خلفائے احمدیت کی تحریکات
خدمتِ خلق کے متعلق تحریکات
امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہیومینٹی فرسٹ کی انٹرنیشنل کانفرنس 2021ء منعقدہ 30 و 31؍اکتوبر 2021ء سے براہِ راست اختتامی خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خدمتِ انسانیت کو ایک احمدی کا مذہبی فریضہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام میں پڑوسی کی تعریف اتنی وسیع ہے کہ معاشرے کے تمام لوگ اس میں سموئے جاسکتے ہیں۔ ہر احمدی مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کی تکلیف اور دکھ کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ کے فضل سے ہیومینیٹی فرسٹ کے کام کے ذریعہ بہت سے احمدیوں کو موقع ملا کہ اپنے ہمسایوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ صرف وہی نہیں جو ان کے قریب رہتے ہیں بلکہ دیگر ممالک یا بر اعظموں میں بسنے والے لوگ بھی۔ آنحضرتﷺ نے نصیحت فرمائی کہ جس نے اللہ کی رضا کی خاطر کسی مریض کی عیادت کی اس کے لیے آسمان سے ایک پکارنے والا پکارے گا کہ تمہارا ہر قدم مبارک ہو اور تمہیں جنت میں اعلیٰ مقام ملے۔ پس جو ہسپتال اور کلینکس کے قیام کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں حقیقت میں وہ جنت میں اپنا گھر بنا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 5 نومبر 2021ء)
خدمتِ خلق کی چند تحریکات
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
اسی ارشاد کے تحت خلفائے احمدیت نے بنی نوع انسان کے لئے صرف قولی نہیں بلکہ عملی تحریکات جاری فرمائیں۔ اس ضمن میں چند تحریکات درج کی جاتی ہیں۔
لاوارث عورتوں اور بچوں
کی خبرگیری کے لئے تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جولائی 1927ء میں آریوں کے ایک خطرناک منصوبہ کا انکشاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ شدھی کا زور جب سے شروع ہواہے ہندو صاحبان کی طرف سے مختلف سٹیشنوں پر آدمی مقرر ہیں جو عورتوں اور بچوں کو جو کسی بدقسمتی کی وجہ سے علیحدہ سفر کررہے ہوں بہکا کر لے جاتے ہیں اور انہیں شدھ کرلیتے ہیں اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہر بڑے شہر میں لاوارث عورتوں اور بچوں کے لئے ایک جگہ مقرر ہونی چاہئے جہاں وہ رکھے جائیں نیز دہلی والوں کو اس کے انتظام کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا:
’’یاد رکھنا چاہئے کہ قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ ایک ایک آدمی نکلنا شروع ہو تو بھی کچھ عرصہ میں ہزاروں تک تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی نسلوں کومد نظر رکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں کا نقصان نظر آتا ہے پس اس نقصان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے‘‘
(الفضل 19 جولائی 1927ء صفحہ2,1)
چنانچہ انجمن محافظ اوقاف دہلی نے یہ اہم فرض اپنے ذمہ لیا اور اس کے لئے پانچ معزز ارکان کی کمیٹی قائم کردی۔
بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک
30؍مئی 1944ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے جماعت احمدیہ کو عموماً اور اہل قادیان کو خصوصاً یہ اہم تحریک فرمائی:
’’ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کو کھانا نہ کھلالے‘‘
(الفضل 11 جون 1945ء صفحہ3 کالم2)
بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک
17؍دسمبر 1965ء کو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جماعت کے سامنے یہ تحریک رکھی کہ جماعت کے عہدیداران اس بات کا جائزہ لیں اور وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ جماعت کا کوئی فرد بھوکا نہ سوئے۔ حضور نے ایک ایسی سکیم جماعت کے سامنے رکھی کہ جس کے نتیجہ میں طبقاتی کشمکش کی تحریک دم توڑ جاتی ہے اس وقت دنیا میں طبقاتی کشمکش اس لئے جاری ہے کہ امیر طبقہ غریب طبقہ کا خیال نہیں رکھتا بلکہ غریبوں کو غریب بنا کر ان کی دولت حاصل کرنا چاہتا ہے حضور کی دور اندیشی اور فراست نے اس بات کو بھانپ لیا تھا اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
’’کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے سب سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پرعائد ہوتی ہے۔ اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آتی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری اس ماحول پر پڑتی ہے جس ماحول میں وہ محتاج اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے… احمدیوں میں عام طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے لیکن میرا احساس یہ ہے کہ ابھی اس حکم پر کماحقہٗ عمل نہیں ہورہا۔ اس لئے آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سویا۔ دیکھو میں یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کرنے کے قابل نہ ہو تو آپ کا فرض ہے کہ مجھے اطلاع دیں میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کردوں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ‘‘
(الفضل 10 مارچ 1966ء)
اس تحریک پر لَبَّیْکَ کہتے ہوئے احباب جماعت نے اپنے محتاج اور غریب بھائیوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔
عید الفطر پر غریبوں کا خیال رکھنے کی تحریک
12؍جولائی 1983ء کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے خطبہ عید الفطر میں تحریک فرمائی:
’’آج عید کی نماز کے بعد ضروری امور سے فارغ ہو کر اگر وہ لوگ جن کو خدا نے نسبتاً زیادہ دولت عطا فرمائی ہے زیادہ تمول کی زندگی بخشی ہے وہ کچھ تحائف لے کر غریبوں کے ہاں جائیں اور غریب بچوں کے لئے کچھ مٹھائیاں لے جائیں … بچوں کے لئے جو ٹافیاں یا چاکلیٹ آپ نے رکھے ہوئے ہیں وہ لیں اور بچوں سے کہیں آؤ بچو آج ہم ایک اور قسم کی عید مناتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چلو ہم بعض غریبوں کے گھر آج دستک دیں گے۔ ان کو عید مبارک دیں گے۔ ان کے حالات دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اپنے سکھ بانٹیں گے‘‘
’’اس طرح اگر آپ غریب لوگوں کے گھروں میں جائیں گے اور ان کے حالات دیکھیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے … ان آنسوؤں میں وہ اتنی لذت پائیں گے کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہوں گی۔ ان کو بے انتہا ابدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائل نہ ہونے والے بےانتہا سرور ان کو عطا ہوں گے۔ یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید ہے یہ ہے وہ عید جو درحقیقت سچے مذہب کی عید ہے‘‘
(الفضل 26 جولائی 1983ء)
کفالت یتامیٰ کی تحریکات
حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍اکتوبر 1986ء بمقام مسجد فضل لندن میں ایلسلواڈور میں آنے والے زلزلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں جو تباہی آئی ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے یتیم ہو گئے ہیں اس لئے احباب جماعت کے افراد ان کی کفالت کی ذمہ داری لیں اور یتامیٰ کی حفاظت کریں۔ اس ضمن میں حضور نے بتایا کہ ایک مخلص احمدی نے چالیس لاکھ روپے دیئے ہیں کہ اس سے جماعت جس طرح چاہے یتیم خانہ کھولے۔
(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید اکتوبر 1986ء)
جوبلی منصوبہ کے تحت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جنوری 1991ء میں کفالت یتامیٰ کی ایک نہایت مبارک تحریک جاری فرمائی۔ اس تحریک کا نام کفالت یکصد یتامیٰ کمیٹی رکھا گیا۔
اس تحریک میں خدا کے فضل سے مخلصین جماعت نے بشاشت قلبی کے ساتھ حصہ لیا اور دل کھول کر عطایا پیش کئے اور اب بھی کررہے ہیں۔ یہ تحریک مرکزی انتظام کے تحت ربوہ میں کام کررہی ہے اور اگرچہ اس کا نام یکصد یتامیٰ تھا لیکن یہ فیض خدا کے فضل سے جنوری 2008ء تک 2500 یتامیٰ تک پہنچ چکا ہے اور اس کمیٹی کی نگرانی میں یہ بچے نہ صرف اپنے اخراجات حاصل کررہے ہیں بلکہ ان کی روحانی تربیت کا انتظام بھی اس کمیٹی کی نگرانی میں کیا گیا اور مربیان کرام پاکستان بھر کے احمدی یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے دورے کرتے اور ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس تحریک پر احباب جماعت نے دل کھول کر لبیک کہا ہے اور یہ فیض جاری ہے جس کے ذریعہ سے جہاں یتامیٰ کی کفالت ہورہی ہے وہاں یہ تحریک عطایا دینے والے احباب کے لئے قرب الٰہی کا حصول پانے کا موجب بن رہی ہے۔
1989ء میں سلمان رشدی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بہت سے بچے یتیم ہوگئے۔ حضور نے محض محبت رسولؐ میں ان کی کفالت کا اعلان فرمایا۔
(الفضل 5 ؍اپریل 1989ء)
اس کی تفصیل حضور کی دعوت الی اللہ کی تحریکات میں گزر چکی ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے 29 جنوری 1995ء کے خطبہ میں سیرالیون میں یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی طرف خصوصی طور پر جماعت کو متوجہ کیا۔
29 جنوری 1999ء کو حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے افریقن ممالک خصوصاً سیرالیون کے مسلمان یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک کی اور فرمایا یتامیٰ کو گھروں میں پالنے کی رسم زندہ کریں۔ 5 فروری 1999ء کو حضور نے عراق کے یتیموں اور بیواؤں کے لئے خصوصی دعاؤں اور خدمت خلق کی تحریک فرمائی۔
عیادت مریضان کی تحریک
خطبہ جمعہ 15؍اپریل 2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عیادت مریض آنحضرت ﷺ کے اسوہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’مریضوں کی عیادت کرنا بھی خداتعالیٰ کے قرب کوپانے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں۔ خدمت خلق کے جو ان کے شعبے ہیں۔ لجنہ کے، خدام کے، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں۔ اپنوں اور غیروں کی سب کی عیادت کرنی چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں‘‘
(روزنامہ الفضل 8 نومبر 2005ء)
امداد مریضان کی تحریک
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ عید الفطر 13؍اکتوبر 2007ء میں فرمایا:
’’امداد مریضان کی ایک مد ہے اس میں پاکستان میں تو باقاعدہ طریقہ اور نظام رائج ہے جس کے تحت مریضوں کو جو ہسپتال میں آنے والے ہیں، علاج سے مدد کی جاتی ہے قادیان میں بھی اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی رائج ہے لیکن باقاعدہ قادیان اور ربوہ میں زیادہ ہے۔ دوائیاں اور علاج اب اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ غریب آدمی کی پہنچ سے یہ معاملہ بہت دور ہو چکا ہے، بعض علاج اس لئے نہیں کرواتے کہ پیسے نہیں ہوتے تو باوجود خواہش کے بعض دفعہ محدود وسائل کی وجہ سے ایسے مریضوں کی پوری طرح مدد نہیں کی جا سکتی۔ ایسے احباب جو مالی حالت میں بہتر ہیں، وہ جن کو خود یا جن کے مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا دی ہے، مریضوں کی شفا یابی پر اپنی حیثیت کے مطابق اگر مریضوں کے لئے مدد کیا کریں تو بہت بڑی تعداد ضرورت مند مریضوں کی جو ہے ان کی مدد ہو سکتی ہے، بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے عورتیں گزرتی ہیں، بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے، اس شکرانے کے طور پر مریضوں کی مدد کا خیال آنا چاہئے، صرف مٹھائیاں کھانا کھلانا ہی کام نہ ہو‘‘
یتامیٰ کی خدمت کی تحریک
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 23 جنوری 2004ء میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبرگیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے۔ مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصد یتامیٰ کی تحریک ہے لیکن اس کے تحت سینکڑوں یتامیٰ بالغ ہو کر پڑھائی مکمل کرکے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا۔ اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیر احباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، جَزَاکَ اللّٰہُ، ان سب کا شکریہ۔
اب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی یتامیٰ کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کرسکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں۔ خاص طور پر افریقن ممالک میں، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے، اس طرف کافی کمی ہے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تو باقاعدہ ایک سکیم بنا کر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامیٰ کو سنبھالیں۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی۔ لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہوجائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یتامیٰ کا جو حق ہے وہ ادا کرسکیں‘‘
(الفضل 19 نومبر 2004ء)
بیوت الحمد سکیم میں شرکت کی تحریک
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ عید الفطر 13؍اکتوبر 2007ء میں بیوت الحمد سکیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
پھر بیوت الحمد سکیم ہے، یہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شروع فرمائی تھی جس سے شروع میں ربوہ میں سو گھر بنا کر غریب، ضرورت مندوں کو دینے تھے تو اللہ کے فضل سے یہ مکمل ہو گئی، اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر لوگوں کے گھروں میں ان کو بڑھانے میں یا گنجائش کے مطابق کمرے بنانے کے لئے مدد دی گئی، قادیان میں بھی بیوت الحمد کے تحت گھر بنائے گئے ہیں پھر پاکستان میں اور مختلف ملکوں میں جیسا کہ میں نے کہا مکان بھی بنا کر دئیے گئے ہیں، مختلف جگہوں پر بھی مدد دی گئی ہے تو یہ بھی ایک ایسی جائز اور انتہائی ضرورت ہے جس کی طرف احمدیوں کو توجہ دینی چاہئے اپنے غریب بھائیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے، کئی احمدی جب اللہ کے فضل سے اپنے گھر بناتے ہیں تو اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں، بعض نے اپنا بڑا قیمتی گھر بنایا تو بیوت الحمد کے ایک مکمل گھر کا خرچہ بھی ادا کیا تو اگر تمام دنیا کے احمدیوں کے گھر خریدنے یا بنانے پر کچھ نہ کچھ اس مد میں دینے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو کئی ضرورت مند غریب بھائیوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
(ماخوذ از کتاب خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام احمدیوں کو ان تحریکات میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین
(ذیشان محمود ۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)