• 21 ستمبر, 2025

چوہدری محمد صدیق بھٹی مرحوم

خاکسار کے والد محترم جناب چوہدری محمد صدیق بھٹی مورخہ 27 اکتوبر 2021ء کو بقضائے الہی وفات پا گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 77 برس تھی۔آپ ہندوستان میں قادیان کے پاس گاؤں بابا بک والا میں پیدا ہوئے۔آپ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ 29 اکتوبر کو ایک بجے مکرم مفتی سلسلہ جناب مبشر احمد کاہلوں نے بہشتی مقبرہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد دعا کروائی۔چونکہ آپ کے بیٹے بیرون ممالک سے جنازہ میں شرکت کے لئے آ رہے تھے اس لئے آپ کے جسد خاکی کو ربوہ سرد خانہ میں شفٹ کر دیا گیا۔ گاؤں سے روانگی کے وقت امیر صاحب ضلع کے حکم پر خاکسار نے اپنے والد صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی۔

محترم والد صاحب کو لمبا عرصہ تک گاؤں کے صدر جماعت کے طور پر خدمت کی تو فیق ملی۔وفات سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو دل کا عارضہ لاحق ہوا جس کا علاج تو ہوگیا تھالیکن آپ کافی کمزور ہوگئے تھے۔ اسی دوران ہماری والدہ صاحبہ کی بھی وفات ہو گئی۔یوں52 سالہ رفاقت کا ساتھ ٹوٹا توآپ خاموشی سے صاحب فراش ہو گئے۔۔آپ انتہائی کم گو،حلیم طبع اور صلح جو طبیعت کے مالک تھے ہم نے آپ کو کبھی کسی کے خلاف باتیں نہیں کرتے سنا۔اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو خاص وصف عطا فرمایا تھا وہ تھا آپ کا تعلق باللہ اور راضی بالرضا رہنے کی عادت۔ آپ اپنی مشکلات کو کبھی کسی سے بیان نہیں کرتے۔صرف آپ کی تہجد کی گریہ زاری اور اپنے مولا کے حضور دعاؤں سے ہمیں پتہ چلتا تھا کہ گھر میںکوئی مسئلہ در پیش ہے۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے لیکن ہم نے آپ کی زبان سے کبھی کسی محرومی کا گلہ شکوہ نہیں سنا۔یعنی نہ صرف کبھی شکوہ شکایت کرتے نہیں دیکھا بلکہ چغلی اور غیبت سے تو سخت نفرت کرتے تھے۔ اپنے بچوں سے دوستوں جیسا سلوک تھا۔بلکہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم بہن بھائی ہی ابو کے دوست تھے۔ آپ نام کے ہی نہیں عملاَ صدیق انسان تھے۔ کبھی کسی سے دھوکہ نہیں کیا ہمیشہ سچ بولا اور سچ بولنے کی ہی تلقین کی اور یہی بات اپنی اولاد کو بھی سکھائی۔

اپنے تمام رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے اور خاص طور پر جو ہمارے غیر احمدی رشتہ دار تھے ان سے کبھی منہ نہیں پھیرا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ انہوں نے شدید زیادتی بھی کی لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہمارے ان غیر احمدی عزیزوں کو والد صاحب کی مدد کی ضرورت پڑی ہو اور انہوں نے انکار کر دیا ہو۔ابو جان کے ایک غیر احمدی رشتہ دار جو مولویوں کے لئے خاص گوشہ رکھتے ہیں۔ کئی دفعہ ہم نے ان کو بد زبانی کرتے دیکھا پھر قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی زرعی زمین بیچنا شروع کر دی اور کرتے کرتے تمام زمین بیچ دی یہاں تک کہ ایک مرلہ زمین بھی نہ چھو ڑی۔ انہیں صاحب کا ایک بیٹا جو کچھ حد تک معذور تھا۔پڑھ لکھ بھی نہیں سکا تھا ایک بھینس رکھی ہوئی تھی جس کا دودھ بیچ کر وہ اپنے بچوں کا گزارا کرتا تھا۔ اب وہ بچہ روتا ہوا ابو جان کے پاس آیا کہ اب میں کہاں جاؤں والد نے تو میرے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ باقی بھائی تو صحت مند ہیں فیکٹریوں میں ملازمت کرنے لگ گئے ہیں میں تو وہ بھی نہیں کر سکتا۔ ابو جان نے فورا اپنی انتہائی قیمتی زمین میں سے نصف ایکڑ اس کو دے دی اور ہمیں یہ نصیحت کی کہ جب تک اس کے بچے بڑے نہیں ہو جاتے اس سے یہ زمین واپس نہیں لینا۔وہ لڑکا فوت ہو چکا لیکن زمین آج بھی اس کے بچوں کے پاس ہے جس سے وہ اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

جماعت اور جماعت سے متعلقہ ہر کام آپ کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔ ہم گھر میں چھ بھائی اور دو بہنیں تھے۔ اس وجہ سے والد صاحب کو کبھی گھر میں کام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن ہم نے دیکھا کہ کوئی جماعتی مہمان آجائے تو وہ اس طرح سے خدمت کے لئے بے چین پھر رہے ہوتے تھے اور ان کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ خود کھانے لے جا کر مہمان کو پیش کریں۔ جماعتی املاک کی حفاظت اپنی ذاتی اشیا سے بڑھ کر کرتے تھے۔معلمین اور مربیان کے لئے دل میں خاص احترام رکھتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد سے رحم و مغفرت کا سلوک فرمائے۔انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ہم وارثین کو ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

(اصغر علی بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ