مکرم ایڈیٹر صاحب الفضل
السلام علیکم۔ بہت جزاک اللہ۔ آپ نے اور آپ کی ٹیم نے مل کر الفضل آن لائین کو ہمارے لئے پھر سے روحانی مائدہ بنادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں میں برکت ڈالے۔ آمین۔ یہ واقعی بچھڑے ہووٗں کو ملاتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھارت سے امتہ الشافی روفی صاحبہ نے میری ہمشیرہ، نبیلہ رفیق کے قادیان کی زیارت والے مضمون سے تقسیمِ ہند کے بعد ہونے والی لجنہ کی سرگرمیوں کی تفصیل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ اس رابطے نے میرے اندر میرے بچپن کی یادوں نے ایک ہجوم کر دیا۔ اس سلسلے میں خاکسار نے وہ پانچ سالہ بچپن کا عرصہ جو قادیان دارالامان میں گزرا اس کی یادوں کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کیا ہے۔ امید ہے آپ اسے الفضل میں جگہ دیں گے۔
تقسیم ہند کے چند ماہ بعد ہمارے والد صاحب (کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد) کو حضرت مصلح ِ موعودؓ نے قادیان درویش کی حیثیت سے بھیجا جہاں انہوں نے، قادیان میں احمدیہ شفا خانہ سنبھالنا تھا۔ 1951ء میں کچھ درویش خاندانوں کا قادیان جانے کا انتطام ہوا جن میں میری والدہ (مبارکہ بیگم مرحومہ) خاکسار ناصرہ، میری چھوٹی بہن فاخرہ اور میری بڑی آپا، سلیمہ بھی شا مل تھیں میرے بچپن کا پانچ سال کا وقت قادیان میں گزرا۔ میری یادداشت میں قادیان میں گزرے ہوئے پانچ سال کی بہت سی یادیں قائم ہیں، اس موقعہ پر میرا دل مچلا کہ کیوں نہ میں ’’اُذکروا محاسن امواتکم‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنی والدین کے متعلق کچھ تحریر کروں، کم از کم قادیان میں گزارے ہوئے وقت کو تو ضرور یاد کر کے لکھا جاسکتا ہے، جب کہ یہ وقت بھی وہ تھا جس کی یادیں بہت قیمتی ہیں۔ خدا کے فضل سے میرے انتہائی بچپن کی یادیں بعض ایسی ہیں کہ جیسے ابھی ابھی یہ واقعہ ہوا ہے، مگر کچھ تصاویر اور واقعات دھندلا گئے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا
قادیان سے متعلق خط کا جواب
میں نے قادیان کے جلسہ 1991ء سے واپسی کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں جلسہ کی مبارک باد کا خط لکھا، جس میں، میں نے قادیان میں اپنے بچپن کی یادوں کا ذکر کیا ۔اس کے جواب میں حضور اقدس ؒ کا اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا جوا ب ملا۔ حضور نے فرمایاِ!
’’آپ کا خط ملا جو قادیان کی بہت پیاری یادوں سے معطّر تھا ۔جس گھر میں آپ نے بچپن گزارا ، اسی گھر میں ’’بی بی‘‘ پیدا ہوئیں اور پرورش پائی۔ اور بارہا میرا بھی وہاں آنا جانا رہا ۔ ’’بی بی‘‘ کے ساتھ رشتہ سے بہت پہلے سے قادیان سے ہجرت کے پہلے چند ماہ اسی گھر میں ہمارا حفاظت کا مرکز تھا ۔ اور اکثر راتیں وہاں کٹا کرتی تھیں ۔آپ کے یادوں بھرے خط نے میری ان یادوں کی بھی چٹکی بھر دی ہے۔‘‘
قادیان میں رہائش
قادیان درویشی کے زمانہ میں جس گھرمیں ہماری رہائش تھی وہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا گھر تھا۔اس کا نقشہ یا دکروں تو ایسے بنتا ہے کہ، یہ مکان جس میں ہماری رہائش تھی، بہت بڑا گھر تھا۔ جس کی اوپر کی منزل میں ہم رہتے تھے۔ نیچے کے تمام کمرے بند رہتے تھے۔ الدّار کی ڈیوڑھی سے گزر کر سیڑھیاں آتی تھیں۔ سیڑھیوں سے چل کر گھر آتا تھا۔ ایک کنواں ہوتاتھا جو کہ لکڑی وغیرہ کے تختے سے ڈھکا ہو ا ہوتا تھا۔ اور نلکا شاید اوپر کی منزل میں جو لگا ہوا تھا اُسی کنویں میں سے تھا۔ صحن کے بیچوں بیچ سیمنٹ کی اونچی منڈیر ٹائپ چار دیواری تھی۔ جہاں سے کہ نیچے کے کمر ے نظر آتے تھے۔ نیچے صحن میں بھی ایک کنواں تھا جو کہ بند تھا اب وہ اپنی نہایت خوبصورت حالت میں آگیا ہے۔ اب پتہ چلتا ہے کہ وہ نیچے والے حصوں کو روشنی دینے کے لئے کھلی جگہ چھوڑی ہو گی۔ ایک کمرے میں دو بڑی بڑی تصویریں بھی لگی ہوئی تھیں۔ ایک تصویر حضرت مسیح ِ موعود کی بھابھی محترمہ (جو تاریخ ِ احمدیت میں تائی آئی کے نام سے جانی جاتی ہیں ان کی تھی) تصویر کے نیچے ’’الہام، تائی آئی) لکھا ہوا تھا ا ور دوسری حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی۔ کئی دفعہ ایساہوا کہ پاکستان سے صاحبزادگان آئے اور ہمارے گھر میں وہ دونوں تصاویر بھی دیکھنے آئے۔ ایک کمرے میں براؤن سا ایک سفیدی مائل قالین تھا۔ اور دوسرے کمرے میں سرخ پھولوں والا قالین تھا۔ سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک برامدہ تھا۔ اُس میں ایک کھڑکی کھلتی تھی جہاں سے حضرت اماّں جان کا دالان نظر آتا تھا اور وہاں رہنے والے درویشان آتے جاتے نظر آتے تھے۔ ہمارے گھر میں کوئی خاص کھانا بنتا تو امی میرے ہاتھ درویشان کو بھیجتیں ۔ہمارے گھر سے اندر ہی اندر سیڑھیاں چڑھ کر میاں وسیم احمد صاحب مرحوم کا گھر آتا تھا۔ اور اِسی طرح اندر ہی اندر نیچے کی طرف امیر جماعت عبد الرحمٰن جٹ صاحب کا دفتر اور گھر تھا۔ ماشاء اللہ اُن کی شخصیت بڑی پُر رُعب تھی۔
تقسیم ہند کے بعد والدہ کی
ہندوستان کی صدر لجنہ کی سعادت
گو کہ میری عمر چھوٹی تھی، مگر اپنی امیّ کا بھارت کی صدر لجنہ بننا اور جماعتی کاموں کا جو وہ کرتی تھیں، مجھے خوب ادراک تھا۔ صدر لجنہ کی حیثیت سے اس وقت مختلف قسم کے کام تھے۔ اجلاسات بھی ہمارے ہی گھر میں ہوتے تھے۔ ہماری والدہ بحثیت صدر تقاریر کیا کرتی تھیں،
(امّی جو مبارکہ قمر سیالکوٹی کے نام سے پہچانی جاتی تھیں، نے اپنے زمانہ تعلیم میں قادیان جاکر دینات کے اسکول میں دینیات کا کورس کیا تھا، حضرت مصلح موعودؓ سے ماشاء اللہ خوب دین سیکھنے کا موقعہ ملا۔سیالکوٹ کے اسکول میں بھی انکی استاد محترمہ استانی فضیلت صاحبہ اور قادیان میں محترمہ استانی میمونہ صاحبہ تھیں۔ جن سے امی نے تقریر کرنے کا اور تبلیغ کرنے کا فن سیکھا تھا) تبلیغ کرنا اور تقریر کرنا ہماری امّی کا ٹیلنٹ تھا۔
اجلاسات پر بھی اور جلسہ سالانہ پر بھی، انہیں تبلیغ کا حد سے زیادہ شوق تھا۔ سکھ عورتیں اکثر ہمارے گھر آ تیں، ہوسکتا ہے کسی تقریب پر یا محض تبلیغ کے لئے انہیں بلایا جاتا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ (امی ایک کتاب) دُرِّ ثمین میں سے حضرت بابا نانک کا چولہ انہیں دکھا دکھا کرتبلیغ کر رہی ہوتیں۔ پاکستان سے اور بھارت سے بہت مہمان آتے تھے۔ یہ کیوں آتے تھے معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ امّی اکثر دعوتوں میں مصروف رہتیں۔ کچھ درویشان کی دُلہنیں بھی بھارت کے دور دراز کے علاقوں سے رُخصت ہو کر آئیں، جن کا استقبال غالباً لجنہ کے زیر انتظام ہو گا کیونکہ امّی ان کو خوش آمدید کہتیں ۔ایک مبارک شادی مجھے زیادہ یاد ہے وہ، حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی تھی، جبکہ ان کی دُلہن، حضرت خالہ قدوس صاحبہ تشریف لائی تھیں۔ ان کے استقبال کا انتظام بھی بہت اچھا کیا گیا تھا۔ مجھے ایک تھال میں مٹھائی اور ایک انگوٹھی کی ڈبیا رکھ کر امی ّ نے دی کہ میں ان کو تحفہ دے آ ؤں، میں دالان حضرت امّاں جان سے گزر کر انہیں دے کر آئی تھی۔
اپنے گھر کی کچھ یادیں
قادیان میں گائے کا آسانی سے دودھ ملنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا۔ اس لئے والد صاحب نے گھر کی ضرورت کے لئے بھینس، گائے، مرغیاں پال رکھی تھیں، جن کو سنبھالنے کے لئے اور اُن کو چارہ ڈالنے اور دودھ نکالنے کے لئے ایک درویش جن کو ہم چچانذیر کہتے تھے۔ کو مقرر کیا ہوا تھا وہ کھانا وغیرہ پکایا کرتے تھے۔ شاید وہ ابا جی کا ہم لوگوں کے آنے سے پہلے بھی کھانا پکاتے ہوں۔ ہماری والدہ جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ کا صحیح استعمال کرتی تھیں وہ ایسے کہ دہی بنا کر اسے بلوتیں تاکہ لسّی اور مکھن بن سکے۔ درویش ہمارے ہاں لسی لینے آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ صبح سے ہی ہمارے گھر میں لسی لینے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ کئی برتنوں میں امی مکھن بھی اندر ڈال دیتی تھیں۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ زیادہ لوگ آجاتے تو اُمی چاٹی میں پانی زیادہ ڈال دیتی تھیں تا کہ زیادہ لوگوں تک لسی پہنچ جائے۔
قادیان میں والدہ کپڑے وغیرہ خریدنے کے لئے کبھی بازار نہیں جاتی تھیں بلکہ، بزاز گھر میں کپڑ ادکھانے کے لئے لاتے تھے۔ اور امّی پردے کے پیچھے سے کپڑے دیکھتیں اور پسند کرتی تھیں۔کچھ عرصہ بعد ہماری بڑی بہن (محترمہ سلیمہ) کی شادی اپنے ماموں زاد بھائی (محترم عبدالسلام درویش) سے طے کر دی تھی۔ہماری آپا نے اپنے درویش شوہر کے ساتھ باقی تمام عمر درویشی میں ہی کاٹی، ہمارے بہن بہنوئی تو وفات پا چکے ہیں مگر ان کی اولادیں قادیان میں ہی ہیں۔
میری یادوں میں حضرت سیدہ اُمِّ طاہر صاحبہ کے مکان میں لڑکیوں کے سکول کے شروع ہونے کا دھندلا سا عکس بھی شامل ہے۔ ہمارے اساتذہ میں قریشی فضل حق صاحب تھے۔ اسکول جاری ہواتو، ابا جی مجھے اور میری چھوٹی بہن فاخرہ کو ساتھ لے کر گئے تھے اور بھی لڑکیاں تھیں چند نام جو یا د ہیں۔ ان میں فیروزہ۔ نعیمہ، عاجز صاحب کی بیٹی۔ امۃ اللطیف اور امۃالرشید ٹھیکدار بشیر احمد صاحب کی بیٹیاں۔ وسیمہ باجی اور آصفہ ملک صلاح الدین صاحب کی بیٹیاں۔ بعد ازاں مرزا برکت احمد صاحب کی بیٹیاں امۃ الکریم باجی جن کی شادی ہوچکی تھی اور ایک بیٹا بھی تھا۔ امۃ الجمیل جو کہ اب مبارک کھوکھر صاحب کی بیگم ہیں اور مکرم ملک ربّانی صاحب جو کہ ابا جی کے کمپاؤنڈر تھے اُن کی بیٹی رشید ہ۔ اور فضل الٰہی صاحب کی بیٹی بھی اسی اسکول میں جاتی تھیں۔ یہ تو تقسیم کے بعد کے حالات نارمل ہونے کے وقت کی بات ہے، اسکے بعد اللہ کے فضل سے قادیان کی آبادی بڑھتی رہی اور مزید لوگ آتے رہے۔
قادیان میں بچیوں کا اسکول اور میری تقریب آمین
میں اپنے بچپن کی قادیان کی باتیں یاد کروں تو، ایک سعادت جو میرے حصے میں آ ئی وہ میرا ختم ِ قرآن تھا۔ مجھے کئی درویشوں سے قرآن ِ کریم پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی الحمداللہ۔ ان میں سے ایک شیخ صاحب تھے جن کی گھنی کالی داڑھی ہوتی تھی۔ ایک بزرگ صورت درویش بھائی عبد الرحیم ؓ صاحب بھی تھے، ایک درویش جن کانام مکرم عبدالرحمٰنؓ تھا، ان کا مکان الّدار سے باہر کے علاقے میں تھا۔
ختم قرآن کے بعد وہاں امی نے بڑے پیمانے پر مہمان بلا کر آمین بھی کی قادیان کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے ہوئے بڑے لوگ تو آپس میں سلام کرتے ہی تھے، ہم بچوں کی بھی یہی تربیت تھی چھوٹے ہونے کے باوجود ہم دونوں بہنیں سلام بھی کرتیں اور سروں پر دوپٹہ لے کر نکلتیں، اس سلسلے میں مجھے ایک بات بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم دونوں بہنیں نیچے گلی میں جا رہیں تھیں کہ کسی نے کہا کہ ’’دونوں بہنوں کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے‘‘ ہمیں عادت تو ڈالی جارہی تھی، لیکن ابھی عمریں بہت چھوٹی تھیں یقینا گھر سے نکلتے ہوئے دوپٹہ لینا بھول گئی ہو نگیں ۔ گھر آئے تو اتنا ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ابا جی کی نظر نہ پڑ جائے۔ اب سوچتی ہوں اور قادیان میں قیام کی اور باتیں یاد کروں اور سوچوں، یہ تو درست ہے کہ قادیان میں بہت بچپن سے ہی بچوں کو ہر طرح کی تربیت دی جاتی تھی لیکن ’’میرا نہیں خیال کہ دوپٹے کی اتنی ہی سختی تھی، ہو سکتا ہے تربیت کے رنگ میں کسی نے بات کی ہو۔‘‘
کچھ عرصہ بعد اسکول مسجد اقصیٰ کے پاس کسی اور مکان میں منتقل کردیا گیا وہ مکان اچھا خاصاکشادہ تھا اور صحن بھی کافی بڑا تھا۔ جس میں ہم بچیاں کھیلا کرتی تھیں۔ ہمارے وقت میں اُردو ہی پڑھائی جاتی تھی۔ ہندی سکول میں نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اُمی بتاتی ہیں کہ ’’تمہیں ہم نے ہندوؤں کے سکول میں پانچویں جماعت کے بعد داخل کروانا تھا‘‘ اور چونکہ وہاں ہندی میں پڑھائی ہوتی تھی تو ابا جان نے میرے لئے ٹیوٹر کا انتظام گھر میں کر دیا تھا۔ (مکرم بشیر احمدکالا افغاناں درویش مرحوم) مجھے پڑھاتے تھے۔ مَیں نے چوتھی، پانچویں کی قابلیت کی زبان لکھنی پڑھنی سیکھ لی تھی۔ لیکن پاکستان آنے پر ساری بھول گئی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ربوہ میں اُمی کے ساتھ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ملنے گئی۔ آپ میری پڑھائی کا پوچھتے رہے اور فرمایا کہ اپنا نام ہندی میں لکھو۔ مَیں نے نام لکھ کر جب اوپر لکیر ڈالی تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ زبان اسی طرح لکھی جاتی ہے۔اللہ کے فضل سے قادیان سے اتنی ہندی سیکھ کر نکلی تھی کہ ایک دو مرتبہ ہندی میں لکھے ہوئے خطوط پڑھنے کے لئے حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے مجھے بھجوائے۔ لیکن کچھ عرصے بعد تو ’’ہندی‘‘ لکھنا بالکل بھول گئی پھر تو ناصرہ نام کا صرف ’’ن‘‘ ہی لکھنا یاد رہ گیا۔ اب تو وہ بھی بھول گیا ہے۔
قادیان دارلامان کے محلِ وقوع کی یادیں
الدّار سے باہر کے کچھ نظارے اور دوسرے محلوں کی یادیں بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ مینارِۃ المسیح پر جانے والے لوگ ہمیں اپنے گھر کے صحن سے صاف نظر آتے تھے اس کے علاوہ،بہشتی مقبرہ جہاں اپنے پیاروں کو سلام کرنے اکثر والدین کے ساتھ جانا ہوتا۔ حضرت مسیح ِ موعودعلیہ السلام اور ان کے اکابرین کے علاوہ، میرے صحابی داداجانؓ، میرے جواں سال چچا نذیر شہید، میری صحاببیہ نانی جان محترمہ ؓ اور میری بڑی والدہ کے صحابی والد صاحب ؓ بھی (چوہدری اللہ دتّہ صاحب) بھی وہیں دفن ہیں۔
کبھی کبھی ہماری فیملی قادیان میں سیر کے لئے آموں کے باغوں اور کوٹھیوں کی طرف بھی نکل جاتی۔ میرے حافظے میں ایک کوٹھی جس کی کھڑکیوں پر رنگین شیشے لگے ہوئے تھے نقش ہے۔ ایک کوٹھی چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کی بھی تھی۔ کوٹھی میں فوٹو گرافر سے ہم چار بہنوں کی ایک تصویر بھی کھینچی تھی۔ قادیان کے زمانہ کی وہ ایک تصویر ہمارے پاس موجود ہے۔قادیان کی ایک خاص چیز آموں کے باغ تھے، بہشتی مقبرہ کے باغ تو حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کے تھے اور اب بھی ہیں، اب بھی ان پر بے تحاشا پھل لگتا ہے۔ان کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے باغ بھی تھے جہاں اپنی فیملی کے ساتھ پکنک منانے کے لئے جانا بھی یاد ہے۔ اس باغ کے آموں کے درخت آج تک میرے ذہن کے پردے پر محفوظ ہیں کہ بعض آم ٹہنیوں کے ساتھ زمین تک پہنچے ہوئے تھے۔ اور خوب موٹے موٹے آم تھے۔ یہاں لندن میں بھی میں نے دیکھا ہے یہ آم کے تو نہیں مگر Victoria Plum کے بعض پود ے ایسے ہوتے ہیں۔ کہ پودے کا قد نہیں بڑھتا۔ لیکن پھل بہت ہی زیادہ لگتا ہے۔ جن کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے زمین پر گری ہوتی ہیں۔
قادیان سے واپسی
1955ء میں پاکستان گورنمنٹ نے قانون پاس کیا کہ ’’جس کسی کی اپنی زرعی زمین ہے وہ اس کی حد بندی کر کے قبضہ کرے‘‘ چونکہ ہمارے والد صاحب کو گورنمنٹ برطانیہ کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں (ملٹری کراس) کا تمغہ ملا تھا، جس کے ساتھ زرعی زمین بھی انعام میں دی گئی تھی، جو لائلپور (فیصل آباد۔پاکستان) کے علاقے میں واقع تھی۔ لہذا حضرت مصلح ِ موعودؓ کی اجازت سے ہماری فیملی کو واپس پاکستان آنا پڑا۔
واپسی کا سفر کھوکھرا پارکے رستے سے ہو کر بن رہا تھا یہ سفر بہت لمبا تھا۔ ہماری فیملی اکیلی نہیں تھی اور بھی بہت سے لوگ اس قافلے میں شریک تھے۔ اگر کبھی یہ سفر پہلے لکھا جاتا تو کافی دلچسپ ہوتا۔کیونکہ ہماری امی کی یاداشت بہت اچھی تھی۔ چلتی پھرتی تاریخ تھیں۔ ان کی یاداشت ملا کر لکھا جاتا تو سارے سفر کا حال بیان ہو جاتا۔ واپسی پر کھوکھرا پار کے رستے سے دہلی ہوٹل میں ٹھہرے ابا جی ہمیں دہلی کی سیر کو بھی لےکر گئے۔ قطب صاحب کی لاٹ، لال قلعہ اور ایک نظام الدین اولیاء کا مزار پر جانا بھی مجھے یاد ہے۔دہلی کے بعد اگلا سفر بہت لمبا تھا۔ اس کے بعد دو تین دن کسی اور مقام پر بھی ٹھہرنا پڑا، کیونکہ اس اسٹیشن پر ٹرین ہفتہ میں دو دفعہ آتی تھی۔ بہر حال میرے والدین درویشی اور قادیان چھوڑ کر پاکستان ربوہ میں آکر آباد ہو گئے۔ ربوہ، پاکستان آتے ہی حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد پر فضل،ِ عمر اسپتال میں خدمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔
(ناصرہ رشید۔لندن)