• 8 مئی, 2025

قائد اعظم اور جماعت احمدیہ

قائد اعظم ایک سچے، دیانتدار، محنتی، قانون پسند اور مخلص انسان تھے۔ انہوں نے مسلمانان ہند کی کامیاب قیادت کی اور آئینی طریق پر ان کے لئے ایک آزاد اور اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک کا قیام ممکن بنایا۔ اس جدو جہد میں مسلمان عوام ان کے ساتھ تھے۔ گو ہندوستان کی بیشتر مسلم تنظیمیں اور گروپ از قسم علمائے دیوبند، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی، مجلس احرار، خاکسار تحریک ان کے بھر پور مخالف رہے۔ صرف جماعت احمدیہ وہ واحد جماعت تھی جو اس تحریک میں شامل اور دامے، درمے، سخنے تحریک پاکستان کی مدد گار رہی اسی لئے قائد اعظم اور احمدیوں کے مابین ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے۔حضرت اما م جماعت قائد اعظم کے معترف رہے، آپ اورقائد اعظم کی باہم کئی ملاقاتیں ہوئیں ، خط و کتابت رہی، اہم معا ملات میں حضرت صاحب نے قائد اعظم کو صا ئب مشورے دئیے اور گراں قدر عملی مدد کی۔دوسری طرف قائد اعظم نے بھی احمدیوں سے روابط رکھے، ان کی حمایت کی، احمدیوں کی مدد کو الم نشرح کیا۔حضرت خلیفۃالمسیح کو دعا کے لئے درخواست کی،ایک مشہور احمدی کی برملا تعریف کی اور انہیں اعلیٰ مراتب پر فائز کیا۔ان حقائق پر مشتمل چندواقعات درج ذیل ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے قائد اعظم کے بارے میں تعریفی ارشاد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 11 ستمبر 1927ء کو شملہ میں الفنسٹن ہال میں نواب سر ذولفقار علی خاں کی صدارت میں ایک لیکچر دیا جس میں منجملہ یہ بھی فرمایا :
’’جناح صاحب اس وقت سے مسلمانوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کہ محمد علی (جوہر) صاحب ابھی میدان میں نہ آئے تھے ……. میں انکی خدمات کے باعث ان کو قابل عزت اور قابل ادب سمجھتا ہوں۔‘‘

(لیکچر شملہ بحوالہ انوارالعلوم جلد 10 صفحہ 18)

  • حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنے ایک مضمون رقم فرمودہ 8 دسمبر 1927ء میں فرمایا:

’’مسٹر جناح اور مولانا محمد علی سے پچھلے دنوں شملہ میں مجھے شناسائی ہو چکی ہے اور یو نیٹی کانفرنس اور قانون حفاظت مذاہب کے متعلق گھنٹوں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے میں مسٹر جناح کو ایک بہت زیرک ،قابل اور مخلص خادمِ قوم سمجھتا ہوں اور ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی میرے نزدیک وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنے ذاتی عروج کا اس قدر خیال نہیں جس قدر کہ قومی ترقی کا ہے۔‘‘

(ٹریکٹ مسلمانانِ ہند کے امتحان کا وقت بحوالہ انوارالعلوم جلد10 صفحہ45)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی قائد اعظم سے ملاقاتیں

جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بعض اہم معاملات پر ہندوستان کے مشہور سیاسی زعماء سے تبادلہ خیالات کے لئے اگست ، ستمبر 1927ء میں شملہ میں مقیم رہے۔ اسی دوران آپ کے قائد اعظم سے جو اس وقت اپنے نام سے پہچانے جاتے تھے درج ذیل ذاتی رابطے اور ملاقاتیں ہوئیں۔

  • ناموس پیشوایان مذاہب کے تحفظ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جو مسودہ قانون تجویز کیا تھا اس پر گفتگو کے لئے جو مشہور لیڈر گاہے بگاہے آپ کی فرودگاہ پر تشریف لائے اور گھنٹوں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا ان میں محمد علی جناح بھی تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ612)

  • اس دوران شملہ میں ہندو مسلم اتحاد کانفرنس ہوئی جس کے شریک لیڈروں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓاور جناب محمد علی جناح بھی شامل تھے اور ہر دو کانفرنس کے تینوں اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ پہلے دو اجلاسوں میں حضرت صاحب نے خطاب فرمایا جبکہ تیسرا اجلاس قائد اعظم کی صدارت میں ہوا۔
  • شملہ کانفرنس کا آخری اجلاس قائد اعظم کی صدارت میں ہوا اور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جدا گانہ انتخاب کے حق میں تقریر فرمائی۔
  • حضرت خلیفۃ المسیح اور قائد اعظم کی پہلی One to One ملاقات: شملہ ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی قائد اعظم کے ساتھ ایک One to One ملاقات ہوئی، اس کی چشم دید روایت ایک بزرگ کی زبانی یوں ہے۔

’’یہ موسم گرما 1927ءکا واقعہ ہے ستمبر کا مہینہ تھا تمام صوبوں کے لیڈر شملہ میں اکھٹے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے جدا گانہ انتخاب کے حق میں تھی….قائد اعظم اس وقت مشترکہ انتخاب کے حق میں تھے ۔۔۔ آپ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ) نے ان دنوں انتہائی کوشش کی کہ مسلمان مشترکہ انتخاب کے سراب نما خوشکن نظریہ فریب میں نہ آجائیں چنانچہ آپ نے مختلف صوبوں کے لیڈروں کو ایک ایک کر کے اپنے ہاں مدعو کیا ہر ایک کے ساتھ فرداً فرداً تبادلہ خیال کر کے ان پر اپنا نقطہ نگاہ واضح کیا ۔۔۔ مرحوم قائد اعظم اس وقت کانگریس کے ممبر اور مسٹر محمد علی جناح کہلاتے تھے آپ کو بھی کنگزلے (شملہ میں آپ کی رہائش گاہ)میں دعوت چائے دی گئی تھی میں اس وقت اس دعوت میں موجود تھا ۔ آپ نے تبادلہ خیال کے آخر میں فرمایا۔ مرزا صاحب! میں نہیں مان سکتا کہ نصب العین ہمارا یہ ہو کہ ہندوستانی قوم بلند مقام تک جا پہنچے اور اس کا ذریعہ جدا گانہ انتخاب ہو؟‘‘

(ہماری ہجرت اور قیام پاکستان از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صفحہ15-16دارالتجلیدلاہور)

گو بالآخر قائد اعظم نے اپنی رائے بدل لی اور جداگانہ انتخاب کے حامی ہو گئے۔

  • 1946ء میں ہندوستان میں عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت میں درپیش مسائل ایک وقت میں اتنے گھمبیر ہو گئے کہ تحریک کی کامیابی بالکل مخدوش ہو گئی۔اس مشکل وقت میں حضرت خلیفۃ المسیح ستمبر 1کتوبر 46ء تین ہفتہ تک دہلی میں تشریف فرما رہے۔ اس دوران آپ نے 24 ستمبر کو قائد اعظم سے انتہائی مخلصانہ اور دوستانہ ماحول میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی جس کی خبر اور ینٹ پریس کی طرف سے اخبارات میں بھی شائع ہوئی ۔

(تاریخ احمدیت جلد 9 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ405)

3: حضرت خلیفۃالمسیحؓ کی قائدِ اعظم سے خط و کتابت:
حضرت خلیفۃالمسیح نے کئی اہم مواقع پر قائدِ اعظم سے مراسلت کر کے مسائل کے حل میں خصوصی کردار ادا کیا۔

i۔ آپ نے قائد اعظم کے نام اپنے16اکتوبر 1946ءکے ایک خط میں تحریر فرمایا

I did not perhaps inform you that the very day I met you , I sent a note to H.E. the Viceroy telling him that the Muslim League demands have the full support and sympathy of my community.

ترجمہ: میں شاید اس سے قبل آپ کو مطلع نہیں کر سکا کہ اسی روز جس دن میں نے آپ سے ملاقات کی تھی میں نے ہز ایکسی لینسی وائسرائے کو ایک خط بھجوایا تھا جس میں میں نے انہیں یہ لکھا تھا کہ مسلم لیگ کے تمام مطالبات کو مجھے اور میری جماعت کا پورا تعاون اور حمایت حاصل ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد11 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ462-463)

ii۔ جب عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت کا معاملہ حل ہو گیا تو حضرت صاحب نے 27اکتوبر 1946ء کو قادیان سے قائد اعظم کو مبارکباد کا خط بھیجا جس میں تحریر فرمایا

The new allotment of portfolios has been announced, though their distribution is not equitable but I must congratulate you on your successful efforts…May Allah help you in your great task and lead you to the right path. Amen

ترجمہ: قلم دانِ وزارت کی نئی تشکیل کا اعلان ہو چکا ہے۔ اگر چہ ان کی تقسیم منصفانہ اور معقول نہیں ہے تاہم میں آپ کو آپ کی کامیاب مساعی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی عظیم مساعی میں برکت ڈالے اور صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(تاریخ احمدیت جلد11 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ 463-464)

  • فروری 1947ء تک صوبہ پنجاب کی پاکستان میں شمولیت مخدوش تھی کیونکہ وہاں یونینیسٹ حکومت قائم تھی جس سے مسلم لیگی اکابر کے مذاکرات ناکام ہو چکے تھے۔ اس نازک وقت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی راہنمائی میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوشش سے ملک خضر حیات نے دو مارچ کو استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ کا راستہ صاف ہوا۔ یہ خبر اس وقت کئی اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس بارے میں قائد اعظم کے نام حضرت صاحب کے ایک خط تحریر فرمودہ 2 مارچ 1947ء کا کچھ حصہ درج ذیل ہے۔

As I told you when we met at Delhi that at the proper time Sir Khizar Hayat Khan could be persuaded to join the league …… Sir Muhammad (Zafarullah Khan) came yesterday and discussed the matter with me. Deliberating this, last night he had a long discussion with Malik Sahib and Qazlibash. They have agreed to resign …… Now you have a great lever to get Muslim rights from your ooponents. Now only NWFP remains. I will try to study its situation. Hope you will get help from some other sources as well, but no more can be disclosed in a letter. May be we meet in Dehli in April.

(Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah papers Vol I, (20 February – 2 June 1947 P 161
Printed by Ministry of Culture, Govt of Pakistan, 1993 بحوالہ ماہنامہ خالد اگست 1997ء صفحہ30)

ترجمہ:جیسا کہ میں نے دہلی میں آپ سے ملاقات کے دوران ذکر کیا تھا کہ مناسب وقت پر سر خضر حیات کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔سر محمد ظفر اللہ خاں نے گزشتہ روز اس معاملہ پر مجھ سے گفتگو کی اور پھر اس کی روشنی میں رات ملک صاحب اور قزلباش سے تفصیلی گفتگو کی۔ وہ مستعفی ہونے پر رضامند ہو گئے ہیں۔۔۔. اب مخالفین سے مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہاتھ ایک مضبوط ذریعہ آگیا ہے۔ اب صرف صوبہ سرحد باقی رہتا ہے میں اس کی صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا اور امید کرتا ہوں کہ اس معاملہ میں بھی بعض زرائع سے آپ کو مدد مل سکتی ہے لیکن یہ بات خط میں ظاہر نہیں کر سکتا۔بہتر ہو گا کہ ہم اپریل میں دہلی میں ملاقات کر لیں۔

  • پنجاب باؤنڈری کمیشن کی کاروائی کے ایک اہم مرحلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح نے اپناایک مکتوب مرقومہ 11اگست 1947ءحضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب کے ہاتھ قائداعظم کو بھیجا جس میں منجملہ آپ نے تحریر فرمایا:

’’بے شک آپ ستلج پر اصرار کریں لیکن یہ ساتھ ہی کہہ دیں کہ اگر ہمیں بیاس سے ورے دھکیلا گیا تو ہم نہ مانیں گے اور واقعی میں نہ مانیں تب کامیاب ہونگے ورنہ وہ بیاس سے بھی ورے دھکیل دیں گے ہم تو چاہتے ہیں کہ سارا پنجاب ہی تقسیم نہ ہو ۔تاہم تقسیم کو تسلیم کر لیں تو محفوظ موقف ہمارا بیاس ہے ستلج نہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 9از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ479)

حضرت خلیفۃالمسیحؓ کی قائدِاعظم کی عملی مدد

تحریکِ پاکستان کے ہر اہم موڑ پر حضرت خلیفۃالمسیحؓ نے اپنی خداداد فراست سے قائدِاعظم کو عملی مدد بہم پہنچائی۔ایسے چند واقعات درج ذیل ہیں:

  • جناح لیگ اور شفیع لیگ میں الحاق کی کامیاب جماعتی کوشش:

سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی نگاہ میں جناب محمد علی جناح صاحب کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی اس لئے آپ دل سے چاہتے تھے کہ دونوں دھڑوں میں مفاہمت ہو جائے۔

چنانچہ آپ نے جناب محمد علی جناح اور شفیع لیگ کے سیکریٹری ڈاکٹر سر محمد اقبال کو خطوط لکھے جن کا ذکر ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں کیا اور مصالحت کی امید پیدا ہو گئی۔ مارچ 1929ءمیں جناب محمد علی جناح اور سر محمد شفیع کی ملاقات ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کے ناظر امور خارجہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی شریک ہوئے۔ دونوں لیڈر اتحاد پر آمادہ ہو گئے اور آخر مارچ میں مسلم لیگ کا اجلاس دہلی میں قرار پایا۔ اس اجلاس میں شرکت کی دعوت حضرت خلیفۃ المسیحؓ کو بھی دی گئی۔ اس اجلاس کے بعد بھی حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں جاری رکھیں جو بالآخر رنگ لائیں اور فروری 1930ءمیں دہلی میں دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں۔

(تاریخ احمدیت جلد5 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ130-129)

  • قائد اعظم کی وطن واپسی کے لئے کامیاب جماعتی کوشش:

قائد اعظم نے پہلی گول میز کانفرنس کے بعد اصلاح احوال سے سخت مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑ کر لندن میں مستقل قیام کر لیا اور وہیں پریکٹس شروع کر دی۔حضرت خلیفۃ المسیحؓ قائد اعظم کی صلاحیتوں سے واقف تھے اور دلی طور پر چاہتے تھے کہ وہ واپس آکر مسلمانان ہند کی قیادت کریں۔ چنانچہ جب 12 مارچ 1933ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب نے جماعت کے لندن مشن کا چارج سنبھالا تو آپ نے ان کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ قائد اعظم سے ملاقات کر کے انہیں ہندوستان واپس آنے کی ترغیب دیں۔

حضرت عبدالرحیم درد صاحب مارچ 1933ء میں لندن میں قائد اعظم کے دفتر واقع King’s Bench Walk میں ان سے ملے جس کا حال ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے:
’’میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا ۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑ ے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی ڈوبتی ہو ئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجداحمدیہ لندن تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی۔‘‘

(الفضل یکم جنوری 1955ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد6 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ103)

اس تقریر کے بعد نواب زادہ لیاقت علی خاں اور ان کی بیگم بھی جولائی 1933ء میں لندن میں قائد اعظم سے ملے اور ان سے ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔ چند ماہ بعد قائد اعظم واپس آگئے۔ بزرگ صحافی اور تحریک پاکستان کے ممتاز لیڈر جناب میاں محمد شفیع (میم شین) نے اس بارے میں لکھا (ترجمہ از انگریزی)
’’انہوں نے ہندوستانی سیاست سے ریٹائرہونے کا فیصلہ کر لیا اور علامتی طور پر قریباً ہمیشہ کے لئے لندن میں بود و باش اختیار کر لی۔ یہ جناب لیاقت علی خاں اور لندن مسجد کے امام مولانا عبدالرحیم درد تھے جنہوں نے جناح صاحب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ جناح صاحب 1934ء میں ہندوستان واپس آگئے۔‘‘

(اخبار پاکستان ٹائمز لاہور قائد اعظم ایڈیشن 11ستمبر 1981ء بحوالہ تحریک پاکستان اور جماعت احمدیہ از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ5)

نامور محقق جناب زاہد حسین انجم صاحب نے 1991ء میں انسائیکلو پیڈیا قائد اعظم شائع کیا تو اس میں زیر عنوان دردعبدالرحیم احمدیہ مسجد لندن کے امام۔ قائد اعظم سے اس ملاقات اور اس کے نتیجہ میں ان کے بیت الفضل لندن میں تقریر کا ذکر کیا ہے۔

(انسائیکلو پیڈیا قائد اعظم از زاہد حسین انجم صفحہ 309 مطبوعہ مقبول اکیڈمی لاہور 1991ء بحوالہ ماہنامہ خالد ربوہ اگست 1997ء صفحہ21)

  • 1945ء کے انتخابات میں آپ نے جماعت کو مسلم لیگ کی حمایت کی تلقین فرمائی۔ اس کی کچھ اور تفصیل آگے آئے گی۔

ان کے علاوہ درج ذیل معاملات میں مدد کا ذکر آپ کی قائدِاعظم سے خط و کتابت کے ذیل میں ہو چکا ہے:
1946ء میں ہندوستان کی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت۔

۔فروری 1947ءمیں پنجاب کی یونینسٹ حکومت کا استعفیٰ
۔ پنجاب باؤنڈری کمیشن

قائد اعظم کی جماعت کی بیت فضل لندن میں تقریر

مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی قائد اعظم سے ملاقات کے نتیجہ میں انہوں نے سیاست میں دوبارہ حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کا پہلا اظہار اس تقریب میں شرکت تھی جو عید الاضحی کے موقع پر 6اپریل 1933ء کو بیت فضل لندن میں منعقد ہوئی۔ یہ ایک بڑی تقریب تھی اور اس میں دو سو کے قریب شخصیات مدعو تھیں جن میں مسٹر پیتھک لارنس، سر ایڈورڈ میکلیگن، پروفیسر ایچ اے آر گب اورسر ڈینی سن راس شامل تھے جبکہ صدارت Sir Stewart Sandaman نے کی۔

انسائیکلو پیڈیا قائدِاعظم کے مصنف نے اس تقریب کے ذکر میں لکھا:
قائد اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا:

‘The eloquent persuation of the Imam left me no escape’

ترجمہ: امام صاحب کی فصیح و بلیغ تر غیب نے میرے لئے بچنے کی کوئی راہ نہیں چھوڑی۔

(انسائیکلو پیڈیا قائدِاعظم از زاہد حسین انجم صفحہ 780، مقبول اکیڈمی، انار کلی، لاہور، 1991ء)

قائد اعظم کی یہ تقریر جس کا موضوع تھا
Future of the India

برطانوی اور ہندوستانی پریس کی خاص توجہ کا مرکز بنی اور چوٹی کے اخبارات میں اس کی اشاعت ہوئی۔سنڈے ٹائمز لندن نے لکھا :

‘There was also a large gathering in the grounds of the mosque in the Melrose Road,Wimbledon, where Mr. Jinnah, the famous Indian Muslim spoke on India’s future.

(Sunday Times, London 9th April 1933 بحوالہ ہماری ہجرت اور قیام پاکستان از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ دارالتجلیدلاہور)

ترجمہ: میلروز روڈ ویمبلڈن پر واقع مسجد کے احاطہ میں ایک بڑے مجمع سے مشہور ہندوستانی مسلمان مسٹر جناح نے ہندوستان کے مستقبل کے موضوع پر خطاب کیا۔

اس کے علاوہ درج ذیل اخبارات نے اس تقریب کی خبریں شائع کیں

The Evening Standard, London
7/4/33,
Hindu, Madras 7/4/33,
The Madras Mail, Madras 7/4/33,
Pioneer, Alahabad,
The Statesman, Calcutta 8/4/33,
The Civil & Military Gazette, Lahore
8/4/33,
Egyptian Gazette, Alexenderia,
West Africa, London, 15/4/33
اور رسالہ The Near East and India

6:قائد اعظم کی احمدیوں کے مسلم لیگ کا ممبر بن سکنے کی حمایت:
بعض مولویوں نے 1944ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کوشش کی تھی کہ یہ قانون بن جائے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ کافی حمایت بھی حاصل کر لی گئی تھی لیکن خود قائد اعظم نے مداخلت کر کے یہ قرار داد واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔

(نوائے وقت 10 اکتوبر 1953ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ جلد دوم مرتبہ ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صفحہ 134)

قائدِاعظم کی اصولی بنیاد پر احمدیوں کی اس حمایت کا ذکراور اس پر ناراضگی کا اظہار کئی جگہ ملتا ہے۔ مثلاً

i- آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور 1944ء میں مولوی عبدالحامد بدایونی نے ایک قرار داد پیش کرنا چاہی جس کا مقصد یہ تھا کہ کہ قادیانیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کر دیا جائے یہ لوگ باتفاق علماء دائرہ اسلام سے خارج ہیں لیکن مسٹر جناح نے اپنے آمرانہ اقتدار سے اس قرار داد کو پیش نہیں ہونے دیا۔

(مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے صفحہ 4 مرتبہ جمعیتہ علماء صوبہ دہلی)

ii- مرزا محمود احمد اور اس کی پراپاگنڈہ ایجنسی نے مسٹر جناح سے خط و کتابت کی آخر مسٹر جناح نے مرزائیوں کو مسلم لیگ میں شامل کرلیا ۔ 1944ء کے ایک اجلاس میں اس کے خلاف ایک قرار داد پیش ہوئی تو مسٹر جناح نے اس پر بحث کی اجازت نہ دی۔‘‘

(احرار کا کتابچہ ‘مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی‘ صفحہ -1819 اکتوبر 1946ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد9 صفحہ 366-367)

iii- قادیانیوں کے اخراج کے متعلق جو تجویز پیش ہونے والی تھی اسے بھی مسٹر جناح نے پیش ہونے سے روک دیا ۔

(اخبار مدینہ بجنور 5 اگست 1944ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد صفحہ588)

قائد اعظم کا حضرت خلیفۃ المسیحؓ کے خط کو پریس میں جاری کرنا

انگریز حکومت نے 19ستمبر 1945ء کو ملک میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا اس حوالے سے قائد اعظم نے مسلمانان ہند کے نام یہ پیغام دیا کہ
’’موجودہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے انتخابات ہمارے لئے ایک آزمائش کی صورت رکھتے ہیں۔‘‘

(اخبار انقلاب لاہور 18 اکتوبر 1945ء بحوالہ تاریخ احمدیت از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ 345)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جماعت کو ان انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کی ہدایت کی۔ اس حمایت کی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم نے اس خط و کتابت کو از خود پریس کو جاری کردیا جو ناظر صاحب امورخارجہ قادیان نے ان کے ملاحظہ کے لئے بھجوائی تھے اور جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی ایک احمدی کو یہ ہدایت درج تھی کہ
’’آپ کو موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنی چاہئے اور ان سے تعاون کے تمام ممکنہ ذریعوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔‘‘

یہ خط و کتابت انگریزی اخبا ر ڈان دہلی میں 8 اکتوبر 1945ء کو دہرے عنوان کے تحت یوں شائع ہوئی۔

AHMADIYA COMMUNITY TO SUPPORT MUSLIM LEAGUE
Qadian Leader’s Guaidance.
Quetta, Oct 7 – Mr. M . A. Jinnah has released the following correspondance to the press.

ترجمہ: جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی حمایت کرے گی۔امام جماعت احمدیہ قادیان کی ہدایت

کوئٹہ 7 اکتوبر ۔جناب محمد علی جناح نے درج ذیل خط و کتابت پریس کو بھجوائی ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد نمبر 9 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ356-357)

حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک مضمون کے ذریعہ بھی احمدیوں کو مسلم لیگ کی تائید کی ان الفاظ میں تلقین فرمائی۔
’’آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی تائید کرنی چاہئے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوفِ تردید کانگریس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔‘‘

(الفضل قادیان 22 اکتوبر 1945ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر 9 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ351)

قائد اعظم کا حضرت امام جماعت احمدیہ کو دعا اور مدد کا پیغام اور آپ کا مثبت ردِ عمل

قدیم مسلم لیگی اور قائد اعظم کے ساتھی سردار شوکت حیات کی کتاب The Nation that lost its soul

1995ء میں شائع ہوئی اور پہلی بار یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان انتخابات میں قائد اعظم نے حضرت امام جماعت احمدیہ کو دعا کی درخواست اور امداد کے لئے پیغام بھجوایا تھا۔ سردارصاحب کے الفاظ درج ذیل ہیں:

I travelled day and night making six to seven speeches a day and thus carrying on the Muslim League’s flag, during the elections. I used to send a copy of my program to Quaid-i-Azam. One day I got a message from Quaid e Azam saying, ‘Shaukat, I believe you are going to Batala, which I understand is about five miles from Qadian, please go there and meet Hazrat Sahib and request him on my behalf for his blessings and support for Pakistan’s cause.

After the meeting that night at about twelve mid night, I reached Qadian, when I got there Hazrat Sahib had retired. I sent him a message that I had brought a request from Quaid-e-Azam. He came down immediately and enquired what were Quaid’s orders. I conveyed him Quaid’s message to pray for and also support Pakistan. He replied please convey to the Quaid-e-Azam that we have been praying for Mission from the very beginning. Where the help of his followers concerned, no Ahmadi will stand against a muslim leaguer and someone disobays my advice the community would not support him.’

(The Nation that Lost its Soul by Sardar Shoukat Hayat, P 147, Jang Publishers, Lahore Dec 1995)

ترجمہ: الیکشن کے دوران میں مسلم لیگ کا جھنڈا تھامے رات دن سفر کرتا اور ہر روز چھ سات تقریریں کرتا تھا ۔ میں اپنے پروگرام سے قائد ِاعظم کو مطلع رکھتا تھا۔ایک دن مجھے قائد کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ ’’شوکت !مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو میرے خیال میں قادیان سے پانچ میل دور ہے۔ برائے مہربانی وہاں جاؤ اور حضرت صاحب سے مل کر میری طرف سے انہیں پاکستان کے مقصد کے لئے دعا اور مدد کی درخواست کرو ۔

اس رات جلسہ کے بعد ، نصف شب بارہ بجے کے قریب میں قادیان پہنچا ۔میرے پہنچتے تک حضرت صاحب آرام کے لئے جا چکے تھے ۔ میں نے انہیں پیغام بھجوایا کہ میں ان کے لئے قائد اعظم کی ایک درخواست لے کر آیا ہوں ۔ فوراً اٹھ آئے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا پیغام ہے؟ میں نے انہیں قائد اعظم کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان کے لئے دعا اور مدد کریں ۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ قائد اعظم کو بتادیں کہ ہم پاکستان کے لئے ابتداء سے ہی دعا کر رہے ہیں ، اور جہاں تک ان کے پیروکاروں کا تعلق ہے تو کوئی احمدی کسی مسلم لیگی امیدوار کا مقابلہ نہیں کرے گا اور اگر کہیں ایسا ہوا تو جماعت اس کی حمایت نہیں کرے گی۔‘‘

(The Nation that lost its soul by Sardar Shoukat Hayat P147 Jang Publishers, Lahore Dec 1995 بحوالہ رسالہ خالد ربوہ اگست 1997ءصفحہ 25)

قائد اعظم کا جماعتی خدمات پر اظہار تشکر

  • 1946ء کے آخر میں بہار میں فسادات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح ؓنے مظلوم مسلمانانِ بہار کے ریلیف فنڈ کے لئے قائد اعظم کی خدمت میں پندرہ ہزار روپے کی پہلی قسط بھجوائی۔قائد اعظم نے جواباً لکھا۔

’’نیو دہلی 23 نومبر بنام ناظر صاحب امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان۔۔۔آپ کا خط اور چیک مل گیا ہے آپ کی امداد کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔۔جناح۔‘‘

(الفضل 28 نومبر 1946ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 9 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ771)

  • اوائل1947ء میں سر خضر حیات کے استعفی کا معاملہ بہت اہم تھا اور یہ صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی راہنمائی میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوشش سے حل ہوا۔ قائد اعظم اس کے معترف تھے۔ چنانچہ واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جماعت کے ناظر امور خارجہ حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب قائد اعظم سے ملے تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی اس کوشش کا بہت شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ نے نہایت آڑے وقت ہماری مدد کی نیز کہا I can never forget itمیں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔

(قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ از مولانا جلال الدین شمس صفحہ 50 تقریر 28 دسمبر 1949ء)

قائد اعظم کا ایک احمدی کی تعریف اور اعلیٰ ذمہ داریاں تفویض کرنا

چودھری محمد ظفراللہ خاں اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث برصغیر کی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ قائدِاعظم کی مردم شناس نگاہ سے یہ امر پوشیدہ نہ تھا۔اسی لئے آپ ان کے مداح رہے۔مثلاً
1939ء میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:
’’میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے آنریبل سر محمد ظفر اللہ خاں کو ہدیہ تبرک پیش کرنا چاہتا ہوں وہ مسلمان ہیں اور یوں کہنا چاہئے کہ گویا اپنے بیٹے کی تعریف کر رہا ہوں۔‘‘

(ہماری قومی جدوجہداز ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی صفحہ 218 مطبوعہ سنگِ میل پبلیکشنز، لاہور، 1995ء)

اسی سبب جولائی 1947ء سے ستمبر1948ء تک کے پندرہ مہینوں میں قائد اعظم نے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو یکے بعد دیگرے چار اہم ترین ذمہ داریاں تفویض فرمائیں اور ان میں مکرم چودھری صاحب کی اعلیٰ کارکردگی کی کھلے دل سے تعریف کی۔

  • پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کی نمائندگی:

جولائی 1947ءمیں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے بھی پہلے پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کا کیس لڑنے کے لئے قائد اعظم کی نگاہِ انتخاب ظفر اللہ خاں صاحب پر پڑی۔ اس تقرری کے بارے میں مشہور صحافی م ش صاحب نے لکھا:
’’قائد اعظم نے چوہدری سر ظفر اللہ خاں کو مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے نامزد کیا تا کہ وہ پارٹیشن کمیٹی (باؤنڈری کمیشن) کے سامنے پیش ہوں ۔۔۔قائد اعظم معمولی انسان نہیں تھے وہ تاثرات کی بناء پر لوگوں کے متعلق رائے قائم کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ وہ تجربہ کی کسوٹی پر لوگوں کو پرکھا کرتے تھے انہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد ظفر اللہ خاں کو مسلم لیگ کی نمائندگی کے لئے نامزد کیا تھا۔‘‘

(نوائے وقت لاہور میگزین 6 مارچ 1992ء بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ خاں صفحہ 106)

کمیشن میں آپ کی کارکردگی پر قائد اعظم کے خراج تحسین کا حال معروف صحافی منیر احمد منیر صاحب نے یوں بیان کیا:
’قائد اعظم نے چوہدری ظفر اللہ خاں کو پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اور جب چوہدری ظفر اللہ خاں یہ کیس پیش کر چکے تو قائد اعظم نے انہیں شام کے کھانے کی دعوت دی اور انہیں معانقہ کا شرف بخشا جو قائدا عظم کی طرف سے کرہ ارض پر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ۔ معانقہ کرنے کے بعد قائد اعظم نے چوہدری ظفر اللہ خاں سے کہا میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کیا گیا تھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور نہایت احسن طریق سے سر انجام دیا۔‘‘

(کالم مطبوعہ روزنامہ خبریں لاہور مورخہ 7 جون 2003ء بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ143)

  • اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے وفد کی سر براہی:

پاکستان بنتے ہی اقوام متحدہ میں نمائندگی دلوانے اور دیگر زیر بحث معاملات میں پاکستان کی آواز بلند کرنے کے لئے پہلے پاکستانی وفد کی سربراہی کے لئے قائد اعظم نے ظفر اللہ خاں صاحب کو مقرر فرمایا۔ آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے بارے میں امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسن اصفہانی صاحب نے قائد اعظم کے نام اپنے خط مورخہ 4 اکتوبر 1947ءمیں لکھا۔

ترجمہ: ’’اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد نے توقع سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے فلسطین کے مسئلہ پر ظفر اللہ خاں نے جو تقریر کی وہ اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر ہونے والی بہترین تقریروں میں سے ایک ہے ۔۔۔.یہ کسی قسم کی تعلی نہیں ہے کہ ہم نے واقعی عمدہ تاثر پیدا کیا ہے پاکستان نے اپنا آپ منوا لیا ہے۔‘‘

(Quaid-I-Azam Mohammad Ali Jinnah Papers, Vol VI, (1st Oct – 31 Dec 1947. P 101)
( بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ161)

اسی تعلق میں میں قائد اعظم نے حسن اصفہانی صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 11 ستمبر 1947ءمیں لکھا:
’’ظفر اللہ (نیو یارک سے) واپس پہنچ گئے ہیں اور میری ان سے طویل گفتگو ہوئی ہے۔ واقعی انہوں نے اپنا کام عمدگی سے انجام دیا ہے۔‘‘

(Quaid-i-Azam Mohammad Ali JInnah Paper,Vol VI,(1 Oct-31Dec1947) P 403,Ministry of Culture, 2001بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار ازپروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ162)

  • وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے تقرری:

ابھی اقوام متحدہ کا اجلاس جاری تھا کہ قائد اعظم نے ظفر اللہ خاں صاحب کو واپس بلوا بھیجا اور 22 اکتوبر 1947ء کو حسن اصفہانی صاحب کو لکھا:
’’جہاں تک ظفر اللہ خاں کا تعلق ہے تو ہم نہیں چاہتے کہ جب تک وہاں (اقوام متحدہ) پر ان کا قیام ضروری ہے وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر آجائیں۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قابل لوگوں خاص طور پر ان جیسی اعلیٰ صلاحیت کے اشخاص کی بہت کمی ہے اس لئے جب بھی ہمیں مختلف مسائل سے واسطہ پڑتا ہے تو ان کے حل کے لئے لا محالہ ہماری نظریں ان کی طرف اٹھتی ہیں۔‘‘

(Quaid-I-Azma Mohammad Ali Jinnah Papers, Vol VI, Page 165, Published by Ministry of Culture Division, Govt of Pakistan, Islamabad 2001 بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ 232-233)

’’اقوام متحدہ سے وفد کی واپسی پر آپ کو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا آپ اس عہدے پر سات سال تک فائز رہے۔‘‘

(نوائے وقت لاہور 3ستمبر 1985ء)

یہ تقرری قائد اعظم کے یوم پیدائش یعنی 1947ء کے 25دسمبر کو ہوئی۔ قائد اعظم کے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب پر اس اعتماد اور بھروسہ کے مجموعی ذکر پر مشتمل دو تحریریں درج ذیل ہیں:
اخبار ’’نوائے وقت‘‘ لاہور نے جو اس تحریر کے وقت مسلم لیگ کا ترجمان شمار ہوتا تھا ،قائد اعظم کی زندگی میں اپنے اداریہ میں لکھا:
’’جب قائد اعظم نے یہ چاہا کہ آپ باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں تو ظفر اللہ خاں نے فوراً یہ خدمات انجام دینے کی حامی بھر لی۔۔۔.اور اسے ایسی قابلیت سے سر انجام دیا کہ قائد اعظم نے خوش ہو کر آپ کو یو ۔این۔او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں میں شامل ہو چکا تھا آپ نے ملک و ملت کی شاندار خدمات سر انجام دیں تو قائد اعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس عہدے پر فائز کرنے پر تیار ہو گئے جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو بلا تامل پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا۔‘‘

(نوائے وقت لاہور 24اگست 1948ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد9 از مولانا دوست محمد شاہد صفحہ578-579)

معروف صحافی منیر احمد منیر نے اپنے کالم ’’جگ ورت‘‘ میں لکھا:
’’ان کی تعریفیں تو وہ ہستی کرتی رہی جسے دنیا بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مبارک القاب اور نام سے جانتی ہے سچائی جن کی پہچان تھی جنہوں نے کسی کا دل رکھنے کے لئے مصلحتاًبھی جھوٹ نہ بولا ۔۔۔قائد اعظم نے چوہدری ظفر اللہ خاں کو پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے مقرر کیا تھا۔۔۔.قیام پاکستان کے بعد .۔۔۔ قائد اعظم نے چوہدری ظفر اللہ خاں کو پاکستان کی نمائندگی کے لئے یو۔این۔او میں بھیجا تھا جب قائد اعظم نے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسن اصفہانی کو لکھا کہ ظفر اللہ کو واپس بھیج دیں تو اصفہانی صاحب نے پس و پیش کی اس پر 22اکتوبر 1947ء کو اصفہانی کے نام اپنے خط میں یہ جملہ قائد اعظم نے ہی ظفر اللہ خاں کے لئے لکھا تھا ۔۔۔یہاں ہمارے پاس اہل خاص طور پر ان جیسے مقام (Calibure)کے حامل افراد کی کمی ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ مختلف مسائل کے حل کے لئے ہماری نگا ہیں بار بار ان کی طرف اٹھتی ہیں …ظفر اللہ خاں کو پاکستان کا وزیر خارجہ بھی قائد اعظم نے ہی مقرر کیا تھا۔ قیام پاکستان سے کوئی ۱۲ برس قبل سنٹرل لجیسلیٹو اسمبلی کے بھرے اجلاس میں یہ جملہ بھی قائد اعظم نے ہی ادا کیا تھا ’ظفر اللہ خاں میرا سیاسی بیٹا ہے۔‘‘

(کالم مطبوعہ روزنامہ خبریں مورخہ 7 جون 2003ء بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ249-259)

  • قائد اعظم کے آخری دستخط از فرخ امین (قائد اعظم کے سیکریٹری):

قائد اعظم کے سکریٹری فرخ امین صاحب نے بیان کیاکہ
’’بیماری کے پورے زمانے میں قائد اعظم نے اس وقت تک سرکاری کاموں کا سلسلہ جاری رکھا جب تک ان میں ذرا بھی سکت باقی تھی۔۔۔مجھے وہ دن ہمیشہ یاد رہے گا جب انہوں نے یو۔این۔او میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے سر محمد ظفر اللہ خاں کو پورے اختیارات دینے کے لئے آخری سرکاری دستخط کئے۔‘‘

(زندہ قائد اعظم از منظور حسین عباسی صفحہ 34 مطبوعہ مکتبہ شاہکار لاہور بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا 251-252)

یہ یو این میں پاکستان کا دوسرا وفد تھا۔

قائد اعظم کی وفات پر جماعتی ردّ عمل

قائدِاعظم کی وفات ایک سانحہ تھا۔ جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور جماعت کے دیگر اکابرین نے اپنے دلی غم کا اظہار کیا۔

  • چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب آپ کے قریبی اور قابل ِ اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ اس حقیقت کے باوجودکہ آپ ایک غیر از جماعت امام کے پیچھے قائد کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اس علم کے باوجود کہ آپ کا نمایاں طور پر ایسا نہ کرنا ایک نئے اعتراض کو جنم دے گا۔ محبت کا یہی تعلق آپ کوکشاں کشاں جنازہ کے اس اجتماع میں لے گیا۔ آپ کا یہ طرزِ عمل بہادری سے اصولوں پر ڈٹے رہنے کی ایک اعلیٰ مثال تھا۔ اور عالمِ بالا میں میں اصول پسند قائدِ اعظم بھی اس پر اظہارِ پسنددیدگی کئے بغیر نہ رہے ہوں گے۔ اس موقع کی پریس میں چھپنے والی وہ تصویر جس میں آپ اکیلے غم و اندوہ کی تصویر بنے بیٹھے تھے اس موقع پر آپ کے دلی جذبات کی آئینہ دار تھی۔
  • تاہم اس حادثہ پر اصل جماعتی اظہار وہ تعزیتی پیغام تھا جو حضرت مصلح موعود نے جناب لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان کے نام بذریعہ تار ارسال فرمایا اور جس کا درج ذیل متن اگلے دن کے اخبار الفضل میں صفحہ اول پر جلی حروف میں شائع ہوا۔

’’میں پاکستان کے تمام احمدیوں کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ نقصان اکیلے پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیائے اسلام کا مشترکہ نقصان ہے کیونکہ اس انتہائی نازک دور میں قدرتی طور پر تمام عالم اسلام کی نگاہیں امداد کے لئے پاکستان اور قائداعظم کی عظیم شخصیت کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ خدا تعالیٰ قائد اعظم کے کام میں برکت ڈالے اور پاکستان اور تمام باشندگان پاکستان پر اپنا فضل نازل فرمائے۔ بڑے لوگ اپنے کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہر سچا پاکستانی اپنی رہنمائی کے لئے آپ کے اصولوں کو پیش نظر رکھے گا۔ اور ذاتی خواہشات اور ذاتی مفاد سے بالا ہو کر اپنی زندگی کو از سر نو (دین) اور (مومنوں) کی خدمت کے لئے وقف کر دے گا۔ میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کو مضبوط اور طاقتور بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔ اور اپنی طرف سے اس کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کرینگے۔ خدا تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ رتن باغ لاہور۔‘‘

(روزنامہ الفضل لاہور مورخہ 12ستمبر 1948)

  • وفات کے تیسرے دن روزنامہ الفضل میں حضرت خلیفۃالمسیح کے بھائی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تحریر فرمودہ ایک مضمون بعنوان ’قائد اعظم محمد علی جناح‘ شائع ہوا جس کے چند جملے درج ذیل ہیں۔

’’گو قائد اعظم کا جسد خاکی سپرد خاک ہو کر اپنے دنیوی دور زندگی کو ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا ہے مگر ان کی روح اپنے اچھے اور شاندار اعمال کے ساتھ زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔۔۔قائدا عظم میں بہت سی خوبیاں تھیں مگر ان کا جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہو کر نظر آتا ہے وہ یقینا یہی ہے کہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہندوستان سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا۔۔۔

مسلمانوں کے سیاسی اتحاد اور پاکستان کے وجود کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کام اور سب سے بڑا وصف ان کا عزم و استقلال تھا۔۔۔(وہ) ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور مسلمانوں کی کشتی کو نہایت عزم اور استقلال کے ساتھ چلاتے اور اردگرد کی چٹانوں سے بچاتے ہوئے منزل مقصود پر لے آئے۔۔۔

قائد اعظم محمد علی جناح کا تیسرا نمایاں وصف ہر قسم کی پارٹی بندی سے بالا ہو کر غیر جانبدارانہ انصاف پر قائم رہنا تھا۔۔۔ان کے لئے صرف یہی ایک معیار قابل لحاظ تھا کہ ایک شخص کام کا اہل ہو اور یہ وہی زریں معیار ہے جس کی طرف قرآن شریف نے۔۔۔توجہ دلائی ہے۔۔۔قائدا عظم محمد علی جناح کی یہی بہترین یادگار ہو سکتی ہے کہ ان کے نیک اوصاف کو زندہ رکھا جائے۔‘‘

(اخبار الفضل لاہور 14 ستمبر 1948ء)

iv۔دسویں دن روزنامہ الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیحؓ کا تحریر فرمودہ ایک مضمون بعنوان ’’(مومنین) پاکستان کے تازہ مصائب‘‘ شائع ہوا جس سے چند روشن جملے بطور حرف آخر درج ذیل ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگر وہ (مومن) جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اور ان کے کام کی قدر پہچانتے تھے سچے دل سے یہ عہد کر لیں کہ جو منزل پاکستان کی انہوں نے تجویز کی تھی وہ اس سے بھی آگے اسے لے جانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تندہی سے اس کو نباہنے کی کوشش بھی کریں تو یقینا پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا۔‘‘

(اخبار الفضل لاہور 21 ستمبر 1948ء بحوالہ انوار العلوم جلد20 صفحہ555)

غرضیکہ مذکورہ بالا گیارہ پہلوؤں سے یہ جائزہ اس حقیقت کو پورے طور سے واضح کر دیتا ہے کہ جماعت احمدیہ اور قائد اعظم کے درمیان ہمیشہ انتہائی مخلصانہ دوستانہ تعلقات رہے ۔اکابرین ِجماعت اور افرادِ جماعت نے ہر اہم موقع پر قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے بے لوث خدمات انجام دیں اور قائد اعظم نے ان کو برملا سراہا۔

(جمیل احمد بٹ)

پچھلا پڑھیں

سکاسو ریجن مالی میں جلسہ سیرۃ النبی ؐ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2021