ریا کاری، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ اﷲ کے لئے کرے، اس کا دل اخلاص و للہیت کے جذبہ سے معمور ہو، اس کا مقصد عمل صالح سے اﷲ کی رضا جوئی اور خوشنودی کا حصول ہو نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں اپنے کو بڑا ظاہر کرنا یا ان کی تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہو۔ اﷲ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے، اسے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو، اﷲ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو۔ ریا کاری، اخلاص کے منافی اور اس کی ضد ہے۔اخلاص کا مطلب ہے کوئی کام خالص اﷲ کیلئے کرنا جبکہ ریا کاری کا مطلب ہے اﷲ کو چھوڑ کر دوسروں کو دکھانے کے لئے کوئی کام کیا جائے تاکہ وہ تعریف کریں، عزت افزائی کریں یا ان سے کوئی اور دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ اس قبیح عادت کے لئے ’’رِئَآءَ‘‘ (دکھلاوے) کا لفظ قرآن پاک میں جابجا استعمال ہوا ہے جبکہ احادیث میں اس مفہوم کے لئے رِئَآءَ کے علاوہ ’’سمعہ‘‘ (سنانے) کے الفاظ آئے ہیں۔ ریا کا تعلق قوت بصارت (دیکھنے دکھانے) سے ہے جبکہ سمعہ کا تعلق قوت سماعت (سننے سنانے) سے چنانچہ بعض اہل علم نے ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا ہے کہ کوئی عمل لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے اور لوگ اس کو دیکھ لیں تو یہ ’’رِئَآءَ‘‘ ہے جبکہ ’’سمعہ‘‘ یہ ہے کہ بندہ کوئی عمل اور نیکی اﷲ کے لئے کرے یا چھپ کر کرے لیکن پھر شہرت پانے یا لوگوں کی خوشنودی پانے یا ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنی نیکی کا چرچا کرے اور لوگوں کو سنائے کہ میں نے فلاں کام کیا اور فلاں نیکی بھی میں نے کی وغیرہ۔ الغرض رِئَآءَ وسمعہ (نیکی اور عمل صالح پر لوگوں کی خوشنودی اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کا جذبہ) نہایت قبیح عبادت اور اﷲ کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے۔ اخلاص کے بجائے ایسی مذموم اور فاسد نیت سے نہ صرف یہ کہ نیکی ضائع ہوجاتی اور بندہ اجر وثواب سے محروم رہ جاتا ہے بلکہ یہ شدید عذابِ الٰہی کا بھی باعث ہے۔
ریا کاری کی مذمت قرآن میں
قرآن پاک میں جابجا ریا کی مذمت بیان ہوئی۔ اسے باعث عذاب اور نیکی کو ضائع کرنے والا عمل قرار دیا گیا، یعنی جس نیکی میں بھی ریا شامل ہوجائے وہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے،اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت نہیں پاتی۔ صدقہ وخیرات کے ضمن میں اﷲ تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ
(البقرہ: 265)
اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور تکلیف پہنچاکر ضائع نہ کرو اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ’’معلوم ہوا کہ دکھاوے کے لئے خرچ کرنا فائدہ مند نہیں۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ریا کاری درحقیقت اہل ایمان کی خصلت ہے ہی نہیں۔ یہ ان لوگوں کا شیوہ ہے جو اﷲ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے چنانچہ ایک دوسرے مقام پر ریاکاری کو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا
(النساء: 143)
’’بے شک منافق ﷲ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنیوالے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
اَلَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ ۙ﴿۶﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ یُرَآءُوۡنَ
(الماعون: 6۔7)
ترجمہ ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں۔‘‘ یعنی نمازوں کا کما حقہ اہتمام نہیں کرتے، انکی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں۔ ریا کاری دراصل کافروں کا شیوہ اور منافقوں کی خصلت ہے۔
قبولیت عمل میں اہم شرطیں ہیں
ایک تو یہ کہ وہ عمل شریعت اور سنت کے مطابق ہو۔ یہ ’’عمل صالح‘‘ ہے اور حقیقت میں وہی عمل ’’نیک‘‘ کہلانے کا مستحق ہے جو مطابقِ سنت ہو۔
اسی طرح قبولیت عمل کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل اور نیکی اخلاص کے ساتھ اﷲ کی رضا جوئی کیلئے انجام دی گئی ہو۔ دوسروں کو دکھانے کیلئے ریا کاری کے جذبہ سے انجام نہ دی گئی ہو۔
کئی احادیث میں ریاکاری کو صراحت کے ساتھ شرک، ’’شرک اصغر‘‘ اور ’’شرک خفی‘‘ کہا گیا ہے۔ محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا:
’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’شرک اصغر‘‘ سے ڈرتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اﷲ! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ریا کاری۔‘‘
(مسند احمد الرسالہ روایت 23630)
ایک اور روایت میں رسول ﷲ نے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے بعد آپ کی اُمت شرک میں مبتلا ہو جائیگی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کرینگے لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کرینگے۔
(ابن ماجہ،کتاب الزھد باب الریا والسمعہ)
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے، اس دوران رسول ﷲ تشریف لائے اور فرمایا:
کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے (یعنی دجال کے فتنہ سے) بھی زیادہ خطرناک ہے؟ ہم نے عرض کیا یارسول ﷲ ضرور بتلائیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’شرک ِخفی (یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بنا پر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
(ابن ماجہ، روایت نمبر 4203)
یعنی یہ احساس ہونے پر کہ کوئی آدمی دیکھ رہا ہے، نماز کو مزین کرنا، یا لمبی کردینا اور خشوع و خضوع کا دکھاوا کرنا وغیرہ یہ شرک خفی ہے۔ عمال میں پوشیدہ اور دبے پاؤں داخل ہونے والے اس شرک کو رسول اﷲ نے اپنی اُمت کے لئے فتنۂ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے،
ایک حدیث میں رسول ﷲ نے ارشاد فرمایا :
’’جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘
(جامع العلوم والحکم)
نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کا ذکر بھی بطور مثال کے ہے۔مقصد یہ ہے کہ ریا کاری شرک ہے، کوئی شخص نماز، روزہ یا کوئی بھی نیکی دکھاوے کےلئے کرے، اس نے گویا شرک کیا۔ ﷲ تعالیٰ شرک سے بے نیاز ہے۔ہر وہ عمل جس میں بندہ ا ﷲ کے علاوہ کسی اور کو شریک کرے ایسے عمل کو ﷲ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث قدسی یوں مروی ہے۔ وہ رسول ﷲ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں شرک (شراکت) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الزھد و الرقائق)
معلوم ہوا کہ کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اُس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہو گیا ہے۔ بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ) ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ظاہری طور پر ہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ بڑے دیندار ہیں لیکن عُجب اور ریا اور باریک باریک معاصی میں مبتلا ہیں جو کہ عارفانہ خوردبین سے نظر آتے ہیں اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ83)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مجھے۔۔۔۔۔ ایک نقل یاد آئی کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لیے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو ہم دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے ان تینوں فقروں میں تو نے اپنے تینوں ہی حجوں کا ستیاناس کر دیا۔ تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اظہار کرے کہ تو نے تین حج کیے ہیں اس لیے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنیٰ بے ہودہ بے موقع باتوں سے احتراز کیا جائے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ422)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیاوی دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30؍مارچ 2012ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام کام، تمام عبادات اور نیکیاں اپنی رضا کے لیے کرنے کی توفیق دے اور وہ ہر قسم کے دکھاوے اور ریاکاری سے پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قبولیت کا درجہ پانے والے ہوں۔ آمین
(محمد شاہد تبسّم)