بَعْدِیْ کا مفہوم- After یا Except
حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ بڑے زور و شور سے پیش کی جاتی ہے جس کا معنیٰ یہ کیا جاتا ہے ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ لیکن اسی لفظ کے دیگر استعمالات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ قرآن میں لفظ ’’بَعْد‘‘ اردو والے بعد کے ساتھ ساتھ ’’علاوہ یا سوائے‘‘ یعنی ’’Except‘‘ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے:
فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾
(المرسلٰت: 51)
پس اس کے بعد وہ اور کس بیان پر ایمان لائیں گے؟
تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۷﴾
(الجاثیہ: 7)
یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم تیرے سامنے حق کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اَور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟
اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰٮہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۴﴾
(الجاثیہ: 24)
کیا تُو نے اسے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی معبود بنائے بیٹھا ہو اور اللہ نے اسے کسی علم کی بِنا پر گمراہ قرار دیا ہو اور اس کی شنوائی پر اور اس کے دل پر مہر لگادی ہو اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو؟ پس اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا پھر بھی تم نصیحت نہیں پکڑو گے؟
اب ظاہر ہے کہ اللہ کا تو کوئی بھی زمانی یا مکانی بعد نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں اللہ کے بعد کامطلب after نہیں except ہے۔ اسی مفہوم میں بعدی کو استعمال فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ اپنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت علیؓ کی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ مشابہت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ دونوں بھائی تھے، ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر تھے اسی طرح ہم دونوں بھائی ہیں ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر ہیں۔لیکن وہ دونوں بھائی نبی تھے مگر اس وقت میرے سوائے نبی کوئی نہیں۔ یعنی تم ہارون ؑ کی طرح نبی نہیں ہو۔غیر احمدی علماء بَعْدِیْ کا معنیٰ نبی اکرم ﷺ کے دور حیات کے بعد لیتے ہیں۔ لیکن ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ یہی لفظ اس معنی ٰکے برعکس استعمال فرماتے ہیں:
’’فَاَخْبَرَنِیْ اَبُوْھُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ بَیْنَا اَنَا نَآئِمٌ رَاَیْتُ فِیْ یَدَیَّ سُوَارَیْنِ مِنْ ذَھَبٍ فَاَھَمَّنِیْ شَاْنُھُمَا فَاُوْحِیَ اِلَیَّ فِی الْمَنَامِ اِنِ انْفُخْھُمَا فَنَفَخْتُھُمَا فَطَارَا فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُھُمَا الْعَنَسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَ الْاٰخَرُ مُسَیْلِمَۃَ صَاحِبَ الْیَمَامَۃِ‘‘
(مسلم، کتاب الرویاء باب رویا النبی ﷺ)
ہمیں ابوہریرۃ ؓ نے خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا، میں نے خواب میں اپنےہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے۔ مجھے وہ برے معلوم ہوئے، خواب ہی میں مجھ پر وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک ماروں۔سو میں نے اُن دونوں کو پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے۔میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ سو ان میں سے ایک تو صنعاء کا عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ۔
لیکن یہ دونوں جھوٹے تو نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہی ظاہر ہوگئے تھے جب آپ ﷺ کا دورِ حیات اور دور نبوت دونوں بیک وقت جاری تھے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہاں ’’بَعْدِیْ‘‘ کا کیا مطلب لیا جائے گا۔ after me یا except me؟ اس کا لازماً مطلب except me ہے یعنی میرے علاوہ دو اور مدعیان نبوت ہوں گے اگرچہ وہ دونوں جھوٹے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بعدی کا لفظ استعمال فرماتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾
(الصف: 7)
اور (یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے۔
اس آیت میں وہ فرماتے ہیں کہ احمد نام کا رسول میرے بعد آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ، جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں، نبی اپنی نبوت سے الگ نہیں ہوتا یعنی اس کی حیات و نبوت ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس بات کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد احمد رسول آئے گا؟ لیکن غیر احمدی علماء انہیں زندہ مانتے ہیں۔ تو پھر دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب میری نبوت کا دور ختم ہوگا تو پھر احمد رسول آئے گا۔ لیکن اوپر دئیے گئے حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ غیر احمدی علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی آمد ثانی میں بھی نبی ہی ہوں گے۔ جب ان کا دور حیات اور دور نبوت دونوں جاری ہیں تو پھر سورۃ الصف کی اس آیت میں ’’ب بَعْدِیْ‘‘ یعنی میرے بعد کا کیا مطلب ہے۔ اس سوال کا جواب غیراحمدی علماء کے ذمّہ ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے بعدی کا یہی مطلب یعنی میرے بعد نہیں بلکہ میرے سوائے اس حدیث میں بیان فرمایا جو بڑی شدومد سے ہمارے خلاف پیش کی جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ حضرت علی ؓ کو فرماتے ہیں کہ تیرا اور میرا وہی تعلق اور نسبت ہے جو ہارون ؑ اور موسیٰ ؑ کی تھی۔ اب دیکھیں کہ حضرت ہارون ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ میں کیا نسبت تھی جس کی مماثلت نبی اکرم ﷺ ایک استثناء کے ساتھ بیان فرمارہے ہیں۔ وہ مماثلتیں یہ تھیں کہ جب حضرت موسیٰ ؑ حضرت ہارون ؑ کو اپنی قوم میں اپنا خلیفہ بنا کر طورِ سیناء پر جارہے تھے تو اس وقت حضرت ہارون ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ:
دونوں بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی جگہ پر موجود تھے۔ دونوں ایک ہی وقت میں موجود تھے۔
اسی طرح نبی اکرم ﷺ اور حضرت علی ؓ:
دونوں بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی جگہ پر موجود تھے۔ دونوں ایک ہی وقت میں موجود تھے
اب استثناء جو نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ تو دونوں نبی تھے مگر یہاں نبی اکرم ﷺ کے سوا اور کوئی نبی نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا مطلب یہ نہیں ہے میرے بعد کوئی نبی نہیں بلکہ یہ ہے کہ میرے سوائے اس وقت کوئی نبی نہیں ہے۔ کیونکہ خود نبی اکرم ﷺ اپنے بعد ایک نبی یعنی مسیح ؑ کی آمد کی خبر دے چکے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد نبی نہیں تھے بلکہ اُن کے ساتھ نبی تھے۔
حَدَّثَنِيْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، قَالَ: قَاعَدْتُّ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِيْنَ فَسَمِعْتُهٗ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ’’انَتْ بَنُوْٓ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَآءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهٗ نَبِيٌّ وَإِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَسَيَكُوْنُ خُلَفَآءُ فَيَكْثُرُوْنَ۔ قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللّٰهَ سَآئِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ‘‘
(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذُکِرَ عن بنی اسرائیل)
میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا۔
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے فوری بعد یا معاً بعد کسی نبی کے آنے کا انکار کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کے فوت ہونے پر اس کا خلیفہ بھی نبی ہی ہوتا تھا لیکن جب میں فوت ہوں گا تو میرا خلیفہ نبی نہیں ہوگا۔ البتہ قرب قیامت میں ایک نبی یعنی مسیح موعود کے آنے کی نبی اکرم ﷺ خود خبر دے چکے ہیں تو پھر اس حدیث کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد قطعی طور پر کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)