• 19 جولائی, 2025

ایک احمدی کا کردار معاشرے میں

؎خُدا نے خِضرِ راہ بنایا ہمیں طریقِ مُحمّدی کا
کلامِ ربِّ رحماں ببانگِ بالا سُنائیں گے ہم

(المصلح الموعودؓ)

شریعت کا ماحصل تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ہے۔ تو جو انسان جِس قدر عارف، مجذوب اور سالک ہوگا اسی قدر اخلاق اللہ کا حامل ہوگا۔ ہمارے سیّد و مولا سّیدالمعصومین حضرت مُحمّد مُصطفیٰﷺ جو کہ معرفتِ تامّہ کے مُصدّقِ اعلیٰ اور اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے جِس کی گواہی خُود قُرآنِ مجید میں قَابَ قَوْسَیْنِ (النجم: 10) کہہ کردے دی۔ یعنی اِن دونوں قَوْسَیْنِ یعنی قوسِ الُوہیت اور عبُودیت کے عین مابین آپؐ کا وجُودِ باجُود واقع ہوا۔ اپنے آپ کو صِبْغَتَ اللّٰہِ کی خِلعت میں ایسا ملبُوس کیا کہ صِفاتِ الٰہیہ میں رنگین ہوگئے اور اِسی واسطے رحمتہ اللعالمین سے مُلقّب ہوئے۔ اور اِنسانیت کیلئے رحیم و شفیق رہے اور تاقیامت حقُوق العباد کا عدیم المثال نمونہ قائم فرما گئے۔

آپؐ کے غُلامِ صادق حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ بعینہٖ اپنے آقا و مُطاع کے رنگ میں رنگین تھے۔ چوتھی شرطِ بیعت میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ کہ عام خلق اللہ کوعموماً اور مسلمانو کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘

اسی طرح نویں شرطِ بیعت میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

جماعتِ احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کی بنیاد حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے 23 مارچ 1889ء کو رکھی۔ گو دُنیا کی نظر میں یہ ایک نیا مذہب ہو مگر خُود حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے الفاظ پیشِ خِدمت ہیں:
’’ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم محمّد ﷺ کامل شریعت لے کر آئے جو نبوُّت کے خاتَم تھے اس لئے زمانے کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختمِ نبوت کردیا۔ پس حضورﷺ کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے ہرگز قائل نہیں۔ ہاں جیسے پیغمبرِ خُدا ﷺ مثیلِ مُوسیٰؑ تھے اسی طرح آپؐ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیحِ موعُودؑ ہے ضروری تھا کہ مسیحؑ کی طرح آتا۔ پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیحِ موعُودؑ ہوں۔ جیسے مسیحؑ کوئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ شریعتِ مُوسویؑ کے احیاء کیلئے آئے تھے۔ میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قُرآن شریف کے بعد اب کوئی شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے مُجھے شریعتِ مُحمّدیؐ کے احیاء کیلئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعُوث فرمایا ہے۔‘‘

(ملفُوظات جلد اوّل صفحہ39)

پس جیسے آنجناب حضرت محمّد مصطفیٰﷺ نے تَخَلُّق بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کا جامہ پہن کر اِسلام جیسے پُرامن مذہب کا پرچار کیا اور اِنسانیت میں بھائی چارے کی بُنیاد رکھی بعینہٖ آپؐ کے غُلامِ صادق حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے چودھویں صدی کے سر پہ مبعُوث ہوکر اِسلام اور بھائی چارے کو ازسرِ نو زندہ و جاوداں کیا اور مُعاشرت کے وہی اصُول زندہ کئے جن کو دُنیا بُھلا چُکی تھی۔

آئیے اب قُرآنِ کریم اور احادیثِ مُبارکہ ؐ کی روشنی میں نظر ڈالیں کہ کیسے ایک احمدی مُسلمان مُعاشرے میں اپنا کِردار ادا کرسکتا ہے

آنحضورﷺ اُمّتِ مُسلمہ کا تنزُّل اور اُنکا بِگاڑ بیان فرماتے ہیں کہ
’’عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سو اقرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔ ’’یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔

(شعب الایمان للبیہقی الثامن عشر من شعب الایمان باب فی نشر العلم و الا یمنعہ اھلہ اھلہ حدیث نمبر 1763 مکتبۃ الرشد، ریاض2004ء)

اِس حدیثؐ کو پُورا ہوئے آج سے قریباً یک صدی گُزر چُکی ہے جِس کو تمام اُمّتِ مُسلمہ تسلیم کرچکی ہے۔ مُسلمانوں کا اِس تنزُّلی کے دور میں جس مسیحِ موعودؑ کا انتظار تھا وہ بھی آچُکا اور اب اُن کی خِلافت کا دورِ خامسہ چل رہا ہے۔ اِس تنزُّلی و اخلاقی و مُعاشرتی اِنحطاط میں ایک جماعتِ احمدیہ مُسلمہ عالمگیر ہی ہے جو اِسلام کی سچّی تعلیم پیش کرکے مُعاشرے کے سکُون کو برقرار رکھ سکتی ہے۔

اِسی ضِمن میں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ دُنیا کو طہارت اور تقویٰ کی زندگی کا نمونہ دِکھائے۔ اِسی غرض کیلئے یہ سِلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اُس کا منشاء ہے۔‘‘

(ملفُوظات جلد3 صفحہ83)

ایک احمدی جو کہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہماری جماعتِ احمدیہ مُسلمہ عالمگیر مُعاشرت کے بہترین اصُولوں پہ مُنحصر ہے وہ بِلاشُبہ شریعتِ مُحمّدیﷺ پہ ہی چلتے ہوئے اِس چیز کا پرچار کرتا ہے۔ اور اِسی اُمّت یعنی اُمّتِ مُحمّدیﷺ کے بارہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے کہ:

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ۔

(اٰل عمران: 111)

یعنی تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو

ایک احمدی کو بِلاشُبہ مُعاشرے میں ایسا نمونہ بننا چاہئے کہ جس سے تمام معاشرے میں اسلام کی صحیح رنگ میں تصویر پیش کی جاسکے۔ ایک احمدی کو شرائطِ بیعت کے مغز کو سمجھتے ہوئے بنی نوع انسان کیلئے ہر قِسم کی آسانی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے۔ جیسا کہ خُدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں فرمادیا ہے کہ تُم لوگ دُنیا کی منفعت کیلئے پیدا کئے گئے ہو اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ بِلا اِمتیاز رنگ و نسل و مذہب ایک نافعُ النّاس وجُود بن جائے۔

جب ایسا لائحہ عمل ایک احمدی اپنائے گا تو وہ دیکھ لیوے گا کہ خُدا تعالیٰ کا خاص فضل و کرم، عنایات اور خاص تائیدات اسکے شاملِ حال ہوں گی اور اخلاق ہی ہے جو واحد تبلیغِ دینِ متین کا ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعے اسلام پھیلا اور اِن شاءَاللّٰہ احمدیت اس پر عمل درآمد کررہی ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے

فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ

(البقرہ: 149)

یعنی ’’نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔‘‘

ہر شخص کا ایک مطمحِ نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پہ مُسلّط کرلیتا ہے سو اللہ تعالیٰ ایک تاکیدی نصیحت کے رنگ میں فرماتا ہے کہ تمہارا مطمحِ نظر یہ ہو کہ تُم نیکیوں کے حصُول میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش میں لگے رہو۔

آجکل کے مادی دور میں ہر انسان حُبِّ دُنیا میں مستغرق ہوکر اپنے خالقِ حقیقی کو بُھلا بیٹھا ہے۔ مگر ایک احمدی جو کہ اسلام کی زندہ تصویر پیش کرتا ہے ، اُسے چاہئے کہ دُنیا کی ریل پیل میں اپنے آپ کو مت اُلجھائے اور تقویٰ اور نیکی کے کاموں کو بجا لائے اور مُعاشرے میں ایک مُنفرِد نمونہ پیش کرے تا اسلام کو زندہ کیا جاسکے۔

اِس ضمن میں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ اپنے منظوم پاکیزہ کلام میں ہماری توجّہ اس جانب مبذول کرواتے ہوئے فرماتے ہیں :

؎دُنیا کی حِرص و آز میں یہ دِل ہیں مر گئے
غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے
اَے سونے والو! جاگو کہ وقتِ بہار ہے
اب دیکھو آکے دَرپہ ہمارے وہ یار ہے
کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا
لعنت ہے اَیسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جُدا

(محاسنِ قرآن کریم ۔دُرِّثمین)

ہمارے ہادی کامل مُحمّد مصطفیٰﷺ اصولِ مُعاشرت کے بارہ میں جو نمونہ رہتی دُنیا تک ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اگر ہم اس پر عمل پیرا ہوں تو ایک جنّت نظیر مُعاشرے کی بُنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

وَاۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَانۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ کی تلقین کرتے ہوئے مُحمّد مصطفیٰؐ فرماتے ہیں:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور امر بالمعروف کرو اور تم ضرور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرو۔ ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے۔ اور عذاب نازل ہونے کے بعد تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘

(ترمذی۔ ابواب الفتن۔ باب ماجاء فی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)

اس حدیثﷺ میں آنجناب ﷺ نے کیا خُوبصُورت تعلیم دی ہے جو کہ جنّت نظیر مُعاشرے کی تصویر کشی کرتی ہے۔ ایک احمدی جو کہ کسی بھی مُلک میں رہتا ہو اگر اپنے شہر، گلی، محلّہ میں امن و امان سے رہے گا، اچھے کاموں کی ترغیب دے گا اور بُرے کاموں سے روکے گا تو خُودبخُود ایک مُعاشری سکُون کا دور دورہ رہے گا اور تمام لوگ آپس میں بھائی چارے سے رہیں گے۔

اسی طرح اِتِّحادِ باہمی کے بارہ میں آنجناب مُحمّد ﷺ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔ جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔‘‘

(ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)

مندرجہ بالا حدیثِ مُبارکہؐ میں آپؐ نے کیا خُوبصُورت اِتِّحادِ باہمی اور یگانگت کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم اکٹھے ہوکر رہیں گے اور ایکدوسرے کا احساس پیدا کریں گے تو خُدا تعالیٰ کی نُصرت اور تائید بھی ہمارے شاملِ حال رہے گی۔ ایک احمدی جو کہ مُعاشرے میں ایک مُنفرد کردار ادا کرسکتا ہے ، وہ اِسی صُورت میں مُمکن ہے کہ اگر وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ باہمی اِتِّحاد سے رہے اور اُنکا احساس ایسے ہی کرے جیسے ایک بطن سے دو بھائی۔

اس ضمن میں حدیثِ مبارکہ ہے کہ :
’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ یعنی تم میں سے کوئی بھی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری)

مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ ایک احمدی کیلئے ایسا کارگر نمُونہ پیش کرتی ہے جو کہ اخلاق کا اعلیٰ مقام عطا کرسکتی ہے۔ ایک احمدی کو چاہئے کہ مُعاشرے میں رہتے ہوئے اُس کا کردار متذکرہ بالا حدیثِ مُبارکہؐ کا منہ بولتا ثبُوت ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اور تقویٰ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بِلا امتیاز اِنسانیت کی خِدمت کرے گا اور سب کو اپنا بھائی گردانے گا تو بھلا کیسے مُمکن ہے کہ مُعاشرہ میں کسی بھی قِسم کا کوئی بِگاڑ پیدا ہوسکے؟

آنحضورﷺ فرماتے ہیں:
’’مومنوں میں سے کامل الایمان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔‘‘

(سنن الترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث 1162)

ایک احمدی کو اپنے اخلاق کا معیار اتنا بُلند رکھنا چاہئے کہ اپنی ذات میں وہ عبدالرحمٰن، عبدالرحیم، عبدالحلیم، عبدالغفور بن جائے۔ الغرض اپنی ذات کو پس پُشت ڈال کر دُنیا کو اخلاق کے اعلیٰ نمُونہ سے جیت لیوے اور اسلام جیسے پُرامن مذہب کی جانِب مُعاشرے کا رُجحان ہوجائے کیوں کہ اسلام کے پھیلنے کی بُنیادی وجہ اخلاق ہی تھی۔

ہمارے پیارے آقا خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ بیان فرمودہ 4 فروری 2011ء میں فرماتے ہیں:
’’آیت ممدوحہ بالا کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍٍ میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ ایسی باتیں ہیں جو اگر ہم میں موجود ہوں اور اگر ہم ان کی تبلیغ کرنے والے ہوں تو یہ ہر پاک فطرت کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی ہوں گی۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسی تبلیغ کی جائے جو صرف مذہبی مسائل کے لئے ضروری ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں جو ایک دنیا دار کو بھی اپنی طرف کھینچیں گی چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو بشرطیکہ وہ اخلاقی قدروں کی خواہش رکھتا ہے۔ اُس کے اندر ایک پاک فطرت ہے جو اچھے اخلاق کو چاہتی ہے، اچھی باتوں کو چاہتی ہے۔ بلکہ لامذہب اور دہریہ بھی اچھے اخلاق کو اچھا ہی کہیں گے۔ اچھی باتوں کو اچھا کہنے والے ہوں گے اور بری باتوں کو برا کہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی اس ذمہ داری کو سمجھو اور دنیا کے فائدے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرو اور برائیوں سے روکو۔ حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دلاؤ اور حقوق العباد کے غصب کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کر کے ایسا عمل کرنے والوں کو توجہ دلاؤ، اُن کو روکو۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہو گی۔ اپنے اندر کے نظام کو ہم درست کریں گے تو ہماری باتوں کا بھی اثر ہو گا۔ اور اپنے اندر کے نظام کو درست کرنے کے لئے ہمیں ہر وقت یہ پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی میرے ہر قول اور فعل پر نظر ہے، میرے ہر عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ دنیا کو تو میں نے پہلے صرف دنیاوی اخلاق سکھاتے ہوئے نیکی کی تلقین کرنی ہے اور برائی کی پہچان کروا کر اس سے روکنا ہے۔

پس جب ہم اپنے جائزے لیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ خیرِ امت ہونا صرف ایمان لانے کا اعلان کرنا نہیں ہے۔ اسی سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں قدم بڑھانے سے خیرِ امت میں شمار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرنی ہو گی اور برائیوں سے دوسروں کو روکنا ہو گا۔ پھر ہم خیرِ اُمّت کہلا سکتے ہیں اور اس صورت میں جب ایک مومن آگے قدم بڑھائے گاتو ایک حقیقی مومن سب سے پہلے یہ دیکھے گا کہ جس بات کی میں نصیحت کرنے جا رہا ہوں کیا یہ نیکی مجھ میں ہے؟ جس برائی سے مَیں روکنے جا رہا ہوں کیا یہ برائی مجھ میں تو نہیں؟

ہماری امانت کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ قومی امانتیں ہوں، جماعتی امانتیں ہوں یا ذاتی امانتیں ہوں ہم نے ہر ایک کا حق ادا کرنا ہے۔ ہم کسی سرکاری دفتر میں کام کر رہے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ ساتھ کا عملہ کیا عمل دکھا رہا ہے ہمارا اپنا امانت کا معیار ہونا چاہئے جو دوسروں سے ممتاز کرنے والا ہو۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں تو وہاں ایک احمدی کا نمونہ ہو جو دوسروں سے ممتاز کر رہا ہو۔ آج ہم بڑے فخر سے غیروں کو بتاتے ہیں کہ احمدی کا امانت کا معیار دوسروں سے بہتر ہے۔ لیکن صرف یہ بہتر ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ ترین معیار ہو۔‘‘

اس مضمون کے آغاز میں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ شریعت کا ماحصل تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ ہے ، اسی ضمن میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنے خطبہ فرمودہ 15 فروری 1935ء میں فرماتے ہیں:

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ

(الجمعہ: 2)

یعنی ’’اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ وہ بادشاہ ہے۔ قدّوس ہے۔ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔‘‘

’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی چار صِفات بیان کی گئی ہیں جنکی تسبیح کو بندوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا اصل مقصد تسبیح ہے اور یہ کہ احمدیت دلوں میں قائم ہوجائے۔ اس وجہ سے اگر کوئی شخص ہم سے لڑتا ہے تو اسکی پرواہ نہیں لیکن اگر وہ صلح کیلئے آتا ہے تو چاہئے کہ اگر وہ ایک قدم آگے بڑھے تو ہم دو قدم اُسکی طرف بڑھیں اور ہمارا روّیہ ایسا ہونا چاہئے کہ کسی حالت میں بھی ہم پر کوئی نُکتہ چینی نہ کرسکے۔ ہمیں اپنے تمام اعمال میں پاکیزگی اختیار کرنی چاہئے۔ ہمارا یہ کام ہونا چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق دکھلائیں اور اخلاق کی تائید میں اگر اعتراض بھی ہو تو اُسے برداشت کریں۔ ایک احمدی کو آجکل کے زمانہ کی روِش کو مدِّنظر رکھتے ہوئےہر آن خُدا کی پناہ مانگنے کی ضرورت ہے اور شیطان کے حملوں سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہیے۔‘‘

اسی ضمن میں المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں
’’کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کا ایک شاگرد تھا ، اُس نے جب تعلیم مُکمّل کی اور واپس جانے لگا تو بزرگ نے کہا کہ کیا تم جس ملک جارہے ہو وہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ تو شاگرد نے حیران ہو کر کہا کہ شیطان کہاں نہیں ہوتا؟ شیطان تو ہر جگہ ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ تم نے مجھ سے دین کے بارے میں، اخلاقیات کے بارے میں سیکھا ہے ، پڑھا ہے ، اگر اس پر عمل کرنے لگو اور شیطان حملہ کردے تو کیا کروگے؟ اس نے کہا مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر تمہاری توجّہ دوسری طرف ہو اور وہ پھر حملہ کردے تو پھر کیا کروگے؟ اس نے کہا پھر مقابلہ کروں گا۔ غرض دوتین دفعہ انہوں نے اس طرح ہی پوچھا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے پاس جاؤ اور اسکے دروازہ پہ کُتّا بیٹھا ہو اور وہ تمہیں پکڑے، تم پر حملہ کرنے لگے اور کاٹنے لگے تو تم کیا کروگے؟ اُس نے کہا میں اس کو ڈرا کے دوڑانے کی کوشش کروں گا۔ پھر حملہ کرے تو پھر یہی کروں گا۔ اُنہوں نے کہا اگر تم اسی طرح لگے رہو تو پھر دوست تک تو نہیں پہنچ سکتے، تو کیا کروگے؟ اُس نے کہا آخر دوست کو آواز دوں گا کہ آؤ اور اپنے کُتّے کو پکڑو۔ تو بزرگ کہنے لگے شیطان بھی خُدا تعالیٰ کا کُتّا ہے۔ اُس کے لئے تمہیں خُدا تعالیٰ کو آواز دینی ہوگی۔ اس کے در کو کھٹکٹھانا ہوگا۔ تبھی شیطان کے حملوں سے بچ سکتے ہو۔‘‘

(خطبہ فرمودہ 22 مئی 1936ء)

ہمارے پیارے آقا خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس اپنے گناہوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی غلطیوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے لئے ہمیں وہ خوردبین استعمال کرنی پڑے گی جس سے ہم اپنے نفس کے جائزے لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ پس ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کوئی معمولی دعویٰ اور یہ معمولی جماعت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ معمولی دعویٰ ہے، نہ یہ جماعت ایک معمولی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جماعت کے افراد کو پاک کر کے ایک پاک جماعت بنانا چاہتا ہے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ ہر احمدی کو یہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ یہ تقویٰ اور طہارت کی زندگی کے نمونے ہی ہیں جو وہ انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں، اور یہ انقلابی تبدیلی ہمارے اعتقاد کی اصلاح اور اعمال کی اصلاح کے ساتھ وابستہ ہے۔ صرف اعتقادی اصلاح فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ اعمال کی اصلاح بھی ساتھ نہ ہو۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی فکر نہ ہو۔ کیاعقیدہ ہمارا ہونا چاہئے اور کونسے اعمال ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہئے۔

اگر افرادِ جماعت میں سے ہر ایک نے اپنی مکمل اصلاح کی کوشش نہ کی تو جماعت میں ہر وقت کسی نہ کسی قسم کی برائی کا بیج موجود رہے گا اور موقع ملتے ہی وہ پھلنے پھولنے لگ جائے گا، پھوٹنے لگ جائے گا۔ پس ہر قسم کی برائیوں کی جڑوں کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم ہر قسم کی برائیوں کو جماعت میں سے ختم کر کے عملی اصلاح کی حقیقی تصویر بن سکتے ہیں اور تب پھر اللہ تعالیٰ ہمیں فتوحات کے نظارے دکھائے گا۔ تبھی ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی ان شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب ہم پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30 مارچ 2012ء)

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ307-306)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے یہ دُعا ہے کہ ہر احمدی کو مسیح الزماں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے دجّالی فتنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

؎ معرفتِ تامّہ کا دیکھو جہاں بھی فُقداں
نا ہو گا وہاں وہ ’’ذُوالْمِنَن‘‘ عیاں
نتائج ہیں قِلّتِ تدبُّر کے یہاں
چھوڑو یارو کثرتِ تعصُّب کے بیاں
ہر ایک یہاں، معصیّت میں نہاں
بچائے ذوالقرنین کا جام جہاں
ہے شش جہت خُشک مُلّائیت کا شوروفُغاں
سراسر ہے جو ایماں کا زیاں‘‘

(عبدالحئى ۔ سیکریٹری تربیت گوتھن برگ ،سویڈن)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون واٹرلو ریجن میں جلسہ سیرۃ النبی ؐو ریفریشرکورسز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2021