• 20 جولائی, 2025

ہیلووین Halloween کا تہوار اور جماعت احمدیہ کی تعلیم

اس وقت دنىا مختصر ہو کر گلوبل فىملى کى سى شکل اختىار کر چکى ہے۔ دنىا کے کسى بھى کونے مىں کوئى سرگرمى واقع پذىر ہو رہى ہو تو چند ہى لمحات مىں وہ سرگرمى اىک خبر بن کر اگلے کونے تک پہنچ چکى ہوتى ہے۔ سوشل مىڈىا اور انٹرنىٹ کى بدولت اب ہر مذہب، ہر ملک کى تہذىب ان کے تہوار کى سب اچھائىاں،برائىاں دوسرے ممالک تک بآسانى پہنچ جاتى ہىں۔ اور اىک دوسرے کى دىکھا دىکھى ہر کوئى ان چىزوں کو اپنانے کى کوشش کرتا ہے جو بھى چىز مقبول ہو۔ ٹرىنڈنگ Trending مىں ہو۔ ىہ سوچے سمجھے بغىر کہ ان کا کىا مقاصد ہىں اور ان سے کىا فائدے ىا کس قدر بھىانک نقصانات پہنچ سکتے ہىں۔ اىسے ہى عوام مىں مقبولىت پانے والا تہوار ہىلووىن Halloween ہے۔

جس کى مقبولىت مغربى ممالک سے نکل کر اب مشرق تک اور دوسرے مذاہب سے لے کر مسلمانوں اور احمدى مسلمانوں تک بھى پہنچ چکى ہے۔ اس کى تارىخ جو ڈھونڈنے پر خاکسار کو ملى وہ کچھ اس طرح ہے کہ
ىہ اىک تہوار ہے جس کا تعلق دو ہزار سال پہلے کے کىلٹک لوگوں کى مذہبى و ثقافتى رواىات سے نکلتا ہے۔ ىہ لوگ دو ہزار سال پہلے انگلىنڈ اور ىورپ مىں پھىلے ہوئے تھے۔ 31 اکتوبر کو وہ فصلوں کى کٹائى کے موسم کا اختتام اىک تہوار کى صورت مىں مناىا کرتے تھے۔ اس تہوار کا نام سامحىن تھا۔ اس رات کو کىلٹک لوگوں کا نىا سال بھى شروع ہوتا تھا۔ ان کے نزدىک پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کا ىہ درمىانى وقت بہت نازک ہوتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس وقت مرے ہوئے لوگوں کى روحىں زمىن پہ واپس آتى ہىں۔ اس رات وہ لوگ گروہوں کى شکل مىں آگ کے الائو جلاتے تھے تاکہ مردہ لوگوں کى ان روحوں کو عالم ارواح مىں واپس بھىجا جا سکے تا کہ وہ انہىں زمىن پہ آکر کوئى نقصان نہ پہنچائىں۔ لىکن جب عىسائى چرچوں کا اثرو رسوخ ان علاقوں مىں بڑھا تو ساتوىں صدى مىں انہوں نے اس تہوار کو کچھ تبدىلىوں کى ساتھ اس سے اگلے دن ىعنى ىکم نومبر کو اپنے ’’اولىاء کا دن‘‘ ’’آل سىنٹس ڈے‘‘ کا نام دے دىا۔ اس طرح ان پرانے کىلٹک لوگوں کى مذہبى و ثقافتى رواىات کو عىسائىت کے ساتھ جوڑ دىا گىا۔ اس طرح ىہ ان کے مذہبى شہداء اور اچھے مذہبى لوگوں کو ىاد کرنے کا دن بن گىا۔

اس وقت ىہ ’’آل سىنٹس ڈے‘‘ کو ’’ھالوماس‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مىں ہالو سے مراد مقدس ہے اور ماس کو سادہ زبان مىں چرچ والى سروسز (عبادات) کہا جا سکتا ہے۔

اس طرح اس دن سے پہلے والى شام کو آل ھالووز اىو کہا جانے لگا۔ اىو سے مراد مختصر طور پہ اىووننگ لکھنا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ىہ آل ھالووز اىو تبدىل ہو کر ہىلووىن بن گىا ۔۔ کلىسا کى کوششوں کے باوجود ہىلووىن کى اہمىت کم نہ ہو سکى اور لوگ ىہ تہوار اپنے اپنے انداز مىں مناتے رہے۔امرىکہ مىں اس دن کا آغاز تب ہوا جب آئرلىنڈ کے باسى 1840 مىں امرىکہ مىں آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اس فىسٹول پہ پہننے والے خاص کپڑے اور چہرے پہ پہننے والے ماسک لے کے آئے تھے۔ اس دن وہ ہمسائوں اور دوسرے لوگوں کو تنگ کرتے اور ماسک پہنتے کہ پہچانے نہ جا سکىں۔ پھر ىہ تنگ کرنا بڑھتے بڑھتے 1930 کے عشرے تک اىک عذاب بن گىا۔ تب لڑکے ماسک پہنتے، لوگوں سے کھانے کى چىزىں مانگتے اور انکار کرنے پہ انہىں حد سے زىادہ تنگ کرتے کہ ان کا سکون غارت ہو جاتا۔ ىہ سب بہت تکلىف دہ تھا۔ لىکن پھر آہستہ آہستہ ىہ اىک غىر تکلىف دہ اور چھٹىوں مىں منانے والا تہوار بن گىا۔

مختصر طور پر ہم ىہ کہہ سکتے ہىں کہ اس تہوار کى بنىاد اس قدىم کىلٹک مذہبى رواىت پہ ہے کہ اس رات دنىا کى طرف واپس آنے والى بد روحوں کو ڈرا کر واپس بھىجا جائے۔

ہىلووىن (Halloween) امرىکا مىں مناىا جانے والا اىک اىسا تہوار ہے جس مىں گلى کوچوں، بازاروں، سىرگاہوں اور دىگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں مىں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑىلىں چلتى پھرتى دکھائى دىتى ہىں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے پىٹھے کدو نظر آتے ہىں جن پر خوفناک شکلىں تراشى گئى ہوتى ہىں اور ان کے اندر موم بتىاں جل رہى ہوتى ہىں۔ کئى گھروں کے باہر ڈراؤنے ڈھانچے اور اسى طرح کى دىگر خوفناک چىزىں سجائى جاتى ہىں۔

کاروبارى مراکز مىں بھى ىہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہى نظر آنے لگتے ہىں۔ 31 اکتوبر کى شام کو تو مخصوص ملبوسات مىں ملبوس بچے اور انکے ساتھ کچھ والدىن بھى گھر گھر جاکر دستک دىتے ہىں اور trick or treat کى صدائىں بلند کرتى ہىں۔ جس کا مطلب ىہ ہوتا ہے کہ ىا تو ہمىں کوئى چاکلىٹ کىنڈى دو، ورنہ ہمارى طرف سے کسى چالاکى کے لىے تىار ہو جاؤ اور تارىخ کے مطالعے سے ىہى پتا چلتا ہے کہ پہلے پہل کچھ شرارتى لوگ حقىقتا جس گھر سے انہىں کچھ نہىں ملتا تھا انکو عملى طور پر سزائىں بھى دىا کرتے ہىں اور انکے گھر کو ىا ان کو نقصان پہنچا کر جاىا کرتے تھے۔

ہىلووىن کى ابتداء

امرىکا مىں ہىلووىن کى ابتدا 1921ء مىں شمالى رىاست منىسوٹا سے ہوئى اور اس سال پہلى بار شہر کى سطح پر ىہ تہوار مناىا گىا۔ پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا ىہ تہوار امرىکا کے دوسرے قصبوں اور شہروں تک پھىل گىا اور پھر اس نے قومى سطح کے بڑے تہوار اور اىک بہت بڑى کاروبارى سرگرمى کى شکل اختىار کرلى۔

تارىخ دانوں کا کہنا ہے ہىلووىن کا سراغ قبل از مسىح دور مىں برطانىہ کے علاقے آئرلىنڈ اور شمالى فرانس مىں ملتا ہے جہاں سىلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو ىہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے

امرىکا درىافت ہونے کے بعد بڑى تعداد مىں ىورپى باشندے ىہاں آکر آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اپنى ثقافت اور رسم و رواج اور تہوار بھى لے کر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع مىں ہىلووىن مىرى لىنڈ اور جنوبى آبادىوں مىں ىورپى تارکىن وطن مقامى طور پر چھوٹے پىمانے پر مناىا کرتے تھے۔ انىسوىں صدى مىں بڑے پىمانے پر ىورپ سے لوگ امرىکا آکر آباد ہوئے جن مىں اىک بڑى تعداد آئرش باشندوں کى بھى تھى۔ ان کى آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملى اور اس مىں کئى نئى چىزىں بھى شامل ہوئىں جن مىں، ٹرک آر ٹرىٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔

انىسوىں صدى کے آخر تک امرىکا مىں ہىلووىن پارٹىاں عام ہونے لگىں جن مىں بچے اور بڑے شرىک ہوتے تھے۔ ان پارٹىوں مىں کھىل کود اور کھانے پىنے کے ساتھ ساتھ ڈراؤنے کاسٹىوم پہنے جاتے تھے۔ اس دور کے اخباروں مىں اس طرح کے اشتہار شائع ہوتے تھے جن مىں اىسے بہروپ دھارنے والوں کى حوصلہ افزائى کى جاتى تھى جنہىں دىکھ کر لوگ دہل جائىں۔

1950ء کے لگ بھگ ہىلووىن کى حىثىت مذہى تہوار کى بجائے اىک ثقافتى تہوار کى بن گئى جس مىں دنىا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکىنِ وطن بھى اپنے اپنے انداز مىں حصہ لىنے لگے۔ رفتہ رفتہ کاروبارى شعبے نے بھى ہىلووىن سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لىے نت نئے ملبوسات اور دوسرى چىزىں مارکىٹ مىں لانا اور ان کى سائنسى بنىادوں پر مارکىٹنگ شروع کردى۔ ىہاں تک کہ اب ہىلووىن اربوں ڈالر کے کاروبار کا اىک بہت بڑا ثقافتى تہوار بن چکا ہے۔ اور اب خود اس تہوار کو منانے والے اسکى تردىد کرتے دکھائى دىتے ہىں کىونکہ ىہ سراسر اسراف ہے۔ نىز اسکے نتىجے مىں جرائم کى شرح بھى بہت بڑھ جاتى ہے اس دن مختلف بہروپ دھار کر چہروں کو چھپا کر جرائم پىشہ افراد اپنے مذموم ارادے پورے کرتے دکھائى دىتے ہىں۔ اسى لىے آپ مىں سے اکثر افراد نے خاص کر جو مغربى ممالک مىں رہائش پذىر ہىں اس بات کا ذاتى مشاہدہ کىا ہوگا کہ اس دن پولىس کى گاڑىاں معمول سے زىادہ متحرک نظر آتى ہىں۔ اس کے علاوہ بچوں کے اسکولز سے بھى ہر سال کسى نہ کسى اىسے واقعے کى اطلاع ملتى ہے کہ فلاں علاقے مىں جو کىنڈىز ىا چاکلىٹس تقسىم کى گئى ان مىں کوئى خطرناک ڈرگ مىں شامل کى گئى جس سے بچوں کى صحت متاثر ہوئى۔ اور اب تو کورونا کى موجودہ صورتحال مىں ىہ امر کافى نقصان دہ بھى ثابت ہو سکتا ہے۔

مذہبى نکتہ نظر سے اس تہوار کے نقصانات

اسلام مىں کسى اىسے تہوار منانے ىا اس کا حصہ بننے سے روکا گىا ہے جس کى بنىاد کسى غىر اسلامى جاہلانہ مذہبى رواىت پہ ہو۔ اىسا کرنا ان لوگوں کے پىچھے چلنے کے مترادف ہوگا جس سے ہمارے پىارے آقا نے نہ صرف روکا بلکہ اپنى امت کو ان کو پىروى کرنے کے نتىجے مىں ہونے والے خطرات سے بھى آگاہ کىا۔

اىسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسى خاص تہذىب، مذہب ىا نظرىے سے تعلق رکھتے ہوں اور ان سے منسوب ہوں ان کو اپنانا مسلمانوں کے لىے جائز نہىں۔ کىونکہ آںحضرت صلىٰ اللہ علىہ وآلہ وسلم نے فرماىا ہے:

من تشبه بقوم فهو منهم

’’جس نے کسى قوم کے ساتھ مشابہت اختىار کى وہ انہى مىں سے ہے۔‘‘

(ابوداؤد)

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ بنصرہ العزىز اس ضمن مىں جماعت کو نصىحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں۔
بہر حال اس برائى کا جو آج کل مغرب مىں ان دنوں مىں بڑى دھوم دھام سے منائى جاتى ہے اور آئندہ چند دنوں مىں منائى جانے والى ہے، اُس کا مَىں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ىہ halloween کى اىک رسم ہے۔ جىسا کہ مَىں نے کہا تھا کہ احمدى بھى بغىر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس مىں شامل ہونے کى اجازت دے دىتے ہىں، حالانکہ اگر اس کو گہرائى مىں جا کر دىکھىں تو ىہ عىسائىت مىں آئى ہوئى اىک اىسى بدعت ہے جو شرک کے قرىب کر دىتى ہے۔ چڑىلىں اور جِنّ اور شىطانى عمل، ان کو تو بائبل نے بھى روکا ہوا ہے۔ لىکن عىسائىت مىں ىہ راہ پا گئى ہىں کىونکہ عمل نہىں رہا۔ عموماً اس کو fun سمجھا جاتا ہے کہ بس جى بچوں کا شوق ہے پورا کر لىا۔ تو ہمىشہ ىاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہى سمجھا جائے جس کى بنىاد شرک ىا کسى بھى قسم کے نقصان کى صورت مىں ہو اس سے احمدىوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پىدا ہوئى جب ہمارى رىسرچ ٹىم کى اىک انچارج نے بتاىا کہ ان کى بىٹى نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اور توکچھ نہىں کرے گى لىکن اتنى اجازت دے دىں کہ وہ لباس وغىرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹى بچى ہے۔

انہوں نے اسے منع کر دىا۔ اور پھرجب رىسرچ کى اور اس کے بارہ مىں مزىد تحقىق کى تو بعض عجىب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو مَىں نے انہىں کہا کہ مجھے بھى کچھ (حوالے) دے دىں۔ چنانچہ جو مَىں نے دىکھے ان کا خلاصہ مَىں بىان کرتا ہوں۔ کىونکہ اکثر بچے بچىاں مجھے سوال کرتے رہتے ہىں۔ خطوط مىں پوچھتے رہتے ہىں کہ halloween مىں شامل ہونے کا کىا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمىں شامل نہىں ہونے دىتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدى خاندانوں کے بچے اپنے والدىن کى اجازت سے اس مىں شامل ہو رہے ہوتے ہىں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ مىرے علم مىں تھا اس کے مطابق مَىں جواب تو ىہى دىتا رہتا تھا کہ ىہ اىک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور مَىں انہىں روک دىتا تھا۔ لىکن اب جو اس کى تارىخ سامنے آئى ہے تو ضرورى ہے کہ احمدى بچے اس سے بچىں۔ عىسائىت مىں ىا کہہ لىں مغرب مىں، ىہ رسم ىا ىہ بدعت اىک آئرش اِزم کى وجہ سے آئى ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان مىں پرانى بد مذہبى کے زمانے کى رائج ہے۔ اس کى بنىاد شىطانى اور چڑىلوں کے نظرىات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو ىہ سارا نظرىہ جو ہے ىہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھى کہىں کہ ىہ Fun ہے لىکن بنىاد اس کى غلط ہے۔ اور صرف ىہى نہىں بلکہ اس مىں شرک بھى شامل ہے۔ کىونکہ اس کا بنىادى نظرىہ ىہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمىان جو حدود ہىں وہ 31؍اکتوبر کو ختم ہو جاتى ہىں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہىں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دىتے ہىں۔ بىمارىوں مىں مبتلا کر دىتے ہىں اور اسى طرح کى اوٹ پٹانگ باتىں مشہور ہىں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہىں ان جادوگروں کو بلاىا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کى ان سے لے کر اىک خاص طرىقے سے قربانى کرتے ہىں۔ bonfireبھى اسى نظرىہ مىں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے ىا بعض قربانىاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر ىہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costumeاور خاص قسم کے لباس وغىرہ بنائے گئے ہىں، ماسک وغىرہ پہنے جاتے ہىں۔ بہر حال بعد مىں جىسا کہ مَىں نے کہا، جب عىسائىت پھىلى تو انہوں نے بھى اس رسم کو اپنا لىا۔ اور ىہ بھى ان کے تہوار کے طور پر اس مىں شامل کر لى گئى۔ کىتھولکس خاص طور پر (ىہ رسم) زىادہ کرتے ہىں۔ اب ىہ رسم عىسائىت کى وجہ سے اور پھر مىڈىا کى وجہ سے، آپس کے تعلقات کى وجہ سے تقرىباً تمام دنىا مىں خاص طورپرمغرب مىں، امرىکہ مىں، کىنىڈامىں، ىہاں UK مىں، جاپان مىں، نىوزى لىنڈ مىں، آسٹرىلىاوغىرہ مىں، ىورپ کے بعض ملکوں مىں پھىل چکى ہے۔ اور جىسا کہ مَىں نے کہا ىہ چھُپى ہوئى برائى ہے۔ جسے مغرب مىں رہنے والے مسلمان بھى اختىار کر رہے ہىں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہىں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کىا جاتا ہے تا کہ روحوں کو سکون پہنچاىا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دىں تو مطلب ىہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئى نقصان نہىں پہنچائىں گے۔ ىہ اىک شرک ہے۔ بے شک آپ ىہى کہىں کہ funہے، اىک تفرىح ہے لىکن جو پىچھے نظرىات ہىں وہ مشرکانہ ہىں۔ اور پھر ىہ کہ وىسے بھى ىہ اىک احمدى بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجىب و غرىب قسم کا حلىہ بناىا جائے۔ اور پھر گھروں مىں فقىروں کى طرح مانگتے پھرىں۔ چاہے وہ ىہى کہىں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے ىا چاکلىٹ لىنے جا رہے تھے لىکن ىہ مانگنا بھى غلط ہے۔ احمدى کا اىک وقار ہونا چاہئے اور اس وقار کو ہمىں بچپن سے ہى ذہنوں مىں قائم کرنا چاہئے۔ اور پھر ىہ چىزىں جو ہىں مذہب سے بھى دور لے جاتى ہىں۔ بہر حال جب ىہ مناىا جاتا ہے تو پىغام اس مىں ىہ ہے کہ چڑىلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شىطان کى پوجا، مافوق الفطرت چىزوں پر عارضى طور پر جو ىقىن ہے وہ funکے لئے کر لىنے مىں کوئى حرج نہىں ہے۔ انتہائى غلط نظرىہ ہے۔ پس ىہ سب شىطانى چىزىں ہىں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہىز کرنا چاہئے بلکہ سختى سے بچنا چاہئے۔ ماضى قرىب تک دىہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جاىا کرتے تھے اس خىال سے بھى کچھ دے دىتے تھے کہ مُردہ روحىں ہمىں نقصان نہ پہنچائىں۔ بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھى بچوں کى طرف سے پوچھتے رہتے ہىں۔ اس لئے مَىں بتا رہا ہوں کہ ىہ اىک بد رسم ہے اور اىسى رسم ہے جو شرک کى طرف لے جانے والى ہے۔ پھر اس کى وجہ سے بچوں مىں fun کے نام پر، تفرىح کے نام پر غلط حرکتىں کرنے کى جرأت پىدا ہوتى ہے۔ ماں باپ ہمساىوں سے بداخلاقى سے پىش آتے ہىں۔ ماں باپ سے بھى اور ہمساىوں سے بھى اور اپنے ماحول سے بھى، اپنے بڑوں سے بھى بداخلاقى سے پىش آنے کا رجحان بھى اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ىہ بھى اىک سروے ہے۔ حتى کہ دوسرے جرائم بھى اس لئے بڑھ رہے ہىں۔ اس قسم کى حرکتوں سے ان مىں جرأت پىدا ہوتى جا رہى ہے۔ مغرب مىں ہر برائى کو بچوں کے حقوق اور funکے نام پر تحفظات مل جاتے ہىں، اجازت مل جاتى ہے اور مل رہى ہے لىکن اب خود ہى ىہ لوگ اس کے خلاف آوازىں بھى اٹھانے لگ گئے ہىں۔ کىونکہ اس سے اخلاق برباد ہو رہے ہىں۔ پھر halloween کے خلاف کہنے والے ىہ بھى کہتے ہىں کہ اس سے بچوں مىں تفرىح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کى برائى جىسا کہ مَىں نے بتاىا کہ بڑھ رہى ہے اور جرائم بھى اس وجہ سے بڑھ رہے ہىں۔ اىک تو فلموں نے غلط تربىت کى ہے۔ پھر اگر عملى طور پر اىسى حرکتىں کرنے لگ جائىں اور ان کو تفرىح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دىں تو پورے معاشرے مىں پھربگاڑ ہى پىدا ہو گا اور کىا ہو سکتا ہے؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑى بات جىسا کہ مَىں نے کہا مُردوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسى بھى غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شىطانى طرىق اختىار کىا گىا ہے۔ گوىا کہ اللہ تعالىٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے اىک شرک قائم کىا جا رہا ہے ىا بچوں کوتحفے تحائف دے کے ان کى روحوں کو خوش کىا جا رہا ہے۔ ىا جادوگروں کے ذرىعہ سے جادوکر کے ڈراىا جا رہا ہے۔ بہر حال ىہ نہاىت لغو اور بىہودہ تصور ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29؍اکتوبر 2010ء)

غرض کہ اس تہوارکو منانے کا صرف اورصرف نقصان ہے فائدہ کچھ بھى ہے حضور انور اىدہ اللہ تعالى مزىد اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہىں
’’اىک مصنف ہىں ڈاکٹر گرىس کىٹر مىن، اىم ڈى، وہ اپنى کتاب You and your child’s problems مىں لکھتے ہىں کہ:

A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena

ىعنى بچوں کى زندگى مىں جوانى مىں قدم رکھنے سے پہلے، اس عمر سے پہلے ىا اس دوران مىں خوف کى انتہائى ماىوس کن حالت جو لا شعورى طورپر پىدا ہو رہى ہے وہ مافوق الفطرت چىزوں مىں دلچسپى اور ملوث ہونے کى وجہ سے ہے۔

اب halloween کى وجہ سے جو بعض باتىں پىدا ہو رہى ہىں ان مىں ىہ باتىں صرف ىہاں تک نہىں رکتىں کہ costumeپہنے اور گھروں مىں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبردستى گھرو الوں کو خوفزدہ کرنے کى کوشش بھى کرتے ہىں۔ اور دوسرى باتوں مىں، جرموں مىں بھى ملوث ہو جاتے ہىں۔ اور نَتِىْجَۃً پھر جہاں وہ معاشرے کو، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہىں اور نقصان پہنچا رہے ہوتے ہىں وہاں ماں باپ کے لئے بھى دردِ سر بن جاتے ہىں اور اپنى زندگى بھى برباد کر لىتے ہىں۔ اس لئے مَىں پھر احمدىوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زىادہ بچنے کى ضرورت ہے۔ احمدى بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خدا تعالىٰ سے تعلق بڑھائىں۔ جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانىں۔ وہ باتىں کرىں جن کے کرنے کا خدا تعالىٰ نے حکم دىا ہے۔ مغربى معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طارى کرىں کہ بُرے بھلے کى تمىز ختم ہو جائے۔ خدا تعالىٰ سے تعلق اور اس کى ذات کى بڑائى کو بھى بھول جائىں۔ اور مخفى شر ک مىں مبتلا ہو جائىں اور اس کى وجہ سے پھر ظاہرى شرک بھى ہونے لگ جاتے ہىں

بعض برائىاں غىر محسوس طرىق پر انسان کو اپنے دامن مىں گرفتار کرلىتى ہىں۔ ان مىں سے اىک شرک بھى ہے۔ بعض ظاہرى شرک نہ سہى شرک خفى مىں مبتلا ہىں۔ اىک احمدى مسلمان کا فر ض ہے کہ اپنى حالتوں مىں اور اپنے عملوں مىں تبدىلى پىدا کرىں۔ اپنى عبادتوں کو اىسا بنائىں کہ خداتعالىٰ کى توحىد ہمارى عبادتوں مىں بھى نظر آنے لگے۔

(فرمودہ مؤرخہ 29؍اکتوبر 2010ء)

اتنے واضح احکامات کے بعد کسى احمدى کے پاس ىہ گنجائش نہىں رہتى کہ وہ کسى بھى طرح اس لغو تہوار کا حصہ بنے۔ کىونکہ اللہ تعالى نے سورہ المومنون مىں مومنىن کى جو صفات بتائى ہے وہ ہے کہ

وَ الَّذِىۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۴﴾

(المؤمنون: 4)

ترجمہ: (جو لغو سے اعراض کرنے والے ہوں)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے اس کى تشرىح کرتے ہوئے فرماتے ہىں۔
’’ىعنى مومن وہ ہىں جو لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہو جاتے ہىں۔‘‘

(ضمىمہ براہىن احمدىہ حصہ پنجم، روحانى خزائن جلد21 صفحہ197)

اسلامى لحاظ سے ىہ تہوار کس طرح غلط ہے اس کااگر جائزہ لىں تو سب سے زىادہ قبىح چىز ہالوىن مىں شرک کے عنصر کا پاىا جانا ہے۔ ہم بحىثت مسلمان اس بات پرىقىن رکھتے ہىں کہ جزا سزا کا اىک دن مقرر ہے اور موت و حىات سب اللہ تعالى کے قبضہ قدرت مىں ہے۔ اور کسى بھى امر کو خدا تعالى کى مرضى کے بغىر کسى طور بدلہ نہىں جا سکتا۔ تو ىہ تہوارجس کى بناء شرک پر ہے اور شرک ہر گناہ سے عظىم تر گناہ ہے۔ حضرت مسىح موعود نے شرائط بىعت کى شرط نمبر اول مىں احمدى سے ىہ پختہ وعدہ لىا ہے کہ
بىعت کنندہ شرک سے مجتنب رہے گا۔ تو شرک سے اجتناب کرنے کے لىے بھى ہمىں اب اسے سب تہواروں سے دور رہنا چاہئے۔

اسراف

ہىلووىن کا تہوار بے جا اسراف اور فضول خرچى پر مبنى اىک تہوار ہے۔ مہنگے مہنگے خوفناک ڈھانچے، کھلونے شروع اکتوبر سے ہى گھروں کے آگے سجا دئىے جاتے ہىں پھر چاکلىٹس کىنڈىز کے ڈبے کے ڈبے لائے جاتے ہىں جو بچوں مىں تقسىم کىے جاتے ہىں جن مىں سےکچھ بچے کھاتے اود اکثر ضائع کرتے ہىں۔

پھر اس کى پارٹىز کے لىے مہنگے مہنگے ملبوسات خرىدے جاتے ہىں۔ ہر کوئى چاھتا ہے کہ وہ سب سے خوفناک لباس پہن کر دوسروں کو دہشت زدہ کرنے مىں کامىاب ہو جائے۔ اسکول، کالج ىونىورسٹىز ىہاں تک کے آفس اور دىگر کام کرنے کى جگہوں پر بھى ہىلووىن پارٹىز منعقد ہوتى ہىں جس مىں مختلف بہروپ دھارے جاتے ہىں اور بے جا روپىہ ضائع کىا جاتا ہے۔ قرآن پاک مىں اللہ تعالى نے اسراف کرنے والوں کے بارے مىں فرماىا ہے کہ

وَلَا تُطِيْعُـوٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْن۔ 
اَلَّـذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ

(الشعراء: 152-153)

ترجمہ: اور مت اطاعت کرو ان کى جو حد سے بڑھ جانے والے ہىں۔

وہ (لوگ) جو زمىن مىں فساد کرتے ہىں اور اصلاح نہىں کرتے۔

پھر اسراف اور سوال کرنے دونوں کے بارے مىں حدىث النبوىﷺ ہے
کہ آنحضرت ﷺ نے فرماىا اللہ کو تىن باتىں ناپسند ہىں اىک بے فائدہ بک بک، دوسرے روپىہ تباہ کرنا، تىسرے بہت مانگنا۔

(بخارى، جلد اول کتاب الزکوۃ حدىث نمبر: 1391)

سوال کرنا

گھر گھر جا کر کىنڈىز اور چاکلىٹس مانگنا بھى اسلامى تعلىمات کے لحاظ سے بىت نامناسب ہے۔ بچوں کو ہر گز اىسى کوئى عادت نہىں ڈالنى چاھىے کہ وہ ہر کسى سے بلاجھجھک سوال کر سکىں۔سوال کرنے کو اسلام مىں پسندىدہ قرار نہىں دىا۔بلکہ آںحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا کہ
اوپر والا ہاتھ (دىنے والا) نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔

(صحىح مسلم حدىث561)

تو بچوں کى عزت نفس کى حفاظت کے لىے بھى گھر گھر جا جر سوال کرنا کسى طور مناسب نہىں ہے۔ لىکن اگر کوئى ہمارے گھر آکر چاکلىٹس ىا کىنڈىز کا تقاضا کرے تو اس بارے مىں حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالى سے اىک بچى نے سوال کىا کہ انکا ٹرىڈىشن ھالوىن ہے تو جب وہ Trick Or Treat کرنے آئىں تو آپ ان کو سوئٹىس دے سکتے ہىں؟

اس کا جواب دىتے ہوئے آپ نے فرماىا کہ
اگر وہ تمہىں چپڑىں مارتے ہىں تو دے دو بعض دفعہ اىسے بھى ہوتے ہىں کہ بڑے فىرس ہو جاتے ہىں مارتے ہىں گالىاں نکالتے ہىں اگر نہ دو تو۔تو اپنى جان چھڑانے کے لىے اىک چاکلىٹ کا ڈبہ ان کو دے دو۔ لىکن تم نے ىہ نہىں کرنا کہ ان کے ساتھ لوگوں کے دروازوں پر جا کر ناک کر کر کے مانگتى پھرو۔ تمہىں مانگنے کى اجازت نہىں ہے۔ تمہارے پاس کوئى مانگنے کے لىے آجاتا ہے تو فقىر سمجھ کراُسے دے دىا کرو۔ مانگنے والا سمجھ کے دے دوکہتے ہىں ناں کہ سوالى کو انکار نہىں کرنا چاھىے اس لىے دے دو

اس لىے بھى دے دو کہ اپنى جان بچانى ہے۔ حکمت اسى مىں ہوتى ہے کہ بلاوجہ کے جھگڑے نہ کىے جائىں۔ لىکن ىہ تمہىں اجازت نہىں ہے کہ تمہىں کھىنچ کے لے جائىں لڑکىاں تمہارى کلاس فىلوز ىا دوستىں کہ آو اب ہم بھى ناک کرىں اگلے گھر کا دروازہ اور مانگىں۔ ھىلووىن تو انکى بعد کى ٹرىڈىشن ہے جو عىسائىوں نے لے لى ہے اصل مىں ىہ پرانے ٹرىڈىسشن مذىب ىا جن کاکوئى مذہب نہىں تھا ان لوگوں کا ٹرىڈىشن تھا ىہ عىسائى تو جہاں جاتے ہىں وہى ٹرىڈىشن لے لىتے ہىں ہم نے تو نہىں لىنى۔

پھر اسى طرح اىک بار سوال و جواب کى محفل مىں حضرت خلىفۃ المسىح الرابع رحمہ اللہ سے کسى نے کرسمس اور اس طرح کى دىگر غىر اسلامى سرگرمىاں جو اسکول مىں ہوتىں ہىں ان مىں احمدى بچے بچىوں کے شرکت کرنے کے بارے مىں سوال کىا تو آپ نے جواب دىا کہ
کہ معمولى سى بات ہے ادنى سى کامن سىنس کى بات ہے ہر وہ چىز جو آپ کے مذہب اور اصولوں کے خلاف ہے اس مىں آپ نے شرکت نہىں کرنى بس۔

(24 اکتوبر 1996)

خلىفہِ وقت کى ہر دور کى برائىوں اور بدىوں پر بخوبى نظر ہوتى ہے اور آپ آنے والے خطرات سے جماعت کو آگاہ کرتے رہتے ہىں۔ اگرچہ افراد جماعت اىسى لغوىات سے دور رہتے ہىں لىکن پھر بھى اگر کسى اىک بھى فرد کے ذہن مىں ىہ خىال آئے کہ ىہ تو محض بچوں کا funn ہے۔ اس سے کونسا کچھ فرق پڑتا ہے لىکن ىہ چھوٹى چھوٹى رسومات اور چھوٹى چھوٹى بدىوں کى لگاتار دستک بسا اوقات اىمان کے دروزے مىں ڈرار پىدا کر دىتى ہے اسماعىل مىرٹھى کا مشہور شعر ہے کہ

’’جو پتھر پہ پانى پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر کى سل‘‘

تو بظاھر ىہ معمولى نظر آنے والے پانى کے قطرے اىمان کى پتھر جىسى مضبوط سل کو بھى گھسا دىا کرتے ہىں۔

پس ان سب خود ساختہ تہواروں سے خود بھى بچنے اور اپنى نسلوں کو ان کے بداثرات سے محفوظ رکھنے کى اشد ضرورت ہے۔ الحمد للہ کہ ہم وہ خوش نصىب ہىں جو خلافت کى نعمت سے نوازے گئے ہىں اور اس نعمت کے افضال ہمىشہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہىں انہى افضال و انعامات کا ذکر کرتے ہوئے اور افراد جماعت کو ان کى ذمہ دارىاں سمجھاتے ہوئے پىارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد اىدہ اللہ تعالى فرماتے ہىں کہ
’’پس اللہ تعالىٰ کے ىہ سب فضل تقاضا کرتے ہىں کہ توجہ دلانے پر ہر برائى سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبىک کہتے ہوئے آگے بڑھىں۔ نىکىوں پر خود بھى قدم مارىں اور اولاد کو بھى اس پر چلنے کى تلقىن کرىں اور اس کے لئے کوشش کرىں۔ خدا تعالىٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمىشہ سامنے رکھىں کہ ىٰۤاَىُّہَا الَّذِىۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِىۡکُمۡ نَارًا (التحرىم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھى اور اپنى اولاد کو بھى آگ سے بچاوٴ۔ آج کل تو دنىا کى چمک دمک اور لہو و لعب، مختلف قسم کى برائىاں جو مغربى معاشرے مىں برائىاں نہىں کہلاتىں لىکن اسلامى تعلىم مىں وہ برائىاں ہىں، اخلاق سے دور لے جانے والى ہىں، منہ پھاڑے کھڑى ہىں جو ہر اىک کو اپنى لپىٹ مىں لىنے کى کوشش کرتى ہىں۔

(خطبہ جمعہ 23؍ اپرىل 2010ء)

اللہ تعالى ہمىشہ شىطان کے حملوں سے ہمىں اور ہمارى نسلوں کو محفوظ رکھے۔ اور اىسى برائىوں جو ہمىں خدا تعالى سے دور لے جانے والى ہوں وہ ہمارے دلوں مىں ان کے لىے کراہت پىدا کر دےاور ہم نىکى کو سنوار کر ادا کرنے والے ہوں اور بدى کو بىزار ہو کر ترک کرنے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ اىسا ہى ہو۔ آمىن اللھم آمىن

(صدف علیم صدیقی۔ ریجاینا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

آئیوری کوسٹ ریجن بندوکو میں یوم تبلیغ اور تبلیغی بک سٹال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2021