• 4 جولائی, 2025

کیتھولک اسکول میں تبلیغ احمدیت

مؤرخہ 25 نومبر بروز جمعرات خاکسار کو St. Monica Catholic School Bopolu کے پرنسپل Fr. Anthony Toe کی طرف سے ماہانہ سٹاف میٹنگ میں شمولیت کی دعوت دی گئی جس کا مقصد اسلام کے مختلف فرقوں اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروانا تھا۔

یہاں عموماً فرقہ بندی نہیں پائی جاتی اور مساجد ہر ایک کلمہ گوکے لئے کھلی ہیں۔ مسیحی حضرات کی زیادہ تر واقفیت سنی اور شیعہ مسلمان فرقوں سےہی ہے جبکہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی نمایاں پہچان رکھتی ہے۔ اسی کے پیشِ نظر خاکسار کو بھی انہیں تین فرقوں پرروشنی ڈالنے کے لئے مدعو کیا گیا۔ چنانچہ خاکسار نےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی روشنی میں امت کے مختلف فرقوں میں بٹ جانےکی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے شیعہ سنی مسلمانوں میں بنیادی اختلاف کی وجہ ان کے سامنے رکھی۔ چونکہ مغربی افریقہ میں زیادہ تر مسلمان مالکی مسلک پر عمل پیرا ہیں لہذا سامعین کی دلچسپی کے لئےمسالک اربع کے نام، پیروکاروں کی تعداد اور ان کا مسکن بتانا ضروری سمجھا۔

موجودہ زمانہ میں چند شدت پسندگرہوں کےغلط اعمال کی وجہ سے جہاں مغربی ممالک میں اسلام کی پاکیزہ تعلیم پر اعتراضات کئے جاتے ہیں وہاں افریقہ بھی اس تاثر سے خالی نہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں ہی مسلمانوں کے زوال کا نقشہ کھینچا۔ پھرایک مصلح کی آمد کی بشارت کا ذکر کیا جو اسلام کا از سرنو احیاء کرے گا اوراس مصلح کو بھی مسیح کے نام سے ملقب گیا ہےلیکن وہ مسیح ناصری نہیں بلکہ مسیح محمدی ہوگا کیونکہ قرآن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا واضح اعلان کرتا ہے جبکہ اناجیل بھی مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے لئے ایک اور وجود کی خبر دیتی ہیں جیسا کہ یہودی حضرت الیاس علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مسئلہ کا حل حضرت یحیٰ علیہ السلام کی آمد کی صورت میں بتا دیا ہے کہ جب بھی کسی کی دوبارہ آمد کا ذکر ہو تو اس سے مراد اس کی صفات اور خوبیاں لئے کسی اور وجود کا آنا ہوتا ہے۔

لہذا جماعت احمدیہ اس بات پر مکمل ایمان رکھتی ہے کہ بائیبل، قرآن کریم اور بانئ اسلام کے ارشادات کی روشنی میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے کل مذاہب عالم کی اصلاح کے لئےمبعوث کیا ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب اپنے اپنے مصلح کے انتظار میں ہیں اور یہی ہمارا بنیادی فرق ہے۔

اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف، ان کی آمد کا مقصد، جہاد کی ممانعت، اسلام کی پرامن تعلیم کے پرچار کے لئے ان کی علمی کارناموں سے آگاہ کیا اور دنیا کو امن، بھائی چارے سے بھرنےاور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کے حوالہ سے ان کی تعلیمات کا ذکر کیا اور انھوں نےاپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ اسلام کوتلوار سے نہیں بلکہ قلم کے جہاد سے پھیلاؤ اور اپنی زندگیوں کوقرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے گزارو۔

آج بھی جماعت احمدیہ ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے اورخلافت احمدیہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک روحانی امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت وجود کی صورت میں عطا کیا ہے جن کے زیر سایہ آج جماعت احمدیہ 213 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جہاں جماعت احمدیہ خدمت اسلام کرتے ہوئے نہ صرف مساجد کی تعمیر اور قرآن کریم کی اشاعت میں مصروف ہے وہاں خدمتِ انسانیت کے میدان میں ہاسپٹلز، سکولز، وکیشنل سنٹرز، ماڈل ویلجیزکی تعمیر کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔

بعدازاں سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اسلاموفوبیا، جہاد، بین المذاہب شادی، پردہ اورجماعت احمدیہ کےدیگرعقائد اور مخالفت کی وجہ جیسے مسائل زیر بحث آئے۔ جہاد کے متعلق پائے جانے والےغلط تاثرات کے ضمن میں خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں جہاد کے التواء کا اعلان فرما دیا تھا اور ایسا ان کے ذریعہ سے ہی ممکن تھا کیونکہ ایک تو اسلام کی حقیقی تعلیم محبت اور امن سے بھری پڑی ہے جسے انھوں نے دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور دوسری بات یہ کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات لے کرآئے تھے اس لئے بھی انھوں دنیا کو محبت کی ہی تعلیم دی۔ جماعت احمدیہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کی مکمل مذمت کرتی ہے اور مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ سمجھتی ہے۔

اس موقع پر Fr. Anthony Toe کو قرآن کریم کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ جس پر انھوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خاکسار کی طرف دی گئی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی کتاب World Crisis and the pathway to Peace اور دیگر کتب کو Facebook پر بھی شیئر کیا ہےاور دلچسپی رکھنے والے احباب کو دعوت مطالعہ پیش کی ہے۔

میٹنگ کے اختتام پر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر شکراً کہا۔ اس میٹنگ میں 15 سٹاف ممبرز شامل تھے اور اس کا کل دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ رہا۔

ذیل میں چند شاملین کے تاثرات بھی درج کئے جارہے ہیں۔

Mr.Bokai نے اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیاکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہمیں اسلام کا پیغام سننا اچھا لگا اور اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ آپ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں جبکہ دوسرے مسلمان ہمیں ان کا نہیں بتاتے۔ حالانکہ میری والدہ مسلمان ہیں لیکن ان سے بھی ایسا نہیں سنا۔ اگر بچپن سے ہی ہمیں اسلام کے متعلق اس طرح بتایا جاتا تو آج ہم بھی مسلمان ہوتے۔

Mr. David کا کہنا تھا کہ مجھے جماعت احمدیہ کے خدمتِ انسانیت کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات نے بہت متاثر کیاہے۔ مزید یہ کہ جس طرح آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور ان کی آمد کے متعلق بتایا ہے دوسرے مسلمان ان کاذکر نہیں کرتے شاید اسی وجہ سے وہ آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

Mr. Cooper نے بتایا کہ مجھے اسلام میں پردہ کی فلاسفی کا سن کر بہت اچھا لگا کہ اس کا مقصد عورت کو تکلیف دینا نہیں بلکہ اسے بری نظروں سے بچانا ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی بیوی ربقہ نے بھی اپنے چہرہ پر نقاب کیا تھا۔

Mr. James Smith نے بیان کیا کہ آپ کے لیکچر سے مجھے یہ پیغام ملا ہے کہ اسلام اورمسیحیت کی تعلیمات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جیسا کہ محبت، پیار، ہمدردی، بھائی چارہ وغیرہ۔ اسلام برداشت کادرس دیتا ہے اور شدت پسندی کے خلاف ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ آتے رہیں اور اسلام احمدیت کے متعلق مزید ہمارے علم میں اضافہ کریں۔

قارئین الفضل کی دلچسپی کے لئے Bopolu کا مختصراً تعارف بھی پیش خدمت ہے۔ لائبیریا کو 15 کاوٴنٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور Bopolu ,City Gbarpolu County میں واقع ہے اور اس کا دارالحکومت بھی ہے یہ ملکی دارالحکومت Monrovia سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اس صوبہ میں سونے اور ہیرے کی کئی کانیں موجود ہیں۔ مقامی احباب کے مطابق لائبیریا میں سب سے پہلے اسلام کا آغاز Bopolu سے ہی ہوا تھا جبکہ اب مسیحیت کا اثر زیادہ ہے۔ 27 فروری 2020ء میں یہاں پہلی دفعہ باقاعدہ احمدیہ مسلم مشن کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے 10 جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان احباب کے ایمان و اخلاص میں برکت عطا کرے اوراحمدیت کے ذریعہ سے پھراسلام کی شان و شوکت کا بول بالا ہو۔ آمین

(فرخ شبیر لودھی۔ نمائندہ الفضل آن لائن لائبیریا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ قادیان

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ