• 18 جولائی, 2025

سورۃ یٰس اور الصّافّات کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ یٰس اور الصّافّات کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ یٰسٓ

سورۃ یٰسٓ مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چوراسی آیات ہیں۔

گزشتہ سورت کے آخر پر کفار کے اس حلفیہ عہد کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آتا تو وہ پہلی سب اُمتوں سے بڑھ کر اس کی پیش کردہ ہدایت پر ایمان لے آتے اور سورۃ یٰسٓ کے آغاز کی آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھے ہم نے ایک ایسی قوم کی طرف بھیجا ہے جس کے آباؤ اجداد کے پاس ایک لمبے عرصہ سے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا لیکن اس کے باوجود ان میں اکثر کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آیا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔پس گزشتہ سورت کے آخر پر کفار کا یہ دعویٰ کہ ان کے پاس اگر کوئی نذیر آتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے اس سورت میں ردّ فرما دیا گیا ہے ۔

اس کے بعد انبیاء کے دشمنوں کی ایک تمثیل بیان کی گئی ہے ۔کہ دراصل ان کا تکبر ہی ہے جو اُن کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا ہے۔ جیسے کسی شخص کی گردن میں طوق ڈالا ہوا ہو تو اس کی گردن اکڑی رہتی ہے ایسے ہی ایک متکبر کی گردن اکڑی رہتی ہے۔ لہٰذا ایمان لانا صرف ان کو نصیب ہوتا ہے جن کے اندر کوئی تکبر نہیں پایا جاتا ۔

آیت نمبر14سے جو ذکر شروع ہوتا ہے مفسرین نے اس کے متعلق بہت سی خیال آرائیاں کی ہیں لیکن اس کے متعلق حضرت حکیم مولانا نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ایک تفسیر بیان کی ہے جو دل کو لگتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے دو نبی تو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تائید کے ذریعہ ان کو عزت بخشی ۔ لیکن کفار کے مسلسل انکار کے بعد ایک دور کی بستی سے ایک چوتھا شخص اٹھا جس نے کافروں کو متنبہ کیا کہ وہ عظیم الشان وجود جو تمہارے لئے ہدایت کے بے شمار سامان کرتا ہے مگر کوئی اجر طلب نہیں کرتا اس پر ایمان لے آؤ۔

نزول قرآن کے زمانہ میں تو عربوں کے نزدیک نر اور مادہ کی صورت میں صرف کھجوروں کے جوڑے ہوا کرتے تھے اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہر قسم کے پھلوں کے پودوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے بلکہ آیت نمبر 37یہ دعویٰ کرتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز جوڑا جوڑا ہے۔ آج کی سائنس نے اسی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے یہاں تک کہ مادہ کے اور ایٹمز کے بھی اور Sub-Atomic ذرّات کے بھی جوڑے جوڑے ہیں۔ غرضیکہ جوڑوں کا مضمون ایک لامتناہی مضمون ہے اور توحید کے مضمون کو سمجھنے کے لئے اس مضمون کا سمجھنا ضروری ہے۔ صرف کائنات کا خلاق ہی ہے جس کو جوڑے کی ضرورت نہیں ورنہ سب مخلوق جوڑے کی محتاج ہے۔

اس کے بعد ایک آیت میں احیاء نو کا مضمون از سر ِ نو بیان فرماتے ہوئے ان مُردوں کو جو نشاۃِ آخرت کے وقت اٹھائے جائیں گے ،اس تعجب کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ کون ہے جس نے ہمیں دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے تمام مُرسل سچ ہی کہا کرتے تھے ۔

آیت نمبر81میں سر سبز درخت سے آگ نکالنے کا جو مفہوم بیان فرمایا گیا ہے اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ سبز درخت جب خشک ہوجاتا ہے تو پھر اس سےآگ پیدا ہوتی ہے ۔یہ مضمون اپنی جگہ درست ہے لیکن واقعةً سبز درختوں سے بھی جبکہ وہ سر سبز ہوں آگ پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی رہتی ہے ۔ چنانچہ علم ِ نباتات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ چیڑ کے درختوں کے پتے جب تیز ہواؤں میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو اس مسلسل عمل کے نتیجہ میں ان میں آگ لگ جاتی ہے اور بہت بڑے جنگل اس آگ کی وجہ سے تباہ ہو جاتے ہیں۔

اس سورت کی آخری آیت بھی نشاۃِ آخرت کے ذکر پر منتج ہوتی ہے جس میں یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے اور اسی کی طرف اے بنی نوع انسان! تم لوٹائے جاؤ گے ۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ771-772)

سورۃ الصّا فّات

سورۃ الصّافّات مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو تراسی آیات ہیں ۔

پیشتر اس کے کہ سورۃ الصّا فّات کی ابتدائی آیات کی تشریح کی جائے یہ ذکر ضروری ہے کہ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مذکورہ پیشگوئیاں جب پوری ہوں گی تو لازماً یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ جس احیاء نو کا بڑی تحّدی سے اعلان فرمایا گیا ہے وہ بھی لازماً ہو کر رہے گا جیسا کہ آیت کریمہ نمبر12میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو ان سے پوچھ کہ کیا تم اپنی تخلیق میں زیادہ قوی ہو یا وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے خِلقت عطا فرمائی ۔اس سوال کے بعد جو کافروں کو مبہوت کرنے والا ہے یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ بحیثیت خالق، اللہ تعالیٰ یقیناً تمہاری تخلیق کی طاقتوں سے بہت اونچا مقام رکھتا ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں از سرِ نَو زندہ کردے اور ساتھ یہ تنبیہ بھی ہے کہ جب تم دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تم ذلیل بھی کئے جاؤ گے ۔یعنی وہ لوگ جو اپنی تخلیق کے بلند بانگ دعا وی کیا کرتے تھے ان پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ ان کی تخلیق کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور اَشَّدُّ خَلْقاً صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔

اب ہم ابتدائی آیات کی طرف پھر متوجہ ہوتے ہیں۔

والصَّا فّا تِ صَفّاً میں درحقیقت ان جنگی طیاروں کی خبر دی گئی ہے جنہیں انسان بنائے گا اور وہ صف بصف دشمنوں پر حملہ آور ہوں گے اور بار بار ان کو متنبہ کریں گے اور ایسے پمفلٹس بکثرت ان پر گرائیں گے جن میں ان کے لئے یہ پیغام ہو گا کہ اپنی گردنیں ہمارے سامنے جھکا دو ورنہ تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنی ظاہری طاقت کے نتیجہ میں اپنی خدائی کا دعویٰ کریں ۔ اللہ ایک ہی ہے۔

پھر فرمایا کہ وہ مشارق کا ربّ ہے ۔یہ آیت بھی ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے ورنہ اُس زمانہ میں تو کئی مشارق کا کوئی تصور موجود نہیں تھا جو اِس زمانہ میں پیدا ہوا ہے۔ یہ وہ دور ہو گا جب انسان مختلف نئی ایجادات کے ذریعہ جو بہت اونچی اڑان کی مقدرت رکھتی ہوں گی جیسے راکٹ وغیرہ ،کوشش کرے گا کہ ملاء اعلیٰ کے بھید معلوم کرے، جیسا کہ فی زمانہ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مگر ہر طرف سے ان پر پتھراؤ ہو گا یعنی اجرامِ سماوی سے برسنے والے نہایت ہی خطرناک پتھروں کا نشانہ بنائے جائیں گے اور سوائے اس کے کہ قریب کے آسمان کے کچھ راز حاصل کرلیں وہ کامیاب نہیں ہو ں گے۔ یہ وہ تمام امور ہیں جن پر زمانہ اور زمانہ کی نئی ایجادات گواہ ہیں کہ بعینہٖ یہی کچھ ہو رہا ہے۔

اس سورت کے آغاز میں چونکہ جنگوں کا ذکر ہے جو مادی فتوحات کی خاطر قوموں کے درمیان لڑی جائیں گی اس لئے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے اس قتال کا ذکر بھی فرمایا گیا جو خالصتًہ للہ تھا اور جس میں دوسروں کا خون بہانے کے لئے تلوار نہیں اٹھائی گئی تھی بلکہ قربانیوں کی طرح صحابہ کی جماعت کو ذبح کیا جاتا تھا اور اس امر کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس قربانی سے تھا جو آپؑ نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی آمادگی کی صورت میں کی تھی۔ مفسرین کا یہ خیال کہ کوئی مینڈھا جھاڑی میں پھنس گیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس عظیم ذبح کے بدلہ چھوڑ دیا گیا نہایت ہی بودا خیال ہے جس کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ حدیث میں۔ حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل پر ایک مینڈھا کیسے عظیم تر ہو سکتا ہے؟ حضرت اسماعیل ؑ کو اس لئے زندہ رکھا گیا تاکہ دنیا اُس ذبحِ عظیم کا نظارہ دیکھ لے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔

سورۃ الصافات کی نسبت سے جہاں اس سے پہلے بہت سے صف بند حملہ آوروں کا ذکر گزرا ہے ،اس سورت کے آخر پر قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ اصل صف بند فوجیں تو ہماری ہیں ۔اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صف بند فوجوں کا بھی ذکر فرما دیا گیا اور ان فرشتوں کا بھی جو آپؐ کی حمایت کے لئے صف بصف آسمان سے نازل کئے گئے ۔ جس کا آخری نتیجہ یہی تھا کہ بظاہر تو یہ کمزور ، صف بند قتال کرنے والے جن کا دشمن ان سے بہت زیادہ طاقت رکھتا تھا مغلوب ہو جاتے مگر اللہ کی تقدیر غالب آئی اور اللہ اور اللہ والے ہی غالب آئے ۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ774-773)

(عائشہ چود ھری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ریجن ممباسہ کینیا میں تربیتی کلاس کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2021