• 28 جون, 2025

خلافت سے محبت، اصلاح نفس کا ذریعہ (تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء)

خلافت سے محبت، اصلاح نفس کا ذریعہ
(تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء)

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

زندہ قومیں اپنے اندر زندگی کی علامات رکھتی ہیں۔ ان علامات میں قومی زندگی میں ترقی کا ارادہ،عزم و ہمت، اصلاح نفس کی طرف توجہ اور نظام کی مضبوطی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ نظام ایک مرکز سے وابستہ ہو کر سب افراد کو وحدت کی لڑی میں اس طرح پرو دیتا ہے کہ اس کے ایک حصّہ پر حملہ ہو تو باقی حصّے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اسلامی نظام میں اس مرکز کا نام خلافت ہے۔ جیسے پہاڑوں کی بلندیوں پہ چڑھنے کے لئے لوگ رسّوں اور میخوں کا سہارا لیتے ہیں جو ان کی حفاظت کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح رُوحانی دنیا میں رفعتوں اور بلندیوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو خلافت کی رسّی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔

آنحضور ﷺ نے بھی آخری زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ کے قیام کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273، مشکوٰۃ: بابُ الاِنذار والتّحذیر) جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آخری زمانے میں خلافت ایک مستقل اصلاح ِنفس کا ذریعہ ہو گی۔ لفظ ’’صالح‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’یاد رکھو کہ صلاح کا لفظ وہاں آتا ہے جہاں فساد کا بالکل نام و نشان نہ رہے۔ انسان کبھی صالح نہیںکہلا سکتا جب تک وہ عقاید ردّیہ اور فاسدہ سے خالی نہ ہو اور پھر اعمال بھی فساد سے خالی ہوجائیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ119)

یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ صحتمند جسم کے لئے صالح خون اور صالح اعضاء ضروری ہیں اور اگر جسم صالح نہ ہو تو بیماری میں مٹھاس بھی کڑوی لگتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اسی طرح پر جب تک انسان صالح نہیں بنتا اور ہر قسم کی بدیوں سے نہیں بچتا اور خراب مادے نہیں نکلتے، اس وقت تک عبادت کڑوی معلوم ہوتی ہے۔ نماز پڑھتا ہے لیکن اسے کوئی لذّت اور سرور نہیں آتا۔۔۔۔۔ عبادت میں مزا اُسی وقت آتا ہے جب گندے مواد اندر سے نکل جاتے ہیں۔ پھر اُنس اور ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے۔ اِصلاح ِ انسانی اس درجہ سےشروع ہوتی ہے‘‘

(الحکم جلد9 نمبر 17 تا 24 مئی 1905ء)

خلافت کا وعدہ انہیں لوگوں سے ہے جن کے اعمال ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہوں۔ اس پاکیزگی کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء اور خلفاء مقرر فرماتا ہے۔ ان وجودوں سے محبت اور ان کی پیروی سے ہی انسانی نفس کی اصلاح ممکن ہے اور ان وجودوں سے دُوری اور بے وفائی نفس کے فساد کا موجب بنتی ہے۔ چنانچہ خلافت سے محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ محبت کہتے کسے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اُسے پی لیتا ہے۔۔۔اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اُس نور کو حاصل کر لیتا ہےجو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے۔ اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے۔‘‘

(نورالقرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ430)

’’محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو،تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے۔۔۔۔۔۔محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہو جانا ہے۔۔۔۔۔۔حَبٌّ جو دانہ کو کہتے ہیں وہ بھی اِسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا۔‘‘

(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ431۔432)

یعنی جس چیز کا دانہ ہے، اس دانے سے اسی چیز کے خواص ظاہر ہوں گے۔ گندم کا دانہ جب بھی اُگے گا اس سے گندم ہی اُگے گی۔ جَو کے دانہ سے جَو کا پودا ہی پھوٹے گا۔ اسی طرح جس ہستی سے محبت کا دعویٰ ہے، اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خلق کا اثر اپنے دل پر ڈالنے کا نام محبت ہے۔

چنانچہ خلافت سے محبت کا مطلب صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اپنے وجود سے اُن صفات کی عکاسی کرنا ہے جو اللہ، اس کا رسول اور خلیفہ ٔ وقت ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ فرما تا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران : 32) کہ اے نبی انہیں بتا دے کہ اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اسی طرح آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ عَلَیکُم بسُنَّتی وسُنَّۃِ الخُلَفَاءِالرَّاشِدینَ المَھدیِّینِ کہ تم پر میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنّت پر عمل کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا آج اصلاح نفس کے لئے خلافت کی پیروی اور محبت ضروری ہے۔ کیونکہ خلافت سے محبت میں رسول کی محبت اور رسول کی محبت میں اللہ کی محبت کا راز پنہاں ہے۔ آنحضور ﷺ نے اپنے بعد خلافت کے دو ہی زمانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک اپنے فوراً بعد قائم ہونے والی خلافت اور دوسری اُمّت میں بگاڑ کے بعد آخری زمانے میں قائم ہونے والی خلافت۔ پس خلافت کے یہ دونوں دَور خُلَفَاءُالرَّاشِدِیْنَ المَھْدِیِّیْن کے دَور ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔اسی لئے آنحضور ﷺ نے اپنی سنّت کے ساتھ ساتھ خلفاء راشدین کی سنّت پر عمل کو بھی ضروری قرار دیا۔

محبت کے مفہوم سے ظاہر ہے کہ خلافت کی محبت سے مراد خلیفہ وقت سے ایسا دلی تعلق ہے کہ انسان اپنے محبوب میں فنا ہو کر اس میں کھو جائے۔ یعنی ہماری ہر حرکت و سکون خلافت کی مرضی و منشا کے مطابق ہو جائے۔ خلافت کادرد ہمارا درد ہو۔ خلافت کی خوشی ہماری خوشی ہو۔ ہماری خواہشات، ہمارے قول اور ہمارے فعل ایسے ہوں کہ ہمیں زبان سے نہ بتانا پڑے کہ ہم خلیفہ وقت سے محبت کرتے ہیں بلکہ ہمارے اعمال اس محبت اور وفا کی عملی گواہی دے رہے ہوں۔

خلافت سے محبت اور اصلاح ِنفس ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اگر خلافت سے محبت ہے تو خلافت کی پیروی میں اصلاح نفس ضروری ہے اور اصلاح نفس کیلئے خلافت سے محبت اور وفا ضروری ہے۔
جب اللہ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں خلافت عطا فرمائے گا تو مطلب یہ ہے کہ خلافت کی برکتیں اُن لوگوں کو ملیں گی جو نبی کی پیروی میں احکامِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کی اصلاح کریں گے اور ایسے اعمال بجا لائیں گے جس میں کوئی فساد نہ ہو گا اور ہر عمل میں اپنی بھلائی کے ساتھ ساتھ قومی اور اجتمائی بھلائی کو پیش نظر رکھیں گے۔ لیکن اگر کوئی فتنہ و فساد والی حرکتیں کرے گا وہ خلافت کی حقیقی برکات سے محروم رہے گا۔بیعت سے نکلنے والا جہالت کا شکار ہو جائے گا۔ جیسا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی بیعت نہ تھی فَقَدمَاتَ مِیتَۃَجَاھِلِیَّۃَ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب بلزوم ِ الجماعۃ عند ظھور الفتنۃ) وہ جہالت کی موت مرا۔ نیز فرمایا یَدُ اللّٰہِ عَلَی الجَمَاعَۃِ وَمَن شَذَّ شُذَّ اِلَی النَّارِ (ترمذی، کتاب الفتن، باب لزوم الجماعۃ) کہ اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔ نیز آپ ﷺنے آخری زمانے کے فتنوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ فَاِنْ رَائَیْتَ یَوْمَئِذٍ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ فِی ا لْاَرْضِ فَالزِمہُ وَاِ نْ نُھِکَ جِسْمُکَ وَ اُخِذَ ا مَالُکَ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر22333) اگر تم اُس وقت زمین میں اللہ کا خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جانا۔ خواہ تمہارا جسم تار تار کردیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔ یعنی آنحضور ﷺ نے تاکید فرمائی کہ اُس دور میں خلافت سے محبت اور وفا کرنا خواہ اس کیلئے تمہیں جان اور مال کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ کیونکہ محبت کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے لیکن جب قربانی کا موقع آتا ہے تو شیطان انسانی نفس کو دھوکہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ کبھی آباو اجداد کی جھوٹی عزت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی اولاد، رشتہ داروں یا دوستوں کی طرفداری کی شکل میں، کبھی مال او ر تجارت کی حرص اور کبھی عالیشان گاڑیوں اور جائیدادکے لالچ کی صورت میں انسانی نفس کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور انسان خدا کو چھوڑ کر شیطان کی راہ اپنا لیتا ہے۔اسی لئے فرمایا کہ قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۣ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ (التوبہ : 24) کہ اے نبی! کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے، بھائی، بیویاں، رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم کماتے ہو اور تجارت (یا کاروبار) جس کے گھاٹے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ اگر یہ سب کچھ تمہیں اللہ اور اُس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ فاسقوں کو پسند نہیں کرتا۔

خلافت کے وعدے اور پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ جس طرح پہلے دور میں صحابؓہ نے آنحضور ﷺ اور خلافت کی محبت میں قربانیاں دیں۔آخرین میں بھی حقیقی مومن خلافت کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اُس سے چمٹے رہیں گے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہوں گے۔

قرآن کریم میں بیان فرمودہ برکاتِ خلافت میں سے ایک یہ بیان ہوئی ہے کہ یَعبُدُونَنِی لَایُشْرِ کُوْنَ بِیْ شَیْاً کہ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اللہ کی عبادت اور شرک سے پرہیز اصلاح نفس کی بنیادی کنجی ہے جس سے رُوحانی آسما ن کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان شیطان سے دُور ہو کر اُن الہٰی انعامات کا وارث بن سکتا ہے جن کی سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی گئی ہے۔

سورۃ فاتحہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت کا ذکر کر کے خدا کے حضور عرض کرتا ہے اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ۔ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ کہ اے خدا چونکہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں لہٰذا تو ہی ہمیں صراط مستقیم دکھا جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہو اور مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ اور ضَّآلِّیۡنَ کا راستہ نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح فرماتا ہے کہ ضالین کے راستے سے بچ کر صراط مستقیم کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ ألَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ۔ وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ۔

(یٰسین: 61-63)

کہ اے بنی آدم! کیا میں نے تم پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کیا کرو وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کیا کرو۔ یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر چکا ہے کیا تم عقل نہیں کرتے؟ یعنی سورۃ فاتحہ کی دعا کا جواب دے دیا کہ تم صراط مستقیم چاہتے ہو تو سنو اس کی اوّل شرط یہ ہے کہ پہلے شیطان کی عبادت سے انکار کرو۔ پھریہ کہ صرف میری عبادت کرو۔ ھٰذَا صِرَاطَ المُسْتَقِیم۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ پرہیز کے بغیر دوا فائدہ نہیں دیتی۔ انسان زہر کھاتا جائے تو تریاق بھی بے کار ہو گا۔ اگر شیطان کی عبادت کا زہر کھاتے رہو گے تو تمہارے نفس سے شیطان کی ہی عکاسی ہو گی اُس کی کبھی اصلاح نہیں ہو گی اور خدا کی رحمت کا تریاق تمہیں عطا نہیں ہو گا کیونکہ وَ لَقَد اَضَلَّ مِنکُم جِبِلَّا کَثِیراَ۔ اُس نے تم میں بہت سی مخلوق کو ضالین بنا دیا ہے۔ یعنی جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کے نتیجے میں صراط مستقیم حاصل ہوتا ہے وہاں شیطان کی عبادت کے نتیجے میں ضالّین کا مقدر ملتا ہے۔

یاد رہے کہ عبادت صرف ظاہری نماز، روزے کا ہی نام نہیں بلکہ انسان کا ہر عمل عبادت ہے۔ اور ہر انسان، ہر وقت عبادت کر رہا ہے ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں ایک ضعیف بزرگ جوروزہ نہ رکھ سکتا تھا، گلی کے کونے میں، ا ٓڑ میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ دو منچلے نوجوانوں کو شرارت سُوجھی تو پاس جا کے پوچھنے لگے کہ بابا جی روزہ ہے؟ بزرگ نے کہا جی بیٹا میرا روزہ ہے۔ اس پہ نوجوان کھل کھلا کے ہنس پڑے کہ بابا جی کھانا بھی کھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا روزہ ہے۔ بابا جی نے اُن کو ہنستے دیکھ کر فرمایا کہ بیٹا! میرے دل میں صبح سے کوئی بُرا خیال نہیں آیا۔ میرے دماغ میں کسی کے خلاف کوئی فسادی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔ میری آنکھوں نے بد نظری نہیں کی۔ نہ میں نے زبان سے کسی کی بُرا ئی کی اور نہ میرے کانوں نے کسی کی بُرائی سُنی۔ اور نہ ہی میں نے اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف پہنچائی۔ لہٰذا میرے دل کا بھی روزہ ہے۔ میرے دماغ کا بھی روزہ ہے۔ میری آنکھوں کا، میرے کانوں کا، میری زبان کا، میرے ہاتھوں اور پاؤں کابھی روزہ ہے۔ لیکن بیٹا! بڑھاپے میں بیماری اور کمزوری کی وجہ سے بس میرامعدہ روزہ نہیں رکھ سکتا۔ باقی تو اللہ کے فضل سے پورے جسم کا روزہ ہے ۔۔۔ پھر بابا جی نے اُ نہیں پوچھا کہ بیٹا کیا آپ کا بھی روزہ ہے؟ تو وہ شرمندہ ہو کر بولے بابا جی! ہمارا تو صرف معدے کا ہی ورزہ ہے۔

انسان کے دل میں اُٹھنے والا ہر خیال عبادت ہے۔ دماغ میں آنے والی ہر سوچ عبادت ہے۔ آنکھوں سے دیکھا جانے والا ہر منظر عبادت ہے۔زبان سے نکلنے والا ہر لفظ عبادت ہے اور جسم سے سرزد ہونے والا ہر عمل عبادت ہے۔ لیکن عبا دت ہے کس کی ہے؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے دل میں اُٹھنے والے خیالات اچھے ہیں تو یہ اللہ کی طرف سے ہیں اور اگر بُرے ہیں تو وہ شیطان کی طرف سے ہیں۔ شیطانی خیالات دماغ میں آ کر فساد پر مبنی سوچ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہی خیالات پھر زبان پہ آتے ہیں تو شیطانی اقوال اور جسم سے عملی صورت میں ظا ہر ہوں تو شیطانی اعمال بن جاتے ہیں۔غرض اگر کسی کے دل کے خیالات، دماغ کے تصوّرات، اُس کی زبان کے اقوال اور جسم کےاعمال سے شیطانی مقاصد کی عکاسی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کی نہیں بلکہ شیطان کی عبادت کر رہا ہے۔ اور اگر ان سب اعضا سے اللہ کا رنگ جھلکتا ہے تو وہ اللہ کی عبادت کر رہاہے۔ شیطان کی عبادت کرنے والے اولیاء الشیطان اور اللہ کی عبادت کرنے والے اولیاءاللہ کہلاتے ہیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم شیطان کی عبادت چھوڑدیں اور اس کے اولیاء کو پہچا نیں اور اپنی مجلسوں کی حفاظت کریں۔ بدکردار، جھوٹے، خائن اور خدا اور اس کے رسول اورخلافت کے خلاف بدزبانی اور تدبیریں کرنے والوں سے ہوشیار رہیں اور اُن کی صحبت سے بچیں۔

جو لوگ جھوٹ، خیانت، بددیانتی اور دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے شیطانی ذرائع کو اپنے رزق اور کامیابی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کا خدا تعالیٰ کی ربوبیت سے رشتہ کٹ جاتا ہے۔ پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ واضح فرما رہا ہے کہ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، صرف میری عبادت کرنا۔ یہ صراط مستقیم ہے۔جبکہ تم نے اپنے اعمال و افعال میں توشیطان کو معبود بنا کر رکھا ہے اور ریا کاری سے مجھے کہتے ہو۔ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ؟ جاؤ جس شیطان کی عبادت کر رہے ہو اُسی سے مدد مانگو۔

پس جب خدا نے خلافت کی برکات میں فرمایا کہ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ وہ صرف میری عبادت کریں گے۔ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ تو اس سے واضح ہو گیا کہ خلافت سے محبت کرنے والے اپنے کسی قول یا فعل میں شیطان کی عبادت کر کے اُسے اللہ کا شریک نہیں بناتے۔ خلافت سے محبت اور وابستگی کے نتیجے میں ان کا نفس شیطانی تسلّط سے آزاد ہو جاتا ہے اور اُن کی ہر حرکت و سکون اللہ کی عبادت کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ الَّذِیۡنَ اجۡتَنَبُوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ یَّعۡبُدُوۡہَا وَ اَنَابُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی (الزمر: 18) کہ جو لوگ سرکش اور شیطانی ہستیوں کی عبادت سے اجتناب کرتے ہیں اور اللہ کی طرف جھکتے ہیں اُن کیلئے خوشخبری ہے۔

یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ تم بیک وقت شیطانوں اور سرکش لوگوں کے بندے بھی بن جاؤ اور اللہ کے بندے بھی۔ تمہیں اِن میں سے ایک کی بندگی چھوڑنی پڑے گی۔ اگر تم اللہ کے عبادت گزار بننا چاہتے ہو تو شیطان کی بندگی چھوڑ دو۔ اگر شیطان کے پیچھے چلو گے تو تمہار ا خدا سے تعلق ٹوٹ جائے گا اور تمہاری عبادتیں محض ریا کاری ہونگی۔ اور ایسی عبادتیں تمہارے نفس کی اصلاح کرنے کی بجائے، اُسے ہلاک کر نے کا باعث ہوں گی۔ جیسے فرمایا۔ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ۔الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ (الماعون) کہ جو لوگ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہو کر نماز پڑھتے اور محض ریا کاری کرتے ہیں، اُن کے لئے ہلاکت ہے۔

پس جب خلافت کے متعلق فرمایا کہ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡـًٔا تو یہ واضح ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے حضور خلافت سے محض ریا کاری کی محبت کام نہیں آئے گی بلکہ ایسی محبت جس سے آپ کا نفس شیطانی اعمال سے پاک نظر آئے اور اس میں الہٰی رنگ جھلکتا ہو۔یہ اصل محبت ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے آخری زمانہ میں دجّال کے عظیم فتنے کا ذکر فرمایا ہے جس کی ہلاکت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں مقدّر ہے۔ حضور ﷺ نے دجّال کے فتنے سے محفوظ رہنے کےلئے سورۃ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ سورہ کہف کی پہلی آیات پر غور کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دجّال کون ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے والے کون ہیں۔

ان آیات پہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجّال وہی ضالّین ہیں جو خدا کا بیٹا بناتے ہیں۔ جن کو شیطان نے گمراہ کر دیا اور وہ شیطانی اعمال میں مبتلأ ہو گئے اور فرمایا وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ ان کے مقابل پہ بشارت ہے ان کے لئے جو مومن اور عمل صالح کرنے والے ہیں۔ یعنی جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔ مراد یہ کہ آنے والا مسیح موعود دجّال کے شیطانی اعمال کے مقابلے میں اصلاح نفس کرنے والی جماعت قائم کرے گااور دلائل کیساتھ انسانیت سے دجّالیت کے اثر کو مٹانےکی بنیاد رکھ دے گا۔ اور یہ رُوحانی جہاد اللہ کی قائم کردہ قدرت ثانیہ کی قیادت میں جاری رہے گا۔شیطان گمراہی کے جال پھینکے گا لیکن خلافت کی قیادت میں شیطانی تدبیریں خاک میں ملا دی جائیں گی۔ بالآخر ایمان اور عمل صالح کرنے والوں، یعنی خلافت کے پیروکاروں کو اللہ تعالیٰ کامیابی کی بشارت دے رہاہے۔

پس خلافت سے محبت کا دعویٰ ہے تو ہمیں شیطان کے اندرونی دجل،جھوٹ، فریب اور ملمّع سازی کے بُت بھی پاش پاش کرنا ہوں گے۔ اگر ہمارے اندر یہ جڑ پکڑ رہے ہیں تو پھر خلافت سے محبت کے زبانی دعوں کی ملمّع سازی ہمارے کسی کام نہ آئے گی۔ بلعم باعور بھی ظاہری نیکی اور تقویٰ کم نہ تھا۔ لیکن اپنی نیکیوں کے زعم میں حکومت وقت کے ساتھ مل کر جب وہ حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلہ پر آیا تو ہلاکت اس کا مقدر بن گئی۔

قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑسے پوچھا کہ اے موسیٰ! یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔ آپ نے عرض کی کہ یہ میرا عصاء ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اِسے زمین پہ پھینک دے۔ آپؑ نے پھینک دیا۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سانپ بن گیا ہے۔ آپؑ گھبرائے تو اللہ نے فرمایا ڈرنا نہیں اسے پکڑ لے۔ (تیرے ہاتھ میں آئے گا تو ) ہم اسے واپس اصل حالت میں لوٹا دیں گے۔ حضرت موسیٰؑ کے ہاتھ میں آنے پر وہ دوبارہ عصا بن گیا۔یہ ایک کشفی نظارہ تھا۔ عصا سے مراد در اصل جماعت ہوتی ہے۔اس میں بتایا گیا کہ اگر قوم نبی یا خلیفہ کے ہاتھ میں رہے گی تو صالح اور مضبوط ہو گی اگر اس سے رُو گردانی کرے گی تو رُوحانی طور پر سانپ کی طرح زہریلی بن جائے گی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم کی اصلاح کا حقیقی ذریعہ صحبت ِصلحاء ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے خلافت کا قیام فرما کر اس دَور میں اصلاح نفس کا ایک بہترین ذریعہ عطا فرمایا ہے جس کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم: 8) اگر تم شکر کرو گر تو میں مزید عطا کروں گا اور اگر انکار کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے انکار کیا تو خدا کی نظروں سے گر گئی۔حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے انکار کیا اور تباہ و برباد ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کا بیٹا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے مقابل پر آیا، تو تاریخ میں اُس کا یہ فعل نفرت کی نگا ہ سے یاد رکھا گیا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے خلافت کے مقابل پہ کھڑا ہو کے بدنامی و رسوائی کے سوا کیا حاصل کیا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ اِنِّی مُعِینٌ مَن اَرَادَ اِعَانَتَکَ واِنِّی مُھِینٌ مَن اَرَادَ اِھانَتَکَ۔ کہ جو تیری مدد کرے گا میں اس کی مدد کروں گا اور جو تیری اہانت کرے گا میں اسے ذلیل ورسوا کر دوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’تم یقینا یاد رکھو اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گاجووفاداری کو چھوڑ کر غدّاری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ اسے کوئی فریب دے سکتاہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم سچّا اخلاص اور صِدق پیدا کرو‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ138)

پھر فرمایا
’’صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو دُور بیٹھ رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے۔ اِس وقت فرصت نہیں ہے۔ بھلا تیرہ سو سال کے موعود سلسلہ کو جو لوگ پا لیں اور اُس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رسول کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں، وہ فلاح پا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔ ہم نے بار ہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں۔ اور فائدہ اُٹھائیں، مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدّم کر لیتے ہیں مگر اِس کی پرواہ کچھ نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں۔ جب موت کا وقت آ گیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہو گی۔ وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور ۔۔۔۔۔ یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور اُن باتوں کو جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے، وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متّقی اور پرہیز گار ہوں۔ مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہئے انہوں نے قدر نہیں کی ۔۔۔۔۔ پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو اور دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا سچّا وعدہ کرتے ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ اس پر کیا عمل ہوتا ہے؟ کیا کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: 119) کا حکم منسوخ ہو چکا ہے؟ اگر واقعی تم ایمان لاتے ہو اور سچّی خوش قسمتی یہی ہے تو اللہ تعالیٰ کو مقدّم کر لو۔ اگر ان باتوں کو ردّی اور فضول سمجھو گے تو یاد رکھو! خدا تعالیٰ سے ہنسی کرنے والے ٹھہرو گے‘‘

(ملفوظات جلد اول، ایڈیشن 2003 قادیان، صفحہ 124،125)

اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کا یہ ارشاد آپؑ کی خلافت کے ذریعہ قائم ہے کہ خلیفۂ وقت کی صحبت میں بیٹھ کر آپ کی باتیں سنی جائیں اور اِن پر کما حقہ عمل کر کے اپنی اصلاح کی جائے۔ آج بزرگان اُمّت کی صدیو ں پہلے کی گئی پیشگوئیاں اس شان کے ساتھ پوری ہو رہی ہیں کہ انکار کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔

حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اُس وقت آسمان سے ایک منادی امام مہدی کے نام کا اعلان کرے گا۔ اس کو مشرق و مغرب کے سب لوگ سنیں گے۔ اِس آواز سے سوئے ہوئے لوگ جاگ جائیں گے اور بیٹھے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم کرے گا جو اِس آواز پر توجہ دیتے ہوئے اِسے قبول کرلے گا۔

(بحارالانوار جلد52۔ صفحہ230۔ دارالاحیاء التراث العربی بیروت)

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک منادی امام مہدی کا نام لیکر آواز دے گا۔ یہ آواز عام ہوگی۔ اور اسے ہر قوم اپنی اپنی زبان میں سنے گی۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ448 باب 25۔ علامات ظہورہ علیہ السلام من السّفیانی والدّجال)

اسی طرح امام جعفر صادق ؒفرماتے ہیں کہ ’’امام مہدی کے دَور میں اگر کوئی مومن مشرق میں ہوگا تو وہ اپنے مغرب میں بیٹھے ہوئے بھائی کو دیکھ لے گا اور مغرب والا مشرق والے کو دیکھ لے گا۔ (ایضا)

آج خلیفہ ٔ وقت ان پیشگوئیوں کے مطابق MTA کی شکل میں امام مہدی کے نام کی منادی کر رہے ہیں گویا آسمان سے آواز آ رہی ہے کہ

اسمعوا صوت السّماء جاء المسیح جاء المسیح
نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار
آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بے قرار

آج خدا نےMTA کے ذریعے خلیفۂ وقت اور عوام کے درمیان فاصلہ ختم کر دیا ہے۔ اور اگر آپ حالات کے پیش ِنظر خلیفہ ٔ وقت کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے تو خلیفہ ٔ وقت ایم ٹی۔ اے کی برکت سے ہر روز آپ کے گھر میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ جتنا قریب سے آج خلیفۂ وقت کو دیکھنے اور آپ کی باتیں سننے کا موقع ہے، یہ موقع انسانی تاریخ میں کسی نبی یا خلیفہ کے دَور میں نہیں آیا۔ لہٰذا اب اگر کوئی اپنے گھر میں بھی وقت نکال کے خلیفۂ وقت کی باتو ں کو نہیں سُنتا اور نہیں دیکھتا تو وہ بزرگانِ امّت کی پیشگوئیوں کی قدر کرنے سے انکاری ہے اور بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے لوگ خواہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متّقی اور پرہیز گار ہوں، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت کی بے قدری کر کے خدا سے استہزأ کرنے والے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّد ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’ایک بہت بڑی تعداد اللہ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں یہ ریزو لیوشنز، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے۔۔۔جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔یہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے ۔۔۔۔۔ تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔ پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر ۔۔۔۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے ۔۔۔ اس پر عمل کریں ۔۔۔۔ تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گےہم آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2005، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15 جولائی 2005)

اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت سے حقیقی محبت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اقوال وا فعال خلافت سے وفا کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں۔ آمین

(مولانا شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 دسمبر 2021