• 28 اپریل, 2024

انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز مزىد فرماتے ہىں:

حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو بھى ہمىشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپؑ فرماتے ہىں:
’’جب تک دل فروتنى کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہرى سجدوں پر امىد رکھنا طمع خام ہے۔‘‘ ىونہى جھوٹى خواہش ہے کہ ہم بڑے سجدے کر رہے ہىں اور ہمارى دعائىں اللہ تعالىٰ قبول کر لے۔ فرماىا: ’’جىسا کہ قربانىوں کا خون اور گوشت خدا تک نہىں پہنچتا صرف تقوىٰ پہنچتى ہے، اىسا ہى جسمانى رکوع و سجود بھى ہىچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قىام نہ ہو۔‘‘ فرماىا ’’دل کا قىام ىہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع ىہ کہ اس کى طرف جھکے اور سجود ىہ کہ اس کىلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانى خزائن جلد6 صفحہ398)

پس حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کى ہم سے، اپنے ماننے والوں سے، اپنى جماعت سے ىہ خواہش ہے کہ تقوىٰ کا مقام حاصل ہو اور اس کے لئے بڑے درد سے آپ نے ىہ دعا فرمائى۔ اللہ کرے ہم اس مقام کو حاصل کرنے والے بنىں۔ ہمارے دنىا کے دھندوں مىں بہت زىادہ پڑ جانے اور تقوىٰ سے دور ہونے کى وجہ سے ہم حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کے انقلابى مشن مىں روک پىدا کرنے والے نہ بن جائىں۔ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کى پامالى کرنے والے نہ بن جائىں۔ ہم آپ کى روح کے لئے تکلىف کا باعث نہ بن جائىں۔ پس اس جلسے کى برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کى خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ہر احمدى کو اىک نئے عزم کے ساتھ ىہ عہد کرنا چاہئے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنى چاہئے کہ ہم اپنے معىارِ تقوىٰ کو بڑھاتے چلے جانے کى کوشش کرتے چلے جائىں گے۔

تقوىٰ کے راستوں کى تلاش کے لئے قرآنِ کرىم نے جو ہمىں تعلىم دى ہے اور اىک حقىقى مومن کا جو معىار بىان فرماىا ہے اُس کى تلاش کر کے اور اُس پر عمل کر کے ہى ہم ىہ معىار حاصل کر سکتے ہىں جس کى توقع حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کى ہے۔ قرآنِ کرىم مىں تقوىٰ پر چلنے کے بارے مىں مختلف حوالوں سے، مختلف نہج سے بىشمار جگہ ذکر ہے جن مىں سے بعض کا مىں ىہاں ذکر کروں گا تا کہ ہم مىں سے ہر اىک کو اپنے جائزے لىنے کى طرف توجہ رہے۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل: 3) مىرے سوا کوئى معبود نہىں، پس مىرا تقوىٰ اختىار کرو۔ تقوىٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پىچھے آنا، گناہوں سے بچاؤ کے سامان کرنا، مشکلات سے بچنے کے سامان کرنا۔ پس اللہ تعالىٰ فرماتا ہے مىرى عبادت اگر اُس کا حق ادا کرتے ہوئے کرو گے تو ىہى تقوىٰ ہے جو تمہارى ہر طرح سے حفاظت کرے گا، تمہىں گناہوں سے بچائے گا، تمہىں مشکلات سے نکالے گا۔ واضح ہو کہ اللہ تعالىٰ کى عبادت جب اُس کے حق کے ساتھ کى جائے تو ىہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالىٰ کا خوف اور خشىت پىدا ہوتى ہے لىکن ىہ خوف اُس پىار کى وجہ سے ہے جو اىک حقىقى عابد اور اىک حقىقى مؤمن کو خدا تعالىٰ سے ہے اور اس کو دوسرے لفظوں مىں تقوىٰ کہتے ہىں۔ پس ان عبادتوں کا حق ادا کرنے کى کوشش اىک حقىقى احمدى کو کرنى چاہئے تا کہ تقوىٰ پر چلنے والا اور خدا تعالىٰ کى رضا حاصل کرنے والا کہلا سکے اور ىہى انسانى پىدائش کا بہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِىَعْبُدُوْنِ (الذارىات: 57) اور مَىں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنى عبادت کے لئے پىدا کىا ہے۔

حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہىں:
’’اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنى کوتاہ فہمى ىا پست ہمتى سے مختلف طور کے مدّعا اپنى زندگى کے لئے ٹھہراتے ہىں‘‘۔ اور ہم دىکھتے ہىں کہ آجکل بلکہ ہمىشہ سے ہى ىہ اصول رہا ہے کہ انسان اپنى زندگى کے مقصد خود بناتا ہے ىا سمجھتا ہے کہ مىں نے ىہ مقصد بنائے ہىں اور ىہى مىرى کامىابى کا راز ہىں۔ اور اُس اصل مقصد کو بھول جاتا ہے جو خدا تعالىٰ نے انسان کى پىدائش کا انسان کو بتاىا ہے۔ فرماتے ہىں ’’پست ہمتى سے مختلف طور کے مدّعا اپنى زندگى کے لئے ٹھہراتے ہىں۔ اور فقط دنىا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہىں۔ مگر وہ مدّعا جو خدائے تعالىٰ اپنے پاک کلام مىں بىان فرماتا ہے، ىہ ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِىَعْبُدُوْنِ (الذارىات: 57) ىعنى مَىں نے جنّ اور انسان کو اسى لئے پىدا کىا ہے کہ وہ مجھے پہچانىں اور مىرى پرستش کرىں۔ پس اس آىت کى رُو سے اصل مدّعا انسان کى زندگى کا خدا تعالىٰ کى پرستش اور خدا تعالىٰ کى معرفت اور خدا تعالىٰ کے لئے ہو جانا ہے۔‘‘

(اسلامى اصول کى فلاسفى، روحانى خزائن جلد10 صفحہ414)

ىہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو ىہ مرتبہ حاصل نہىں ہے کہ اپنى زندگى کا مدعا اپنے اختىار سے آپ مقرر کرے کىونکہ انسان نہ اپنى مرضى سے آتا ہے اور نہ اپنى مرضى سے واپس جائے گا بلکہ وہ اىک مخلوق ہے اور جس نے پىدا کىا اور تمام حىوانات کى نسبت عمدہ اور اعلىٰ قوىٰ اس کو عناىت کئے، اُس نے اس کى زندگى کا اىک مدعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئى انسان اس مدعا کو سمجھے ىا نہ سمجھے مگر انسان کى پىدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کى پرستش اور خدا تعالىٰ کى معرفت اور خدا تعالىٰ مىں فانى ہو جانا ہى ہے۔

پس ىہ وہ مقام اور معىار ہے جسے ہر احمدى نے حاصل کرنا ہے اور کرنا چاہئے، اس کے لئے کوشش کرنى چاہئے۔ انسان خود جتنا چاہے اپنا مقصد بنا لے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرے، اُس کى زندگى بے معنى ہے۔ آجکل اپنے سکون کے لئے انہى اغراض کو پورا کرنے کے لئے دنىا مىں اور خاص طور پر مغربى ممالک مىں تو بىشمار طرىقے اىجاد کرنے کى انسان نے کوشش کى جن کا ماحصل صرف بے حىائى ہے۔ انسانى قدرىں بھى اس قدر گر گئى ہىں کہ انسان ہر قسم کے ننگ اور بىہودگى کو لوگوں کے سامنے کرتا ہے بلکہ ٹى وى پر دکھانے پر بھى کوئى عار نہىں سمجھا جاتا۔ بلکہ بعض حرکات جانوروں سے بھى بدتر ہىں اور اسى کو فن اور سکون کا نام دىا جاتا ہے۔

 (خطبہ جمعہ 06جولائى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں سالانہ کھیلوں کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021