؎ وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار
میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔ تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی ہے کہ گویا میں نہیں فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو بھی میرے ہاتھ سے جام پیئے گا وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں آیا۔
یہ وہ اس مسیح مہدی کے الفاظ ہیں جس نے خدائے واحد و یگانہ کی توحید ، سیدنا حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی حکومت کے لیے 84 کے قریب معرکہ آراء، گراں قدر کتب تحریر فرمائیں۔ اور ان کی اہمیت اور افادیت ان الفاظ میں بیان فرمائی جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔
یہ کتب بحرو عرفان کے موتی ہیں جو قرآن کریم جیسے گہرے سمندر میں غوطہ لگا کر حاصل کئے گئے ہیں گویا قرآن و احادیث کی اس زمانہ میں بہت عمدہ تشریح ہیں جو سعادت مند روحوں میں نیکی، تقویٰ اور عشق الٰہی کو روشن کر کے سینہ ودل کو منور کر دیتی ہیں اور فرش سے اٹھا کر آسمان روحانیت کا درخشندہ ستارہ بنا د یتی ہیں۔ پھر حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓ جیسے مفسر قرآن، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ جیسے عالم اور مفسر پیدا ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اناج کے ذخیرہ سے لوگوں کی جان بچائی تھی اسی طرح جان بچانے کے لیے خدا نے مجھے ایک روحانی غذا کا مہتمم بنایا ہے۔ جو شخص اس غذا کو سچے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے گا۔
اس کے بالمقابل جو فائدہ نہیں اٹھاتے ان کے بارہ میں فرمایا:
وہ جو خدا کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ پس اپنے نفس کی اصلاح، عزیزو اقارب اور معاشرہ میں پھیلے دیگر احباب جماعت کی تعلیم و تربیت اور غیروں کو پیغام حق پہنچانے کے لیے اسلحہ سے لیس ہونے کے لیے مامور زمانہ کی کتب کا مطالعہ ضروری ہے۔
؎ صف دشمن کو کیا ہم نے بحیثیت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
(ابوسعید)