قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو احسن قرار دیا ہے۔ اور کل عالم کو بتلایا ہے کہ اگر تم اللہ جل شانہ کی محبت اور رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو سیدنا و مولنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کے رہن سہن کی پیروی اور اتباع کرنا ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی ایک جنت نظیر معاشرے کے قیام کی بہترین کنجی ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جتنا وقت بھی گھر میں گزار تھے اپنے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے۔
(بخاری، کتاب الادب)
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک محنتی اور ہمدرد وجود نظر آتا ہے خواہ کپڑوں کو پیوند لگانا ہو یا بکری کا دودھ دھونا ہو یا کسی جوتے کو ٹانکنا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی کام میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اپنا کام خود کر لیا کرتے تھے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ بھی شفقت کا سلوک فرماتے اور سب احباب کو بھی اس کی تلقین فرماتے چنانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا اس بات کی گواہی دیتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ جنگ خیبر میں میرے باپ اور شوہر مارے گئے اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی نفرت تھی مگر آپ نے میرے ساتھ کمال شفقت کا سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورت دور ہو گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں عبادت اور ذکر الٰہی پر بہت زور دیا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اپنے گھروں کو قبر کی جگہ نہ بنا لو بلکہ گھر میں بھی عبادت کیا کرو نیز فرمایا کہ بہت خوش قسمت ہیں وہ میاں بیوی جو ایک دوسرے کو نماز اور عبادت کے لیے بیدار کرتے ہوں اور اگر ایک نہ جاگے تو دوسرا اس پر پانی کے چھینٹے پھینک کر اسے جگائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
(النساء: 20)
یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔ اور حدیث میں ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ75 حاشیہ)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جیسا کہ مردوں کو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کیا کریں ایسے ہی میں عورتوں کو بھی خاوندوں کے حقوق کے متعلق واعظ کیا کرتا ہوں عورت اور مرد کے درمیان بہت محبت کا تعلق ہونا چاہیے ان سے مومنوں کے گھر نمونہ بہشت بن جائیں گے۔
(خطبہ نکاح 5 فروری 1910ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے۔وہ نفس واحدہ ہے۔ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے ہیں آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی وہ تبھی کامل ہوگی جب اس کے دونوں ٹکرے جوڑ دیے جائیں گے۔
(فضائل القرآن صفحہ130)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے دورہ فرینکفورٹ جرمنی کے دوران ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
انسان ہونے اور انسانی حقوق رکھنے میں قرآن نے مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا بلکہ انہیں اس لحاظ سے مساوی درجہ دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دے کر ان کے مساوی حقوق مقرر کیے ہیں بلکہ انہیں بعض لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ حقوق دیے ہیں ان کی مثال دیتے ہوئے حضور نے فرمایا گھر کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری اللہ تعالی نے مرد پر ڈالی ہے یعنی اس کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ مال کمائے اور اس سے بیوی بچوں کی جملہ ضروریات پوری کرے عورت کو اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری سے کلی طور پر آزاد رکھا ہے کہ اگر عورت کے پاس اپنا ذاتی کچھ مال ہے یا وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی مال حاصل کرے تو مرد کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بیوی کے مال میں سے کچھ لے عورت کو یہاں دی گئی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے مال کا کوئی ایسی بھی گھریلو اخراجات کے لیے خاوند کے حوالے نہ کرے کیونکہ گھریلو اخراجات کو پورا کرنا کلیات مرد کی ذمہ داری ہے ہاں عورت اپنی خوشی سے اپنے مال کا کوئی حصہ خاوند کو بطور تحفہ دینا چاہیے ایسا کر سکتی ہے مرد اسے مجبور نہیں کرسکتا۔
(دورہ مغرب 1400ھ بمطابق 1980 صفحہ51۔52)
آجکل اسلام پر یہ زبردست حملہ ہو رہا ہے کہ اس نے عورت کو حقوق نہیں دیے اور عورت کو کوئی مقام نہیں دیا اور مرد کو قوام کہہ دیا ہے یہ ایسا جملہ ہے کہ مسلمان سوچ میں پڑ جاتا ہے لیکن ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت سے نوازا ہے جو ہماری پریشانی اور خوف کو امن میں بدلنے والی ہے اور ہم پر اسلام کا حقیقی روشن چہرہ عیاں کرنے والی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے زیادہ عظمت کے مقام بخشا ہے اور کئی پہلوؤں سے آپ کو مردوں پر فضیلت ہے۔ سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری جنت ماؤں کے قدموں میں ہے کہیں نہیں فرمایا کہ باپوں کے قدرموں میں ہے یعنی آئندہ نسلوں کی عورتوں کی بھی اور مردوں کی بھی جنت ان کی ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اتنا بڑا مقام و مرتبہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دے دیا ہے کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی جاہل انسان اسلام پر حملہ نہیں کر سکتا کہ اس میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے وہ مقام حاصل کرنے کے لیے جو ذرائع ہیں وہ میسر آنے چاہیے اگر خاوند بیوی سے ہر وقت بدتمیزی سے بات کرتا ہے اس کی عزت کا خیال نہیں، اس کے ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں، بات بات پر طعنے دینے لگ جاتا ہے، گھٹیا باتیں کرتا ہے اس سے مطالبہ ہے کہ کہ یہ بھی کرو وہ بھی کرو اور اس کے باوجود خوش نہیں ہوتا تو ایسا خاوند بسا اوقات خود اپنی بیوی کے پاؤں کے نیچے جہنم پیدا کر رہا ہوتا ہے۔
اگر بیوی کی یہ عادت ہو کہ خاوند کے جانے کے بعد اپنے بچوں سے خاوند کے دکھرے روئے اور یہ کہے کہ تمہارے ابّا نے مجھ پر یہ ظلم کیے اور یہ کام کیے، میں تو دن رات جتی رہتی ہوں، مرتی رہتی ہوں۔ دیکھو وہ میرا خیال نہیں کرتا۔ وہ اپنے اوپر بچوں کو رحم دلاتی ہے۔ نتیجتاً ایسے بچوں میں مرد کے خلاف بغاوت پیدا ہوجاتی ہے باپ کے رشتے کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں ایسے بچے باغیانہ ذہن لے کر اٹھتے ہیں اور اکثر جماعت سے تعلق توڑنے والے بچے ایسی ماؤں کے بچے ہوتے ہیں۔
(خطاب بر موقع جلسہ سالانہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا 6 جولائی1991ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ میاں بیوی کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
گھر کی حقیقی سکینت اور حقیقی برکت صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہو اور بیوی خاوند کے حقوق پوری پوری وفاداری کے ساتھ ادا کرے۔
(چالیس جواہر پارے صفحہ81)
اس ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے میاں بیوی کے تعلقات درست ہونے چاہیے تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم ایک جنت نظیر گھرانے میں رہتے ہیں۔
سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بس آج ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں ہمارے اوپر یہ ذمہ داری، بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ پیدا کریں جو اللہ تعالی ہم سے توقع رکھتا ہے اور ہم سے کوئی فعل سرزد نہ ہو جو اس خدائی بشارت کو ہم سے دور کردے ہم پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں گے کیونکہ آج عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ پر ہے۔
(خطبہ جمعہ 16 جولائی 2003ء بمقام مسجد فضل لندن)
اللہ تعالیٰ ہماری گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک حسین اور جنت نظیر گھرانہ قائم کرنے والے ہوں۔ آمین
(منصور احمد)