• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 24)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 24

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

خدا کا ولی بننا آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے۔ کیو نکہ اس کے لئے بدیوں کا چھوڑنا بُرے ارادوں اور جذبات کو چھوڑنا ضروری ہے اور یہ بہت مشکل کام ہے۔ اخلاقی کمزوریوں اور بدیوں کو چھوڑنا بعض اوقات بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک خونی خون کر نا چھوڑ سکتا ہے۔ چور چوری کرنا چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک بد اخلاق کوغصہ چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے یا تکبّر والے کو تکبّر چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے کیو نکہ اس میں دوسروں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے پھر خود اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے اپنے آپ کو چھوٹا بناوے گا خدا تعالیٰ اُس کو خود بڑا بنادے گا۔ یہ یقیناً یاد رکھو کہ کوئی بڑا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ آپ کو چھوٹا نہ بنائے۔ یہ ایک ذریعہ ہے جس سے انسان کے دل پر ایک نُور نازل ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے جس قدر اولیاء اللہ دنیا میں گزرے ہیں اور آج لاکھوں انسان جن کی قدر و منزلت کرتے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک چیونٹی سے بھی کمتر سمجھا جس پر خدا تعالیٰ کا فضل اُن کے شاملِ حال ہوا اور ان کو وہ مدارج عطا کئے جس کے وہ مستحق تھے۔ تکبّر، بخل، غرور وغیرہ بد اخلاقیاں بھی اپنے اندر شرک کا ایک حصّہ رکھتی ہیں۔ اس لئے ان بد اخلاقیوں کا مرتکب خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصّہ نہیں لیتا بلکہ وہ محروم ہو جاتا ہے۔ بر خلاف اس کے غربت و انکسار کرنے والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مورد بنتا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ 401، سن اشاعت 1984ء)

بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ دُعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اُٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ سے کہہ دیا۔ اس دعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دعا نِری ایک منتر کی طرح ہوتی ہے نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کوئی ایمان ہوتا ہے۔

یاد رکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بیقراری ہوتی ہے اسی طرح پر دعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے۔ اس لئے دعا کے واسطے پُورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ پس چاہیئے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نہایت تضرع اور زاری و ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔

یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی دعا ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرایا جاوے۔ یعنی اوّل اوّل جو حجاب انسان کے دل پر ہو تے ہیں ان کا دُور ہونا ضروری ہے۔ جب وہ دُور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دُور کرنے کے واسطے اس قدر محنت اور مشقت کرنی نہیں پڑے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو کر ہزاروں خرابیاں خود بخود دُور ہونے لگتی ہیں اور جب اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اس کا متکفل اور متولی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو مانگے اللہ تعالیٰ خود اس کو پُورا کر دیتا ہے۔ یہ ایک باریک سِرّ ہے جو اس وقت کھلتا ہے جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے اس سے پہلے اس کی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک عظیم الشان مجاہدہ کا کام ہے کیونکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے۔ جو شخص دعا سے لاپرواہی کرتا ہے اور اس سے دُور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دُور ہو جاتا ہے۔ جلدی اور شتاب کاری یہاں کام نہیں دیتی۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے عنایت فرمائے سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کئے جانے پر شکایت کرے اور بد ظنّی کرے بلکہ استقلال اور صبر سے مانگتا چلا جاوے۔ دنیا میں بھی دیکھو کہ جو فقیر اَڑ کر مانگتے ہیں خواہ اس کو کتنی ہی جھڑکیاں دو اور جتنا چاہو گُھرکو مگر وہ مانگتے چلے جاتے ہیں اور اپنے مقام سے نہیں ہٹتے یہانتک کہ کچھ نہ کچھ لے ہی مرتے ہیں اور بخیل سے بخیل آدمی بھی اُن کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے اور بار بار مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو کریم رحیم ہے وہ کیوں نہ دے؟ دیتا ہے اور ضرور دیتا ہے مگر مانگنے والا بھی ہو۔

انسان اپنی شتاب کاری اور جلد بازی کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بالکل سچا ہے اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ پس تم اس سے مانگو اور پھر مانگو اور پھر مانگو۔ جو مانگتے ہیں ان کو دیا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ دُعا ہو نری بک بک نہ ہو اور زبان کی لاف زنی اور چرب زبانی نہ ہو۔ ایسے لوگ جنہوں نے دعا کے لئے استقامت اور استقلا ل سے کام نہیں لیا اور آداب دعا کو ملحوظ نہیں رکھا جب ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو آخر وہ دُعا اور اس کے اثر سے مُنکر ہوگئے اور پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ سے بھی مُنکر ہو بیٹھے کہ اگر خدا ہوتا تو ہماری دعا کو کیوں نہ سُنتا۔ ان احمقوں کو اتنا معلوم نہیں کہ خدا تو ہے مگر تمہاری دعائیں بھی دعائیں ہوتیں۔ پنجابی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جو دعا کے مضمون کو خوب ادا کرتی ہے اور وہ یہ ہے:۔

جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا

یعنی جو مانگنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ ایک موت اپنے اوپر وارد کرے۔ اور مانگنے کا حق اسی کا ہے جو اول اس موت کو حاصل کر لے۔ حقیقت میں اسی موت کے نیچے دعا کی حقیقت ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہیئے کہ دُعا کرے۔

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 406۔ 409، سن اشاعت 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

نفس کو تین قسم پر تقسیم کیا ہے نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، نفسِ مطمئنّہ۔ ایک نفسِ ِزکیہ بھی ہوتا ہے مگر وہ بچپن کی حالت ہے۔ جب گناہ ہوتا ہی نہیں اس لیے اس نفس کو چھوڑ کر بلوغ کے بعد تین نفسوں ہی کی بحث کی ہے۔ نفسِ امّارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہوتا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیر ہو جاتا ہے جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح طیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لیے مستعد ہوتا ہے اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جو وہ کہے یہ کرتا ہے وہ کہے خون کر۔ تو یہ کرتا ہے زنا کہے، چوری کہے، غرض جو کچھ بھی کہے سب کے لئے طیار ہوتا ہے کوئی بدی، کوئی برا کام ہو جو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے یہ نفس امارہ کی حالت ہے اور یہ وہ شخص ہے جو نفس امّارہ کا تابع ہے۔

اس کے بعد نفس لوامہ ہے یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں مگر وہ نفس کو ملامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اور کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے گناہ سے نجات مل جائے جو لوگ نفس لوامہ کے ماتحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آ کر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آ جاتے اور اس کو دبا لیتے ہیں۔ یہ لوگ نفسِ امّارہ والوں سے ترقی کر جاتے ہیں۔ نفسِ امّارہ والے انسان اور دوسرے بہائم میں کوئی فرق نہیں ہوتا جیسے کتا یا بلی جب کوئی برتن ننگا دیکھتے ہیں تو فوراً جا پڑتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ وہ چیز ان کا حق ہے یا نہیں۔ اسی طرح پر نفسِ امّارہ کے غلام انسان کو جب کسی بدی کا موقعہ ملتا ہے تو فوراً اسے کر بیٹھتا ہے اور طیار رہتا ہے اگر راستہ میں دوچار روپے پڑے ہوں تو فی الفور ان کے اُٹھانے کو طیار ہوجائے گا اور نہیں سوچے گا کہ اس کو ان کے لینے کا حق ہے یا نہیں مگر لوّامہ والے کی یہ حالت نہیں۔ وہ حالت جنگ میں ہے جس میں کبھی نفس غالب کبھی وہ، ابھی کامل فتح نہیں ہوئی۔ مگر تیسری حالت جو نفسِ مطمئنّہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لیے اس کا نام نفسِ مطمئنّہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے۔ نفسِ مطمئنّہ کی انتہائی حد خدا پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو۔

یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے، لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے خدا پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔ دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ آنکھوں سے بد نظری کیونکر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیئے جاویں یا شہوانی قویٰ کاٹ دیئے جاویں۔ پھر وہ گناہ جو ان اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کرسکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ اسے اندھا کردیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی۔ وہ دیکھتا ہے پھر نہیں دیکھتا۔ کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے۔ وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا۔ اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اس کی ان ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میّت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیئے۔ اور ہماری جماعت کو اسی کی ضرورت ہے اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے۔ پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ367-369، سن اشاعت 2016ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

لیکن راستباز اور حقّانی لوگ جو قیامت تک ہوں گے اُن کا یہ مقصد اور منشاء کبھی نہیں ہوتا۔ اُن کا مقصود اور مطلوب خدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اور غمگساری جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں جو خود اُنہوں نے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنا اُن کی تمنا ہوتی ہے، اس لیے وہ جو کچھ کہتے ہیں بلا خوفِ لومۃ لائم کہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 362-363، سن اشاعت 2016ء)

مَیں پھر اصل بات کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ دولتمند اور متموّل لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (البقرۃ: 4) متقیوں کی صفت کا ایک جزو قرار دیا ہے۔ یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے۔ تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ۔ پس مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ میں شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم ہے۔ دینی خدمات کے لئے متمول لوگوں کو بڑے بڑے موقعے مل جاتے ہیں۔

ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کا کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔ آپؐ نے پوچھا ابو بکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا کہ اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نصف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا۔ عمر! گھر میں کیا چھوڑ آئے۔ تو جواب دیا کہ نصف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابو بکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے، وہی اُن کی مراتب میں فرق ہے۔

دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علمِ تعبیر الرؤیاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مُراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (اٰل عمران: 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے، کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے۔ دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دُوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔

پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ497-498، سن اشاعت 2016ء)

(ترتیب و کمپوزنگ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

جلسہ ہائے سالانہ ٹرینیڈاڈوٹوباگو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2021