• 29 اپریل, 2024

اصل تبرک کا فلسفہ

تبرک ایک بہت ہی وسیع معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ یہ نہ صرف لفظ ہے بلکہ ہمارے اسلاف کی برسوں سے چلتی چلی آنے والی روایت کا نام بھی ہے۔ عرف عام میں ہم اس سے مراد روحانی و مذہبی شخصیات جن کے ساتھ ہمارا دل اور جذبات کا تعلق ہوتا ہے ۔ان سے وابستہ اور جُڑی ہوئی یا استعمال شدہ چیز لیتے ہیں۔ ہم احمدی مسلمانوں کا سب سے گہرا اور قلبی تعلق ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے ہے۔ ان کے قدم مبارک نے جہاں برکت بخشی ہو ہم تو اس خاک اور اس راستہ کو بھی متبرک ہی سمجھتے ہیں۔ اور پھر اس دور کے نبی سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کے تبرکات کی زیارت کے لئے، قادیان کے کوچہ و بازار اور گلیوں کی خاک چھان کر برکتیں حاصل کرتے ہیں۔ دارالمسیح میں ہر در و دیوار پر ہاتھ پھیرتے ہیں کہ یہ مسیح موعود و مہدی معہود کی جائے رہائش رہی ہے۔ اور تو اور اس راستے پر ننگے پاؤں چلتے ہیں جہاں ایک مرتبہ حضور اقدس ؑ جلدی میں مہمانوں کو واپس لانے کے لئے بنا جوتوں کے چلے تھے۔ قادیان کی فضاؤں اور ہواؤں کو بھی متبرک سمجھتے ہیں جہاں حضور پاک ؑ نے بابرکت سانسیں لے کر پاکیزہ بنا دیا تھا۔

؎ ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے
شاید کہ وہ گزرے ہوں اس راہ گزر سے

اگر ہم ایک اور نظر سے دیکھیں تو تبرک اس مبارک چیز کو کہا جاتا ہے جو ہمارے خاندانوں کے بزرگ، افراد خاندان کو یا روحانی شخصیت اپنے ماننے والے کو بطور یادگار دیتی ہیں۔ اور ہم ان کو سنبھال کر رکھتے ہیں یا تبرک اُسے کہا جاتا ہے کہ خاندان میں بزرگوں یا روحانی شخصیات کا پس خوردہ ہم کھاتے یا پیتے ہیں۔ ہم نے لندن میں بارہا دیکھا ہے کہ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالی جس محفل یا تقریب میں ہوں اور وہاں کھانا serve ہو تو حضور انور کے چلے جانے کے بعد لوگ پس خوردہ کو بطور تبرک سمجھتے ہوئے اس کی طرف لپکتے اور اس سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے اور بسا اوقات اپنی اولاد میں تقسیم کرتے ہیں تا اس تبرک سے خلیفۃ المسیح کے اوصاف بچوں میں منتقل ہوں۔ بے شمار لوگ نومولود کو پہلی غذا جسے گھٹی (گڑتی) بھی کہا جاتا ہے اور بالعموم شہد کی صورت میں دی جاتی ہے۔ شہد کو خلیفۃ المسیح سے متبرک کرواتے ہیں۔ اور بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ نومولود کی پیدائش پر خاندان میں سے کسی بزرگ ہستی کا چناؤ کیا جاتا ہے جو اس متبرک شہد کے ذریعہ پہلی غذا نومولود کو دے اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر بھی کہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے تبرک کے حوالے سے چند واقعات اور اہم نکات پیش ہیں۔

*ہمارے پیارے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت جوبلی کے موقع پر جب بینن مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا تو حضور انور King of Alada کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ جہاں موصوف نے اپنے انناس کے باغ سے انناس کا جوس حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ جس سے کچھ حصہ حضور نے نوش فرمایا۔ ملاقات کے بعد مربی صاحب جو ترجمے کے فرائض سر انجام دے رہے تھے نے حضور کی موجودگی میں ہی اس تبرک کو لے کر پینے کی کوشش کی۔ جس پر بادشاہ کی بیگم نے حضور سے عرض کی کہ حضور! یہ تو آئے روز تبرک لیتے رہتے ہیں آج میرا حق ہے۔ چنانچہ حضور کی اجازت سے اس خوش قسمت خاتون نے وہ تبرک حاصل کر لیا۔ اور خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی خلیفۃ المسیح کی برکتوں سے فیضیاب کر دیا۔

*میں نے کچھ سال قبل مسجد فضل کے سامنے 53 گیسٹ ہاؤس کے ساتھ ایک دعوت میں خود دیکھا۔ استاذی المحترم سید میر محمود احمد ناصر حضور کے ساتھ دائیں جانب تشریف فرما تھے۔ حضور نے جب کھانا تناول فرما لیا اور ہاتھ وغیرہ نیپکن سے صاف کر لئے تو آپ نے حضور سے اجازت لے کر گلاس میں بچا ہوا پانی بطور تبرک کے پی لیا۔

*اسی King Of Alada کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور کا بھی ملتا ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بینن کے دو بادشاہوں king of Alada اور king of Paraku کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا تبرک فریم کروا کر عنایت فرمائے۔ کچھ عرصہ بعد king of Alada کی اہلیہ بیمار ہو گئیں۔ بہت علاج معالجہ کروایا گیا مگر شفاء نہ ہوئی۔ اس پر بادشاہ کو خیال آیا کہ میرے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبرک کپڑے کا ٹکڑا ہے۔ کیوں نہ میں اس الہام ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا مصداق ہو کر برکت ڈھونڈوں۔ چنانچہ king of Alada نے وہ مبارک فریم اپنی اہلیہ کے جسم پر رکھ کر دعا کی کہ اگر یہ شحض سچا ہے اور لازماً سچا ہے تو اس کے صدقے میری اہلیہ کو شفاء عطاء فرما دے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی دعا کو سنا اوراس کی بیگم کو شفا عطافرما دی۔

یہ تبرک والا کوئی نیا طریق نہیں ہے۔ آنحضورﷺ کے دور میں صحابہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لیا کرتے تھے۔اور خود بھی تبرک لینے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے دوران جب آنحضورﷺ مکہ کے گرد ونواح میں مقیم تھے۔ قریش مکہ نے اپنا ایک سفیر مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ اس نے واپس جا کر سرداران کفار کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے ہر گز لڑائی نہ کرنا میں نے موتیں دیکھی ہیں۔ وہ اپنے رسول ﷺکے اردگرد محبت سے سرشار بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے رسول جب وضو کرتے ہیں تو وہ اس پانی کو نیچےگرنے نہیں دیتے بلکہ اس بچے ہوئے پانی کو اپنے مونہوں پر پیار سے ملتے اور بعض پی بھی لیتے ہیں۔دراصل یہ تبرک تھا جو صحابہؓ پی لیا کرتے تھے۔

تبرک کی بات چلی ہے تو جس نفس مضمون کو آج اس آرٹیکل میں اجاگر کرنے جا رہا ہوں۔ اس میں اس حقیقت کا اضافہ بھی کرتا جاؤں کہ ہم اپنے معاشرے میں بزرگوں بالخصوص والدین کی وفات پر ان مرحومین کے زیر استعمال اشیاء کو تبرک کی خاطر محفوظ کر لیتے ہیں۔ ان کے زیر استعمال کپڑوں کو چھو کر اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کپڑوں سے والدہ مرحومہ یا مرحوم والد کی خوشبو آتی ہے۔ والدین کی وفات کے بعد جائیداد کی تقسیم کے وقت ان متبرک کپڑوں کو بھی تقسیم کرتے ہیں۔ بعض تو اس حد تک افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں کہ بات شرک کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ مجھے لاہور میں کسی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو اس گھر میں ایک زنگ آلود گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا اتنی خوبصورت کوٹھی میں یہ زنگ آلود اور ٹوٹی پھوٹی کار کیوں کھڑی کر رکھی ہے؟ جواب ملا کہ ابا مرحوم کے زیر استعمال تھی۔ ہم نے تو اس کوٹ کو بھی کار سے نہیں نکالا جو وہ دفتر جاتے ہوئے پہنا کرتے تھے۔ وہ اسی طرح کار میں لٹکا ہوا ہے۔ خاکسار کے سمجھانے پر انہوں نے اس کار کو dispose off کیا۔

یہ درست ہے کہ بزرگوں یا روحانی شخصیات کی طرف سے ملنے والے تحفے تحائف تبرک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور انہیں اس غرض سے اپنے استعمال میں لانا کہ ایک طرف ان سے پیار کا اظہار ہو اور دوسری طرف ان کی یاد ہمیں ان کے اوصاف اور نیکیوں کی طرف لے جائے اور ہم بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی تمام نیکیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اصل تبرک کا مفہوم تو وہ ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ نے ہمارےسامنے رکھا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :
حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے کہ آپ کے صحابہؓ وضو والا پانی اپنے ہاتھوں اور چہروں پر ملنے لگے۔ یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے ایسا کرنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ صحابہؓ نے جواباً کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کی وجہ سے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے واقعی محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بھی تم سے محبت کرے تو تمہیں چاہیے کہ اوّل ۔ہمیشہ سچ بولو، دوم۔ جب تمہارے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں کبھی خیانت نہ کرو اور سوم اپنے پڑوسی سے ہمیشہ حسن سلوک کرو۔

(حدیقۃ الصالحین، از ملک سیف الرحمٰن صفحہ124۔125)

یہی وہ مضمون ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے۔

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۲﴾

(آل عمران: 32)

ترجمہ:تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا( اور )بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تو اصل اورحقیقی تبرک وہ تعلیمات اورحسن ِعمل ہےجو خاندانوں میں بزرگ یا روحانی شخصیات اپنی وفات پر اپنے پیچھے بطور امانت چھوڑ جاتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے اپنے پیشرو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی وفات پر تعزیتی خطوط اور قرار دادوں کی اہمیت اور اس کے اصل فلسفہ اور حکمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ قراردادیں یا تعزیتی خطوط صرف افسوس کی حد تک نہ ہوں بلکہ ان میں یہ عہد و پیمان ہوں کہ اے جانے والے !ہم تیری عظمت کو سلام کرتے ہیں اور تیری دی ہوئی تعلیمات پر بھرپور عمل کریں گےاور اے آنے والے !تیرے ساتھ بھی ہم صدق و وفا کے ساتھ اس عہد وفا کو پہلے سے بڑھ کر نبھانے کی کوشش کریں گے۔

*اس آرٹیکل کو کمپوز کرنے والی مسز صدف علیم صدیقی نے کینیڈا سے مجھے بتایا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی وفات پر کراچی میں تھی۔ ہم خواتین تعزیت کے لئے خاندان مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خاتون کے گھر جمع تھیں جہاں بعض خواتین کی درخواست پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے تبرکات تقسیم کئے ۔خاکسار نے طبیعت میں جھجک اور مروت کی وجہ سے کوئی تبرک نہ مانگ سکی۔ کچھ عرصہ بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک بیٹی سے ملاقات پر تبرک کی بات چل نکلی جس پر آپ نے مجھے مخاطب ہو کہا کہ’’ آپ خود ابا کا تبرک بن جائیں ویسی بن جائیں۔ وہ تمام خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیں جو ابا ہم سب سے چاہتے تھے تو آپ بھی ابا کا تبرک بن جائیں گی‘‘

*اس واقعہ سے مجھے ایک سبق آموز کہاوت یاد آرہی ہے ۔ ایک بادشاہ نے یہ اعلان عام کیا کہ آج فلاں وقت سے فلاں وقت تک محل کے دروازے ہر کس و ناکس کے لئے کھول دیئے جائیں گے جس کسی کو جو چیز پسند آئے وہ لے جائے۔ ایک عمر رسیدہ شخص آھستہ آھستہ اپنی گھونٹی کے سہارے بادشاہ کی طرف آگے بڑھا اور جا کر بادشاہ کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا۔ میرے لئے اس بادشاہ سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں۔ اور یوں اس بوڑھے نے بادشاہ کا دل جیت لیا۔کیونکہ وہ بادشاہ کا ہو گیا تھا۔

*ہمارے پیارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہردوسرے خطبہ جمعہ میں جب مرحومین کا ذکر خیر فرماتے ہیں تو ہر ذکر کے بعد اولاد کے لئے یہ دعائیہ فقرہ ضرور شامل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو اولاد کے اندر منتقل فرمائے۔ اور اولاد کو ان کی نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

پس تبرک وہی ہے جو تعلیمات اور حسن عمل کی صورت میں ہمیں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن، اسلام اور تشریحات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے عظام پر عمل کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ جرمنی 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ