• 30 اپریل, 2024

پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیارا دیس ربوہ

پىارے آقا حضرت  مرزا مسرور احمد اىدہ اللہ تعالىٰ کا پىارا دىس ربوہ
’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘

اىڈىٹر صاحب روزنامہ الفضل آن لائن لندن کا شاندار تارىخى مضمون ’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا ۔پىارے امام عالى مقام سىدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز کے مبارک ارشاد ’’لوگ کہتے ہىں کہ لاہور، لاہور اے۔ پر ربوہ، ربوہ اى اے‘‘ نے اہلِ ربوہ کو اىک اعزاز، رتبہ بخش دىا۔دل خوشى سے بھر گىا۔ ربوہ کى خوبصورت ىادوں کے چراغ جلنے لگے۔ اس وقت گلى گلى ،محلہ محلہ  اور گھر گھر مىں اىثاروقربانى، وفاواخلاص ،اپنائىت ومہمان نوازى کے اىسے نمونے نظر آتے تھے جن کى ىادىں آج بھى مىرے ساتھ ہىں۔ خصوصاً جلسہ کے دنوں مىں اہلِ ربوہ اپنا سارا گھر مہمانوں کى خدمت مىں پىش کردىتےتھے۔اہلِ ربوہ کى خوشىاں بھى اور دکھ بھى سانجھے ہوتے تھے۔

ربوہ کى نہ بھولنے والى صبحىں وشامىں ىاد آگئىں جب ہر گھر سے صبح صبح قرآن مجىد کى تلاوت کى آوازىں آتى تھىں۔ علىٰ الصبح لڑکوں کى ٹولىاں ہر دروازے پر دستک دىتى تھىں۔اور صَلِّ عَلٰى نَبِىِنَاصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ کى آوازىں کانوں مىں سنائى دىتى تھىں۔ اس وقت ہم کوارٹر صدر انجمن دارالصدرشرقى (بالمقابل فضلِ عمر ہسپتال) مىں رہائش پذىر تھے۔

ہمسائىگى کا اىسا تعلق تھا کہ رشتہ دارى اس کے سامنے ماند پڑجائے۔ دوسرے کے بچے کو اپنے بچے سے زىادہ محبت دى جاتى تھى۔ مجھے ىاد ہے مىرى والدہ(جن کو علم سے بڑى محبت تھى) محلہ کے ہر اس بچے کو جو پڑھائى مىں نالائق ہوتا اس کو لے کرپڑھانے بىٹھ جاتى تھىں۔ ہمارے ساتھ والے گھر مىں محترم منور کاٹھگرى کى بىگم نصرت خالہ مجھ سے بڑى محبت کرتى تھىں اور جب مىں انکے گھر جاتى مجھے کھانا کھلا کر بھىجتى تھىں ۔بعض دفعہ گھر آکر امى سے بھى  ڈانٹ سے  تواضع ہوتى کہ کھانا گھر مىں کھاىا کرو۔مگر محبت کا اىسا سچا تعلق تھا کہ مىں اگلے دن پھر ان کے گھر ہوتى۔

پھر اس محلہ مىں محترم سىد عبدالحئى شاہ مرحوم ناظر اشاعت صدرانجمن احمدىہ اور محترم راجہ محمد ىعقوب مرحوم صدر محلہ جىسے فرشتہ صفت بزرگوں کى مجھ پر شفقتىں بھى ىاد ہىں ۔ىہ مىرا بىٹىوں کى طرح خىال رکھتے تھے۔ محترم سىد عبدالحئى مرحوم  کا اىک 8 ۔10 سالہ بچى سے شفقت کا سلوک دىکھىں کہ جب کبھى وہ مجھے اسکول سے اکىلا گھر واپس آتا دىکھتے (کسى وجہ سے بہنىں ساتھ نہ ہوتىں) تو مجھے مىرے گھر تک چھوڑنے آتے تھے۔

مىرى والدہ کى وفات کے بعد ہمارے پڑوسى محترمہ نعىمہ حمىد (جو ہمارے نصرت گرلز اسکول مىں فزکس اور کىمسٹرى کى استاد بھى تھىں) اہلىہ محترم حمىداللہ خان نے مجھے بتاىا کہ مىں تمہارى امى کے احسانات کبھى نہىں اتار سکتى۔ مىں اسکول سے جب دوپہر کو واپس آتى تھى تو ان کى طرف سے دىوار پہ گرم گرم کھانے کى ٹرے رکھى ہوتى اور تمہارى امى بڑى محبت سے مجھے کہتى تھىں کہ تم تھکى ہوئى اسکول سے آئى ہو ،ىہ کھانا کھا لو۔

پھر خلافت لائبرىرى ربوہ کے ہم پر احسانات ہىں ۔مىرے والد  محترم محمدىوسف سلىم ملک مرحوم کا اس مىں دفتر شعبہ زود نوىسى کا ہوتا تھا۔ مىں اور مىرى سہىلى ڈاکٹر امۃ الحئى نعىم (جو اب اللہ تعالىٰ کے فضل سے احمدىہ مسلم ہاسپٹل ASOKORE غانا مىں خوب خدمتِ انسانىت بجا لارہى ہىں) اسکول سے چھٹى کے بعد لائبرىرى کى کوئى کتاب، رسالہ نہ چھوڑتے تھے۔ ساتھ مىرے والد صاحب کى برفى،گلاب جامن اور سمو سو ں کى ٹرىٹ ہوتى تھى۔ہمارا علم بڑھانے مىں اس لائبرىرى کا بہت کردار ہے۔

پھر اس دور مىں بزرگوں کا بے انتہا احترام کىا جاتا تھا۔ ہمارے محلہ مىں حضرت قاضى عبداللہ مرحوم (صحابى حضرت مسىحِ موعودؑ) کى بىوہ محترمہ رشىدہ بىگم رہتى تھىں جن کو سب خالہ جى کہتے تھے جو بڑى نىک اور بزرگ خاتون تھىں وہ بچوں کو قرآن ِ مجىد پڑھاتى تھىں۔ ان کى اولاد نہىں تھى۔ مىرى امى اور محلہ کى خواتىن ان کى بہت تکرىم کرتى تھىں۔ مىرى والدہ انکا بىٹىوں کى طرح خىال رکھتى تھىں اور ہمىں بھى ہداىت تھى کہ خالہ جى کا خىال رکھنا ہے۔ مىرى والدہ اپنى وفات تک (جو 2011ء مىں ہوئى) خالہ جى کا چندہ تحرىک جدىد (مرحومىن) دىتى رہىں۔ مىرى والدہ کى وفات کے بعد اب ان کا ىہ چندہ ہمارى فىملى کى طرف سے جارى ہے. الحمدللّٰہ ىہ الٰہى جماعت کى برکات ہىں۔

کوارٹرز صدرانجمن  کے احاطہ مىں ہم سہىلىاں خوب کھىلتى تھىں مگر ىہ ہداىت تھى کہ مغرب سے پہلے گھر آنا ہے۔ربوہ کى ستاروں سے بھرى راتىں ابھى تک ذہن مىں نقش ہىں ۔ہم رات کو ستارے گنتے گنتے سوجاتے تھے۔(اب پاکستان مىں اپنے اس مشہور ترىن شہر مىں رات کو ستارے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آنکھىں تھک جاتى ہىں مگرمشکل سے 5۔6 ستارے ہى نظر آتے ہىں)

پھر اپنے پىارے نصرت گرلز ہائى اسکول کى بھى بڑى خوبصورت ىادىں ہىں۔صبح صبح اسمبلى مىں دعائىں پڑھائى جاتىں۔پھر قومى ترانہ ہوتا۔اور سب سے بڑھ کر قابل ،ہمدرد اور لائق اساتذہ ہوتى تھىں  جن کى انتھک محنت سے مىں اور مىرى سہىلىاں(امۃ الحئى ،سعدىہ ، مارىہ ، ثروت) ان سے فىضىاب ہوئىں ۔اب جب مىں اپنے بچوں کى اسکول کى پڑھائىوں کا حال دىکھتى ہوں اور اس ملک مىں شعبہ تعلىم کو روبہ زوال دىکھتى ہوں تو اپنى محسن اساتذہ کے لئے دل سے دعائىں نکلتى ہىں اور ىہ شعر ان کے لئے زبان پر آتا ہے

؎ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کو نہىں ناىاب ہىں ہم

اللہ تعالىٰ مىرى قابلِ احترام اساتذہ جن مىں محترمہ مسعودہ عزىز (ہمدرد اورخىال رکھنے والى) ، فزکس اور  کىمسٹرى کى استاد محترمہ نعىمہ حمىد (انتہائى ذمہ دار وقابل)، انگلش کى استاد محترمہ صالحہ بشرىٰ صاحبہ (خوش لِباس)، اردو کى استاد محترمہ محمودہ اختر (خوش مزاج)، Math کى استاد محترمہ بشرىٰ نسرىن (انتہائى ڈسپلن والى)، اسلامىات اردو کى استاد محترمہ صادقہ کرىم (فرشتہ صفت)، Math کى استاد محترمہ امۃ الحفىظ (انتہائى محنتى)، بىالوجى کى استاد محترمہ بشرىٰ اللہ بخش (شفىق)، ہوم اکنامکس کى استاد محترمہ طاہرہ سلطانہ (مسکراتا چہرہ)، انگلش کى استاد محترمہ مسز سىال (منکسر المزاج) اور دىگر تمام اساتذہ کو بہترىن جزا دے۔ آمىن

آج کل نفسا نفسى ومادىت  پرستى کے دور مىں ضرورت اس امر کى ہے کہ ربوہ کے محبت ،اپنائىت ، اىثار و قربانى کے  رنگ ہر ملک ملک ،شہر شہر  جہاں جہاں احمدى آباد ہىں (ىہ رنگ) ہر سو بکھىر دىں تاکہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسىحِ موعودؑ بانى سلسلہ احمدىہ کے احکام کى تعمىل ہو۔آپؑ فرماتے ہىں

خدا تعالىٰ کے دو حکم ہىں ۔اول ىہ کہ اس کے ساتھ کسى کو شرىک نہ کرو اور دوسرے نوعِ انسان سے ہمدردى کرو۔اور احسان سے ىہ مراد نہىں کہ اپنے بھائىوں اور رشتہ داروں ہى سے کرو بلکہ کوئى ہو،آدم زاد ہو۔اور خدا تعالىٰ کى مخلوق مىں کوئى بھى ہومت خىا ل کرو کہ وہ ہندو ہے ىا عىسائى۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ130)

اللہ کرے کہ پورى دنىا مىں احمدىت کى سچائى ،اخلاص ووفا کے رنگ پھىلتے ہى چلے جائىں۔ آمىن۔ کىونکہ

’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘

(مرىم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

تقریب آمین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 نومبر 2021