ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے سفر یورپ کے دوران 28جولائی 1967ءکو ایک خط تحریر فرمایا تھا اس میں حضور ؒنے اشاعت اسلام کےتعلق میں انقلاب انگیز نکتہ نقطہ کی نشاندہی فرمائی:
’’ہم غریب جماعت ہیں باتنخواہ مبلغ رکھ کر قیامت تک ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا۔ہاں اگر ہم سب مل کر تبلیغ کے جہاد کے لیے صدق دل سے کمربستہ ہوجائیں تو اللہ تعالی ضرور ہماری کوششوں کو نوازے گا۔‘‘
(الفضل 11 اگست 1967ء)
حضور رحمہ اللہ کا یہ فرمان پوری جماعت کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ ہمارے امام اور خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے بار بار یہی فرما تے رہے کہ اب تبلیغ کرنا ایک دوکا کام نہیں بلکہ ساری جماعت کو اس کام میں جھونکنا پڑے گا۔ آج سے 85 سال قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے17نومبر 1935ء کو بمقام قادیان ایک تقریر فرمائی تھی جس میں مبلغین احمدیت کو انتہائی واضح الفاظ میں کھول کھول کر بتا دیا تھا کہ اصل فرض یہ ہے کہ وہ ایک ایک احمدی کے دل میں اشاعت اسلام کی زبردست روح پھونک دیں۔ فرمایا ’’قرآن کریم سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ۚ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
(آل عمران: 105)
اور دوسری طرف فرماتا ہے:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَاُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ
(آل عمران: 111)
یعنی سارے مومنوں کا فرض ہے کہ دعوت الی الخیر کریں تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری اور یہ لازمی چیز ہے کوئی فوج اس وقت کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کا ایک خاص حصہ کام کے لیے مخصوص نہ ہو تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے مذہبی تبلیغ کے لئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہیے جو اپنے اردگرد کومتاثر کرسکے اور دوسروں سے صحیح طور پر کام لے سکے یہی غرض مبلغین کی ہے۔لیکن عام طور پرخود مبلغین نے ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرنا ہے مگر جو یہ سمجھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے ہم خدمت دین کے لئے کس قدر مبلغ رکھ سکتے ہیں اس وقت ساٹھ ستر کے قریب کام کر رہے ہیں جن کا جماعت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور چندے کا بہت بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے مگر وہ کام کیا کرتے ہیں اگر کام کرنے والے صرف وہی ہوں تو سلسلہ کی ترقی بند ہو جائے۔ ان کے ذریعہ سال میں صرف دو تین سو کے قریب لوگ بیعت کرتے ہیں اور باقی جن کی تعداد کا اندازہ دس بارہ ہزار کے قریب ہے جماعت کے لوگوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ رہے مباحثات جو مبلغین کو کرنے پڑتے ہیں وہ اسی وقت تک ہیں جب تک ہمارے ملک کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی مباحثات پبلک کے اخلاق کی خرابی کی وجہ سے کرنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہمارا یہ مقصد نہیں کہ علماء مباحثات کے لیے پیدا کریں بلکہ علماء کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسر کی طرح ہوں جو کام لیں یا اس گڈریے کی طرح جس کے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور یہ کام دس بیس مبلغ بھی عمدگی سے کرسکتے ہیں جب تک ہمارے مبلغ یہ نہ سمجھیں اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ مبلغ کے معنی وہ یہ سمجھتے ہیں غیروں کو مخاطب کرنے والا مگر صرف یہ معنی نہیں بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون مبلغ ہو سکتا ہے؟ مگر آپﷺکس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے۔صحابہ میں آپﷺ نے ایسی روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں یہ روح پھونکی اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا تب خدا تعالیٰ نے اسی روح کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے حضرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اس طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تبلیغ کر رہے ہیں۔پس علماء کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جو دوسروں کو تبلیغ کرنے کے قابل ہوں۔ وہ خدمت گزاری اور شفقت علی الناس کاخودنمونہ ہوں اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں۔ مگر عام طور پر مبلغ لیکچر دے دینا یا مباحثہ کر لینا اپنا کام سمجھتا ہے۔ اور خیال کرلیتے ہیں کہ ان کا کام ختم ہوگیا۔اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہو رہا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ علماء بیکار رہتے ہیں بات دراصل یہ ہے کہ تقریر کرنے یا مباحثہ کرنے کے بعد مبلغ کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ آرام کرے بولنے کا کام بہت دیر تک نہیں کیا جاسکتا بولنے میں زور لگتا ہے اور تقریر کے بعد انسان نڈھال ہو جاتا ہے مبلغ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر روز کئی کئی گھنٹے تقریر کرے اگر کوئی ایسا کرے تو چند ماہ بعد اسے سُل سی ہوجائی گی اور وہ مر جائے گا۔ پھر روزانہ کہا ں اس قدر لوگ مل سکتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر تقریر سننے کے لیے جمع ہوں پس یہ کام چونکہ ایسا نہیں جو مسلسل جاری رہ سکے اس لیے لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ فارغ رہتے ہیں حالانکہ ان حالات میں فارغ رہنا قدرتی عمل ہے۔دراصل دونوں نے اپنے فرض کو سمجھا نہیں وہ کہتے ہیں جب ہمارے پاس کوئی آیا ہی نہیں تو ہم سمجھائیں کسے؟اس وجہ سے ہم فارغ رہتے ہیں لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے کہ ان کا کام صرف تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگو کے اخلاق کی تربیت ہے انہیں تبلیغ کرنے کے قابل بنانا ہے اور پھر وہ اپنا تصنیف کا مشغلہ ساتھ رکھیں جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں، کوئی ادبی مضمون لکھیں کسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں ضرور ی حوالے نکالیں تاریخی امور جمع کریں تو پھر ان کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں یہ تصنیفی مختلف کام ہیں۔ جن کی طرف ہمارے مبلغین کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئی مبلغ کہیں جاتا ہے اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا تو لوگ یہ نہ کہتے کہ فارغ رہا بلکہ یہ کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا۔۔۔۔۔۔ جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں۔۔۔۔۔ میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہی طریقہ اختیار نہ کریں جو ان سے پہلو ں نے کیا اور جس کی وجہ سے نوحصے کام ضائع ہوا اور صرف اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو مبلغ اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے اور انہیں صحیح طورپر صرف نہیں کرتے۔وہ جماعت کے لیے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے۔ جو لوگ آئندہ مبلغ بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تہیہ کرلیں ان کا کام صرف اپنے منہ سے تبلیغ کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا، ان کے اخلاق کی تربیت کرنا،ان کودین کی تعلیم دینا،ان کے سامنے نمونہ بن کر قربانی اور ایثارسکھانا اور انہیں تبلیغ کے لیے تیار کرنا ہے۔گویا ہمارا ایک مبلغ جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کیے جاسکتے ہیں۔مگر متواتر بولا نہیں جا سکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام نہیں لیا جاسکتا مگر باقی قویٰ سے کام لے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں مبلغین کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام جو سمجھا ہوا ہے وہ ان کا کام نہیں ہے۔یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے۔مبلغ کا کام یہ ہے کہ جماعت کو تبلیغ کا کام کرنے کے لیے تیار کرے اور ان سے تبلیغ کا کام کرائے اس طرح سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف مبلغین کوتو جہ کرنی چاہیے جماعت کے بیکار وں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہیں بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔غرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے کہ ا سی طرح مبلغ کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہیے کیونکہ وہ جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں۔
(الفضل 21 نومبر 1935ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تبلیغ اسلام اور دنیا میں عالمگیر قرآنی حکومت کے قیام سے متعلق اپنے دینی فرائض سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خلفائے کرام کے منشاء کے مطابق ان کی بجاآوری کی توفیق بخشے تا پوری دنیا جلد سے جلد حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر خدا کی امان کے نیچے آجائے۔ آمین۔
(ابو تسنیم)