اردو، سورۃ الانفال پارہ نمبر10 صفحہ416 شائع کردہ مکتبہ قدوسیہ 2006ء)
نبی کریم ؐ کے اس خواب سے متعلق تفسیر مظہری میں یہ مذکور ہے کہ قلت اعداء دکھانے کی غرض یہ ہے کہ مسلمان ثابت قدم رہیں ان کے حوصلے بلند ہو جائیں اور دشمنو ں کی کثرت دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں۔ واقعہ یہ ہوا کہ بدر کے دن رسول اللہ ؐ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ جب تک میں تم کو لڑنے کا حکم نہ دو ں تم لڑائی نہ چھیڑنا اگر دشمن تمہارے قریب آجائیں تو تیر چلانا تلوار نہ چلانا، تلوار کی جنگ اس وقت کرنا جب وہ تم پر ٹوٹ ہی پڑیں۔ اس کے بعد جھونپڑی کے اندر حضور ؐ کو کچھ نیند کی جھپکی آگئی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! دشمن قریب آ پہنچے اور کچھ چھیڑ چھاڑ بھی کرنے لگے ہیں۔ رسول اللہ ؐ (ابو بکرؓ کی آواز سے بیدار ہو گئے۔ خواب میں اللہ نے آپ ؐ کو دشمنوں کی تعداد کم کر کے دکھائی تھی۔ آپ ؐ نے صحابہؓ کو اس کی اطلاع دی۔) اس طرح لوگوں کی ہمت بندھی رہی اور حو صلے بلند رہے۔
ابن اسحاق اور ابن المنذر نے بروایت حبان بن واسع بیان کیا کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ابو بکر بشارت ہو کہ اللہ کی مدد تمہارے لئے آپہنچی یہ جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھینچے لا رہے ہیں جن کے اوپر غبارہے۔
(تفسیر مظہری اردو، از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی، متوفی 1225 ہجری، جلدپنجم، صفحہ94، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء۔ قاضی محمد ثناء اللہ مجددیؒ پانی پتی ہندوستان کے مشہور ولی حضرت مرزا مظہر جان جاناں متوفی 1195 ہجری کے خلیفہ تھے)
دوسری رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہ ؐ کے دوسری رؤیا کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 61 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا :
وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْ یَا الَّتِیْٓ ۤاَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ۔
اور جو رؤیا ہم نے تجھے دکھائی تھی اسے ہم نے لوگوں کے لیے صرف امتحان کا ذریعہ بنایا تھا۔
اس مذکورہ بالا آیت میں صرف ایک رؤیا کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ وہ رؤیا کون سا تھا۔حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ نے اپنی تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ رؤیا اسی سورۃ میں اسراء کے واقعہ میں بیان کی گئی ہے اور اسراء وہ کشفی سفر تھا جو فلسطین کی طرف ہوا۔
(تفسیر صغیر، صفحہ357)
واقعہ اسراء کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا
(بنی اسرائیل: 2)
یعنی پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا۔
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سفر رات کے وقت ہوا، یہ سفر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر ہوا، آسمان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سفر کے ذریعہ رسول اللہ ؐ کو اپنے بعض نشانات دکھانا چاہتا تھا۔
کتب احادیث اور سیرت کی کتب میں اس واقعہ اسراء کی تفاصیل موجود ہیں۔ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات نبی کریم ؐ نے دیکھا کہ اللہ تعا لیٰ کا ایک فرشتہ آپ ؐ کے پاس بُرّاق نامی سفید رنگ کا ایک جانور لے کر آیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا اور آپ ؐ کو اس پر سوار کیا۔ اور پھر آپ ؐ کو ساتھ لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس جانور کا قدم اس تیزی سے اٹھتا تھا کہ ہر قدم نظر کی انتہائی حد تک لے جاتا تھا۔ اور آپ ؐ بہت جلد بیت المقدس پہنچ گئے۔ راستے میں آپ ؐ کو ایک بڑھیا ملی جسے دیکھ کر آپؐ نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرئیل نے کہا کہ آگے چلئے۔ جب آپ ؐ آگے گئے تو راستے میں کسی نے آواز دے کر بلایا اور کہا محمد ادھر آؤ۔ مگر جبرئیل نے آپؐ سے پھر یہی کہا کہ چلئے آگے چلئے۔ جب آپ ؐ آگے گئے تو کچھ دیر بعد راستے میں آپؐ کو کچھ لو گو ں کی جماعت ملی جس نے آپ کو سلام کہا۔ جبرئیل نے کہا آپ بھی ان کو سلام کہیں۔ بالآخر آپ ؐ بیت المقدس پہنچ گئے۔ یہاں جبرئیل نے آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کئے، ایک میں پانی تھا، دوسرے میں شراب تھی اور تیسرے میں دودھ تھا۔آپ ؐ نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور باقی دونوں رد کردیئے۔ جبرئیل نے کہا: آپ نے فطرت کی بات اختیار کی۔ اگر آپؐ پانی لیتے تو آپؐ کی امت غرق ہو جاتی۔ اور اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپؐ کی امت بھٹکتی پھرتی۔ پھر آپ ؐ کے سامنے حضرت آدمؑ اور ان کے بعد کے انبیاء ؑ لائے گئے اور آپؐ نے ان کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائی، گویا وہ انبیاء آپ ؐ کے مقتدی بنے اور آپؐ ان کے امام ؐہوئے۔اس کے بعد جبرئیل نے آپ ؐ سے کہا کہ وہ جو آپؐ نے راستے میں ایک بڑھیا دیکھی تھی وہ دنیا تھی اور دنیا کی عمر میں اب صرف اسی قدر باقی رہ گیا ہے جو بڑھیا کی عمر میں باقی ہے۔ اور وہ جو آپ ؐ کو ایک شخص راستے میں ایک طرف بلاتا تھاوہ شیطان تھا جو آپؐ کو راستے سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ اور وہ جو آپؐ کو آخر میں ایک جماعت ملی تھی اور انہو ں نے آپؐ کو سلام کہا تھا وہ اللہ تعا لیٰ کے انبیاء حضرت ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑتھے۔اور اس کے بعد نبی کریم ؐ واپس مکہ تشریف لے آئے۔
(تلخیص از سیرۃ خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صفحہ199 تا 202)
احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ؐ سوئے ہوئے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ چنانچہ مذکور ہے:
وَھُوَ نَآئِمٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
یعنی آپؐ سوئے ہوئے تھے مسجد حرام میں
اور اس واقعہ کے بعد آپ ؐ بیدار ہو گئے اور اس واقعہ کے وقت آپ کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا تھا۔ ایسا ہی مذکور ہے کہ
وَاسْتَیْقَظَ وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
یعنی پھر آپؐ بیدار ہوگئے اور آپؐ مسجد حرام میں تھے۔
غرض یہ واقعہ اسراء ایک روحانی امر اور ایک نہایت لطیف کشف تھا جو رسول اللہ ؐ کو نیندکی حالت میں پیش آیا۔
(صحیح بخاری، کتاب التوحید باب وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا۔ صحیح بخاری، کتاب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل۔صحیح بخاری، کتاب الانبیاء باب تنام عینہ ولا ینام قلبہ باب واذکر فی الکتاب مریم۔ صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)
تیسری رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہ ؐ کے تیسری رؤیا کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت 28 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَمُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا۔
اللہ نے اپنے رسول کو اس رؤیا کا مضمون پوری طرح سچا کر کے دکھادیا کہ تم مسجد حرام میں اگر خدا نے چاہا تو امن کے ساتھ ضرور داخل ہوگے اور اپنے سر پوری طرح منڈوائے ہو ئے یا چھوٹے بال کروائے ہوئے ہو گے کسی سے نہ ڈرتے ہو گے۔ سو اللہ نے وہ کچھ جان لیا جو تم نہیں جانتے تھے اور اس نے اس کے ورے ایک اور فتح رکھ دی ہے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ نے اپنی تفسیر صغیر میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’رسول کریم ؐ نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لئے آپ ؐ مکہ جانے کے لئے روانہ ہو ئے لیکن حدیبیہ کے مقام پر روک دئے گئے۔ آخر کفار نے درخواست کی کہ اس سال طواف نہ کریں مگر اگلے سال ہم آپ کا راستہ کھلا چھوڑ دیں گے۔ اس وقت طواف کر لیں۔‘‘
(تفسیر صغیر صفحہ681)
اس رؤیا میں در حقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ لیکن رسول اللہ ؐ نے اس کی تعبیر یہی سمجھی شاید ہمیں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے اپنے اصحابؓ سے اس بات کا تذکرہ فرمایا اور انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کو ئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو۔ چنانچہ ذوالقعدہ سن 6 ہجری پیر کے دن صبح کے وقت نبی کریم ؐ اپنے کم و بیش چودہ سو اصحابؓ کے ساتھ مکہ روانہ ہو گئے۔
مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ کفار مکہ جنگ پر آمادہ ہیں اور مسلمانوں کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ یہ قافلہ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر ٹھہرا جہاں نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ میں مکہ والو ں سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اسے منظور کر لو ں گا۔ بالآخر یہاں وہ عظیم الشان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ پر صحابہؓ کے دل میں غم اور غصہ کے جذبات پیدا ہو ئے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ؐ سے کہا یا رسول اللہ ؐ! کیا ہم سچے نہیں ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں! پھر انہوں نے کہا یا سول اللہؐ! کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں! اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا پھر آپؐ نے آج یہ معاہدہ کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا عمر! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھاکہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اجتہاد تھا۔پھر فرمایا تو پھر تم انتظار کرو تم ان شاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے۔
اسی موقعہ پر بیعت رضوان بھی ہو ئی جس کا ذکر اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الفتح کی آیت19 میں فرمایا ہے۔معاہدہ مکمل ہو نے کے بعد رسول اللہ ؐ نے اپنی حرم محترم حضرت ام سلمہ ؓ کی تجویز پر اپنے قربانی کے جانور ذبح فرمانے کے بعد اپنے سر کے بال منڈوائے، یہ دیکھ کر صحابہؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ غرض نبی کریم ؐ اس معاہدہ کے بعد واپس مدینہ تشریف لے گئے اور یہ معاہدہ ایک عظیم الشان فتح پر منتج ہوا۔
واپسی کے سفر میں اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الفتح نازل فرمائی جس کے بارہ میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک ایسی سورۃ نازل ہو ئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔
(تلخیص از سیرۃ خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صفحہ748 تا 772، صحیح بخاری کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیہ، صحیح بخاری کتاب التفسیر، باب إِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحًا مُّبِينًا)
چوتھی رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہ ؐ کے چوتھی رؤیا کا ذکر سورۃ النجم کی آیت 8 تا 19 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا:
وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی ؕ﴿۸﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿۹﴾ فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ۚ﴿۱۰﴾ فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۱﴾ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۲﴾ اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۳﴾ وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۴﴾ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۵﴾ عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۶﴾ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۷﴾ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۸﴾ لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۹﴾
ترجمہ: جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا، پھر وہ نیچے اتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا یا اس سے بھی قریب تر۔ پس اس نے اپنے بندے کی طرف وہ وحی کیا جو بھی وحی کیا۔ اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا۔ پس کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا؟ جبکہ وہ اسے ایک اَور کیفیت میں بھی دیکھ چکا ہے۔ آخری حد پر واقع بیری کے پاس۔ اس کے قریب ہی پناہ دینے والی جنت ہے۔ جب بیری کو اس نے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا۔ نہ نظر کج ہو ئی اور نہ حد سے بڑھی۔ یقینا ًاس نے اپنے رب کے نشانات میں سے سب سے بڑا نشان دیکھا۔
ان مذکورہ بالا آیات میں نبی کریم ؐ کے معراج روحانی کا نقشہ کھینچا گیا ہے یعنی وہ روحانی سفر جس میں نبی کریم ؐ کو آسمان تک پہنچایا گیا جہاں آپؐ بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو ئے۔ اس معراج روحانی کی تفصیلات بھی احادیث میں موجود ہیں اور کتب احادیث میں کم و بیش پینتالیس صحابہ ؓ سے مختلف الفاظ کے ساتھ معراج کا واقعہ منقول ہے۔ اس واقعہ معراج سے متعلق روایات کا خلاصہ یہ کہ نبی کریم ؐ ایک رات مسجد حرام میں لیٹے ہو ئے تھے اور نیند اور بیداری کی کیفیت میں تھے کہ حضرت جبرئیلؑ نمو دار ہو ئے اور انہوں نے آپ ؐ کو اٹھا کر پہلے آپؐ کا سینہ چاک کیا اور آپ ؐ کے قلب مبارک کو آب زمزم سے اچھی طرح دھویا اور پھر آپؐ کے دل میں حکمت و ایمان کا خزانہ بھر کے آپؐ کے سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ نبی کریم ؐ کو لے کر آسمانو ں کی طرف بلند ہوئے۔ پہلے آسمان پر نبی کریم ؐ کی ملاقات حضرت آدم ؑ سے ہوئی۔ پھر دوسرے آسمان پر گئے جہاں حضرت یحیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔ پھر تیسرے آسمان پر حضرت یو سف ؑ سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ سے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ اور پھر ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہو ئی۔ اس کے بعد نبی کریم ؐ اس مقام پر پہنچے جسے قرآن کریم سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی کے الفاظ میں بیان فرماتا ہے یعنی انسان کی روحانی رفعت کا وہ آخری مقام یا حد کہ جس کے بعد انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اس مقام پر اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آپ ؐ پر وحی بھی اتاری گئی اور آپ ؐ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ اوراسی معراج کے موقعہ پر پانچ نمازوں کا تحفہ ملا جن کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر قرار دیا گیا۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)
واقعہ معراج کے ایک لطیف کشف یا رؤیا ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ روایات میں یہ مذکور ہے کہ نبی کریم ؐ مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے اور دوسرا یہ کہ واقعہ معراج کے بعد یہ ذکر ہے کہ پھر آپؐ بیدار ہو گئے۔ اور تیسرا یہ کہ نبی کریم ؐ نے دوران معراج جو نظارے دیکھے وہ ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھے بلکہ قرآن کریم سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میں اسے رؤیت قلبی قرار دیتا ہے۔
پانچواں رؤیا
قرآن کریم میں رسول اللہ ؐکے پانچویں رؤیا کا ذکر سورۃ التکویر کی آیت 24 میں فرمایا گیا ہے جیسے کہ فرمایا :
وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ
اور وہ ضرور اسے روشن افق پر دیکھ چکا ہے۔
اس مذکورہ بالا آیت قرآنی میں ایک رؤیت کا ذکر ہے۔ اس رؤیت سے مراد بھی خواب میں یا کشفاً دیکھنا مراد ہے۔اس کے بارہ میں امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت پر بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہو ئے تھے۔ یہ واقعہ بطحا کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ کا دیکھنا تھا، آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدارِ جبرئیل ؑ ہوا تھا۔
(تفسیر ابن کثیرؒ اردو، سورۃ التکویر پارہ نمبر30 صفحہ690، شائع کردہ مکتبہ قدوسیہ 2006ء)
اس قول کے قائلین میں سے حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔
(تفسیر مظہری اردو، از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی، متوفی1225 ہجری، جلد بارہ صفحہ215، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء۔ قاضی محمد ثناء اللہ مجددیؒ پانی پتی ہندوستان کے مشہور ولی حضرت مرزا مظہر جان جاناں متوفی 1195 ہجری کے خلیفہ تھے)
کتب احادیث میں مذکور رسول اللہ ؐ کے رؤیا
رؤیا نمبر 1:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں اپنا دارالہجرت دیکھنا اور تلوار کا ٹوٹنا اور جڑنا
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی سرزمین میں ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجور کے باغات ہیں۔ اس پر میں نے یہ خیال کیا کہ یہ مقام یمامہ یا ہجر ہے، لیکن وہ تو مدینہ نکلا،یثرب۔ اور اسی خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی اور وہ درمیان میں سے ٹوٹ گئی۔ یہ اس نقصان اور مصیبت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو اٹھانی پڑی تھی۔ پھر میں نے اس تلوار کو دوسری مرتبہ ہلایا تو وہ پہلے سے بھی اچھی صورت میں جڑ گئی۔ یہ فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا اور مسلمانوں کو اجتماعی زندگی میں قوت و توانائی عطا فرمائی تھی۔ اور میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیرات میں بھلائی ہی ہو تی ہے۔ ان گائیوں سے ان مسلمانو ں کی طرف اشارہ تھا جو احد کی جنگ میں شہید ہوئے۔ اور خیر وہ ہے جو اللہ تعا لیٰ نے خیر اور سچائی کے ثواب کی صورت میں دیا یعنی وہ جو ہمیں اللہ تعا لیٰ نے جنگ بدر کے بعد (دوسری فتوحات خیبر اور فتح مکہ کی صورت میں) دی۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب اذا رأ بقرا تنحر، باب اذا ھز سیفاً، صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب علامات النبوۃ فی الاسلام، کتاب المغازی باب من قتل من المسلمین یوم احد۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5649)
رؤیا نمبر 2:۔ غزوہ احد سے پہلے ایک رؤیا میں چار نظارے
حضرت عبداللہؓ ابن عباس ؓ روایت بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐکی تلوار ذوالفقار بدر کے دن (اموال غنیمت میں) ہاتھ آئی تھی۔ اس تلوار کے بارہ میں رسول اللہ ؐ نے اپنی یہ رؤیا بیان فرمائی کہ میں نے دیکھا کہ میری تلوار ذوالفقار ٹوٹی ہو ئی ہے یا اس کی دھار پر کٹاؤ پڑ گیا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر تمہارے اندر کٹاؤ مراد لیا ہے دوسری روایت میں ہے کہ میں نے جو کچھ اپنی تلوار کے بارہ میں دیکھا ہے اسے ناپسند کیا ہے (ایک روایت میں اس کی تعبیر میں نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے کو ئی شخص ہے، جو اشارہ تھا سید الشہداء حضرت حمزہ ؓکی شہادت کی طرف)۔ اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنے پیچھے ایک دنبہ بٹھایا ہوا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر بغیر لشکر مراد لی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں لوگوں کے لئے دنبہ ذبح کروں گا۔ اور میں نے دیکھا کہ میں ایک محفوظ زرہ میں ہوں۔ میں نے اس کی تعبیر مدینہ مراد لی ہے۔ اور میں نے ایک گائے دیکھی جو ذبح کی جارہی ہے۔ پس گائے میں اللہ کی قسم خیرہی ہے۔
(مسندامام احمدؒ جلد:اول صفحہ: 271، مستدرک للحاکم حدیث نمبر: 4896,2588۔ دلائل النبوۃ (اردو) ازامام ابی بکر احمد بن حسین البیہقی جلد دوم حصہ سوم، صفحہ: 154-153 دارالاشاعت کراچی، مئی 2009ء)
رؤیا نمبر 3:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا اور ملا اعلیٰ میں فرشتوں کا بحث کرنا
حضرت عبد اللہؓ ابن عباسؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ایک رات خواب میں اللہ تعالیٰ میرے پاس نہایت ہی اچھی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اس نے فرمایا اے محمدؐ !کیا آپؐ کو معلوم ہے کہ ملاء اعلیٰ میں فرشتے کیا بحث کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے اپنے سینے میں محسوس ہو ئی یا یہ فرمایا کہ میرے حلق تک ٹھنڈک محسوس ہوئی اور مجھے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کے بارہ میں علم ہو گیا۔ پھر رسول اللہ ؐ نے یہ آیت پڑھی:
وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ۔
(الانعام: 76)
اور ہم ابراہیم کو اس طرح آسمانوں اور زمین پر اپنی بادشاہت دکھاتے تھے تا کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دوبارہ دریافت فرمایا اے محمدؐ !کیا آپؐ کو معلوم ہے کہ ملاء اعلیٰ میں فرشتے کیا بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں میں جانتا ہوں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں) کے بارہ میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اور وہ کفارات یہ ہیں نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا، باجماعت نماز کے لئے پیدل چل کر جانا، (سردی وغیرہ کی وجہ سے) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا۔ جس نے یہ سب کام کئے وہ بھلائی پر زندہ رہے گا،بھلائی پر اس کی وفات ہو گی اور وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جائے گا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ؐ! جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا کر لیا کریں:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاِذَآ اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْٓ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ۔
(جامع ترمذی، باب من سورۃ صٓ حدیث 3233)
یعنی اے اللہ! میں تجھ سے نیک کامو ں کے کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے کی تو فیق چاہتا ہو ں۔تو مساکین کی محبت مجھے عطا فرما۔ اور جب بعض لو گوں کو فتنہ پہنچانا مقصود ہو تو بغیر فتنہ میں ڈالے میری روح کو قبض کر لینا اور فرمایا وہ اعمال جن سے درجات بلند ہو تے ہیں وہ یہ ہیں: سلام کو رواج دینا، کھانا کھلانا اور رات کو اس وقت نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔
رؤیا نمبر 4:۔ عالم برزخ میں دوزخ کے ہیبتناک اور جنت کے دلفریب نظارے
حضرت سمرۃ بن جندب ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ کا یہ معمول تھا کہ جب آپؐ (صبح کی) نماز سے فارغ ہو تے تو اپنا چہرہ ہماری طرف متوجہ فرماتے اور دریافت فرماتے کہ آج کی رات تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ حضرت سمرۃ ؓ کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو وہ اس کو بیان کر دیتا اور آپؐ اس کی وہ تعبیر فرما دیتے جو جو اللہ تعالیٰ الہام فرماتا۔ چنانچہ اپنے اس معمول کے مطابق ایک دن رسول اللہ ؐ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں۔ تو آپ ؐ نے فرمایا لیکن میں نے آج کی رات خواب دیکھا ہے کہ میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا چلیں اور میں ان کے ساتھ چل دیا اور وہ مجھے مقدس سرزمین کی طرف لے چلے۔ پھر ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لے کے کھڑا تھا۔ وہ اس کے سر پر پتھر پھینک کر مارتا جس سے اس کا سر پھٹ جاتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ لیکن وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا اور اس لیٹے ہو ئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسے کہ پہلے تھا۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح پتھر اس پر مارتا اور وہی صورتیں پیش آ تیں جو پہلے پیش آئی تھیں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ میں نے ان دونو ں سے پوچھا سُبْحَانَ اللّٰہِ! یہ کون ہیں؟ تو انہو ں نے جواب دیا کہ آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لے کے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتا اور اس کی ناک کو بھی گدی تک چیرتا اور اس کی آنکھ کو بھی گدی تک چیرتا ہے۔ پھر وہ دوسری جانب جاتا ہے اور اس طرف بھی وہ چیرنے کا عمل کرتا ہے جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ اس کی پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت پر واپس لوٹ آتی تھی۔ پھر وہ دوبارہ اسی طرح کرتا تھا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا۔ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ! یہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے چلے اور ایک تنور جیسی چیز پر آئے جس کا اوپر والا حصہ تنگ تھا اور نچلا حصہ کھلا اور وسیع تھا اور ہم نے شور و آواز سنی۔ ہم نے اس میں جھانکا تو ا س کے اندر برہنہ مرد اور عورتیں تھیں۔ ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلّانے لگتے۔ جب وہ آگ کے قریب ہوتے تو اوپر کی جانب اُٹھتے اور (اس تنور سے) باہر نکلنے کے قریب ہو جاتے اور جب وہ آگ کچھ ٹھنڈی ہوتی تو یہ پھر نیچے چلے جاتے۔ فرمایا میں نے ان دونوں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہو ں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے (راوی کا خیال ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ وہ نہر خون کی طرح سرخ تھی) اور اس نہر میں ایک شخص تیر رہا ہے اور نہر کے کنارہ ایک دوسرا شخص تھا جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے۔ تیرنے والا تیرتا ہوا نہر سے باہر نکلنے کی کوشش میں جب اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کئے ہوئے تھے تو یہ اپنا منہ کھول دیتا اور کنارے کھڑا شخص اس کے منہ میں پتھر مارتا اور وہ تیرتے ہو ئے اسی جگہ واپس چلا جاتا جہاں وہ پہلے تھا۔ پھر وہ تیرنے لگتا اور پھر اس کے پاس لوٹ کر آتا اور جب بھی اس کے پاس آتا تو اپنا منہ پھیلا دیتا اور یہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا میں نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہایت بدصورت آدمی کے پاس پہنچے، اتنا بدصورت کہ جتنے بدصورت تم نے دیکھے ہوں گے ان میں سے سب سے زیادہ بدصورت۔ اس کے پاس آگ جل رہی تھی اور وہ اسے جلا رہا تھا اور اس کے چاروں طرف دوڑتا تھا۔ میں ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایسے باغ میں پہنچے جو ہرا بھرا تھا اور اس میں موسم بہار کے سب پھول تھے۔ اس باغ کے درمیان میں ایک بہت ہی لمبا شخص تھا اتنا لمبا کہ میرے لئے اس کا سر دیکھنا بھی مشکل تھا کہ وہ آسمان سے باتیں کرتا تھا۔ اور اس شخص کے چاروں طرف بہت سے بچے تھے کہ اتنے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے مجھے کہا آگے چلیے۔
پھر ہم آگے بڑھے اور ایک عظیم الشان باغ تک پہنچے، میں نے اتنا عظیم الشان اور اتنا خوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے انہوں نے کہا کہ اس پر چڑھیئے۔ ہم اس پر چڑھے تو ایک ایسا شہر دکھائی دیا جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ ہم اس شہر کے دروازہ پر پہنچے اور اسے کھلوایا، وہ ہمارے لئے کھولا گیا اور ہم اس میں داخل ہو ئے وہاں ہم نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کا آدھا جسم نہایت خوبصورت اور دوسرا نصف نہایت بد صورت تھا۔ دونوں ساتھیوں نے ان لو گو ں سے کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں کود جاؤ۔ ایک نہر سامنے بہہ رہی تھی اس کا پانی انتہائی سفید تھا۔ وہ لوگ گئے اور اس میں کود گئے۔ اور پھر ہمارے پاس لوٹ کر آئے تو ان کا پہلا عیب ختم ہوچکا تھا اور وہ اب نہایت خوبصورت ہو گئے تھے۔
پھر (ان دونوں ساتھیوں) نے مجھے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہ آپؐ کی منزل ہے۔ (نبی کریم ؐ نے) فرمایا میری نظر اوپر کی طرف اٹھی تو سفید بادل کی طرح ایک محل اوپر نظر آیا۔ (ان دونوں ساتھیوں) نے مجھے کہا کہ یہ آپؐ کی منزل ہے۔ میں نے ان سے کہا اللہ تمہیں برکت دے مجھے اس میں داخل ہو نے دو۔ تو انہوں نے کہا کہ اس وقت تو آپؐ نہیں جا سکتے ابھی تو آپؐ کی عمر باقی ہے جس کو آپؐ نے پورا نہیں کیا ہے جب آپؐ اپنی عمر کو پورا کر لیں گے تو آپؐ اس میں ضرور جائیں گے۔
(نبی کریم ؐنے) فرمایا کہ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھیں، یہ چیزیں کیا تھیں؟ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپؐ کو بتائیں گے۔
(انہوں نے بتایا کہ) پہلا شخص جس کے پاس آپؐ گئے تھے اور جس کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا، یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے چھوڑ دیتا ہے اور فرض نماز کو چھوڑ کر سوتا ہے۔ قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔ اور وہ شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور جس کا جبڑا گدی تک اور اس کی ناک گدی تک چیری جارہی تھی، یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے جو دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اور قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔ اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور جیسی چیز میں آپؐ نے دیکھیں تو وہ زنا کار مرد اور عورتیں تھیں۔ وہ شخص جس کے پاس آپ اس حال میں گئے کہ وہ نہر میں تیر رہا ہے اور اس کے منہ میں پتھر دیا جاتا ہے وہ سود خور ہے۔ اور وہ شخص جو کریہہ النظر ہے اور جہنم کی آگ بھڑکا رہا ہے اور اس کے چارو ں طرف چل پھر رہا ہے وہ مالک جہنم کا داروغہ تھا۔ درخت کے اوپر پہلا گھر جس میں آپؐ داخل ہوئے تھے وہ (جنت میں عام) مومنوں کا مکان ہے۔ اور یہ گھر (جو پہلے گھر سے اوپر واقع ہے) شہداء کا مکان ہے۔ میں جبرئیل ہوں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں میکائیل ہیں۔ اور وہ لمبا شخص جو باغ میں نظر آیا وہ ابراہیم ؑ ہیں اور جو بچے ان کے چارو ں طرف ہیں یہ وہ بچے ہیں جو (بچپن ہی میں) فطرت پر فوت ہوگئے ہیں۔ اس پر بعض صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! مشرکین کے بچوں کا کیا ہو گا؟ فرمایاکہ مشرکین کے بچے بھی وہیں تھے۔ اور وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا بد صورت تھا تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے عمل بھی کئے اور ساتھ برے عمل بھی کیے اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف فرمادئے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرؤیا حدیث نمبر: 4418 و4414۔ صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب تعبیر الرؤیا بعد صلوۃ الصبح۔ صحیح بخاری، باب ما قیل فی اولاد المشرکین۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اس رؤیا کا ترجمہ چاروں روایات کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔)
رؤیا نمبر 5:۔ غزوۃ البحر سے متعلق رؤیا
خادم رسول ؐ حضرت انس بن مالک ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ ام حرام ؓ بنت ملحان کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہ آپؐ کو کھانا پیش کیا کرتی تھیں۔ یہ حضرت عبادہ بن صامتؓ کے نکاح میں تھیں۔ ایک دن رسول اللہ ؐ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپؐ کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپؐ کاسر جھاڑنے لگیں۔ اس عرصہ میں رسول اللہ ؐ سو گئے۔ جب بیدار ہو ئے تو آپ ؐ مسکرا رہے تھے۔ حضرت ام حرامؓ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپؐ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئےدریا کے بیچ میں سوار اس طرح جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ حضرت ام حرامؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہی میں شامل فرمائے۔ تو رسول اللہ ؐ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔ پھر آپؐ اپنا سر رکھ کر سو گئے۔ اس مرتبہ بھی جب آپؐ بیدار ہو ئے تو آپؐ مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے جا رہے تھے۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی فرمایا۔ حضرت ام حرامؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہی میں شامل فرمائے۔ تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ تم پہلے والے لشکر میں شامل ہو گی (جو بحری راستے میں جہاد کرے گا)۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ کے دور میں حضرت ام حرام ؓ نے بحری سفر کیا۔ واپسی پر سوار ہو نے کے لئے اپنی سواری کے قریب ہوئیں اور سوار ہو تے ہو ئے گر پڑیں جس سے آپؓ کی گردن ٹوٹ گئی اور آپؓ وفات پا کر شہداء میں شامل ہو گئیں۔
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد باب الدعاء بالجہاد باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ، باب غزوالمرأۃفی البحر، باب رکوب البحر،صحیح بخاری کتاب الرؤیاباب الرؤیا بالنہار،سنن نسائی باب فضل الجہاد فی البحر،سنن ابن ماجہ باب فضل غزو البحر)
حضرت ام حرام ؓ بنت ملحان حضرت عبادہ بن صامتؓ کے نکاح میں تھیں اور نبی کریم ؐ سے ان کی قرابت داری تھی۔ حضرت ام سلیم ؓ جو حضرت انسؓ بن مالک کی والدہ تھیں یہ ان کی بہن تھیں یعنی حضرت انسؓ کی خالہ تھیں۔ رسول اللہ ؐ ان کی تعظیم فرماتے تھے، ان کے گھر تشریف لے جاتے اور کچھ دیر کے لئے قیلولہ فرماتے تھے۔ نبی کریم ؐ نے ان کے بارہ میں جیسے دعا فرمائی وہ پیشگوئی کے رنگ میں پوری ہوئی۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے دوران حضرت معاویہؓ کے بحری لشکر میں شامل ہو کر رومیوں کے خلاف غزوہ میں شریک ہو ئیں اور واپسی پر حادثہ پیش آیا۔
رؤیا نمبر 6:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں کنویں سے پانی نکالنا
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک حوض پر ہوں اور لوگوں کو سیراب کر رہا ہوں۔ اس حوض پر ایک ڈول تھا جتنا اللہ نے چاہا میں نے اس میں سے پانی کھینچا۔ پھر ابوبکر ؓ کھڑے ہو ئے اور انہوں نے اس ڈول کو لے لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ پھر وہ ڈول بڑا ہو گیا اور اسے عمر ابن خطابؓ نے اٹھا لیا۔ میں نے لوگوں میں سے کسی کو اتنی مہارت کے ساتھ پانی نکالتے نہیں دیکھا۔ انہو ں نے خوب پانی نکالا یہاں تک کہ لو گو ں نے اونٹوں کے لئے حوض پانی سے بھر لئے۔
(صحیح بخاری کتاب الرؤیاباب نزع الماء من البئر، باب نزع الذنوب، باب الاستراحت فی المنام۔ کتاب الانبیاء باب علامات النبوۃ فی الاسلام، کتاب الانبیاء باب مناقب عمرؓ ابن الخطاب۔ جامع ترمذی باب ماجاء فی رؤیا النبی ؐ)
رؤیا نمبر 7:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں حضرت عیسیٰؑ ابن مریم اور مسیح الدجال کو دیکھنا
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ آج رات رؤیا میں خانہ کعبہ کے پاس میں نے گندمی رنگ کا ایک شخص دیکھا جو گندم گوں لوگوں میں حسین ترین نظر آنے والا تھا اور اس کے لمبے بال تھے جن میں کنگھی کی گئی تھی، لمبے بالوں میں وہ نہایت خوبصورت نظر آتا تھا۔ اس کے بالوں سے پانی ٹپکتا تھا اور اس نے دو آدمیوں کا سہارا لیا ہوا تھا اور خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پو چھا کہ یہ کو ن ہے؟ تو مجھے بتایا گیاکہ یہ عیسیٰ ابن مریم ؑ ہے۔ پھر ایک اَور شخص پر نظر پڑی جس کے بال گھنگریالے، دائیں آنکھ سے کانا گویا کہ اس کی آنکھ انگور کی طرح ابھری ہو ئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو مجھے بتایا گیاکہ یہ مسیح دجال ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیاباب رؤیا اللیل۔ صحیح بخاری، کتاب اللباس باب الجعد۔ صحیح مسلم، باب ذکر مسیح الدجال۔ مؤطا امام مالک، باب ما جاء فی صفۃ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام)
نبی کریم ؐ کا خواب میں اپنی امت میں ظاہر ہو نے والے حضرت مسیح موعود ؑ اور مسیح الدجال کو دیکھنا
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ اچانک ایک شخص کو دیکھا گندمی رنگ جس کے بال سیدھے لٹکے ہو ئے تھے اور دو آدمیوں کے درمیان سہارا لئے ہوئے تھا اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے پو چھا کہ یہ کو ن ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم ؑہے۔ پھر میں مڑا تو ایک دوسرا شخص نظر آیا جو سرخ رنگت والا، بھاری بھرکم جسم والا، گھنگریالے بال والا تھا وہ ایک آنکھ سے کانا تھا گویا کہ اس کی آنکھ پر خشک انگور ہو۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو مجھے بتایا گیاکہ یہ دجال ہے۔ دجال لوگوں میں ابن قطن سے سب سے زیادہ مشابہہ تھا۔ یہ ابن قطن قبیلہ خزاع کے بنی مصطلق کا ایک فرد تھا۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب الطواف بالکعبۃ فی منام)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا جس رات میری معراج ہوئی تھی میں نے موسیٰ ؑ سے ملاقات کی تھی۔ وہ دراز قامت اور سیدھے بالوں والے تھے۔ جیسے قبیلہ شنوئہ کے افراد ہوتے ہیں۔ میں نے عیسیٰ ؑ سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہ درمیانہ قد اور سرخ و سفید تھے جیسے ابھی ابھی غسل خانہ سے باہر آئے ہوں۔ اور میں نے ابراہیم ؑ سے بھی ملاقات کی تھی اور میں ان کی اولاد میں ان سے سب سے زیادہ مشابہ ہو ں۔ پھر فرمایا میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ جو آپ کا جی چاہے آپ لے لیجئے۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور پی لیا۔ اس پر مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کی طرف راہ پا لی یا آپ نے فطرت کو پا لیا۔ اس کی بجائے اگر آپ شراب کا برتن لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم)
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ بیان فرماتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ میں نے عیسیٰ ؑ، موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ کو دیکھا۔ عیسیٰ ؑ نہایت سرخ گھنگریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے۔ اور موسیٰ ؑ گندم گوں، دراز قامت اور سیدھے بالو ں والے تھے جیسے قبیلہ زط کا کوئی فرد ہو۔
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء بابواذکر فی الکتاب مریم)
رؤیا نمبر 8 :۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں تازہ کھجوریں دیکھنا
حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا جیسے کہ ایک سونے والا دیکھتا ہے۔ گویا کہ ہم عقبہ بن رافع ؓ کے گھر میں ہیں اور ہمارے پاس ابن طاب کی تر کھجوریں لائی گئی ہیں۔ میں نے اس کی تاویل کی ہے کہ دنیا میں ہمارے لئے سربلندی اور عظمت ہو گی اور آخرت میں نیک عاقبت یعنی نیک انجام ہوگا اور ہمارا دین بہت اچھا ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرؤیا حدیث نمبر 4410۔ صحیح مسلم، باب رؤیا النبی ؐ۔ صحیح مسلم کتاب الرویا، حدیث نمبر 5647)
نبی کریم ؐ کے اس رؤیا کا ذکر کرتے ہو ئے حضرت مسیح موعود ؑ اپنی عربی تصنیف ’حَمَامَۃُ الْبُشْرٰی‘ میں فرماتے ہیں (ترجمہ از عربی عبارت) اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مرسلوں کو کبھی کبھی مجاز، استعارہ اور تمثیل کے رنگ میں وحی کرتا ہے۔ اور رسول کریم ؐ کی وحی میں اس کی بہت سی نظائر موجود ہیں۔ منجملہ ان کے ایک مثال حضرت انسؓ کی حدیث میں آئی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں نے ایک رات ایک ایسا ہی خواب دیکھا جیسا ایک سونے والا دیکھتا ہے کہ گویا ہم عقبہ بن رافع ؓ کی حویلی میں ہیں اور ابن طاب کی کھجوروں میں سے کچھ کھجوریں ہمارے پاس لائی گئی ہیں۔ میں نے اس کی تعبیر کی کہ ہمارے لئے دنیا میں رفعت اور آخرت میں عافیت ہے اور ہمارا دین مقبول ہو رہا ہے۔ سو دیکھو کہ کس طرح رسول اللہ ؐ نے روحانی کیفیات جسمانی صورتوں میں دیکھیں اور یہ بات آپ پر مخفی نہیں کہ انبیاء کی خوابیں وحی ہو تی ہیں اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء کی وحی بعض اوقات مجاز اور استعارہ کی قسم سے ہو تی ہے اور رسول کریم ؐ نے اس قسم کی وحی کی تاویل کی ہے۔
(حَمَامَۃُ الْبُشْرٰی صفحہ13 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد4 صفحہ118، زیر آیت وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ سورۃ الشوریٰ: 52)
رؤیا نمبر 9:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں سونے کے دو کنگن دیکھنا
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو سونے کے کنگن میرے ہاتھ میں رکھے گئے ہیں تو مجھے اس سے تکلیف اور ناگواری ہوئی۔پھر مجھے اجازت دی گئی اور خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے ہدایت کی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ میں نے پھونکا تو وہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیریہ لی کہ میرے بعد دو جھوٹے پیدا ہوں گے۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب۔
(صحیح بخاری، کتاب التعبیرباب اذا طار الشیئ فی المنام، کتاب الانبیاء باب علامات النبوۃ فی الاسلام، کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ، و باب قصۃ الاسود العنسی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ہم سب سے آخری اور سب سے پہلی امت ہیں۔ اور فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ زمین کے خزانے میرے پاس لا ئے گئے اور میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھ دےے گئے ہیں جو مجھے پر بہت شاق گزرے۔ پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ میں نے پھونکا تو وہ دونوں اُڑگئے۔ میں نے ان کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی کہ میں جن کے درمیان میں ہوں (یعنی) ایک صنعاء کا اور ایک یمامہ کا۔
(صحیح بخاری، کتاب التعبیرباب النفخ فی المنام،۔ صحیح مسلم، باب رؤیا النبی ؐ حدیث نمبر 5651-5650۔ جامع ترمذی، باب ما جاء فی رؤیا النبی ؐ)
رؤیا نمبر 10:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں اپنے دست مبارک میں دیکھنا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ مجھے جَوَامِعُ الْکَلِمِ (یعنی ایسے کلمات جو مختصر، لیکن معنیٰ کے لحاظ سے بھر پور) کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔ اور میں سویا ہوا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لائی گئیں اور میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ؐ تو دنیا سے رخصت ہو گئے اور اب تم انہیں حاصل کر رہے ہو۔
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر باب قول النبی ؐ نصرت بالرعب، کتاب التعبیرباب المفاتیح فی الید، کتاب الرقاق باب فی الحوض)
رؤیا نمبر11:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں سیاہ رنگ، بکھرے بال والی عورت کو دیکھنا
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں نے ایک سیاہ رنگ، بکھرے بال والی عورت دیکھی جو مدینہ سے نکل کر مَہْیَعَۃَ میں جاکر ٹھہر گئی ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ لی ہے کہ مدینہ کی وبا مَہْیَعَۃَ منتقل ہو گئی ہے۔ مَہْیَعَۃَ ’جُحْفَۃُ‘ کو کہتے ہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب اذا رأ انہ اخرج شیئ، باب المرأۃ السودائ، باب المرأۃ تائرۃ الرأس)
ہجرت مدینہ کے بعد بہت سے صحابہ ؓ کو مدینہ آکر یہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی اور صحابہ ؓ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت بلال ؓ اور حضرت عائشہ ؓ بھی بیمار ہو گئیں۔ اس موقعہ پر رسول اللہ ؐ نے مدینہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی اے اللہ! اس مدینہ شہر کو ہمارے لئے اتنا محبوب بنا دے جس طرح مکہ ہمیں محبوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! اس شہر کو ہمارے لئے صحت افزاء مقام بنادے، اس کے صاع اور مد میں ہمارے لئے برکت رکھ د ے اور اس کی وبا کو جُحْفَۃُ منتقل فرمادے۔
(صحیح بخاری، کتاب المرضیٰ باب عیادۃ النساء الرجال، باب من دعا برفع الوبائ، کتاب الدعوات باب الدعاء یرفع الوباء۔ الادب المفرد از امام بخاری، باب ما یقول للمریض، موضوع:240 حدیث: 525 صفحہ: 182-181دارالصدیق الجبیل سعودی عرب، 1421ہجری، 2000ء)
نوٹ: جُحْفَۃُ مکہ سے شمال کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر ایک مقام کا نام ہے۔ نبی کریم ؐنے مدینہ کے بارہ میں جو دعا فرمائی وہ بھی قبول ہوئی اور جو رؤیا دیکھا وہ بھی پورا ہوا اور مدینہ عظیم الشان شہر ہو گیا۔ (از مرتب)
رؤیا نمبر 12:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں جنت میں حضرت عمرؓ کا محل دیکھنا
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت جابربن عبداللہ ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک سونے کا محل ہے اور اس کی ایک جانب ایک عورت وضو کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ بتایا کہ عمر بن خطاب ؓ کا۔ پھر میں نے ان کی غیرت یاد کی اور میں وہاں سے واپس آگیا۔ حضرت عمر ؓ اس پر رو پڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! کیا میں آپؐ کے ساتھ غیرت کروں گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب القصر فی المنام، باب الوضوء فی المنام،کتاب الانبیاء باب مناقب عمر ؓ)
رؤیا نمبر 13:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں لوگوں کو قمیض پہنے دیکھنا اور حضرت عمر ؓ کی قمیض لمبی دیکھنا
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں اور قمیض پہنے ہو ئے ہیں، کسی کی قمیض تو سینے تک ہے اور کسی کی لمبی ہے۔ اور میرے سامنے عمر بن خطابؓ گزرے۔ ان کی قمیض اتنی لمبی تھی کہ وہ اپنی قمیض کو گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپؐ نے فرمایا دین۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان باب تفاضل اہل الایمان، کتاب الرؤیا باب القمیص فی المنام، باب جر القمیص فی المنام۔ کتاب الانبیاء باب مناقب عمر)
رؤیا نمبر 14:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں میں دودھ پینا اور باقی دودھ حضرت عمر ؓ کو دے دینا
حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ بیان فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ میں سویا ہوا تھا کہ مجھے دودھ کا پیالہ دیا گیا۔ میں نے وہ دودھ اچھی طرح پی لیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمرؓ کو دے دیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! آپؐ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ فرمایا علم۔
(صحیح بخاری، کتاب العلم باب فضل العلم،کتاب الرؤیا باب اللبن، باب اذا جریٰ اللبن۔ کتاب الانبیاء باب مناقب عمر ؓ)
رؤیا نمبر 15:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں حضرت عائشہؓ کو شادی سے پہلے دیکھنا
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ تم مجھے (شادی سے پہلے) دو مرتبہ خواب میں دکھائی گئی تھیں۔ ایک فرشتہ تمہیں ریشم کے کپڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ یہ تمہاری بیوی ہے۔ اس کے چہرے سے پردہ ہٹاؤ۔ میں نے دیکھا تو وہ تم تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ خود اسے انجام تک پہنچائے گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الرؤیا باب کشف المرأۃ فی المنام، باب ثیاب الحریر، کتاب النکاح باب النظر الی المرأۃ قبل التزویج، کتاب الانبیاء باب تزویج النبی ؐعائشہ ؓ)
رؤیا نمبر16:۔ نبی کریم ؐ کا خواب میں جنت میں حضرت بلال ؓ کے جوتوں کی آواز سننا
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے نماز فجر کے وقت حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ بلال مجھے ذرا یہ بتاؤ کہ تم نے حالت اسلام میں کون سا (ایسا) عمل کیا ہے جس کی تمہیں ثواب کی بہت زیادہ امید ہے، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے۔ حضرت بلال ؓ نے عرض کیا کہ میں نے ایسا زیادہ (تو) کوئی عمل نہیں کیا سوائے اس کے کہ رات دن میں جب بھی میں پاکیزگی حاصل کرتا ہوں (یعنی وضو کرتا ہوں) تو اس پاکی سے جس قدر میرے مقدر میں ہے میں نماز پڑھتا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ باب فضل الطہور با للیل والنہار، کتاب الانبیاء باب مناقب عمر، مناقب بلال بن رباح۔ صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ۔ مشکوٰۃ المصابیح،باب التطوع حدیث: 1246)
(باقی آئندہ ان شاءاللہ)
(قمر داؤو کھوکھر۔آسٹریلیا)