• 14 مئی, 2025

انسان کا دل خدا کا گھر ہے (سیدنا حضرت مسیح موعودؑ)

انسان کا دل خدا کا گھر ہے
جب یہ اوہام باطلہ و عقائد فاسدہ سے بالکل پاک صاف ہو (سیدنا حضرت مسیح موعودؑ)

خاکسار کا ایک آرٹیکل بعنوان ’’انسان کا سینہ بیت اللہ اور دل حجرِ اسود ہے ’’ماہ اگست میں روزنامہ الفضل آن لائن میں شائع ہوا تھا۔ اس موضوع کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کیا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے بیت اللہ میں حجرِ اسود پڑا ہوا ہے اسی طرح قلب، سینہ میں پڑا ہوا ہے ۔۔۔۔ قلبِ انسانی بھی حجر ِاسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ، بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ۔172۔173)

اس اقتباس کے سیاق و سباق کو دیکھیں تو یہ مفہوم نکھر کے سامنے آتا ہے کہ جس طرح بیت اللہ، بتوں سے پاک ہے اور اس میں حجرِ اسود ہے جس کا بوسہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کا سینہ ماسوائے اللہ کے، دل کا اندرونہ تمام امور سے پاک و صاف ہو۔ کسی ایسی بات کا شائبہ تک نہ ہو جس سے شرک کی بو آئے۔ رسومات و بدعات کے بتوں سے پاک و صاف دل سینہ میں ہو۔

گو اُس اداریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل اور اس کی صفائی کے حوالہ سے کئی اقتباسات موجود تھے مگر آج اس مضمون میں بعض ایسے ارشادات دیے جا رہے ہیں جو ملفوظات سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالیہ مطالعہ کے دوران تازہ بتازہ دستیاب ہوئے ہیں۔ ان میں ایک اہم سبق آموز ارشاد خاکسار نے ملفوظات جلد دہم صفحہ174۔175 ایڈیشن 1984ء سے لیا ہے جس کا موضوع اوپر بیان شدہ عنوان سے سے ملتا جلتا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اس گھر کو بتوں سے صاف کرو تا یہ خدا کا گھر کہلائے۔ فرمایا
طَھِّرَا بَیْتَی لِلطّآ ئفِیْنَ (البقرۃ: 126۔ ناقل) یعنی میرے گھر کو فرشتوں کے لئے پاک کرو۔ انسان کا دل خدا کا گھر ہے۔ یہ خدا کا گھر اس وقت کہلائے گا اور اس وقت فرشتوں کا طواف گاہ بنے گا جب یہ اوہام باطلہ و عقائد فاسدہ سے بالکل پاک وصاف ہو۔ جب تک انسان کا دل صاف نہ ہو اس کی عملی حالت درست نہیں ہوسکتی۔‘‘

(بدر مورخہ 9جنوری 1908ء جلد7 نمبر1)

یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مورخہ 27 دسمبر 1907ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر کے ہیں جو ایڈیٹر بدر نے اخبار بدر میں روایت کیے ہیں۔ ملفوظات میں ایڈیٹر الحکم نے اس مضمون کو یوں نقل کیا ہے۔

  • ’’یاد رکھو یہ خدا تعالی کا وعدہ ہے۔ خبیث اور طیب کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ابھی وقت ہے کہ اپنی اپنی اصلاح کر لو۔ یاد رکھو کہ انسان کادل خدا کے گھر کی مثال ہے۔ خانہ خدا اور خانہ انسان ایک جگہ نہیں رہ سکتا جب تک انسان اپنے دل کو پورے طور پر صاف نہ کرے اور اپنے بھائی کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار نہ ہو جائے تب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف نہیں ہو سکتا اور یہ باتیں میں اس واسطے بیان کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو یہاں قادیان میں آئے ہو ایسا نہ ہو کہ پھر خالی کے خالی ہی واپس چلے جاؤ۔ زندگی کا کچھ اعتبارنہیں۔ معلوم نہیں کہ آئندہ سال تک کون مرے اور کون زندہ رہے گا اس لئے سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے۔‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ174۔175)

  • پھر آپ کیا ہی عمدہ الفاظ میں دل کی صفائی کرنےکی طرف یوں توجہ دلاتے ہیں۔

’’جب انسان میں اللہ تعالی کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکرِ الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سےاُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی؟ نہیں یہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے

مَن کا منکا صاف کر۔

انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالی سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہو گی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ720 ایڈیشن1984ء)

  • دلوں کی صفائی کے حوالے سے فرمایا۔

’’بہت کم لوگ ہیں جو کہ دلوں کو صاف کرتے ہیں۔ اگر ایک پاخانہ (ٹائیلٹ۔ناقل) میں سے پاخانہ تو اٹھا لیا جاوے مگر اس کے چند ریزے باقی رہیں تو کسی کا دل گوارا کرتا ہے کہ اس میں روٹی کھا وے۔ اسی طرح اگر پاخانہ کے ریزے دل میں ہوں تو رحمت کے فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ263)

پھر فرمایا۔
’’دل کو پاک صاف کرنا بھی ایک موت ہوتی ہے۔ جب تک انسان محسوس نہ کرے کہ میں اب وہ نہیں ہوں جو کہ پہلے تھا تب تک اسے سمجھنا چاہئے کہ میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔

(ملفوظات جلد ششم صفحہ385)

حدیث میں ہے کہ انسانی جسم میں ایک عضو ایسا ہے کہ اگر وہ درست ہو تو جسم کے باقی اعضاء بھی درست سمت رہیں گے اور وہ عضو دل ہے۔اس کی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دل کی صفائی کو مختلف زاویوں اور مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے کہ اگر دل کو صاف رکھتے ہیں تو پھر عرفان اور ایقان بھی نصیب ہو جاتا ہے۔ دل کی صفائی کو آپ نےایک اور حسین انداز میں برتنوں کو قلعی یعنی پالش کروانے کے حوالہ سے سمجھایا ہے۔ شاید آج کی نوجوان نسل اس کو نہ سمجھ سکے ورنہ پرانے وقتوں میں پانڈے قلعی کرنے والے گلی کوچوں میں ’’پانڈے قلعی کروالو‘‘ (برتن چمکا کر نئے بنانے) کی صدائیں بلند کیا کرتے تھے۔ اور خواتین اپنے برتن بالخصوص پیتل، تانبے اور ایلو مینیم کے برتن قلعی کروایا کرتی تھیں۔ بلکہ ہم دیکھتے رہےہیں کہ دیہاتی خواتین اپنے کمروں کی پرچھتیوں پر سے پیتل کے برتن اتار کر سال میں ایک بار ضرورقلعی کرواتی تھیں ورنہ کَس کھلنے کا محاورہ استعمال ہوتا تھا۔ آج کل کیٹرنگ کرنے والے اپنے تانبے کے برتنوں،دیگچوں اور دیگوں کو قلعی کرواتےرہتے ہیں۔

  • اس حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے۔ جیسے کہ ایک برتن قلعی کرا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام ِ الہٰی کے انوار سے روشن اور کدورتِ نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے گویا قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا ۪ۙ (الشمس: 10 ناقل) کے سچے مصداق تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد ششم ایڈیشن 1984ء صفحہ15)

  • اسی مضمون کو ایڈیٹر صاحب بدر نے یوں نقل کیا ہے۔

’’جب ایک برتن کو مانجھ کر صاف کر دیا جاتا ہے پھر اس پر قلعی ہوتی ہے اور پھر نفیس اور مصفّا کھانا اس میں ڈالا جاتا ہے۔ یہی حالت ان کی تھی۔ اگر انسان اسی طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار برتن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اس میں ڈال دیا جاوے۔

(بدر جلد2 نمبر23 صفحہ177 مورخہ 26جون 1903)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احبابِ جماعت کے دلوں کو صاف ستھرا رکھنے کی اس قدر فکر دامنگیر تھی کہ ایک موقع پر دل کو صندوقچی سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح پرانے وقتوں میں ہماری بزرگ خواتین نے گھروں میں صندوقچیاں رکھی ہوتی تھیں۔ جن کو چھوٹی چھوٹی جندریوں (تالوں) سے بند رکھا ہوتا تھا۔ اور چابی انہوں نے اپنے پاس محفوظ کی ہوتی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد وہ ان صندوقچیوں کو کھول کر کپڑوں وغیرہ کو ہوا لگوایا کرتیں،صاف کرتی تھیں اورکیڑے مکوڑوں اور جراثیم سے حفاظات کے لئے فنائل کی گولیاں رکھا کرتی تھیں۔ بعض اوقات صندوقچی کو کھول کر اسے صاف کرنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی تھیں مگر وہ صرف اپنے کپڑوں کی تہوں کو بدل دیتی تھیں جس سے کپڑے صاف بھی ہو جاتے اور ان کپڑوں کی عمر بھی بڑھ جاتی۔ پرانی بزرگ خواتین کے گھریلو معاملات سے بہت سبق ملتا رہتا تھا۔ دیہاتوں میں کمروں کی دیواروں پر لکڑی کے شیڈ بنا کر وہ اپنے برتن سجایا کرتی تھیں۔ وہ ان پر جھاڑ پونچھ تو ہر دوسرے تیسرے دن کرتی تھیں مگر چھ ماہ یا سال کے بعد ان تمام برتنوں کو اُتار کر دھوتیں،صاف کپڑے سے چمکاتیں، پھر پرچھتی کو بھی صاف کرتیں اور دوبارہ قدرے ترتیب تبدیل کر انہیں سجا دیتی تھیں۔

گھروں کی اور انسانی بدن کی اس ظاہری صفائی کے عمل کوہمیں دل کی اندرونی صفائی پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ اور دل جو صندوقچی ہے اس کی چابی انسان کے اپنے پاس ہوتی ہے اُسے کھول کر صاف کرنا، اس کے اندر کی اشیا کو اٹھانا، پلٹانا اور دعاؤں، نئے عزم و ارادہ کے مُصفیٰ پانی سےاُسے دھونا اور تقویٰ کے صاف کپڑے سے اسے مزید پاک صاف اور خشک کرنا ضروری ہے۔

  • حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’دل تو اللہ تعالی کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے۔ کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ417)

دل کا تعلق غیروں سے

انسان کے اپنے دل کا اپنے وجوداور جسم کے ساتھ گہرا تعلق تو ہوتا ہی ہے۔ ماحول میں بسنے والے عزیزو اقارب، دوست احباب حتٰی کہ غیروں سے بھی اس کا دل تعلق رکھتا ہے۔ جماعت احمدیہ میں ہم میں سے ہر ایک داعی الی اللہ اور داعی الی الخیر ہے۔ اسی لئے دعوت الی اللہ کی کامیابی کا تعلق ہمارے اپنے نمونہ پر منحصر ہوتا ہے،جس کے لیے دل کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’پہلے گھر صاف ہو تو پھر دوسرے لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔‘‘

(ملفوظات: جلد دہم صفحہ116)

جب اپنا دل صاف ہو توسچے دل سے نکلی ہوئی بات دوسروں کے قلب و ذہن پر اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے۔ اسی لئے تو مشہور ہے کہ:

’’جو دل سے نکلتی ہے، و ہ اثر رکھتی ہے‘‘

کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل

کہ بات جو کسی کے دل سے نکلتی ہے وہ دوسروں کے دل پر بیٹھ جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضرب المثل کا ذکرزیر عنوان ’’فلاح الدارین کے حصول کے طریق‘‘ کے تحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’پس پہلے دل پیدا کرو۔ اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو۔ کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ زبان سے قیل و قال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبر نہ کرو، بد کاریوں سے بچو مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دل پر کہاں تک ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل، ایڈیشن 2016ء صفحہ57)

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے دل اور سینہ کو دنیا و مافیہا کی آلائشوں جیسے کینہ، بغض، نفرت، ریاکاری، جھوٹ، تکبر، بد کاری اور بد رسوم وغیرہ سے محفوظ رکھنے کی توفیق دیتا رہے آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 دسمبر 2021