اسلامی اصطلاحات کا برمحل استعمال
از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
قسط نمبر 2
السّلام علیکم
سوال: جب ہم نماز ختم کرتے ہیں تو السّلام علیکم کیوں کہتے ہیں؟
جواب: اس لئے کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے بعد آپ زیادہ بہتر (فرمانبردار) بن چکے ہوتے ہیں۔ اور خدا کی طرف سے گویا سب کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم تمہیں سلامتی بھیجتے ہیں۔ اور دائیں اور بائیں سب دنیا کو ہم سلامتی بھیجتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کسی کے خلاف کو ئی بدارادہ نہیں باندھنا چاہئے بلکہ دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہئے۔
تو یہ نماز میں تربیت ہے۔ کہ جب نماز سے فارغ ہو۔ واپس دنیا میں آؤ۔ تو سلام لے کر واپس آؤ۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی اطفال سے ملاقات، ریکارڈ شدہ 10مئی 2000ء روزنامہ الفضل 9 اپریل 2000ء)
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سوال : صرف صحابہ کے نام کے ساتھ ہی کیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ آتا ہے؟
جواب : یہ اصطلاح بن گئی ہے پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔قرآن کریم میں جب صحابہ کا ذکر آتا ہے ۔ تو اس میں آتا ہے رضوان اللہ علیہم۔ اللہ کی رضوان ان کو حاصل تھی۔ اس وقت سے یہ اصطلاح بن گئی ہے کہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی لجنہ سے ملاقات: ریکارڈنگ 9 جنوری 2000ء، روزنامہ الفضل 8 مئی 2000ء صفحہ3)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال: ہماری جماعت کا یہ مؤقف ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جو ہے ہر سورت کی پہلی آیت گنی جاتی ہے۔ لیکن نماز میں سورت فاتحہ سے پہلے یہ نہیں پڑھی جاتی۔
حضور: پڑھی جاتی ہے۔
سائل: حضور بالجہر میں۔
حضور: ہاں اونچی آواز میں نہیں پڑھی جاتی۔ لیکن پڑھی جاتی ہے مگر وجہ یہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ بعض مسالک ہیں جو نسلا بعد نسل ہم نے ورثے میں پائے ہیں۔ اس لئے جو شافعی ہیں وہ پڑھتے ہیں انہوں نے نسلا بعد نسل یہی ورثہ میں پایا ہے جب وہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں تو بالجہر بِسْمِ اللّٰہِ بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم نے احناف میں جنم لیا ہے اور اکثر ہندوستان پر اور ترکی پر احناف کا غلبہ ہے۔ اس لئے ان کا طریق ہم نے اپنا لیا ہے۔ کہ بِسْمِ اللّٰہِ خاموش پڑھو اور باقی اونچی پڑھو۔ غالباً ہو سکتا ہے یہ مسلک ان کا ہو کہ یہ ایسی لازمی چیز ہے کہ یہ گویا کہ Understood ہے ان معنوں میں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ہر دوسری سورت کے مضمون میں تبدیلی ہو گی بِسْمِ اللّٰہِ وہی کی وہی رہے گی۔ شائد اس لئے انہوں نے نہ کی ہو بس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺجب تلاوت فرماتے ہوں ۔ تو شروع میں بِسْمِ اللّٰہِ کو الگ اور ممتاز کرنے کے لئے نسبتاً ہلکی آواز میں پڑھتے ہو ں۔ اور پھر باقی سورت یا آیات کی تلاوت پوری طرح جہر سے کرتے ہوں۔ یعنی بعید نہیں میں امکان بتا رہا ہوں۔ اور یہ آواز جو ہے اگر ہلکی پڑھی جائے شروع میں اور باقی سورت اونچی تو پچھلی صفوں والوں کو پہلی بِسْمِ اللّٰہِ کی آواز نہیں پہنچے گی۔ بلکہ یہ پہنچے گی۔ یہ میں وجہ جواز سوچ رہا ہوں کیوں آخر اتنے بڑے مسلک کے علماء اور بزرگ فقہاء نے اس بات کو قبول کر لیا ہے جبکہ وہ روایات کی خوب چھان بین کیا کرتے تھے اور چونکہ ایک بڑے مسلک کے علماء نے اس کو قبول نہیں کیا بِسْمِ اللّٰہِ خاموشی سے پڑھنے کو اس لئے لازماً وہ اونچی آواز سے بھی سنتے ہوں گے۔ تو دو مختلف راوی لازماً موجود ہیں۔ ایک رواۃ کا سلسلہ ہے جس نے کہا ہم نے تو کبھی رسول اللہ ﷺ کو بِسْمِ اللّٰہِ اونچی آواز سے پڑھتے ہوئے نہیں سنا اور یہی ہمارا مؤقف چلا آرہا ہے اور ایک حصہ نے کہا ہم نے تو سنا اور ہمیشہ سے ہمارا یہی مؤقف چلاآرہا ہے تو اب اس کا کیا حل ہو سکتا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے گروہوں میں ہوں کہ ایک دوسرے کی تکذیب کر رہے ہوں۔ اور ناواجب ایک مسلک دنیا کے سامنے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ مسئلہ ایسا ہے ہی نہیں جس پر تعصبّات کا اثر ہو اس لئے جو حل میں نے سوچا ہے وہ یہ مجھے دکھائی دیا ہے کہ بسا اوقات باہر سے آنے والے ذرا پیچھے آتے ہیں اور ان کی روایات میں ہم نے کس طرح دیکھا نماز پڑھتے ہوئے ۔ یہ بات ہو سکتی ہے نمایاں طور پر کہ بِسْمِ اللّٰہِ اونچی آواز سے نہیں پڑھی تھی مگر سورۃ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھی تھی باقی سورت فاتحہ۔ اب رہا معاملہ ان بزرگ صحابہ کا جو اکثر پہلی صف میں ہوتے تھے اور قریب ہوتے تھے۔ ان کے ہاں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے یہ بات روز مرہ کی اتنی تھی کہ حدیث میں اہمیت کے لئے بیان کرنے کی ضرورت ہی کبھی نہیں پڑی ان کی خاموشی جو ہے ممد ہو گئی ہے ان دو گروہوں کے پیدا ہونے میں ورنہ اگر ان کبار صحابہ کی قطعی روایات ہوتیں۔ تو کبھی ہو نہیں سکتا تھا کہ ایسے دو الگ الگ مسلک پیدا ہوتے۔
(ملاقات پروگرام مؤرخہ5 اپریل 1996ء)
٭سوال: بِسْمِ اللّٰہِ سورۃ کا حصہ ہے مگر نماز میں اس کی بالجہر قرأت نہیں کی جاتی۔ اس میں کیا حکمت ہے؟
حضور: یہ دو School of thoughts ہیں دو مکتبہ فکر ہیں۔ بعض بِسْمِ اللّٰہِ کی تلاوت نہیں کرتے اور بعض بِسْمِ اللّٰہِ کی تلاوت کرتے ہیں امام شافعی ؒ وغیرہ لیکن حنفی بِسْمِ اللّٰہِ کی تلاوت اونچی آواز میں نہیں کرتے۔ تو جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے دونوں میں سے جو بھی کر لو دونوں جائز ہیں ۔ لیکن ہم نے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ عادت بطور ورثہ میں پائی جاتی ہے ہم اس کو اپناتے ہیں لیکن دل میں ضرور پڑھتے ہیں ہر سورۃ کے آغاز میں۔ اگر وہ آغاز سے شروع کی جاتی ہے تو ہم دل میں لازماً بِسْمِ اللّٰہِ پڑھتے ہیں۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ مجلس سوال و جواب 11-08-2000ء)
٭سوال: کیا بِسْمِ اللّٰہِ کو ہر آیت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے نماز میں؟
حضور: بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنا ضروری ہے مگر دل میں۔ مگر بالجہر پڑھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اس پر فقہاء کا اختلاف ہے۔ شافعی بالجہر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ اکثر عرب احمدی بھی ہوئے ہیں تو پہلے نماز کی امامت کرواتے ہیں بِسْمِ اللّٰہِ سے ہی شروع کرتے ہیں اور کبھی ہم نے ان کو روکا بھی نہیں کیوں کہ ایسا مسئلہ ہی نہیں جسے اصرار کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ دو امکانات ہیں اور دونوں ہی جماعت احمدیہ میں رائج رہے ہیں لیکن چونکہ حنفی فقہ کو باقی فقہ پر فوقیت بخشی اس لئے جماعت احمدیہ کا مسلک اس فقہ پر چلا آرہا ہے اور حنفی بِسْمِ اللّٰہِ نہیں پڑھتے، بالجہر نہیں پڑھتے۔ اور دوسرے جو پڑھتے ہیں اُن پر اعتراض بھی کبھی نہیں کیا۔ اس میں اختلاف نہیں ہے کوئی پڑھے تو کہے کہ تیری نماز خراب ہو گئی۔ میرے ماموں ولی اللہ شاہ صاحب وہ چونکہ رہے تھے کافی عرصہ عربوں میں جا کر تو اُن کی عادت تھی بِسْمِ اللّٰہِ بالجہر پڑھنے کی اور حضرت مصلح موعود ؓ نے اس علم کے باوجود ان کو بار بار امام الصّلوٰة مقرر فرمایا ۔جمعہ پڑھاتے تھے اور کبھی ایک صحابی نے بھی اُن پر اعتراض نہیں کیا کہ بِسْمِ اللّٰہِ بالجہر کیوں پڑھتے ہیں۔ ان مسائل کو ہم ایک دوسرے سے لڑنے اور پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ نہیں بنائیں۔ ایک انسان سچے دل سے سمجھتا ہے رسول اللہ ﷺ نے ایسا کہا ہو گا وہ کرتا رہے دونوں ہی مبارک ہیں ان کے لئے لیکن جماعت کے ایک شخص کے اوپر جو چیز اب رائج ہو چکی ہے وہ بھی ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ اونچی آواز میں تلاوت نہیں کی جاتی مگر آج بھی کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ساتھ مجلس سوال وجواب مؤرخہ 9اپریل 1997ء)
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم
سائل : عام مسلمان جو تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں آخر میں صدق اللّٰہ العظیم پڑھتے ہیں ۔ تو ہمارے ہاں یہ بات نہیں دیکھنے میں آتی۔
حضور : نہیں ۔ بعض پڑھتے ہیں ۔ بعض احمدی پڑھتے ہیں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
سائل: کوئی حرج نہیں؟
حضور : یہ بعد کی بات ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رواج نہیں تھا مگر جو سنتِ حسنہ ہو جس پر کوئی شرعی اعتراض نہ ہو اور اس کے اوپر کوئی سقم واقعہ نہ ہو تو اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج بھی کوئی نہیں تو ہم جو نہیں کہتے اس لئے نہیں کہتے کہ ہمارے نزدیک آنحضرت ﷺ کے زمانے جو قرآن کے حوالے سے مسلک قائم ہو گیا وہ سب سے خوبصورت ہے اسی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ جو کہتے ہیں کہ ایک سنتِ حسنہ داخل کرنے کی اجازت بھی تو ہے تو کرنے دو بے شک اختیار کرو مگر تمہیں گناہ کوئی نہیں ہو گا لیکن ہمیں نہیں پسند ہمیں تو وہی مسلک پسند ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج تھا۔ ٹھیک ہے۔
(ملاقات پروگرام :مؤرخہ 2 اگست 1996ء)
٭سوال: غیر احمدی لوگ قرآن کریم کی تلاوت ختم کرنے پر صدق اللہ العظیم کہتے ہیں۔
حضور: احمدی بھی کہہ سکتے ہیں کہنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ مگر یہ کوئی رواج نہیں ہے۔ سنت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ مگر بعد میں صدق اللہ العظیم نہیں کہا کرتے تھے۔ یہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں اللہ نے سچ بولا ہے اللہ تو سچ ہی بولتا ہے۔ صدق اللہ العظیم کا مطلب ہے۔ اللہ عظیم نے سچ بات کی ہے۔ یہ ویسے تو گندی رسم نہیں ہے تصدیق کرنے کا حرج کیا ہے۔ مگر سنت نہیں ہے اس لئے ہم احمدی نہیں پڑھتے۔
دعائے ختم القرآن پڑھنی چاہئے۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی اطفال سے ملاقات، ریکارڈ شدہ 10نومبر 1999، روزنامہ الفضل 29جولائی 2000ء صفحہ3)
یا اللہ یا رسول!
سوال: یا اللہ یا رسول! ہم عام کہتے ہیں یہ تو زندہ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ؟
حضور: اسی پر ان میں آپس میں لڑائیاں ہو رہی ہیں یامحمدﷺ!وہ لوگ کہتے ہیں جو بریلوی عقیدے کے ہیں اور واقعتاً تسلیم کرتے ہیں جب آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمداً سامنے موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے جب یہ معراج شریف کی جگہ سیرت کے جلسے منعقد کرتے ہیں تو جب بھی سلام ہو رہا ہو سب اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنی کر سیوں پر اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سامنے موجود ہیں اور پھر ہر جگہ موجود ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرح صرف ایک جگہ موجود نہیں بلکہ اسی لمحہ ہر جگہ موجود ہیں یہ سارے مشرکانہ عقیدے جس سے اسلام کا دور کا بھی تعلق نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعمال کے بعد ملاء اعلیٰ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے اور قرآن سے ثابت ہے کوئی بھی شخص جس کی روح اپنے رب کے پاس حاضر ہو جائے وہ واپس نہیں آیا کرتی۔ وہ صرف فرضی باتیں اور کہانیاں بنائی ہوئی ہیں انہوں نے۔ اگر یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی عقیدے سے تعلق ہے جو نظر آتا ہے تو یہ مشرکانہ بات ہے لیکن یہ کوئی حق نہیں کسی دوسرے کی مسجد میں جا کر یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مناتے آدمی کا اپنا فعل ہے وہ خدا کے ہاں جواب دہ ہے۔ ہمارا اپنا استنباط ہے کہ یہ مشرکانہ فعل ہے وہ سمجھتے ہیں مشرکانہ نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص عزت ہے مرنے کے بعد جواب دہ ہونا ہے اس نے فیصلہ کرنا ہے۔
(مجلس عرفان سوال و جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، مجلس سوال و جواب کیسٹ نمبر104 ،30 جون 1995ء)
یارسولُ اللہ!
سوال: ’یا رسولُ اللہ‘ صحیح حرف ہے یا ’یا رسولَ اللہ‘ کہنا چاہئے؟
حضور: یا رسولُ اللہ۔ مگر اصل آپ نے بات پوچھی نہیں کہ یا رسول اللہ! کہنے کا مطلب کیا۔ اصل بحث تو ہے ہی اور۔ آپ نے صرف زبر زیر کی بحث اٹھا رکھی ہے ۔۔۔۔۔ وہ گرائمر کا مسئلہ ہے نداء کے نتیجہ میں نصب آجاتی ہے جس کو نداء دی جارہی ہو اس پر نصب آجاتی ہے عربی کا کاعدہ ہے۔ یہ تو رسول اللہ میں تو رفع آتی ہے اگر پیش پڑھیں تو اس لئے نصب ضروری ہے یا رسولُ اللہ کہنا پڑتا ہے۔
(مجلس عرفان، کیسٹ نمبر 9)
(طاہر فاؤنڈیشن)