• 30 اپریل, 2024

صحابہ ؓ کے اطاعت اور فرمانبردارى کے نمونے

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
حضرت مىاں عبدالعزىز صاحب رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ مىاں چراغ دىن صاحب فرماىا کرتے تھے کہ اىک دفعہ اتوار کے دن مَىں نے حضرت صاحب سے اجازت مانگى کہ حضور! مجھے دفتر حاضر ہونا ہے۔ حضرت صاحب اکثر اجازت دے دىا کرتے تھے مگر اُس دن اجازت نہ دى۔ پىر کے دن صبح اجازت دى۔ ىہاں سے گىارہ بجے گاڑى پر سوار ہو کر تىن بجے لاہور پہنچے اور سىدھے ٹم ٹم مىں بىٹھ کر ساڑھے تىن بجے دفتر پہنچے۔ کرسى پر بىٹھے ہى تھے۔ (اب ىہاں دىکھىں کىونکہ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام کے حکم اور اطاعت کى وجہ سے رُکے تھے، اللہ تعالىٰ نے کس طرح ىہ سلوک کىا اور عجىب معجزانہ واقعہ ہوا ہے) کُرسى پر بىٹھے ہى تھے کہ دفتر کا کوئى کلرک آىا اور کہنے لگا کہ بارہ بجے آپ کو کاغذ دئىے تھے، وہ کام آپ نے کىا ہے ىا نہىں۔ (حالانکہ ىہ پہنچے ہى تىن بجے تھے) پھر اىک افسر آىا۔ اُس نے کہا چراغ دىن! گىارہ بجے جو آپ نے چھٹى دى تھى ىہ اُس کا جواب ہے۔ (ىعنى اُس افسر کے پاس اىسا انتظام اللہ تعالىٰ نے کىا، کوئى بھى چھٹى لے کر گىا تھا وہ سمجھے کہ چراغ دىن لے کے آئے، ىا بہر حال اللہ تعالىٰ کے فرشتوں نے کام کىا)۔ فرمانے لگے کہ دفتر کا ہر شخص ىہى سمجھتا تھا کہ مَىں دفتر مىں ہى ہوں، چنانچہ چار بجے شام مىں دفتر سے گھر چلا گىا۔

(رجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ234۔ رواىات مىاں عبدالعزىز صاحب آف لاہور)

ىہ بھى اطاعت اور فرمانبردارى اور پھر صحابہ کے ساتھ اللہ تعالىٰ کا جو سلوک تھا، اُس کى اىک مثال ہے۔

حضرت مىر مہدى حسىن صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ حضور نے مجھے بلاىا اور حکم دىا کہ ہمارے لنگر مىں اىندھن نہىں ہے۔ تم دىہات سے اوپلے خرىد کر لاؤ اور آج شام تک پہنچ جائىں۔ کىونکہ کل کے لئے لنگر خانے مىں اىندھن نہىں ہے۔ اور چار روپے مجھے خرىدنے کے لئے دئىے۔ مىں وہ روپىہ لے کر سىدھا مسجد مبارک کى چھت پر چڑھ گىا اور موجودہ منار جو علىحدہ مسجد سے کھڑا ہے اُس کے قرىب کھڑے ہو کر دعا کى کہ الٰہى! تىرے مسىح نے مجھے اىک کام کے لئے فرماىا ہے اور مَىں اس سے بالکل ناواقف ہوں۔ مجھے اىسى سمت بتلائى جائے جہاں سے مَىں شام تک اوپلے لے کر ىہاں پہنچ جاؤں۔ مجھے منارے کے تھوڑى بلندى کے اوپر سے اىک آواز آئى، آواز سنائى دى کہ ’’رىگستان ہے‘‘۔ مَىں نے سمجھا کہ مىرے پاؤں مىں زخم کى وجہ سے اللہ تعالىٰ نے مجھے جانے سے روکا ہے۔ مَىں نے دوبارہ عرض کى کہ حضور! (ىعنى اللہ تعالىٰ کے حضور عرض کى کہ) مَىں لنگڑا ہى چلا جاؤں گا لىکن تىرے مسىح کا حکم شام تک پورا ہو جائے۔ دوبارہ جواب آىا کہ ىہىں آ جائے گا، کہىں جانے کى ضرورت نہىں۔ مَىں نے سجدہ شکر ادا کىا اور کہا کہ اسى طرح مسىح کے کام ہوں گے تو دنىا فتح ہو سکے گى۔ مَىں اسى جگہ بىٹھ گىا اور دعا کرتا رہاکہ الٰہى! اىسا نہ ہو کہ مجھے شام کو حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام سے شرمندہ ہونا پڑے۔ پھر دل مىں خىال آىا کہ مىں نبى نہىں ہوں، کوئى ولى نہىں ہوں جس کے الہامات اىسے جلدى سچے نکلىں۔ مجھے کہىں جانا چاہئے۔ لىکن پھر خىال آىا کہ اگر کوئى شخص کسى کى دعوت کرے کہ شام کو ہمارے گھر کھانا کھا لو تو وہ ترددنہىں کرتا۔ مجھے خدا تعالىٰ کے وعدے پر ىقىن ہونا چاہئے۔ وہ ضرور ىہاں اىندھن پہنچا دے گا۔ اس پر مىں مطمئن ہو کر مسجد کى چھت پر ہى بىٹھ رہا۔ ظہر کا وقت قرىب ہوا، نىچے اُترتے ہى خادمہ نے جس کے سامنے مجھے حضور نے روپىہ دىا تھا، دىکھ لىا اور کہنے لگى کہ تو ابھى تک ’’بالن‘‘ (ىعنى اىندھن) لىنے نہىں گىا۔ مَىں نے جى مىں سوچا کہ ىہ حضور کے پاس ہے، اُسے پتہ ہوگا کہ حضور کو الہامات ہوتے ہىں اور پورے بھى ہو جاتے ہىں، اُسے کہا کہ فکر کى بات نہىں، مجھے خدا تعالىٰ نے الہام کىا ہے کہ بالن (ىعنى اىندھن) ىہىں پہنچ جائے گا۔ اس پر وہ برہم ہو کر کہنے لگى کہ تو ىہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہو گا مَىں کہىں نہىں جاؤں گا؟ دىکھو مَىں ابھى جا کے حضرت صاحب سے کہتى ہوں۔ (اس بات کو اُس نے اور رنگ مىں لے لىا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہاں پہنچ جائے گا۔ اُس نے کہا کہ نہىں جب تک الہام نہىں ہو گا نہىں جاؤں گا)۔ خىر باوجود مىرے روکنے کے اُس نے جا کے حضور کو سنا دىا کہ وہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہو گا مَىں کہىں نہىں جاؤں گا۔ مجھے ىہ فکر ہوئى کہ حضور اب ضرور مجھ سے بلا کر درىافت کرىں گے تو مجھے اپنے الہام کا ذکر کرنا پڑے گا۔ اىک فقىر عاجز، بادشاہ کے سامنے کہاں کہہ سکتا ہے کہ مَىں بھى مالدار ہوں (ىعنى حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام کو تو الہام ہوتے ہىں، مَىں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ مجھے الہام ہوا ہے) اس لئے مىں مسجد کى سىڑھىوں سے اُتر کر بٹالے والے دروازے کى طرف بھاگا اور پىچھے مُڑ کر دىکھا کہ کوئى مجھے بلانے والا تو نہىں آىا۔ بٹالے والے دروازے پر پہنچ کر مَىں نے قصد کىا کہ سىکھواں جا کر اىندھن کى تلاش کروں اور مولوى امام الدىن اور خىر الدىن صاحبان سے امداد لے کر ىہ کام کروں۔ تھوڑى دور چل کر مجھے پھر خىال پىدا ہوا کہ خدا تعالىٰ کا تو حکم ہے کہ ىہاں آ جائے گا، مگر مىں تو اگر باہر چلا گىا تو روپىہ بھى مىرے پاس ہے تو ىہ کام کس طرح ہو گا؟ اس لئے مىں واپس آ کر مسجد کى چھت پر پھر بىٹھ گىا اور دعا کرتا رہا کہ خدا تعالىٰ اپنا وعدہ پورا کرے۔ پِىراں دِتہ اىک ملازم حضرت اقدس کا جو پہاڑىہ کہلاتا تھا مجھے دىکھ کر آواز دىنے لگا کہ بالن کے (ىعنى اىندھن کے) گڈے پہاڑى دروازے پر آئے ہىں، چل کر خرىد لو۔ مَىں نے سجدہ شکر ادا کىا اور اُس کے ساتھ جا کر دىکھا تو اىک گڈا اوپلوں کا تھا، باقى لکڑى تھى اور اس گڈے کے لئے بارہ شخص گاہک موجود تھے۔ اور وہ اىک دوسرے سے دو دو آنے بڑھ کر بولى دے رہے تھے اور اىک روپىہ بارہ آنے تک بولى ہو چکى تھى۔ مىاں نجم الدىن صاحب نے دو آنے بڑھا کر لىنا چاہا، مَىں نے اىک آواز دى کہ مىں دىکھ لوں کہ اس مىں کتنا اىندھن ہے اور گڈے کے گرد پھر کر کہا کہ اىک روپىہ بارہ آنے سے زىادہ اس مىں اىک پىسے کا اىندھن نہىں ہے (ىا لکڑى اوپلے نہىں ہىں) جس کى مرضى ہو وہ خرىد لے۔ ىہ کہہ کر مَىں چلا آىا اور جى مىں کہتا تھا کہ الٰہى! بغىر تىرے فضل کے ىہ مجھے نہىں مل سکتا۔ مىرے چلے آنے پر سب گاہک منتشر ہو گئے اور پىراں دتہ وہاں کھڑا رہا، جب گڈے والا حىران ہوا کہ کوئى لىنے والا نہىں تو پىراں دتہ نے کہا کہ مىرے ساتھ گڈا لے چلومَىں تم کو اىک روپىہ بارہ آنے دلواؤں گا۔ گڈے والا اُس کے ساتھ ہو لىا۔ مَىں اُس وقت مسجد مبارک پر دعا کر رہا تھا۔ جو مَىں نے سنا کہ پِىراں دِتہّ کہتا ہے کہ گڈا آ گىا، اس کو سنبھال لىں۔ گڈا لنگر خانے مىں پہنچا کر مَىں نے سوچا کہ حضرت صاحب کو اطلاع کر دى جائے کہ حکم کى تعمىل ہو گئى ہے۔ مگر دل مىں پھر خىال آىا کہ ىہ کىا کام ہے جس کى اطلاع دىنى واجب ہو گى۔ خود خدا تعالىٰ حضرت اقدس کو بتلا دے گا۔ مىرے اطلاع دىنے کى ضرورت نہىں۔ صبح کو حضرت اقدس سىر کے لئے تشرىف لے گئے۔ جب ڈھاب کى طرف سے اىک سڑک کا معائنہ کر کے جو مىر صاحب نے بنوائى تھى، واپس تشرىف لائے تو بطور لطىفے کے حضور نے فرماىا کہ ىہاں اىک مہدى حسىن آىا ہوا ہے، ہم نے اُس کو اىندھن لانے کے لئے کہا تھا مگر وہ شخص کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہىں ہو گا(جس طرح اُس عورت نے سناىا جا کے) مَىں ىہ کام نہىں کروں گا۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ282تا 287 رواىات مىر مہدى حسىن صاحبؓ خادم المسىح)

لىکن بہر حال اللہ تعالىٰ کا سلوک دىکھىں، کچھ اُن کى مجبورىاں تھىں اور اللہ تعالىٰ نے بھى اپنى ذات کا ثبوت دىنا تھا۔ کس طرح ان کى دعا کى بھى قبولىت ہوئى اور سارا انتظام بھى ہو گىا۔

(خطبہ جمعہ 25؍مئى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

آیئے! ہمارے دروازے آپ کےلیے کھلے ہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 نومبر 2021