تسبیح کا لفظ حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کی تحمید اور تکبیر کے لیے استعمال ہوتاہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ (بنی اسرائیل: 45) یعنی : اور (دنیا کی) ہر چیز اُس کی تعریف کرتی ہوئی (اس کی) تسبیح کرتی ہے۔ (ترجمہ از تفسیر صغیر) ہم نے اکثر دیکھاہے رنگ رنگ کے خوشنما پرندے صبح سویرے جو چہچہاتے اور اپنی اپنی بولیوں میں نئے دن کے طلوع ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں یعنی اس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمیں نیا سہانا دن دیکھنا نصیب ہوا۔ اکثر چھوٹے بڑے جانوروں کو آسمان کی طرف منہ کرتے اور اپنی زبان میں آواز بلند کرتے دیکھا جاتا ہے، بلکہ ان میں سے بعض تو اپنا منہ کھول کر آسمان کی طرف کرتے ہیں وہ بھی دراصل تسبیح کر رہے ہوتے ہیں۔ پھولوں اور پتوں وغیرہ یعنی نباتات پر نگاہ ڈالیں تو بعض پتے، ٹہنیاں ایک خاص وقت پر جُھک جاتے ہیں یہ دراصل ان کی تسبیح خوانی کا ہی وقت ہوتا ہے۔ بعض درختوں کے پتے رات بھر بند رہنے کے بعد علی الصبح ایک نئی شان کے ساتھ کھل جاتے ہیں۔ سورج مکھی پھول کو سورج کے ساتھ ساتھ گھومنے کو آپ کیا نام دیں گے۔ وہ سورج کی طرف منہ کرکے اس کی آن بان شان اور روشنی بکھیرنے کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے گُن گا رہا ہوتا ہے یعنی اس بے عیب نظام کے تخلیق کرنے پراللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے تسبیح کررہا ہوتا ہے۔ اشرف المخلوقات یعنی انسان کو بھی صبح سویرے نماز فجر ادا کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے حکم کے پیچھے بھی یہی تسبیح و تحمید کرنا ہے۔ صبح کے وقت انسان کا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کا طریقہ عبادت الہٰی اور تلاوت قرآن کریم رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کے اس پُر حکمت نظام کے بارے میں کچھ عرض کرنے کے بعد خاکسار اب موضوع تحریر کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ آج تسبیح کی ظاہری شکل جوچند پلاسٹک، لکڑی یا پتھر کے دانوں کو ایک دھاگے یا ڈور میں پرو کر اللہ تعالیٰ کے نام کو گننے کے لیےیا اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور تکبیر پر مشتمل الفاظ کا وِرد کرنے کے لئے دنیا والوں نے بنا لی ہے، وہ تسبیح کہلاتی ہے۔ آج اس پر گفتگو کرنا مقصود ہے۔ آج کل نت نئی خوبصورت دانوں یعنی موتیوں والی تسبیحیں موجود ہیں۔ بلکہ آج تو الیکڑانک اور ڈیجیٹل تسبیحیں بھی لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی ڈیوائس پر بٹن لگا ہوتا ہے اس کو دبانے سے نمبر بڑھتے جاتے ہیں اللہ کے نام پر اور اس کے ذکر پر بٹن دباتے جائیں تو نمبر زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور پتہ لگ جاتا ہے کہ کتنی دفعہ اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہاتھوں کی انگلیوں کےپورے بنائے ہی تسبیحات اور ذکر الہٰی کرنے کے لئے ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ ہر نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں بھی ان پُو روں پر ہی تسبیحات کرتے تھے۔ اس کی حکمت ایک یہ بھی ہے کہ ہر نماز کے بعد 33مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، 33مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور 34مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنے کے لئے انگلیوں کے پورے بڑی آسانی مہیا کرتے ہیں اور اس سے دکھاوے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
آج کل حاجی صاحبان، تاجر حضرات، سیاستدان اور مختلف ممالک کے سربراہان ہاتھ میں تسبیح رکھنا اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ منہ سے جھوٹ کا زہر اُ گل رہے ہوں مگر اپنی انگلیوں سے تسبیح کے دانے نیچے گراتے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں ساتھ ساتھ باتیں اور دانے گرنے کی رفتار برابر ہوتی ہے، آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ سب کیا ہے!۔ پاکستان کے بعض سیاستدان بھی باتیں کرتے ہوئے بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانے انگلی کے ذریعے نیچے گراتے نظر آتے ہیں۔ اب تو بعض اینکر حضرات اور ٹاک شوز میں آنے والے مہمانوں کے ہاتھوں میں بھی تسبیح نظر آتی ہے۔ ایک مدعو ہونے والے مہمان نے گھنٹہ بھر ٹاک شو میں سچی جھوٹی گفتگو کرنی ہے۔ مگراس دوران تسبیح کے ساتھ کھیل میں مصروف رہیں گے۔ اور اس کو ہتھیلی میں گھماتے رہیں گے یا دانے گنتے ہوں گے۔ باتوں کے دوران تو گنا ہی جاسکتا ہے۔ بھلا پوچھئے کہ گفتگو کے دوران کیسے تسبیح ہو سکتی ہے۔ اور کرنی بھی سیاست ہو جس کا دوسرا نام جھوٹ، فریب، دھوکہ اور بددیانتی سے اپنا پیٹ بھرنا ہے۔
جماعت احمدیہ تسبیح پر گن کر تسبیحات کرنا منع تو نہیں کرتی تاہم پسند بھی نہیں کرتی۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ سوال ہوا کہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ لوگ نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن تسبیحیں نہیں رکھتے۔ جس پر آپؑ نے فرمایا :
’’صحابہؓ کے درمیان کہاں تسبیحیں ہوتی تھیں۔ یہ تو ان لوگوں نے بعد میں باتیں بنائی ہیں۔‘‘
*پھر فرمایا:
’’ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ لمبی تسبیح ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور کوچہ میں سے گزر رہا تھا راستہ میں ایک بُڑ ھیا نے دیکھا کہ خدا کا نام تسبیح پر گِن رہا ہے۔ اس نے کہا کہ کیا کوئی دوست کا نام گِن کر لیتا ہے؟۔ اس نے اسی جگہ تسبیح پھینک دی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حساب ہیں ان کو کون گِن سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ419 ایڈیشن 1984ء)
پھر ایک اور موقع پر تسبیح کی حقیقت کے متعلق یوں بیان فرمایا:
’’تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرےاور یا توجہ کرے۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السّلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالےٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہلِ حق تو ہر وقت خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے لئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گِن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہو گا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی رُوح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لُطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اَور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی۔ تو وہ اُسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا۔
ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر 33 مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اوراسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے؟۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزّت نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزّت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے۔ یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں۔ اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ اللہ تعالےٰکا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پاؤ۔ اب یہ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعا لےٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔
ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اُس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھیر رہا ہے اس عورت نے اُس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اُس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟
درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو 33 مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہو گا تو آپ نے اُسے فرما دیا کہ 33 مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آشنا ہو تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا وہ تو اللہ تعا لےٰکی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کُھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پرنہ پایا۔ مجھے خیال گزرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے۔ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نِکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سَجَدَتْ لَكَ رُوْحِیْ وَجَنَانِیْ۔ اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ 33 مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔
جب انسان میں اللہ تعا لےٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکر الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کُفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے۔
مَن کا منکا صاف کر
انسان کو چاہیئے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہو گی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔
پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟ فرمایا
اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں۔ جو شخص نماز پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔ اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔ لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق وشوق ہوتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ جب وہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔
دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔ جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔ اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعا لےٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔ اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستّر ہزار کا سودا لیا اور ستّر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔ پس یاد رکھو کہ کامِل بندے اللہ تعالی ٰکے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ جب دل اللہ تعالی ٰکے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں ر ہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالی ٰکے ساتھ سچا اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعا لےٰکو فراموش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی ٰکے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔ یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ18۔ 21 ایڈیشن 1984ء)
ظاہری تسبیح میں سبق
ظاہری تسبیح کی شکل میں امت مسلمہ کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ جس طرح تسبیح کے تمام دانے (Beads) ایک ہار کی طرح ایک دھاگے میں پروئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی خاتون کے ہار (Necklace) کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو تمام موتی بکھر جاتے ہیں۔ اس ہار کی خوبصورتی جاتی رہتی ہے۔ وہ موتی جب ہار سے جدا ہوتے ہیں تو اپنی افادیت بھی کھو دیتے ہیں۔ ایک موتی اپنی ذات میں خوبصورت ہوتا ہے مگر اس کی خوبصورتی اس وقت دوبالا ہو جاتی ہے جب وہ دوسرے موتیوں، زمرد وغیرہ کے ساتھ مل کر ہار کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اس ہار کی خوبصورتی کو اس وقت چار چاند لگتے ہیں جب وہ کسی کا حسن بنتا ہے۔
ہم نے عموماً دیکھا ہے کہ جب ہار کھل کر یا دھاگہ ٹوٹ کراس کے موتی بکھر جاتے ہیں تو اس کی ملکہ یا Owner کے چہرہ پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ وہ موتیوں کی تلاش میں ہمہ تن مصروف ہو کر ان کو گنتی ہے تا کہ Missing Beads کو تلاش کیا جا سکے۔
یہی مضمون ظاہری تسبیح پر ہار سے کہیں بڑھ کر اہمیت کے ساتھ لاگو ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو یوں عارفانہ رنگ میں بیان فرمایا کہ جماعت احمدیہ تسبیح کی طرح ہے۔ احباب جماعت تسبیح کے عام چھوٹے دانوں کی طرح ہیں۔ اور چند دانوں کے بعد جو بڑا دانہ آتا ہے وہ عہدیدار ہے پھر چھوٹے دانے ہیں اور ایک بڑا دانہ جس سے رسّی نکلی ہوتی ہے وہ امام وقت ہے۔ یوں جماعت ایک رسّی میں پروئی ہوئی ہے۔ جن کو جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران حفاظت کے حصار میں رکھتے ہیں اور یہ تمام افراد پھر خلیفہ وقت کی حفاظت کےذریعے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتے ہیں۔ درحقیقت خلافت ہی وہ رسّی (اَلۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی) ہے جس میں تمام احباب جماعت پروئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی دوست دھاگے سے باہر ہو تو اس کو اس کی زینت بنانا ضروری ہے کیونکہ اس بھٹکے ہوئے انسان کے لئے وہ رسی زینت ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورة النور آیت 63 کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ایک دفعہ لاہور تشریف لے گئے۔ جب آپ نے واپس قادیان آنے کا ارادہ فرمایا تو چونکہ حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنھا نے ابھی وہاں کچھ دن اور ٹھہرنا تھا اس لئے آپ نے مجھے لاہور میں ہی ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم اُن کے ساتھ آ جانا۔ جب مَیں آیا اور آپ کے پاس آکر میں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا تو میرے سلام کا جواب دینے سے بھی پہلے آپ نے فرمایا۔ میاں! تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟۔ مَیں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ جتنے آدمی تھے وہ سارے ہمیں بٹالہ چھوڑ کر آ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے امر جامع کے متعلق جو قرآنی حکم تھا اس پر عمل نہ کیا۔ خلیفۂ وقت کا وجود تو ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اثر سارے عالِم اسلام پر پڑتا ہے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا اثر لازماً سب جماعت پر پڑ یگا۔ اس لئے اِس بارہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تو اس سختی کے ساتھ اِس پر عمل کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑی دیر کے لئے بھی اِ دھر اُدھر ہونا اُن کے لیے ناقا بلِ برداشت ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے کرتے مجلس سے اُٹھے اور تھوڑی دیر تک واپس نہ آئے تو سب صحابہؓ آپ کی تلاش میں بھاگ پڑے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تشریف لے گئے تھے وہ سب کے سب آپ کے پیچھے اُٹھ کر چلے گئے اور انہیں اُسوقت ایسی گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی کہ حضرت ابو ہریر ہؓ کہتے ہیں گھبراہٹ میں مجھے باغ کے اندر جانے کا راستہ بھی نظر نہ آیا اور مَیں گندے پانی کی نالی میں سے گزر کر اندر داخل ہؤا حالانکہ عموماً انہیں کمزور دل سمجھا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوة اور حج وغیرہ اور دوسرے ایسے احکام جو تمام لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے جہاد یا مشورہ کیلئے قوم کا جمع ہونا یا کوئی ایسا حکم جو ساری جماعت کی ضروریات کو مدّنظر رکھ کر دیا گیا ہو جو کام ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں افراد سے نہیں اُن میں سب کو ایسا پرویا ہوا ہونا چاہیئے جیسے تسبیح کے دانے ایک تاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی کو ذرا بھی اِ دھر اُدھر نہیں ہونا چاہیئے۔ اور اگر کوئی ضروری کام کے لئے جانا چاہے تو امام کی اجازت سے جائے۔ اِ سی حقیقت کو تصویری زبان میں ظاہر کرنے کے لئے لوگ جب تسبیح کے دانے پروتے ہیں تو تاگے کے دونوں سرے اکٹھے کر کے ایک لمبا دانہ پرو دیتے ہیں اور اُسے امام کہتے ہیں۔ درحقیقت اس سے قومی تنظیم کی اہمیّت کی طرف ہی اشارہ ہوتا ہے اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح تسبیح کے دانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے اِسی طرح تمہیں بھی ہمیشہ ایک امام کے پیچھے چلنا چاہیئے ورنہ تمہاری تسبیح وہ نتیجہ پیدا نہیں کر سکے گی جو اجتماعی تسبیح پیدا کیا کرتی ہے۔ لیکن بہت کم ہیں جو اس گُر کو سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ شخص مومن ہی نہیں ہو سکتا جو ایسے امور میں جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اپنی رائے اور منشاء کے ماتحت کام کرے اور امام کی کوئی پروا نہ کرے مومن کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اگر کوئی دینی کام ہو تو اجازت لے لے اور اگر کوئی اہم دنیوی کام ہو جس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہو تو امام سے مشورہ لے لے بہرحال امر جامع سے علیٰحدہ ہونے کے لئے استیذان ضروری ہوتا ہے۔ مگر چونکہ انسان کا امر جامع سے علیٰحدہ ہونا اس کی شامتِ اعمال کی وجہ سے ہو گا اسلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُ سے اجازت تو دے دو مگر ساتھ ہی دُعا کیا کرو کہ خدا تعالیٰ اُ سے معاف کرے اور اُس کی کمزوریوں کو دُور کرے۔‘‘
اس مضمون کو سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؑفرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بناوے۔ اس کا نام وحدت جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں۔ یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تاکہ کُل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے حتٰی کہ حج بھی اسی لئے ہے۔ اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالی ٰنے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دُور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُ نس پیدا ہو جاوے۔ تعارف بہت عمدہ شۓہے کیونکہ اس سے اُ نس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔ حتٰی کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُ نس پیدا ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شئے ہوتا ہے وہ تو دُور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔
پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔ اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔ آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جاویں گے۔ پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور اُ نس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔ پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکّہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔ غرضکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے۔ افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکّا ہے۔ دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں۔ ان میں تو انسان ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلّی رُو گردانی کبھی ممکن ہی نہیں۔ کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو؟۔ پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اُ سے قوت بخشیں۔‘‘
پھر آپ ؑفرماتے ہیں:
’’نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبت صادقین بھی ہے۔ جس کی طرف اللہ تعالےٰ اشارہ فرماتا ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے صادق اور راستباز لوگوں کی صُحبت اختیار کرو تاکہ اُ ن کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصّہ ملے۔ جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقیناً وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بنا دے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ129-130 ایڈیشن 1984ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مندرجہ بالا پر معارف نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور روزنامہ الفضل آن لائن کو بھی قارئین و احباب جماعت کے درمیان وحدت جمہوری پیدا کرنے کا ذریعہ بنادے۔ آمین
(ابو سعید)