• 29 اپریل, 2024

محمد ؐکی تعلیم و نمونہ امن عالم کی ضمانت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر Karen Armstrong (کیرن آرم سٹرانگ) Muhammad – A Biography of the Prophet میں تحریر کرتی ہے کہ:
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنیادی توحید پر مبنی روحانیت کے قیام کے لئے عملاً صفر سے کام کا آغاز کرنا پڑا۔ جب آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تونا ممکن تھا کہ کوئی آپ کو اپنے مشن پر کام کرنے کاموقع فراہم کرتا۔ عرب قوم توحید کے لئے بالکل تیار نہ تھی۔ وہ لوگ ابھی اس اعلیٰ معیار کے نظریہ (یعنی توحید) کے قابل نہ ہوئے تھے۔ درحقیقت اس متشدد اور خوفناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطرناک ہو سکتا تھا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) یقینا بہت ہی خوش قسمت ہوتے اگر اس معاشرہ میں اپنی زندگی کو بچا پاتے۔ درحقیقت محمدکی جان اکثر خطرہ میں گھری رہتی اور ان کا بچ جاناقریب قریب ایک معجزہ تھا، پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کامیاب ہوئے۔ اپنی زندگی کے اختتام تک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قبائلی تشددکی پرانی روایت کا قلع قمع کر دیا اور عرب معاشرہ کے لئے لادینیت کوئی مسئلہ نہ رہا۔ اب عرب قوم اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لئے تیار تھی۔‘‘

(Muhammad – A Biography of the Prophet by Karen Armstrong, Page 53 – 54)

پھر کیرن آرم سٹرانگ ہی لکھتی ہیں کہ: ’’آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام‘‘، (عیسائیت کے بارے میں، اپنے مغرب کے بارے میں لکھ رہی ہیں ) ’’آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام، جس نے مذہبی مباحثات پر پابندی لگائی۔ صلیبی جنگوں کے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ دوسروں کے نظریات کو دبانے کی آرزو میں جنونی ہوچکا تھا اور جس جوش سے اس نے اپنے مخالفین کو سزائیں دی ہیں، مذہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اختلافِ رائے کرنے والوں پر مظالم، Protestants پر Catholics کے مظالم اور اسی طرح Catholics پر Protestants کے مظالم کی بنیاد اُن پیچیدہ مذہبی عقائد پر تھی جن کی اجازت یہودیت اور اسلام نے ذاتی معاملات میں اختیاری طور پر دی ہے۔ عیسائی ملحدانہ عقائد کا یہودیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مطابق (عیسائی مذہب) الوہیت کے بارے میں انسانی تصورات کو ناقابلِ قبول حد تک لے جاتا ہے بلکہ اسے مشرکانہ بنا دیتا ہے۔‘‘

(ایضاً Page 27)

پھر اینی بسانٹ (Annie Besant) اپنی کتاب ’’The Life and Teachings of Muhammad‘‘ میں لکھتی ہے کہ: ’’ایک ایسے شخص کیلئے جس نے عرب کے عظیم نبی کی زندگی اور اس کے کردارکا مطالعہ کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ اُس نبی نے کیا تعلیم دی اور کس طرح اُس نے اپنی زندگی گزاری، اس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ خدا کے انبیاء میں سے اِس عظیم نبی کی تعظیم نہ کرے۔ مَیں جو باتیں کہہ رہی ہوں اُن کے متعلق بہت لوگوں کو شاید پہلے سے علم ہوگا لیکن میں جب بھی ان باتوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس عربی استادکی تعظیم کیلئے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کا ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔‘‘

(The Life and Teachings of Muhammad, Madras, 1932, Page 4)

پھر Ruth Cranston (روتھ کرینسٹین) World Faith (ورلڈ فیتھ) میں لکھتی ہیں کہ: ’’محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو انہوں نے لڑی، مدافعانہ تھی۔ وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے(1949ء میں یہ کتاب چھپی تھی) جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کر دیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو۔ عرب کے نبی کے ہاتھوں ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہوں، ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس بیان کی تو حاجت ہی نہیں جو قتل انکوزیشن (Inquisition) اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ ان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں پھر رہے تھے۔‘‘

(World Faith by Ruth Cranston, Haper and Row Publishers, New York, 1949, Page 155)

پھر Godfrey Higgins (گاڈ فرے ہیگنز) لکھتے ہیں کہ: ’’اس بات سے زیادہ عام طور پر کوئی بات سننے میں نہیں آتی کہ عیسائی پادری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو اُس کے تعصب اور غیررواداری کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں، عجیب یقین دہانی اور منافقت ہے یہ۔ کون تھا جس نے سپین سے ان مسلمانوں کو جو عیسائی ہو چکے تھے، بھگایا تھا کیونکہ وہ سچے عیسائی نہ تھے؟ اور کون تھا جس نے میکسیکو اور پیرو میں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور اُن کو غلام بنا لیا تھا کیونکہ وہ عیسائی نہ تھے؟ اور کیا ہی عمدہ اور مختلف نمونہ تھا جو مسلمانوں نے یونان میں دکھایا۔ صدیوں تک عیسائیوں کو اُن کے مذہب، اُن کے پادریوں، لاٹ پادریوں اور راہبوں اور اُن کے گرجاگھروں کو اپنی جاگیر پر پُرامن طور سے رہنے دیا۔‘‘

(As Cited in Apology for Mohammed by Godfrey Higgins, Lahore, page 123 – 124)

پس یہ مقابلہ یہ کر رہا ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کا۔

پھر یہی گاڈ فرے آگے لکھتے ہے کہ: ’’خلفائے اسلام کی تمام تر تاریخ میں انکوزیشن (Inquisition) جیسی بدنام چیز سے نصف سے بھی کم بدنام چیز ہمیں نہیں ملتی۔ کوئی ایک واقعہ بھی کسی کو مذہبی اختلاف کی بنا پر جلا دینے یا کسی کو محض اس وجہ سے موت کی سزا دینے کا نہیں ہوا کہ مذہبِ اسلام کو قبول کیوں نہیں کرتا؟‘‘

(ایضاً صفحہ 125-128)

یہ اُس تعلیم کا اثر تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دی تھی۔

پھر ہسٹری آف دی سیراسان ایمپائر (History of the Saracen Empire) میں ایڈورڈگِبن (Edward Gibbon) لکھتے ہیں کہ: ‘‘آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کی تبلیغ کے بجائے اُس کا دوام (یعنی ہمیشہ قائم رہنا) ہماری حیرت کا موجب ہے۔ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ اور مدینہ میں جو خالص اور مکمل نقش جمایا وہ بارہ صدیوں کے انقلاب کے بعد بھی قرآن کے انڈین، افریقی اور ترک نو معتقدوں نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مریدانِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مذہب اور عقیدت کو ایک انسان کے تصور سے باندھنے کی آزمائش اور وسوسے کے مقابل پر ڈٹے رہے۔ اسلام کا سادہ اور ناقابل تبدیل اقرار یہ ہے کہ میں ایک خدا اور خدا کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہوں۔ یعنی یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ ’’خدا کی یہ ذہنی تصویر بگڑ کر مسلمانوں میں کوئی قابلِ دید بُت نہیں بنی‘‘ (یعنی یہ تصویر تھی خدا تعالیٰ کی جو مسلمانوں میں بت نہیں بنی)۔ ’’پیغمبر اسلام کے اعزازات نے انسانی صفت کے معیارکی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور ان کے زندہ فرمودات نے ان کے پیروکاروں کے شکر اور جذبۂ احسان کو عقل اور مذہب کی حدود کے اندر رکھا ہوا ہے۔‘‘

(History of the Sarasun Empire by Edward Gibbon, Alex Murray and Sons, London, 1870, page 54)

اور وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کے مقابلے میں عیسائیوں نے بندے کو خدا بنا لیا۔

اللہ کرے کہ دنیا اس عظیم ترین انسان کے مقام کو سمجھتے ہوئے بجائے لاتعلق رہنے یا مخالفت اور استہزاء کرنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکے۔ دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حقیقت پسند منصف اور سچے غیر مسلم کا بھی یہی بیان ہو گا جیسا کہ مَیں نے آپ کو بہت سارے اقتباس پڑھ کر سنائے اور بے شمار اور بھی ہیں۔ پہلے انبیاء کی سچائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ثابت ہوتی ہے اور آپ کے ذریعہ سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہے مقامِ ختم نبوت جس کا ہر احمدی نے دنیا میں پرچار کرنا ہے اور اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 5؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال و ذکر خیر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 دسمبر 2021