اسلام میں خدا کا تصور
انسان پر اس کی قدرتوں کے ظہور کے آئینہ میں
(تقریر،جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء)
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِي اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ
(ابراہيم: 11)
ان کے رسولوں نے کہا کيا اللہ کے بارہ ميں شک ہے جو آسمانوں اور زمين کا پيدا کرنے والا ہے؟
اس مضمون کو عام فہم بنانے کے لئے خاکسار نے پانچ حصوں ميں تقسيم کيا ہے۔
- اسلام میں خدا کا تصور۔
- انسان پر اس کی قدرتوں کا ظہور کس رنگ میں ہوتا ہے۔
- خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مظہر بننے کے بعد انسان میں آنے والی تبدیلی۔
- خداتعالیٰ کی قدرتوں کا مظہر بننے پر خدا تعالیٰ کے انسان سے تعلق میں آنے والی تبدیلی
- زندہ خدا کی قدرتوں کا مظہر بننے کا ذریعہ۔
اسلام ميں خدا کا تصور
موضوع کے پہلے حصہ ’’اسلام ميں خدا کا تصور‘‘ سے ايک سوال پيدا ہوتا ہے کہ کيا اسلام جس خدا کو پيش کرتا ہے وہ باقي مذاہب کا پيش کردہ خدا نہيں؟ اس کے متعلق حضرت اقدس مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’تمام دنيا کے مذہب والوں نے يا تو اصل خدا کو بالکل چھوڑ ديا ہے جيسا کہ عيسائي اور يا نا واجب صفات اور اخلاق ذميمہ اس کي طرف منسوب کروائے ہيں جيسا کہ يہودي اور يا واجب صفات سے اس کو عليحدہ کر ديا ہے جيسا کہ مشرکين اور آريہ۔ مگر اسلام کا خدا وہي سچا خدا ہے جو آئينہ قانون قدرت اور صحيفہ فطرت سے نظر آ رہا ہے۔ اسلام نے کوئي نيا خدا پيش نہيں کيا بلکہ وہي خدا پيش کيا ہے جو انسان کا نور قلب۔۔۔ اور زمين و آسمان پيش کر رہا ہے۔‘‘
(تبليغ رسالت جلد ششم صفحہ13۔14)
آئيں! اب ديکھتے ہيں اسلام نے خدا تعاليٰ کا کيا تصور پيش کيا ہے۔ حضرت اقدس مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’اے سننے والو سنو!! ۔۔۔ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھي زندہ ہے جيسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھي وہ بولتا ہے جيسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھي وہ سنتا ہے جيسا کہ پہلے سنتا تھا۔ يہ خيال خام ہے کہ اس زمانہ ميں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہيں۔ بلکہ وہ سنتا ہے اور بولتا بھي ہے، اس کي تمام صفات ازلي ابدي ہيں کوئي صفت بھي معطل نہيں اور نہ کبھي ہوگي۔‘‘
؎ وہ خدا اب بھي بناتا ہے جسے چاہے کليم
اب بھي اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پيار
پھر فرمايا: ’’وہ وہي واحد لا شريک ہے جس کا کوئي بيٹا نہيں اور جس کي کوئي بيوي نہيں وہ وہي بے مثل ہے جس کا کوئي ثاني نہيں۔۔۔ وہ قريب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دُور ہے باوجود نزديک ہونے کے۔ وہ تمثّل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئيں ظاہر کر سکتا ہے مگر اُس کے لئے نہ کوئي جسم ہے اور نہ کوئي شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہيں کہہ سکتے کہ اُس کے نيچے کوئي اور بھي ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہيں کہہ سکتے کہ زمين پر نہيں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد ّحقہ کا اور سر چشمہ ہے تمام خوبيوں کا۔ اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبدء ہے تمام فيضوں کا۔ اور مرجع ہے ہر ايک شَے کا۔ اور مالک ہے ہر ايک ُملک کا۔ اور متصف ہے ہر ايک کمال سے۔ اور ُمنزّہ ہے ہر ايک عيب اور ضعف سے۔۔۔ اُس کے آگے کوئي بات بھي اَنْ ہوني نہيں۔۔۔وہ اپني طاقتوں اور اپني قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئيں آپ ظاہر کرتا ہے اور اُس کو اسي کے ذريعہ سے ہم پا سکتے ہيں اور وہ راستبازوں پر ہميشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپني قدرتيں اُن کو دکھلاتا ہے اِسي سے وہ شناخت کيا جاتا۔۔۔ نيستي سے ہستي کرنا اُس کا کام ہے جيسا کہ تم ديکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ ميں بغير کسي مادہ کے ايک عالم پيدا کر ديتا ہے اور ہر ايک فاني اور معدوم کو موجود دکھلا ديتا ہے پس اسي طرح اس کي تمام قدرتيں ہيں۔ نادان ہے وہ جو اُس کي قدرتوں سے انکار کرے۔ اندھا ہے وہ جو اُس کي عميق طاقتوں سے بے خبر ہے۔
(رسالہ الوصيت، روحاني خزائن جلد20 صفحہ309۔310)
انسان پر اس کي قدرتوں کے ظہور کا رنگ
اللہ تعاليٰ اپني صفات کے ذريعے انسان پر اپني قدرتوں کي جلوہ گري کرتا ہے۔ اس نکتہ معرفت کو بيان کرتے ہوئے حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’ياد رہے کہ جس طرح ستارے ہميشہ نوبت بہ نوبت طلوع کرتے رہتے ہيں اسي طرح خدا کے صفات بھي طلوع کرتے رہتے ہيں۔ کبھي انسان خدا کے صفات جلاليہ اور استغناء ذاتي کے پرتوہ کے نيچے ہوتا ہے۔ اور کبھي صفات جماليہ کا پرتوہ اس پر پڑتا ہے۔ اسي کي طرف اشارہ ہے جو اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کُلَّ يَوۡمٍ ہُوَ فِيۡ شَاۡنٍ۔‘‘
(چشمہ مسيحي، روحاني خزائن جلد20 صفحہ369)
ايک اور زاويہ سے اس پر روشني ڈالتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں:
’’خدا تعاليٰ نے عاجز انسانوں کو اپني کامل معرفت کا علم دينے کے لئے اپني صفات کو قرآن شريف ميں دو رنگ پر ظاہر کيا ہے۔ اوّل اس طور پر بيان کيا ہے جس سے اُس کي صفات استعارہ کے طريق پر مخلوق کي صفات کي ہم شکل ہيں جيسا کہ وہ کريم رحيم ہے محسن ہے اور وہ غضب بھي رکھتا ہے اور اُس ميں محبت بھي ہے اور اُس کے ہاتھ بھي ہيں اور اُس کي آنکھيں بھي ہيں اور اس کي ساقين بھي ہيں اور اُس کے کان بھي ہيں۔ اِن تشبيہي صفات سے کسي کے دل ميں شبہ پيدا ہو سکتا تھا کہ گويا انسان ان صفات ميں خدا سے مشابہ ہے اور خدا انسان سے مشابہ ہے اس لئے خدا نے ان صفات کے مقابل پر قرآن شريف ميں اپني تنز يہي صفات کا بھي ذکر کر ديا يعني ايسي صفات کا ذکر کيا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کو اپني ذات اور صفات ميں کچھ بھي شراکت انسان کے ساتھ نہيں اور نہ انسان کو اس کے ساتھ کچھ مشارکت ہے۔ نہ اُس کا خَلَقْ يعني پيدا کرنا انسان کے خَلَقْ کي طرح ہے نہ اُس کا رحم انسان کے رحم کي طرح ہے نہ اُس کا غضب انسان کے غضب کي طرح ہے نہ اُس کي محبت انسان کي محبت کي طرح ہے نہ وہ انسان کي طرح کسي مکان کا محتاج ہے….. خدا کا اپني صفات ميں انسان سے بالکل عليحدہ ہونا قرآن شريف کي کئي آيات ميں تصريح کے ساتھ بيان کيا گيا ہے جيسا کہ ايک يہ آيت ہے لَيۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَيۡءٌ…. يعني کوئي چيز اپني ذات اور صفات ميں خدا کي شريک نہيں۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحاني خزائن جلد23، صفحہ272۔273)
ديگر مذاہب ميں اللہ تعاليٰ کي تشبيہي صفات
کو صحيح نہ سمجھنے کا نتيجہ
دنيا کي اکثريت خدا تعاليٰ کي تشبيہي صفات کو نہ سمجھنے کے باعث ٹھوکريں کھاتي رہي ہے اور مخلوق کو خالق کا مقام ديتي رہي ہے۔ حضرت مسيح موعودؑ کي عارفانہ تحقيق اس سلسلہ ميں حرف آخر کي حيثيت رکھتي ہے۔آپؑ فرماتے ہيں:
’’خدا تعاليٰ نے يہ بھي ہم پر کھول ديا ہے کہ سورج وغيرہ بذاتِ خود کچھ چيز نہيں ہيں يہ اسي کي طاقتِ زبردست ہے جو پردہ ميں ہر ايک کام کر رہي ہے۔ وہي ہے جو چاند کو پردہ پوش اپني ذات کا بنا کر اندھيري راتوں کو روشني بخشتا ہے جيسا کہ وہ تاريک دِلوں ميں خود داخل ہو کر ان کو منوّر کر ديتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے۔ وہي ہے جو اپني طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دِن کو ايک عظيم الشان روشني کا مظہر بنا ديتا ہے….. اسي کي طاقت آسمان سے برستي ہے جو مينہ کہلاتي ہے اور خشک زمين کو سر سبز کر ديتي ہے اور پياسوں کو سيراب کر ديتي ہے۔ اسي کي طاقت آگ ميں ہو کر جلاتي ہے اور ہوا ميں ہو کر دَم کو تازہ کرتي….. يہ اسي کي طاقت ہے کہ زمين کي شکل ميں مجسّم ہو کر نوع انسان اور حيوانات کو اپني پُشت پر اُٹھا رہي ہے مگر کيا يہ چيزيں خدا ہيں؟ نہيں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام ميں خدا کي طاقت ايسے طور سے پيوست ہو رہي ہے کہ جيسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگرچہ ہم کہہ سکتے ہيں کہ قلم لکھتي ہے مگر قلم نہيں لکھتي بلکہ ہاتھ لکھتا ہے يا مثلاً ايک لوہے کا ٹکڑا جو آگ ميں پڑ کر آگ کي شکل بن گيا ہے ہم کہہ سکتے ہيں کہ وہ جلاتا ہے اور روشني بھي ديتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کي نہيں بلکہ آگ کي ہيں۔ اسي طرح تحقيق کي نظر سے يہ بھي سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکي و عناصر ارضي بلکہ ذرّہ ذرّہ عالم سفلي اور علوي کا مشہود اور محسوس ہے، يہ سب باعتبار اپني مختلف خاصيتوں کے جو اُن ميں پائي جاتي ہيں خدا کے نام ہيں اور خدا کي صفات ہيں اور خدا کي طاقت ہے جو ان کے اندر پوشيدہ طور پر جلوہ گر ہے اور يہ سب ابتدا ميں اسي کے کلمے تھے جو اس کي قدرت نے ان کو مختلف رنگوں ميں ظاہر کر ديا….. يہي خدا کي معرفت کا ايک بھيد اور تمام نظام روحاني کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہي دنيا کي پيدائش ہے۔‘‘
(نسيم دعوت، روحاني خزائن جلد19 صفحہ423۔424)
اللہ تعاليٰ نے اپني ذات کا تعارف قرآن کريم ميں اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کے الفاظ ميں بيان فرماياہے۔ اس کي وضاحت ميں حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’خدا آسماں و زمين کا نور ہے۔ يعني ہر ايک نور جو بلندي اور پستي ميں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح ميں ہے خواہ اجسام ميں اور خواہ ذاتي ہے اور خواہ عرضي اور خواہ ظاہري ہے اور خواہ باطني اور خواہ ذہني ہے اور خواہ خارجي اسي کے فيض کا عطيہ ہے۔۔۔ وہي تمام فيوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔ اسي کي ہستي حقيقي، تمام عالم کي قيّوم اور تمام زير و زبر کي پناہ ہے۔ وہي ہے جس نے ہر ايک چيز کو ظلمت خانہِ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا۔‘‘
(براہين احمديہ، روحاني خزائن جلد1 صفحہ191 حاشيہ نمبر11)
حضرت سيدہ نواب مبارکہ بيگم ؓ فرماتي ہيں:
؎ مجھے ديکھ رفعت کوہ ميں مجھے ديکھ پستي کاہ ميں
مجھے ديکھ عجز فقير ميں مجھے ديکھ شوکت شاہ ميں
؎ نہ دکھائي دوں تو يہ فکر کر کہيں فرق ہو نہ نگاہ ميں
ميرا نور شکل ہلال ميں مرا حسن بدر کمال ميں
؎ کبھي ديکھ طرز جمال ميں کبھي ديکھ شان جلال ميں
رگ جاں سے ہوں ميں قريب تر
ترا دل ہے کس کے خيال ميں
خدا تعاليٰ کي قدرتوں کا مظہر بننے کے بعد
انسان ميں آنے والي تبديلي
انسان جب اپنے اندر خدا تعاليٰ کي تشبيہي صفات پيدا کر کے خدا تعاليٰ کي قدرتوں کا مظہر بنتا ہے تو جو حسن اس کي ذات ميں جلوہ گر ہوتا ہے اس کے متعلق حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’وہ روحاني حُسن جس کو حُسنِ معاملہ سے موسوم کيا گيا ہے وہ اپني کششوں ميں ايسا سخت اور زبردست ہے کہ ايک دنيا کو اپني طرف کھينچ ليتا ہے اور زمين و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کي طرف کھنچا جاتا ہے اور قبوليت دُعا کي بھي درحقيقت فلاسفي يہي ہے کہ جب ايسا رُوحاني حُسن والا انسان جس ميں محبتِ الٰہيہ کي رُوح داخل ہو جاتي ہے جب کسي غير ممکن اور نہايت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور ديتا ہے تو چونکہ وہ اپني ذات ميں حُسنِ رُوحاني رکھتا ہے اس لئے خدا تعاليٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کي طرف کھينچا جاتا ہے۔ پس ايسے اسباب جمع ہو جاتے ہيں جو اس کي کاميابي کے لئے کافي ہوں۔ تجربہ اور خدا تعاليٰ کي پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنيا کے ہر ايک ذرّہ کو طبعاً ايسے شخص کے ساتھ ايک عشق ہوتا ہے اور اُس کي دُعائيں اُن تمام ذرّات کو ايسا اپني طرف کھينچتي ہيں جيسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپني طرف کھينچتا ہے۔ پس غير معمولي باتيں جن کا ذکر کسي علمِ طبعي اور فلسفہ ميں نہيں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتي ہيں۔ اور وہ کشش طبعي ہوتي ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکيب دي ہے ہر ايک ذرّے ميں وہ کشش رکھي ہے اور ہر ايک ذرّہ رُوحاني حُسن کا عاشق صادق ہے اور ايسا ہي ہر ايک سعيد رُوح بھي۔ کيونکہ وہ حُسن تجلّي گاہِ حق ہے۔ وہي حُسن تھا جس کے لئے فرمايا گيا اُسْجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَ ؕ نوح ميں وہي حُسن تھا جس کي پاس خاطر حضرت عزت جلّ شانہٗ کو منظور ہوئي اور تمام منکروں کو پاني کے عذاب سے ہلاک کيا گيا۔ پھر اس کے بعد موسيٰ بھي وہي حُسن رُوحاني لے کر آيا جس نے چند روز تکليفيں اٹھا کر آخر فرعون کا بيڑا غرق کيا۔ پھر سب کے بعد سيّد الانبياء وخيرالوريٰ مولانا و سيدنا حضرت محمد مصطفي ٰصلي اللہ عليہ وسلم ايک عظيم الشان روحاني حُسن لے کر آئے جس کي تعريف ميں يہي آيت کريمہ کافي ہے۔ دَنَا فَتَدَلّٰي ۔فَکَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰي۔ يعني وہ نبي جنابِ الٰہي سے بہت نزديک چلا گيا۔ اور پھر مخلوق کي طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر ديا۔ اور دونوں قسم کا حُسن رُوحاني ظاہر کيا۔‘‘
(براہين احمديہ حصہ پنجم، روحاني خزائن جلد21 صفحہ220۔221)
خداتعاليٰ کي قدرتوں کا مظہر بننے پر خدا تعاليٰ کے اس سے تعلق ميں آنے والي تبديلي
حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں کہ جب انسان خدا تعاليٰ کي تشبيہي صفات کا مظہر بن جاتا ہے تو پھر خدا تعاليٰ کي قدرتيں اس پر کس طرح ظاہر ہوتي ہيں:
’’بندہ تو حُسنِ معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھري ہوئي محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعاليٰ اس کے مقابلہ پر حد ہي کر ديتا ہے اس کي تيز رفتار کے مقابل پر برق کي طرح اس کي طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمين و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھي اُس کي مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ايسا ذليل اور بے دست و پا کر ديتا ہے جيسا کہ ايک مرا ہوا کيڑا۔ اور محض ايک شخص کي خاطر کے لئے ايک دنيا کو ہلاک کر ديتا ہے اور اپني زمين و آسمان کو اس کے خادم بنا ديتا ہے اور اس کے کلام ميں برکت ڈال ديتا ہے اور اس کے تمام درو ديوار پر نور کي بارش کرتا ہے اور اُس کي پوشاک اور اُس کي خوراک ميں اور اس مٹي ميں بھي جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ايک برکت رکھ ديتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہيں کرتا۔ اور ہر ايک اعتراض جو اس پر ہواُس کا آپ جواب ديتا ہے۔ وہ اُس کي آنکھيں ہو جاتا ہے جن سے وہ ديکھتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کي زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے۔ وہ اُس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شريروں پر جو اُس کو دُکھ ديتے ہيں آپ تلوار کھينچتا ہے۔ ہر ميدان ميں اس کو فتح ديتا ہے اور اپني قضاء و قدر کے پوشيدہ راز اس کو بتلاتا ہے۔‘‘
(براہين احمديہ حصہ پنجم، روحاني خزائن جلد21 صفحہ225)
؎ سر سے ميرے پاؤں تک وہ يار مجھ ميں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
’’حقيقي خدا داني تمام اسي ميں منحصر ہے کہ اس زندہ خدا تک رسائي ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہايت صفائي سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپني پُر شوکت اور لذيذ کلام سے اُن کو تسلي اور سکينت بخشتا ہے اور جس طرح ايک انسان دوسرے انسان سے بولتا ہے ايسا ہي يقيني طور پر جو بکلي شک و شبہ سے پاک ہے اُن سے باتيں کرتا ہے اُن کي بات سنتا ہے اور اُس کا جواب ديتاہے اور اُن کي دعاؤں کو سن کر دُعا کے قبول کرنے سے اُن کو اطلاع بخشتا ہے اور ايک طرف لذيذ اور پُر شوکت قول سے اور دوسري طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قوي اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر ديتا ہے کہ ميں ہي خدا ہوں۔ وہ اوّل پيشگوئي کے طور پر اُن سے اپني حمايت اور نصرت اور خاص طور کي دستگيري کے وعدے کرتا ہے اور پھر دوسري طرف اپنے وعدوں کي عظمت بڑھانے کيلئے ايک دنيا کو اُن کے مخالف کر ديتا ہے۔ اور وہ لوگ اپني تمام طاقت اور تمام مکرو فريب اور ہر ايک قسم کے منصوبوں سے کوشش کرتے ہيں کہ خدا کے اُن وعدوں کو ٹال ديں جو اُس کے ان مقبول بندوں کي حمايت اور نصرت اور غلبہ کے بارے ميں ہيں اور خدا ان تمام کوششوں کو برباد کرتا ہے……وہ آگ لگاتے ہيں اور خدا اُس کو بجھا ديتا ہے۔ وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہيں آخر خدا اُن کے منصوبوں کو اُنہي پر اُلٹا کر مارتا ہے خدا کے مقبول اور راستباز نہايت سيدھے اور سادہ طبع اور خدا تعاليٰ کے سامنے اُن بچوں کي طرح ہوتے ہيں جو ماں کي گود ميں ہوں اور دنيا اُن سے دشمني کرتي ہے کيونکہ وہ دنيا ميں سے نہيں ہوتے اور طرح طرح کے مکر اور فريب اُن کي بيخ کني کيلئے کئے جاتے ہيں۔ قوميں اُن کے ايذا دينے کيلئے متفق ہو جاتي ہيں اور تمام نااہل لوگ ايک ہي کمان سے اُن کي طرف تير چلاتے ہيں۔ اور طرح طرح کے افترا اور تہمتيں لگائي جاتي ہيں تا کسي طرح وہ ہلاک ہو جائيں اور اُن کا نشان نہ رہے مگر آخر خدائے تعاليٰ اپني باتوں کو پوري کر کے دکھلا ديتا ہے…… يہ خدا ہے جس کے ان قولي فعلي تجلّيات کے بعد جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتي ہيں اور نہايت قوي اثر دل پر کرتي ہيں انسان کو سچا اور زندہ ايمان نصيب ہوتا ہے اور ايک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہو کر نفساني غلاظتيں دُور ہو جاتي ہيں۔ اور تمام کمزورياں دُور ہو کر آسماني روشني کي تيز شعاعوں سے اندروني تاريکي الوداع ہوتي ہے اور ايک عجيب تبديلي ظہور ميں آتي ہے۔‘‘
(براہين احمديہ حصہ پنجم، روحاني خزائن جلد21 صفحہ31۔32)
؎قدرت سے اپني ذات کا ديتا ہے حق ثبوت
اس بے نشان کي چہرہ نمائي يہي تو ہے
؎ جس بات کو کہے کہ کروں گا يہ ميں ضرور
ٹلتي نہيں وہ بات خدائي يہي تو ہے
لفظ ’’انسان‘‘ کے حقيقي معنوں کي رو سے انسانيت کي معراج پانے والي ذات ہمارے آقا و موليٰ حضرت محمد مصطفيٰ ﷺ کي ذات اقدس ہي ہے۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں ’’ہمارے سيد و موليٰ محمد مصطفے ﷺ کے دس لاکھ کے قريب قول و فعل ميں سرا سر خدائي کا ہي جلوہ نظر آتا ہے۔‘‘
(آئينہ کمالات اسلام، روحاني خزائن جلد5 صفحہ116)
اس لئے اگر خدا تعاليٰ کي کامل قدرتوں کا اثر انسان پر ديکھنا تو اس کا جلوہ پوري شان سے صرف انسان کامل کي بابرکت ذات ميں ہي نظر آئے گا چنانچہ حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں: ’’ہمارے سيّد و موليٰ سيّد الرسل حضرت خاتم الانبياء صلي اللہ عليہ وسلم نے جنگ بدر ميں ايک سنگريزوں کي مٹھي کفار پر چلائي اور وہ مٹھي کسي دعا کے ذريعہ سے نہيں بلکہ خود اپني روحاني طاقت سے چلائي مگر اس مٹھي نے خدائي طاقت دکھلائي اور مخالف کي فوج پر ايسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئي ان ميں سے ايسا نہ رہا کہ جس کي آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کي طرح ہوگئے اور ايسي سراسيمگي اور پريشاني ان ميں پيدا ہوگئي کہ مدہوشوں کي طرح بھاگنا شروع کيا۔ اِسي معجزہ کي طرف اللہ جلّ شانہٗ اس آيت ميں اشارہ فرماتا ہے۔ وَ مَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰي۔ (الانفال: 18) يعني جب تونے اس مٹھي کو پھينکا وہ تونے نہيں پھينکا بلکہ خدا تعاليٰ نے پھينکا۔ يعني در پردہ الٰہي طاقت کام کر گئي۔ انساني طاقت کا يہ کام نہ تھا۔ اور ايسا ہي دوسرا معجزہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا جو شقّ القمر ہے اسي الٰہي طاقت سے ظہور ميں آيا تھا کوئي دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھي کيونکہ وہ صرف انگلي کے اشارہ سے جو الٰہي طاقت سے بھري ہوئي تھي وقوع ميں آگيا تھا۔ اور اس قسم کے اور بھي بہت سے معجزات ہيں جو صرف ذاتي اقتدار کے طور پر آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئي دعا نہ تھي۔ کئي دفعہ تھوڑے سے پاني کو جو صرف ايک پيالہ ميں تھا اپني انگليوں کو اس پاني کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زيادہ کرديا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پاني پيا اور پھر بھي وہ پاني ويسا ہي اپني مقدار پر موجود تھا اور کئي دفعہ دو چار روٹيوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پياسوں کا ان سے شکم سير کر ديا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ايک جماعت کا پيٹ اس سے بھر ديا اور بعض اوقات شور آب کنوئيں ميں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہايت شيريں کر ديا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر ديا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈيلے لڑائي کے کسي صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کي برکت سے پھر درست کرديا۔ ايسا ہي اور بھي بہت سے کام اپنے ذاتي اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ايک چھپي ہوئي طاقت الٰہي مخلوط تھي۔۔۔ہمارے نبي ﷺ کے اقتداري خوارق ميں چونکہ طاقت الہي سب سے زيادہ بھري ہوئي تھي کيونکہ وجود آنحضرت ﷺ کا تجلّيات الہٰيہ کے لئے اتم و اعليٰ و ارفع و اکمل نمونہ تھا۔۔۔‘‘
(آئينہ کمالات اسلام، روحاني خزائن جلد5 صفحہ65۔66)
خدا تعاليٰ کے انسان پر قدرتوں کے ظہور پر روشني ڈالتے ہوئے حضرت امير المؤمنين خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:
’’ہم جانتے ہيں اللہ تعاليٰ اپني ہستي کو اپني صفات سے ہم پر ظاہر فرماتا ہے اور مومن بندوں کو بھي اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ ميرا رنگ پکڑو، ميرے رنگ ميں رنگين ہو۔ ميري صفات اختيار کرو، تبھي تم ميرے حقيقي بندے کہلا سکتے ہو۔ اللہ تعاليٰ کے اس ارشاد کي اعليٰ ترين مثال کوئي شک نہيں کہ آنحضرتؐ کے علاوہ کسي اور فرد ميں نہيں پائي جاسکتي۔ کيونکہ آپؐ ہي اللہ تعاليٰ کے وہ پيارے ہيں جس کے نور سے ايک دنيا نے فيض پايا، فيض پا رہي ہے اور ان شاء اللہ فيض پاتي چلي جائے گي تاکہ اپنے پيدا کرنے والے کي پہچان کر سکيں۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے آنحضرتؐ کي ذات بابرکات کا نقشہ اس طرح کھينچا ہے۔‘‘ وہ انسان جس نے اپني ذات سے، اپني صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحاني اور پاک قويٰ کے پُرزور دريا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلايا اور انسان کامل کہلايا…وہ انسان جوسب سے زيادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبي تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آيا جس سے روحاني بعث اور حشر کي وجہ سے دنيا کي پہلي قيامت ظاہر ہوئي اور ايک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گيا۔وہ مبارک نبي حضرت خاتم الانبياء، امام الاصفياء، ختم المرسلين، فخرالنبيين جناب محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وسلم ہيں۔ اے پيارے خدا! اس پيارے نبي پر وہ رحمت اور درود بھيج جو ابتداء دنيا سے توُ نے کسي پر نہ بھيجا ہو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَيْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖٓ اَجْمَعِيْنَ۔ ‘‘۔ (اتمام الحجة، روحاني خزائن جلد8 صفحہ308) پس يہ ہيں ہمارے نبيؐ جنہوں نے خداتعاليٰ سے محبت کي وجہ سے اللہ تعاليٰ کے رنگ ميں رنگين ہو کر اللہ تعاليٰ کي صفات کا حقيقي پرتو بن کر دکھايا۔
(خطبہ جمعہ 23؍فروري 2007ء)
زندہ خدا کي قدرتوں کا مظہر بننے کا ذريعہ
انسان کسي بھي کام کے لئے فطرتا نمونہ کا محتاج ہے۔ حضرت اقدس مسيح موعودؑ اس نکتہ معرفت کو يوں بيان فرماتے ہيں: ’’نبي خدا کي صورت ديکھنے کا آئينہ ہوتا ہے اسي آئينہ کے ذريعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب خدا تعاليٰ اپنے تئيں دنيا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبي کو جو اس کي قدرتوں کا مظہر ہے دنيا ميں بھيجتاہے اور اپني وحي اس پر نازل کرتا ہے اور اپني ربوبيت کي طاقتيں اس کے ذريعہ سے دکھلاتا ہے۔ تب دنيا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ وہي ايک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذريعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقيق در دقيق اور مخفي در مخفي اور غيب الغيب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہميشہ سے وہ کنزِ مخفي جس کا نام خدا ہے نبيوں کے ذريعہ سے ہي شناخت کيا گيا ہے۔‘‘
(حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ115۔116)
خدا تعاليٰ کي قدرتوں کا مظہر بنانے کا مشن اس زمانہ ميں خدائي وعدہ اور حضرت محمد مصطفيﷺ کي پيشگوئي کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادياني مسيح موعودؑ کے سپرد کيا گيا اور اب آپؑ ہي اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفيﷺ کے ظل کامل کے طور پر انسان کو خدا تعاليٰ کي قدرتوں کا مظہر بنانے والے ہيں جس کا اعلان عام کرتے ہوئے فرمايا:
؎مسيح وقت اب دنيا ميں آيا
خدا نے عہد کا دن ہے دکھايا
مبارک وہ جو اب ايمان لايا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پايا
وہي مے ان کو ساقي نے پلا دي
فسبحان الذي اخزي الاعادي
منظوم فارسي کلام ميں فرماتے ہيں:
احمد آخر زماں نام من است
آخريں جامے ہميں جام من است
صاحب ’’احمد آخر زماں‘‘ ميرا نام ہے اور ميرا جام ہي دنيا کے لئے آخري جام ہے۔
خدا تعاليٰ کي معرفت کا جام جو انسان کو خدا تعاليٰ کي قدرتوں کي جلوہ گاہ بناتا ہے وہ اس زمانے ميں حضرت مسيح موعودؑ کے ذريعے گردش ميں آيا ہے۔ اس لئے اے خدا تعاليٰ کے ديدار کي پياسي روحو! خوش ہو جاؤ اور سجدات ِشکر بجا لاؤ! کہ خدا تعاليٰ نے اپني ذات کي معرفت کا جام، جو خدا تعاليٰ کي قدرتوں کے مظہر بنانے کا جام ہے اب قيامت تک کے لئے خلافت احمديہ کے سپرد کر ديا ہے۔ يہ جام خدا کي لقاء کا جام ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں: ’’ہمارے خدا ميں بے شمار عجائبات ہيں مگر وہي ديکھتے ہيں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہيں۔ وہ غيروں پر جو اس کي قدرتوں پر يقين نہيں رکھتے اور اس کے صادق وفادارنہيں ہيں وہ عجائبات ظاہر نہيں کرتا۔ کيا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک يہ پتہ نہيں کہ اُس کا ايک خدا ہے جو ہر ايک چيز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماري اعليٰ لذّات ہمارے خدا ميں ہيں۔ کيونکہ ہم نے اس کو ديکھا اور ہر ايک خوبصورتي اس ميں پائي۔ يہ دولت لينے کے لائق ہے اگرچہ جان دينے سے ملے۔ اور يہ لعل خريدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کي طرف دوڑو کہ وہ تمہيں سيراب کرے گا يہ زندگي کا چشمہ ہے جو تمہيں بچائے گا۔‘‘
(کشتي نوح، روحاني خزائن جلد19 صفحہ21۔ 22)
(مبارک احمد تنویر۔مبلغ سلسلہ جرمنی)