قدم کارواں سے ملائے ہوئے ہیں
صداقت کا پرچم اُٹھائے ہوئے ہیں
تمہارے نشانے پہ آئے ہوئے ہیں
ستم سَہ کے بھی مسکرائے ہوئے ہیں
بگاڑیں گیں کیا یہ مخالف ہوائیں
زمیں پر قدم ہم جمائے ہوئے ہیں
ہمی روشنی کا سبب ہیں جہاں میں
ہمی ظلمتِ شب مٹائے ہوئے ہیں
بھٹک جائے رستہ نہ کوئی یہاں اب
چراغِ ہدیٰ ہم جلائے ہوئے ہیں
کبھی تم بھی بیٹھوں گے چھاؤں میں اِس کی
شجر اُلفتوں کے اُگائے ہوئے ہیں
دعاؤں کے ہم لے کے ہتھیار بشرؔیٰ
مقابل پہ دشمن کے آئے ہوئے ہیں
(بشریٰ سعید عاطف۔ مالٹا)