• 19 جولائی, 2025

آنحضرت ؐ الله تعالیٰ کی صفتِ شکور کے مظہرِ اتم

ہمارے آقا حضرت محمد مصطفٰے صلی الله عليہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ سے متعلق کسی نے آپؐ کی زوجہ حضرت عائشہ ؓسے دريافت کيا تو آپؓ نے جواب دِيا کہ ’’کَانَ خُلُقُهٗ الْقُرْآنَ‘‘ کہ آپ ؐکے اخلاق قرانِ کريم کے عين مطابق تھے۔

آنحضرت صلی الله عليہ وسلم اپنے ربّ کی صفتِ شکور کے مظہرِ اتم تھے۔ چھوٹے سے چھوٹے احسان کی قدر کرنا اور اُس پر تشکر کے جذبات کا اظہارآپؐ کی سرِشت ميں داخل تھا۔ الله تعالیٰ نے آپ پر اپنے بے شمار انعامات نازل کئے، آپؐ کو بہت بلند مرتبہ پر فائز کيا۔ آپؐ کو دونوں جہانوں کا سردار بنايا۔ تمام انبياء ميں سے سب سےافضل اور خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ کے لقب سے نوازا۔ آپؐ ہر لحاظ سے الله تعالیٰ کی ان سب نعمتوں پرعبدِ شکور کا حق ادا کرتے تھے۔ساری ساری رات عبادت کے لئے کھڑے رہتے۔ پاؤں سوج جاتے، صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ اتنی عبادت کيوں کرتے ہيں۔ آپ اتنی تکليف کيوں اُٹھاتے ہيں جبکہ الله تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر رکھے ہيں ۔ تو آپ صلی الله عليہ وسلم فرماتے کہ ’’کيا ميں الله کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘

الله تعالیٰ کی محبت اور عبادت کے ذريعہ سے ہی اُس کا شکر ادا کيا جاسکتا ہے۔ قرآنِ کريم ميں الله تعالیٰ آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَکُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ۔ (الزمر: 67) یعنی الله کی ہی عبادت کرو اور شکر ادا کرنے والوں ميں شامل ہو جاؤ۔

حضرت محمد مصطفٰے صلی الله عليہ وسلم ہر وقت، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پيتے، ہمہ وقت اللہ کی يَاد اور اُس کے شکر ميں مصروف رہتے۔ حضرت عائشہ ؓ بيان فرماتی ہيں کہ ’’ايک رات میری آنکھ کھل گئی تو ميں نے بستر ٹٹولا آپ ﷺبستر پر نہيں تھے۔ مَيں آپؐ کی تلاش ميں باہر نکلی تو ديکھا کہ آپؐ سجدہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بڑے تضرّع کے ساتھ دُعا کر رہے ہيں۔‘‘

13 سال تک مکہ میں آپ ﷺ کو قسم قسم کے مظالم کا نشانہ بنايا جاتا رہا۔ مگرآپؐ اُس کام سے پیچھے نہيں ہٹے جو آپؐ کے سپرد کيا گيا تھا۔ دشمنوں نے آپؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنايا اور آپؐ کو اپنے وطن عزيز سے مجبورًا ہجرت کرنی پڑی۔ ہجرت کے بعد بھی دشمن نے آپؐ کا پیچھانہيں چھوڑا۔سارے عرب کو اکسايا اور آپؐ کےخلاف پے در پے فوجيں حملہ آور ہوئيں۔ان حالات ميں بھی ساری مصيبتوں اور ابتلاؤں ميں آپ ذرّہ بھر نہيں گھبرائے اور کبھی ناشکری کا کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے بلکہ ان مشکل ترين حالات ميں بھی ہميشہ زبان شکر سے تر رہتی ۔

الله تعالیٰ کے شکر کا ايک يہ بھی طريق ہے کہ اُس کی مخلوق کے ساتھ نيکی اور بھلائی کا سلوک کيا جائے ۔الله تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَاَحۡسِنۡ کَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ

(القصص: 18)

اور احسان کا سلوک کر جيسا کہ الله نے تجھ سے احسان کا سلوک کيا آپ صلی الله عليہ وسلم ہر ايک شخص کے ساتھ احسان کا سلوک فرماتے اور خاص طور پر غرباء اور مساکين کا بہت خيال رکھتےتھے۔ الله تعالیٰ کی محبت ميں آپؐ کا دِل اس قدر گُداز تھا کہ جب کوئی نعمت ملتی توآپ کا رُواں رُواں شکر کے جذبات سے لبريز ہو جاتا اور خُدا کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ ميں گر جاتے۔

(ابو داؤد کتاب الجہاد)

قبيلہ ہمدان کے اسلام قبول کرنےکی خبر جب آپ صلی الله عليہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے سجدۂ شکر اداکيا۔ جب آپؐ پر دُرود بھيجنےکی آیت نازل ہوئی تو الله کی اس نوازشِ خاص پر آپؐ کا دِل شکر سے لبريز ہوگيا اور آپؐ سجدہ ميں گر گئے۔

ايک دفعہ آپ صلی الله عليہ وسلم سفر ميں تھے کہ ايک جگہ آپؐ سواری سے اُتر گئے اور ہاتھ اُٹھا کر دير تک دُعا کی اور پھر سجدہ ميں گر گئے پھر سر اُٹھايا اور دُعا کی اور پھر سجدہ ميں گر گئے۔ پھر سر اُٹھايا اور دُعا کی اور پھر سجدہ کیا۔ دير تک سجدہ ميں رہے۔ پھر اُٹھے اور بڑے تضّرع کے ساتھ دُعا کی اور اس کے بعد پھر لمبا سجدہ کيا۔ دُعا سے فارغ ہوکر حضور ﷺنے فرمايا۔ ’’ميں نے اُمّت کے لئے تين دُعائيں مانگی تھيں، وہ قبول ہوئيں۔ جب دُعا قبول ہوتی تو مَيں شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ کرتا تھا۔‘‘

(ابوداؤد کتاب السَّجود)

مکّہ کی عظيم الشَّان فتح کے موقعہ پرجب آپؐ کو اطلاع ملی کہ قريشِ مکّہ کی مزاحمت بالکل دَم توڑ چکی ہے تب الله تعالیٰ کی نصرت کے وعدوں کو پورا ہوتے ديکھ کر آپؐ کا دِل شکر کے جذبات سے بھر گيا۔ آپؐ نے وہيں سواری پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کيا۔ يہاں تک کہ آپؐ کا سر کُجاوہ کے ساتھ جالگا۔

آنحضرتﷺ نے فرمايا۔ مَنْ لَّا يَشْکُرُالنَّاسَ لَا يَشْکُرُ اللّٰهَ یعنی جو شخص لوگوں کا شکريہ ادا نہيں کرتا وہ الله کا شکريہ بھی ادا نہيں کرتا۔

ہمارے پيارے آقا حضرت محمد صلی الله عليہ وسلم کے ساتھ جس نے کبھی بھی کوئی ذرّہ بھر نيکی يا بھلائی کی تھی۔ آپؐ نے ہميشہ اُس کا شکريہ ادا کيا اور اُسے بھلائی کا بہترين صلہ دِيا۔

آپؐ کی رضائی والدہ حضرت حليمہ سعديہ تھيں۔ حضرت خديجہ ؓسے شادی کے بعد وہ آپؐ سے ملنے آئيں اور اُنہوں نے بتايا کہ خُشک سالی کے باعث اُن کے مويشی مر گئے ہيں۔ آپؐ نے اُنہيں چاليس بکرياں اور سامان سے لدا ہوا اونٹ عنایت فرما ديا۔

ہجرت کے بعد وہ ايک دفعہ آپؐ سے ملنے کے لئے تشريف لائيں تو آپؐ بے قرار ہو کر ’’ميری ماں! ميری ماں!‘‘ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر اُن کے لئے فرش پر بچھا دی۔

حضرت حليمہ کی ايک لڑکی تھی جو بچپن ميں آپؐ کو کھلايا کرتی تھی۔غزوۂ حنین کے موقعہ پر جو لوگ قيد ہوئےاُن ميں وہ بھی قيد ہو کر آئی۔حضور نے اُنہيں پہچان ليا اور بڑی عزّت اور احترام کاسلوک فرمايا اور اُن کی خاطر اُن کے قبيلے کے چھ ہزار قيدی رہا کر دیئے۔

آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کے گھر ايک نوجوان غلام تھے۔ جن کا نام زيد بن حارثہ ؓ تھا۔ حضرت خديجہؓ کے ساتھ شادی کے بعد حضور نے سب غلاموں کو آزاد کر دياتھا۔ اُن ميں حضرت زيد ؓبھی شامل تھے۔

مگر اُنہوں نے آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کے پاس رہنے کو ترجيح دی اور اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر ديا۔ حضرت زيد کی اس وَفا کا آنحضرت صلی الله عليہ وسلم پر بے حد اثر تھا۔ چنانچہ آپ نے زيد ؓ کو وہ مقام دِيا جو اور کسی کو حاصل نہ ہوا تھا۔ حضرت زيد ؓ بھی حضور کے ايک اشارے پر اپنی جان قربان کرنے کے لئےتيار رہتے تھے۔

ايک دن آنحضرت صلی الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہےتو اُسے چاہئے کہ اُمّ ايمن سے شادی کر لے حضرت زيد نے آپ کا اشارہ سمجھ ليا اور شادی کے لئے تيار ہوگئے اُس وقت اُمّ ایمن کی عمر حضرت زيد ؓسے دوگنی تھی وہ حبشی الاصل تھيں سياہ رنگ ، ناک پیچھے سے دبا ہوا۔ جس سے ناک کے نتھنےکے سوراخ نظر آتے تھے۔ الغرض اُن میں کوئی ا يسی کشش نہ تھی کہ کوئی اُن سے شادی کے لئے تيار ہوتا۔ زيدؓ کی اس نيکی کا صلہ آنحضور صلی الله عليہ وسلم نے اس طرح دِيا کہ ہجرت کے بعد اُس غلام کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ کردی۔ يہ عقد زيدؓ کے لئے باعثِ افتخار تھا گو کہ بعد میں يہ شادی کامياب نہ ہو سکی اور طلاق ہوگئی۔

حضرت زيد ؓکی وَفا شعاری اور خدمت گزاری کی وجہ سے آپ صلی الله عليہ وسلم نے اُن کے بیٹے اُسامہ سے بھی ہميشہ بہت محبت و شفقت کا سلوک فرمايا۔ حضرت اُسامہ بتاتے ہيں کہ حضور مجھے ايک زانو پر بٹھا ليتے تھے اور حضرت حسن ؓکو دوسرے پراور ہم دونوں کو چمٹا کر پيار کرتے۔

فتح مکہ کے موقعہ پر آپؐ نے اُن کے بیٹے اُسامہ کو يہ اعزاز بخشا کہ اُن کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا ليا۔

حضرت زيد ؓکی وَفا شعاری کی شکرگزاری کے طور پر آپ صلی الله عليہ وسلم نے حضرت اُسامہ کو ايک لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمايا۔ اُس وقت حضرت اُسامہ ؓ کی عمر صرف17 سال تھی۔ بڑے بڑے جرنيل صحابہؓ اُن کے ماتحت تھے۔

منافقين نے چہ ميگوئياں کيں کہ ايک کم عمر نا تجربہ کار لڑکے کو امارت سونپ دی گئی۔ جب آنحضرت صلی الله عليہ وسلم تک يہ بات پہنچی تو آپ مسجد ميں تشريف لائےاورخطبہ ارشاد فرمايا۔

آپؐ نے فرمايا۔ ’’پہلے اُس کے باپ کی سرداری پر بھی تُم معترض تھے۔ خُدا کی قسم وہ مجھ کو سب سے زيادہ محبوب تھااور اُس کے بعد اُسامہ مجھے سب سے زيادہ محبوب ہے۔‘‘

آنحضرت صلی الله عليہ وسلم سب کے لئے سراپا شکر تھےجس نے بھی کبھی آپ کےساتھ ذرّہ بھر بھی نيکی کی، حضورؐ نے اُس کی قدرافزائی کی اور اُس کی نيکی سے بڑھ کر اُسے صلہ ديا۔

مُطعَم بن عدی مکہ کا رئيس تھااُس نے آپ کے ساتھ يہ نيکی کی تھی کہ جب آپؐ طائف سے اوباشوں کے ہاتھوں بے حد تکليف اور دُکھ اُٹھا کر واپس آئے اور مکہ ميں داخل ہونا چاہا تو مکہ والوں نے اجازت نہ دی۔ اُس وقت يہ سردار مُطعَم بن عدی سامنے آيا اور اپنی حفاظت ميں لے کر مکہ ميں داخل کيا۔ اُس سردار نے کفر کی حالت میں ہی وفات پائی تھی ليکن اُس کے اس احسان کو حضور نے ہميشہ ياد رکھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جب مکہ کے قيدی آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کی خدمت ميں پيش کئے گئے،حضورؐ کو مُطعَم بن عدی ياد آگئے۔ آپؐ نے فرمايا کہ اگر مُطعَم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو مَيں ان سب کو يونہی آزاد کر ديتا۔

(بخاری)

الله تعالیٰ کرے کہ ہمارا شمار اُس کے شکر گزار بندوں ميں ہو۔ ہم آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کے اُسؤہ پر عمل کر کے دوسری قوموں کے لئے بھی نمونہ ٹھہريں۔ آمين

(طاہرہ زرتشت منیر۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون واٹرلو ریجن میں جلسہ سیرۃ النبی ؐو ریفریشرکورسز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2021