سائنس میگزین۔ ایڈیٹر جناب قاسم محمود کی نظر کا مبہوت کُن واقعہ
تحریر: بشیرالدین احمد سامی (مرحوم)
ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو حضرت اباجى سردار مصباح الدىن صاحب کے ساتھ جو عقىدت تھى اس کى اىک جھلک اس مبہوت کُن واقعہ مىں نظر آتى ہے جس کا ذکر پاکستان کے رسالہ ’’سائنس مىگزىن‘‘ کے معروف اىڈىٹر جناب قاسم محمود صاحب نے پرل کا نٹى نىنٹل ہو ٹل مىں ڈاکٹر عبد السلام صاحب کى سائنس کے مىدان مىں خدمات اور کار ہائے نماىاں پر اپنے خطاب مىں کىا ۔ ىہ واقعہ فلم بند بھى ہوا اور مسلم احمدىہ ٹىلىوىثرن پر دکھاىا گىا۔
جناب قاسم صاحب تحرىر فرماتے ہىں :
’’ڈاکٹر صاحب کا لاہور سے فون آىا کہ آپ مىرى ہمشىرہ کے گھر پہنچ جائىں۔ پتہ آپ اُن سے خود پوچھ لىں۔ گلىوں مىں مکان تھا جس کے دروازے پر پردہ لٹک رہا تھا۔ کچھ مشتاق حضرات ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لئے موجود تھے۔ جس کمرے مىں ہم بىٹھے ہوئے تھے، بىٹھک کہنا چاہئے جو ہمارے متوسط طبقہ مىں ہوا کرتا ہے۔ دىواروں پر قرآن کرىم کے خو بصورت طغرے آ وىزاں تھے۔ لىجئے! ڈاکٹر صاحب کى سوارى آ گئى لىکن وہ بىٹھک مىں نہىں آئے جہاں ہم سب بىٹھے ہوئے تھے۔ اُنہىں چپکے سے ساتھ والے بغلى کمرے مىں لے جاىا گىا۔ دونوں کمروں کے درمىان کواڑ تھے اور بند تھے۔ پھر بھى اىک تھوڑى سى جھِرّى رہ گئى تھى۔ خوا مخواہ مىرى نظرىں اس طرف کو جمى ہوئى تھىں۔ اىک اُونچى سى کرسى پر اىک بُت رکھا ہوا تھا۔ سر پر پگڑى ’لمبى سفىد داڑھى۔ مىں نے سمجھا کہ ىہ بُت مرزا صاحب کا ہى ہو سکتا تھا۔ مَىں نے دىکھا کہ ڈاکٹر صاحب جھک کر اَوتار کى قدم بوسى کر رہے ہىں۔ کسى نے کواڑ بند کر دىا اور مىں خفىف سا ہو کر اِدھر اُدھر دىکھنے لگا۔ جو خىالات مىں ڈاکٹر صاحب کے لئے رکھتا تھا وہ بت پرستى سے بُرى طرح متزلز ل ہو گئے گو ىا دنىا ہى بدل گئى۔ ڈاکٹر صاحب اپنى ہمشىرہ، بھانجى، بھانجىوں سے مل کر بىٹھک مىں آئے۔ اُن کى مہر بانى انہوں نے سب سے پہلے مجھے ہى قرىب بلاىا اگرچہ مىں اندر سے گُھلا (کھولا) ہوا تھا۔ مىں نے جلدى سے اجازت لى اور وہاں سے اُ ٹھ آىا۔ مىں نے وہ رات کا نٹوں پر بسر کى۔ کتنا عظىم انسان جو بات بات پر قرآن ِ کرىم کے حوالے دىتا ہے۔ بُت پرست ہو سکتا ہے، سمجھ مىں نہ آئے۔ دوسرے دن مجھ سے رہا نہ گىا، اور مىں نے اُن کى ہمشىرہ کو فون کىا، اور وہ بہت خوشى سے پىش آ ئىں۔ وہ بہت خوش تھىں کہ ان کے بھائى جان نے غرىب نوازى کى تھى اور عرصہ دراز کے بعد ان کے گھر آ ئے تھے ورنہ پہلے باہر ہى ہوٹلوں مىں ٹھہر کر چلے جاتے تھے۔ کہنے لگىں کہ مىرا بھائى بہت خوش خوراک ہے مىں نے اُن کى پسند کى تىن ڈشىں بنائى تھىں لىکن آپ بہت جلدى چلے گئے۔

مىں نے جسارت کر لى کہ بتائىں ہمارے کمرہ مىں آنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب بغلى کمرہ مىں کس کے پاس گئے تھے۔ کہنے لگىں ىہ اىک بہت ہى ذاتى سى بات ہے سختى سے منع کر رکھا ہے مگر آپ نے پوچھا ہے تو بتا دىتى ہوں۔ ىہ اُن کے اسکول کے زمانے کے آ خرى اُستاد ہىں جو بقىدِحىات ہىں 80 ىا85 سال کے تو ہونگے باقى سب اللہ کو پىارے ہوگئے ہىں۔ کىا بتاؤں بھائى جان اپنے اُستادوں کى اتنى عزت کرتے ہىں کہ کوئى کر ہى نہىں سکتا۔ بھائى جان کو انہوں نے چھوٹى کلاسوں مىں پڑھاىا ہے۔ پتہ نہىں فارسى، عربى، تارىخ ىا جغرافىہ پڑھاىا ہے۔ مجھے معلوم نہىں پہلے وہ چنىوٹ ضلع جھنگ مىں رہتے تھے جب مصروفىت اجازت دىتى تھى ڈاکٹر صاحب ان سے ملنے چنىوٹ چلے جاتے تھے۔ پھر مصروفىت زىادہ بڑھىں تو اُنہىں کراچى بلوا لىا ہے اور کورنگى مىں اىک کوارٹر لے دىا ہے۔ حسبِ توفىق خدمت کرتے رہتے ہىں اپنے استاد کى قدم بوسى کے لئے وہ خود کراچى آتے جاتے ہىں۔ ان کے حضور پىش ہوتے ہىں۔ لىکن کل صبح بھائى جان نے لاہور سے ٹىلىفون کىا تھا کہ ماسٹر صاحب کو کورنگى سے اىسى گاڑى بھجوا کر بلوالوں جس مىں انہىں کوئى تکلىف نہ ہو۔ اس لئے ہم نے گاڑى بھجوا کر انہىں بلوا لىا وہ بس پانچ منٹ مىں واپس چلے گئے تھے۔ مىں کىا بتاؤں مىرا بھائى فرشتہ ہے فر شتہ!!‘‘
جناب قاسم محمود صاحب نے جب اپنا مبہوت کُن واقعہ ختم کىا تو سامعىن نے بھر پور تا لىوں سے ڈاکٹر صاحب کى عظمت اور سعادت مندى کى جى بھر کر داد دى۔ اس جاندار واقعہ کے سفىد پگڑى اور سفىد لمبى داڑھى والے مرکزى کردار محترم سردار مصباح الدىن صاحب تھے جن کا ڈاکٹر صاحب بے حد احترام کرتے تھے۔ ىہاں اس بات کا بھى ذکر کر دىنا ضرورى ہے کہ جناب قاسم محمود صاحب کى نظروں نے اىسا دھوکہ کىوں کھاىا جس سے ان کے خىالات ڈاکٹر صاحب کے لئے متزلزل ہوئے۔ امر واقعہ ىہ تھا کہ حضرت سردار صاحب کے کولھے کى ہڈى اس بُرى طرح ٹوٹ چکى تھى کہ باوجود آ پرىشن کے وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہىں ہو سکتے تھے۔ جس کى وجہ سے وہ وہىل چىئر استعمال کرنے لگے تھے۔ ادھر کان کى شنوائى بھى بُرى طرح متاثر تھى جس کى وجہ سے کان کے ساتھ منہ لگا کر ہى بات ہو سکتى تھى اور وہ بھى بہت مشکل کے ساتھ۔ ان کى وہىل چىئر اونچى سطح کى تھى وہ ہمىشہ سفىد پگڑى پہنتے تھے، سفىد داڑھى اور سفىد قمىص شلوار۔ ڈاکٹر صاحب جو انتہا ئى مصروفىت کے عالم مىں تھے اور کسى اگلى ہى فلائٹ سے واپس جانے والے تھے ان کى سعادت مندى کى انتہا تھى کہ انہوں نے اپنے اس بزرگ کو پہلے ملنا پسند فرماىا تا کہ چند ساعت ہى سہى وہ ان سے مل سکىں۔ ىہ ڈا کٹر صاحب کى اُن کے ساتھ آ خرى ملاقات تھى۔ جس کے لئے ڈاکٹر صاحب کو ىقىناً جھکنا پڑا اور خىرىت معلوم کرنے اور دعا کا کہنے کے لئے کانوں کے قرىب ہونا پڑا۔ ىہ وہ نظارہ تھا جس کو اىک اجنبى اىک چھوٹى سى جھِّرى مىں سے دىکھ کر غلط فہمى مىں پڑ گىا۔ بزرگوں کا احترام در اصل ڈاکٹر صاحب کى گھٹى مىں ہى تھا۔ اس واقعہ کى تفصىل کے بعد ڈاکٹر صاحب کے خطوط سے ان کے عجز و اخلاص کا اظہار اپنى جگہ ہے۔

ڈاکٹر عبد السلام صاحب 19 اکتوبر 1979 ءکے عرىضہ مىں والد بزرگوار سردار صاحب کو تحرىر فر ماتے ہىں:
’’گرامى قدر زاد عنا ىتکم! آپ کا خط پڑھ کر رقت طارى ہو ئى۔ اللہ تعالىٰ نے اىسے وجود بھى پىدا کئے ہىں جو محض اللہ سے محبت رکھتے ہىں۔ ىہ احمدىت اور اسلام کا اثر ہے۔ اللہ تعالىٰ آپ کى عمر اور صحت مىں برکت دے اور آپ جىسى ہستىاں اس سلسلہ مىں پىدا ہوں جو محض اللہ کى خاطر اس قدر محبت اور شفقت اپنے دل مىں رکھتى ہىں۔‘‘
ڈا کٹر عبد السلام صاحب اپنے اىک اور خط مورخہ 20 جولائى 1982ء مىں تحرىر فر ماتے ہىں:
’’گرانقدر سردار صاحب! آپ کا عزىزم رشىد کے نام ابھى ابھى خط ملا۔ آپ کى بىمارى کا انتہائى صدمہ ہوا، اللہ تعالىٰ آپ کو سلامت رکھے۔ حضرت چودھرى صاحب کى طرح آپ کے فىضان اور دعا کى توفىق کو سلامت رکھے۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالث ؒ کے بارے مىں آپ کا فر مان درست ہے کہ اىسا معلوم ہوتا ہے کہ
’’آفتاب نصف النہار پر آىا ہوا، اچانک غروب ہو گىا۔‘‘
بشىر الدىن سامى ؔ
نوٹ ازصفىہ سامى
خاکسار عرض کرتى ہے کہ ىہ جو تىن فوٹو گراف ہىں۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کى کراچى مىں اُس وقت کى ہىں جب محترم ڈاکٹر عبد السلام کى ہمشىرہ کے گھر قاسم محمود صاحب کى جس ملاقات کا ذکر ہے۔ جب حضرت سردار مصباح الدىن صاحب کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے اُن کے پوتے مزمل مجتبىٰ (جو سامى صاحب کے بڑے بھائى عبد السبحان مرحوم کے بىٹے ہىں) نے مجھے بھىجى ہىں۔ ىہ غالباً 1987ء ىا 1988 ء کى ہىں۔ اس کى تفصىل کچھ ىوں ہے۔ جو اِن تصوىروں کے ساتھ درج ہے۔ مزمل جو تصوىروں مىں بچہ ساتھ کھڑا ہے وہ لکھتا ہے:
مِىں نے اپنى زندگى کا اىک بہت ہى خوبصورت عقىدت مندى کا مظاہرہ اپنى آنکھوں کے سامنے دىکھا تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ وہ ىوں تھا کہ:۔
ڈاکٹر صاحب نے اباجى کو سوارى بھىج کر اپنى بہن کے گھر بلواىا تھا۔ جہاں بہت سارے نىوز رپورٹر کىمرہ مىن وغىرہ بھى ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اُن کے سىکرٹىرى بھى تھے۔ آپ نے اُن سے کہا مىں پہلے محترم سردار صاحب کو ملوں گا بعد مىں باقى سب سے ملا قات ہوگى۔ ىہ اىک لمبى ملاقات تھى جو ڈاکٹر صاحب کى درخواست پر اُن کى ہمشىرہ کے گھر صرف دعا کى غرض کے لئے ہوئى تھى۔ ڈاکٹر صاحب نے اباجى کو فر ماىا کہ وہ کسى اور نئے پروجىکٹ پر کام کر رہے ہىں اور اگر وہ اس کام مىں کامىاب ہو جاتے ہىں تو اىک اور نوبل پرائىز کے حق دار بن جائىں گے۔ پھر ہم نے اىک ساتھ لنچ کىا اور دوران لنچ اُنہوں نے اپنى اىک خواہش کا اظہار بھى کىا کہ وہ پاکستان مىں Scientific society بنانا چاہتے ہىں اور ساتھ ہى کہنے لگے کہ ان مولوىوں کو اللہ تعالىٰ ہداىت دے کہ وہ اس پروجىکٹ کى مخالفت نہ کرىں ۔ پھر مزمل لکھتے ہىں۔ کہ مىں نے ڈاکٹر صاحب کو بتاىا کہ ىہاں پاکستان مىں T.V پر نىلام گھر طارق عزىز صاحب کا پروگرام ہوتا ہے جس مىں General knowledge کے سوال ہوتے ہىں۔ اُن مىں اىک سوال ىہ بھى تھا کہ ’’کون سے مسلم سائنسدان ہىں جن کو نوبل انعام ملا ہے؟‘‘ جس کے جواب مىں آپ کا نام لىا گىا۔ جس پر محترم ڈاکٹر صاحب کو اس بات کى بے حد خوشى ہوئى کہ اُن کومسلم کہا گىا۔
پھر حضرت ابا جى (دادا جى) سے ڈاکٹر صاحب نے دعا کى درخواست کى کہ مىرے ہاتھ کے انگوٹھے مىں شدىد درد رہتى ہے جس سے مجھے لکھنے مىں بہت دقت پىش آ تى ہے اِس پر اباجى کافى دىر اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ مىں لے کر دعا کرتے رہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب نےمىرى تعلىم کے بارے مىں پوچھا ۔ اباجى (دادا جى) نے ڈاکٹر صاحب کو بتاىا مزمل مىرا پوتا مىرى بہت خدمت کرتا ہے مىرى ٹانگ مىں Fracture کى وجہ سے مجھے ىہ بچہ گود مىں اُٹھا کر ہر جگہ لے کر جاتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے سو 100 روپے مجھے تحفہً دىے اور کہا اپنى تعلىم کى کوئى ضرورت پورى کر لىنا۔ پھر اُنہوں نے اپنے سىکرٹرى سے پوچھا کہ ىہاں کراچى مىں سب سے اچھا ہوسپىٹل کون سا ہے اُن کا جواب تھا آغا خان ىونىورسٹى ہوسپىٹل اس پر ڈاکٹر صاحب نے اباجى (داداجى) کو آغاخان ہوسپىٹل مىں داخل کرواىا اور اُن کى ٹانگ مىں جو راڈ ڈالى ہوئى تھى اُس کو نکلوا دىا جس کى وجہ سے اُن کو بہت تکلىف تھى اور اب اُس راڈ کو نکال دىنے سے اباجى (داداجى) کو بہت سکون ملا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
مىرے لئے ىہ خوشگوار واقعہ ہمىشہ ىاد گار بن کر رہے گا اور اس سارے وقت مىں مَىں نے لاؤڈ سپىکر کا کام بھى کىا کىوں کہ اباجى بہت اُنچا سُنتے تھے مىں دونوں کے درمىان پىغامبر بنا رہا۔ ىہ مىرے لئے نا قابلِ فراموش ملاقات تھى۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
ىہ مضمون مىں نے لکھ کر اپنے بچوں کو دکھاىا تو مىرا بىٹا منىر شہزاد سامىؔ بولا، اُمى! محترم ڈاکٹر صاحب کا اىک واقعہ مىرے ساتھ بھى اىسے ہوا کہ غالباً اسلام آباد (ٹلفورڈ) مىں جلسہ کا موقعہ تھا اور ڈاکٹر صاحب کى ملاقات ىعنى مصافحہ کے لئے لائن لگى ہوئى تھى اور اُس لائن مىں مَىں بھى لگا ہوا تھا۔ جب مىرى بارى آئى مَىں نے اپنے ابو کا نام بتاىا اور دادا ابو حضرت مصباح الدىن کا تعارف کرواىا تو نظرىں اُٹھا کر مجھے دىکھا اور پوچھا اب سردار صاحب کا کىا حال ہے؟ وہ سائىکل سے گِر گئے تھے، (مجھے اس بات کا بالکل علم نہىں تھا) پھر بھى مَىں نے جواب دىا کہ وہ ٹھىک ہىں (ڈاکٹر صاحب نے مىرے ابو سے اُن کى خىرىت درىافت کى) ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا ىہاں مىرے پاس بىٹھ جائىں۔ مَىں ڈاکٹر صاحب کے پاس بىٹھ گىا۔ لوگ آتے رہے اور مصافحہ کرتے ہوئے گزرتے رہے۔ ساتھ مجھے بھى دىکھتے ہونگے کہ ىہ لڑکا کون ہے جوىہاں ڈاکٹر صاحب کے قرب مىں بىٹھا ہوا ہے۔ مىرى عمر اُس وقت تقرىباً 17 برس کے قرىب ہوگى۔
اتنے عظىم شخص کے ساتھ ىہ ملاقات مىرے لئے اىک ىادگار بن گئى۔ مجھے ساتھ بٹھانا ىقىناً اس عظىم شخص کا اپنے استاد اور بزرگوں کے احترام کا نتىجہ تھا ۔ مىرى کىا حىثىت تھى مَىں اىک بچہ تھا صرف اس لئے کہ مَىں اُن کے استاد کا پوتا ہوں مجھے محبت اور پىار سے اپنے قرب مىں جگہ دى ، مَىں ىہ خوبصورت ملاقات کبھى بھى بھول نہىں سکتا ۔ اللہ تعالىٰ ہمىں بھى توفىق بخشے کہ ہم بھى اپنے بڑوں کى عزت اور چھوٹوں سے محبت کر سکىں۔ آمىن ثمّ آمىن ۔
اللہ تعالىٰ نے ہمارى جماعت کو اپنے فضل سے علم و عرفان مىں قىادت کے ممتاز مقام پر کھڑا کىا ہے ۔ اىسے عظىم لوگ پىدا ہوتے رہىں گے۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالىٰ ہمىں شکر گزار بنائے۔ آمىن ۔
(مرسلہ:صفیہ سامی۔ یوکے)