• 24 جون, 2025

رسول کریم ؐ دور جدید کے لئے بھی اسوہ حسنہ ہیں

رسول کریم ؐ دور جدید کے لئے بھی اسوہ حسنہ ہیں
آپ کی بیان کردہ الہامی صداقتیں فطری، ابدی اور ساری دنیا کے لئے قابل عمل ہیں
دور جدید کے تمام کامیاب سماجی، معاشرتی، اقتصادی، سائنسی اور سیاسی ڈھانچے
آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں

آج سے چودہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنا عظیم الشان برہان اور نور نازل فرمایا۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا (النساء: 175) تمام سابقہ انبیاء کی شانیں اور کمالات آپ کی ذات میں جمع کر دیئے۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٮہُمُ اقۡتَدِہۡ (الانعام: 91) سب سابقہ الہامی کتب کی تمام ابدی صداقتیں قرآن کریم میں اکٹھی کر دیں فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینہ: 4) مہر ختم نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دی۔ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب: 41) ایک کامل ابدی شریعت کا تاج آپ کے سر پر رکھا اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ (المائدہ: 4) ہر اسود و احمر کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّنَذِیۡرًا (سبا: 29) کا امتیازی نشان آپ کو عطا کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے ہر دور سے گزار کر ہر قسم ہر مرتبہ اور ہر عمر کے انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے اسوہ حسنہ بنا دیا۔ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرًا (الفرقان: 2)۔

آج کا انسان سوال کرتا ہے کہ کیا آپ اس دور جدید کے لئے بھی اسوہ ہیں تو خدا کہتا ہے کہ ہاں آپ ہر دور کے لئے نمونہ ہیں کیونکہ آپ کا دین اسلام دین فطرت ہے اور انسان کی فطرت نہیں بدلتی اور خالق کائنات نے انسان کی اس فطرت کو ملحوظ رکھ کر ابد الآباد تک کے لئے قرآن نازل کیا ہے یہی قائم رہنے والا دین ہے فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ (الروم: 31) اسی لئے اللہ نے آپ کی شریعت اور سنت کو دائمی زندگی بخش دی ہے وہ قرآن کی عملی تفسیر ہے جو ہر زمانہ میں غور و فکر کے ساتھ نئے جلوے دکھاتی رہے گی وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: 45) وہ ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور شاخیں ہستی باری تعالیٰ سے باتیں کر رہی ہیں كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم: 25) وہ نور مجسم ہے جو ہر تاریکی کو روشنی میں بدلتی رہے گی كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (ابراہیم: 2) انہی فضائل کے نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ کاملہ قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا (الاحزاب: 22) یعنی تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔

اس حقیقت کی ایک ناقابل تردید دلیل وہ عظیم سچائیاں ہیں جن کو انسان نے صدیوں کی محنت اور تجربے کے بعد تلاش کیامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے بیان کر دی تھیں وہ سچائیاں انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ خاندانی بھی اور قومی اور بین الاقوامی بھی۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور ذاتی زندگی سے شروع کرتے ہیں۔

صفائی اور دور جدید کی تحقیق

انسان کے ہزاروں سال کے سفر کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور قومی ترقی کا آغاز صفائی سے ہوتا ہے جسم کی صفائی، ماحول کی صفائی اور خیالات کی صفائی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں سائنسدان کہتے ہیں کہ اکثر بیماریاں گندے ہاتھوں اور گندے منہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ 90 فیصد بیماریوں کے جراثیم منہ اور دانتوں میں پلتے ہیں صابن سے ہاتھ دھونے کی تحریک کے باعث د نیا میں ہیضہ کی بیماری میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اسی لئے ہر سال 15 اکتوبر کو ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دن رات میں کم ازکم دو بار دانت صاف کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ہمارے آقا و مولا عالمی رسول نے اپنے مذہب کی بنیاد صفائی اور نظافت پر رکھی ہے آپ نے فرمایا بنی الدین علی النظافۃ یعنی میرے دین کی بنیاد صفائی اور پاکیزگی پر ہے۔ (الشفا عیاض جلد اول ص39) اسلام پہلا اور واحد مذہب ہے جس میں صفائی کو ایمان اور شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازوں کے لئے پانچ دفعہ وضو کا حکم دیا جس کے مرکزی اجزاء ہاتھ، منہ، چہرہ، ناک، کان، آنکھیں، بازو اور پاؤں ہیں۔ دن میں پانچ دفعہ وضو کرنے کے لئے بیسیوں دفعہ ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری امت کیلئے گراں نہ ہوتا تو میں دن میں پانچ دفعہ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (بخاری کتاب الجمعة باب السواک یوم الجمعة حدیث نمبر 838) آپ صبح تہجد کے وقت بھی اٹھتے تو سب سے پہلے دانت صاف کرتے (بخاری کتاب الجمعة باب السواک یوم الجمعة حدیث نمبر 840) اور وفات سے تھوڑی دیر قبل بھی آخری عمل مسواک تھا (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ حدیث نمبر 4084) فرمایا اپنے گھروں کو بھی صاف ستھرا رکھو۔ نظفوا افنیتکم۔ (ترمذی کتاب الادب باب فی النظافة حدیث نمبر 2723)

وبا زدہ علاقے کے متعلق فرمایا کہ اس سے باہر نہ نکلو اور اگر باہر ہو تو اس کے اندر نہ جاؤ إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا (صحیح بخاری کتاب الطب باب فی الطاعون حدیث نمبر5728) یہی بات آج سارے سائنس دان اور ساری حکومتیں کہ رہی ہیں۔

اور پھر فرمایا وضو میں اپنے اعضاء کےساتھ اپنے خیالات بھی پاک کرو اور دعا کرو کہ۔ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔ (ترمذی کتاب الطہارة باب مایقال بعد الوضوء حدیث نمبر 50) اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور مجھے پاک صاف رہنے والوں میں سے بنادے۔

اس کو آج کا انسان positive thinking کہتا ہے فرمایا ان پاک خیالات کے ساتھ نماز پڑھو جو ورزش کے طور پر بھی نہایت اہم ہے اور جسم کے تمام اعضاء کے لئے اکسیر ہے۔ فرمایا نماز سے واپسی پر خدا کے دربار سے تمام انسانوں کے لئے سلامتی کا پیغام لے کر آؤ۔ دائیں جانب بھی السلام علیکم ورحمة اللہ کہو اور بائیں جانب بھی یعنی مشرق کے لئے بھی اور مغرب کے لئے بھی۔ انہی تحفوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گھر میں داخل ہوتے ہیں۔

عائلی زندگی کے لئے نمونہ

آج کا انسان عائلی زندگی کے حوالہ سے سے بہت بد امنی کا شکار ہے رسول اللہ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال سے حسن سلوک کرنے والا ہوں۔

(ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء حدیث نمبر 1977)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کان ضحاکا بساما جب رسول اللہ گھر میں داخل ہوتے تو ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے ہوئے داخل ہوتے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود گھر کے کام کاج میں حصہ لیتے کپڑے اور برتن دھو لیتے صفائی کرلیتے جانوروں کا خیال رکھتے کوئی بلاتا تو لبیک کہہ کر مخاطب ہوتے یہ وہ گھر تھے جو جنت ارضی کا منظر پیش کرتے تھے

(طبقات ابن سعد جلد اول ص365۔ مسند احمد حدیث نمبر33756۔ شفاعیاض باب تواضعہ)

ایک سفر میں آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہؓ بھی آپ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھیں کہ اونٹ نے ٹھوکر کھائی اور دونوں پاک وجود گر گئے صحابی ابو طلحہؓ رسول اللہ کو سہارا دینے کے لیے دوڑے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیک بالمرءۃ پہلے عورت کا خیال کرو۔ ابو طلحہؓ یہ سن کر منہ پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہؓ کے پاس آئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا۔ پھر ان دونوں کے لئے سواری کو درست کیا۔ اور رسول اللہ اور حضرت صفیہ اس پر سوار ہو گئے۔ (بخاری کتاب الجھاد و السیر باب مایقول اذا رجع من الغزوہ حدیث نمبر2856) پس ladies first کا جملہ جس پر مغرب فخر کرتا ہے اول اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا اور ضرب المثل بن گیا۔

میرا ہتھیار علم ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے اصل ہتھیار تلواریں اور نیزے نہیں بلکہ علم میرا اسلحہ ہے العلم سلاحی (الشفا۔ عیاض جلد1 ص86) اور صحابہ کو ترغیب دیتے تھے اطلبوا العلم من المهد الى اللحد۔ (کشف الظنون جلد1 ص52) یعنی پیدائش سے لے کر قبر میں جانے تک علم حاصل کرتے رہو اور آپ یہ دعا بھی کرتے رہتے تھے کہ رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا یعنی اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کرتا چلا جا (طٰہٰ: 115) آپ نے اپنے ان پڑھ صحابہ کو بدر کے پڑھے لکھے قیدیوں سے علم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا اور واضح کر دیا کہ علم سیکھنے سکھانے کے لیے کسی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں (شرح الزرقانی علیٰ المواھب اللدنیہ جلد2 ص324 باب غزوہ بدر) اس طرح تعلیم بالغاں کا پہلا سکول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھولا پس آج جب سوسالہ معمر مرد اور عورتیں یورپ اور جاپان کے سکولوں میں جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بنانے کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے (کشف الظنون جلد1 ص52) آج سے 70، 80 سال پہلے بھی دنیا میں چین کی کوئی وقعت نہ تھی مگر آج دنیا بھر کے لوگ چین سے سیکھ رہے ہیں اور چینیوں سے سیکھنے کے لئے ہزاروں طالب علم دنیا بھر میں چینی زبان سیکھ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں۔

کھانے کے متعلق ہدایات

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل کھانے پینے کے متعلق نہایت اعلیٰ تعلیم عطا فرمائی آپ نے فرمایا حلال کھاؤ آپ نے خدا کے حکم سے صرف چند چیزوں کو حرام قرار دیا کیونکہ ان کے کھانے سے انسان کی روحانیت اور اخلاق اور جسم پر بہت برا اثر پڑتا ہے آپ نے فرمایا کہ حلال کے ساتھ طیب ہونا بھی ضروری ہے یعنی وہ چیز جو آپ کے موافق ہے پھر فرمایا کہ کھاؤ اور پیئو مگر اسراف نہ کرو۔ وَکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا (الاعراف: 32)۔ پس وہ دنیا جو آج کل balanced food پر زور دیتی ہے دراصل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور زبان حال سے کہتی ہے کہ آپ اس جدید دور کے لئے بھی اسوہ حسنہ ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے متعلق یہ بھی ہدایت دی کہ اچھی طرح بھوک لگ جائے تو پھر کھاؤ اور یہ بھی کہ پیٹ بھر کر نہ کھاؤ آپ نے کھانوں کے درمیان مناسب وقفہ کی تلقین کی آپ نے فرمایا کہ یہ فاقہ تمہیں جسمانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچاتا ہے آپ نے خدا کے حکم سے ایک ماہ کے روزے فرض کئے اور نفلی روزوں کی بھی تلقین فرمائی تھی آج غیرمسلم ممالک کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ فاقہ کشی جسمانی نظام کے لیے نہایت ضروری ہے اس سے بہت سی بیماریاں ختم ہوتی ہیں اور انسانی جسم ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے اور روزہ کے اوقات کے مطابق کام کرتا ہے سال بھر میں تیس دن کی یہ ٹریننگ انسان کو حیات نو عطا کرتی ہے وہ ڈاکٹر جو مریضوں کو فاقہ کشی اور روزوں کی تلقین کرتے ہیں وہ رسول اللہ کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔

نیند کے لئے رہنمائی

رسول اللہ ﷺ نے جب سونے اور جاگنے کے آداب سکھائے تو پیٹ کے بل سونے سے بھی منع فرمایا (ترمذی کتاب الاستیذان باب کراہیۃ الاضطجاع علیٰ البطن) گزشتہ 2 دہائیوں میں جو تحقیق دنیا بھر میں ہوئی وہ بتاتی ہے کہ پیٹ کے بل سونے سے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی کم ہو جاتی ہے اور دماغ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایک سال سے کم عمر بچہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے اور پوسٹ مارٹم میں کوئی وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی۔

قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ رسول اللہ کا دعویٰ طبعی علوم کے ماہر ہونے کا ہے مگر جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے قرآنی اصولوں اور سنت مصطفوی ﷺکی شان زیادہ نمایاں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ وہ فزکس کا میدان ہو یا کیمسٹری کا۔ معیشت کا ہو۔ آرکیالوجی کا ہو یا سماجی علوم کا۔ ہر شعبہ میں اسلام کی رہنمائی اور برتری نظر آتی ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو وقت سے پیچھے رہ گئی ہو۔ ہر نئی تحقیق اس امر پر مہر لگاتی ہے کہ یہ مذھب عالم الغیب خدا کی طرف سے ہے جس کی تمام انسانوں پر اور تمام جہانوں پر نظر ہے۔ آئیے کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں۔

سود کی مناہی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سود کو حرام قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم سود سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ (البقرہ: 279-280) دنیا دو عالمی جنگوں اور بیسیوں علاقائی جنگیں کر کے اور مدتوں معیشث برباد کر کے سود کے خلاف پالیسی بنا رہی ہے اور سود کو کم سے کم کرتی چلی جا رہی ہے پس ماہرین معاشیات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کا رسول سچا اور ہمارا رہنما ہے۔

سب انسان برابر ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ میرا یہ پیغام تمام انسانوں کو پہنچا دو کہ سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اور کسی قوم کو دوسرے پر کوئی برتری نہیں (مسند احمد جلد38 ص474 حدیث نمبر 23489) آپ نے غلاموں کو آزاد کر دیا اور نئے غلام بنانے سے منع کردیا اور فرمایا عظمت کا معیار تقوی اور قابلیت ہے انہی کے بل پر سینکڑوں غلاموں نے مسلم معاشرے میں عزت پائی جن میں افریقن بلال بھی شامل تھے۔

دنیا نے لاکھوں غلام بنائے بیسیوں ممالک پر قبضہ کر کے غلامی کی نئی نئی شکلیں ایجاد کیں مگر آج انسانیت اعلان کرتی ہے کہ غلامی ناقابل قبول ہے وہ غلامی کی یادگاروں کو مٹا رہی ہیں اور غلامی سے منسوب پرانے ہیروز کے مجسمے گرا رہی ہے غلامی کی زنجیریں کٹ رہی ہیں اور قابلیت معیار بن رہی ہے۔

امور مملکت

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قومی معاملات مشورے سے سر انجام دینے کا حکم دیا۔ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ (الشوریٰ: 39) صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی مشورہ کرنے والا نہیں تھا (سنن ترمذی کتاب الجہاد باب المشورۃ حدیث نمبر 1714)۔ بسا اوقات صحابہ کے مشورے کو اپنی رائے پر بھی مقدم کر لیتے آج انسان ہزاروں تجربات کے بعد اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ نہ مطلق العنان بادشاہت بہتر ہے اور نہ فوجی ڈکٹیٹر شپ بلکہ سب سے بہتر جمہور ی شورائی نظام ہے۔ پس آج دنیا بھر کی تمام پارلیمنٹیں اور تمام تھنک ٹینک Think Tank اس بات کا اعلان کرتے ہیں ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے آج بھی اسوہ حسنہ ہیں اور یہی خدا تعالیٰ کا انسانیت کے نام پیغام ہے قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَیُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ (الاعراف: 159) اے محمد۔ کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت حاصل ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے پس اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو نبی بھی ہے اور امی بھی۔ اور جو ایمان لاتا ہے اللہ پر اور اس کے کلمات پر اور اس کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

امن عالم کا مسئلہ

آج کل انسان عالمی امن کے لیے پریشان ہے ہر وہ قدم جو امن کے لیے اٹھایا جاتا ہے وہ مزید بد امنی پیدا کرتا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جائے گا یہ تعلیمات مذہبی امن کے لحاظ سے بھی ہیں سیاست کے لحاظ سے بھی اور معاشی امن کے لحاظ سے بھی۔

مذہبی امن کے لئے تعلیمات اور نمونہ

مذہبی امن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا ایک خلاصہ درج ذیل ہے۔

1۔ ہر شخص کو آزادی ہے جو مذھب چاہے اختیار کرے الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف: 30)

2۔ مذہب میں شامل کرنے یا نکالنے کے لیے طاقت کا استعمال منع ہے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ: 257)

3۔ اسلام سے ارتداد پر دنیا میں کوئی سزا نہیں اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا (النساء: 138)

4۔ ہر قوم میں نبی آئے ہیں اس لئے سب قوموں کے مذہبی پیشواؤں کی عزت کی جائے۔ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ (الرعد: 8)

5۔ دوسروں کے مقدسین اور جھوٹے معبودوں کو بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (الانعام: 109)

6۔ مشترک عقائد کی بنیاد پر تعاون کی دعوت دی جائے۔ قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ (آل عمران: 65)

7۔ بلا لحاظ مذہب و دشمنی عدل کیا جائے وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدۃ: 9)

8۔ امن کے قیام کے لیے بلا امتیاز تعاون کیا جائے فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ (التوبہ: 5)

9۔ غیروں کی خوبیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا جائے وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ (آل عمران: 76)

10۔ جو غیر مذہب کے لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہ کی جائے لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ (الممتحنہ: 9)

رحمۃ للعالمین کا نمونہ

ان عظیم اصولوں کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حسب ذیل ہے

عام تمدنی اور معاشرتی تعلقات میں کسی قوم کا فرق نہیں کیا سب کو سلام کرتے تھے

(بخاری کتاب الاستیذان)

غیر مسلم مہمان کو سات بکریوں کا دودھ پلایا اور اپنے اہل خانہ کو بھوکا رکھا

(ترمذی کتاب الاطعمہ)

یہودی عورت کی دعوت بھی قبول کی جس نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا

(السیرۃ الحلبیہ)

ایک یہودی مخیریق کے باغ کا تحفہ بھی قبول کیا

(روض الانف جلد2 ص143)

یہودی بیمار نوجوان کی عیادت بھی کی

(بخاری کتاب الجنائز باب عیادۃ المشرک)

یہودی کے جنازہ کے لئے احتراماً کھڑے ہوگئے

(بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ الیہودی)

بدر میں مقتول دشمنوں کو دفن کرایا

(بخاری کتاب المغازی)

خندق میں ہلاک ہونے والے سردار نوفل کی لاش کو واپس کرنے کے لئے کفار نے دس ہزار درہم کی پیشکش کی مگر آپ نے بغیر کسی رقم کے واپس کر دی

(سیرۃ ابن ھشام جلد3 صفحہ273)

ابولہب اور عتبہ جیسے پڑوسی کی ایذاءوں پر صبر کیا

(طبقات ابن سعد)

یہودیوں سے لین دین اور قرض کا سلسلہ بھی جاری رہا اور بوقت وفات بھی آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی (بخاری کتاب المغازی) مخالفین، بدوؤں اور یہودیوں کی سختی اور بدتمیزی بھی برداشت کی۔ متعدد واقعات ہیں۔

معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے ایک غیر مسلم اراشی نام کے لیے جانی دشمن ابوجہل کے پاس گئے اور قرض واپس د لوایا۔

(السیرة النبویہ ابن کثیر جلد اول صفحہ469 قصة الاراشی داراحیاء التراث العربی بیروت)

ایک قتل کے مقدمہ میں مسلمانوں کے مقابلہ پر یہودیوں کے حق میں فیصلہ کیا

(بخاری کتاب الجہاد)

مدینہ کے دو یہودی قبیلوں بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ان کے جرائم کی پاداش میں جلا وطن کیا تو سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی حتیٰ کہ ان کے وہ بچے بھی جو نذر کے طور پر یہودی بنائے گئے تھے اور درحقیقت یہودی نہ تھے وہ بھی ساتھ لے گئے

(ابو داؤد کتاب الجہاد)

جرائم کی بیخ کنی اور عفو

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جرائم کے بارے میں فرمایا کہ ظلم کا بدلہ اسی کے برابر ہے مگر جو معاف کرے اور اصلاح کی نیت رکھے اس کا اجر اللہ کے پاس ہے یعنی جہاں سزا دینے سے اصلاح ہو سزا دو اور جہاں عفو کرنا بہتر ہو وہاں عفو کرو ہاں ترجیح عفو کو دو جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (الشوری: ٰ41) فرمایا۔ ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور انسانوں کے اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ تو شرک سے بیزار تمام لوگوں کو خدا کی مغفرت کی چادر ڈھانپ لیتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن کے درمیان عداوت اور دشمنی ہو۔ ان کا معاملہ مؤخر کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سب صلح کرلیں۔ تب ان کی گمشدہ جنت انہیں واپس کردی جاتی ہے اور دو ناراض بھائیوں میں سے زیادہ بہتر اور رضاء الہٰی کا مورد وہ ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے اور صلح کے لئے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اس کی جنت زیادہ شاداب ہوتی ہے۔ (مسلم کتاب البر باب النھی عن الفحشاء حدیث نمبر 4652) اس سے بڑھ کر انسان کو کون سی تعلیم درکار ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عفو و کرم سے دل جیت لئے اور صدیوں کے دشمنوں کو اپنا جانثار بنا لیا

ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو معاف کر کے مکہ میں اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دی تو اس نے اسلام قبول کیا اور کہا یا رسول اللہ میں نے آج تک آپ کی مخالفت میں اپنا جتنا مال خرچ کیا ہے۔ اب میں اللہ کی راہ میں بھی اس سے دگنا خرچ کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور جتنی لڑائیاں خدا کی مخالفت میں لڑیں اس سے دگنی خدا کی راہ میں لڑوں گا۔

وہ جو کترا کے گزرتا تھا مرے سائے سے
اب وہی شخص مرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے

عفو کے اس نظارہ نے عکرمہ کے دل میں رسول اللہﷺ کی عزت کی ایسی شمع روشن کی کہ ساری عمر میدان جہاد اور تلافی مافات میں گزاری اور اپنے کردار میں ایسی تبدیلی کی کہ قرآن کریم سے والہانہ عشق پیدا کیا اور قرآن کریم کو سینہ پر رکھ کر کلام ربی، ھٰذا کتاب ربی، یہ میرے رب کا کلام ہے کہہ کر زار زار رویا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کا واقعہ بھی نہایت دلگداز ہے۔ جنگ یرموک میں زخموں سے چور جاں بلب تھے کہ ایک شخص پانی لے کر آیا۔ جس کے چند گھونٹ ممکن تھا کہ انہیں زندگی عطا کرجاتے مگر انہوں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک اور زخمی پڑا ہے تو انہوں نے پانی لانے والے سے کہا پہلے اسے پلاؤ مگر جب وہ شخص اس کے پاس پہنچا تو اس نے آگے اشارہ کر دیا مگر آخری مجاہد اس دوران جام شہادت نوش کر چکا تھا واپس پلٹا تو پہلے دونوں مجاہد بھی خدا کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ ایثار کی یہ اعلیٰ ترین مثال قائم کرنے والوں میں ایک حضرت عکرمہ بھی تھے

(مستدرک حاکم کتاب مناقب الصحابہ مناقب عکرمہ جلد3 صفحہ270 تا 272)

سیاسی امن کے اصول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی امن کے رہنما اصول بھی قائم فرمائے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب دو قومیں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ اور اگر صلح کے بعد پھر کوئی دوسرے پر زیادتی کرے تو سب مل کر اس کے خلاف جنگ کریں حتیٰ کہ وہ باز آ جائے تو پھر عدل اور انصاف کے ساتھ صلح کراؤ اور اپنے مفادات نہ دیکھو بلکہ انسانیت کا فائدہ دیکھو (الحجرات: 10)

اس آیت میں میں ایک عالمی اقوام متحدہ کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں سب قومیں برابر کا حق رکھتی ہیں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں سب انصاف کے قیام کے لئے اکٹھے ہیں اگر دو قوموں میں لڑائی ہو جائے تو باقی سب صلح کرانے کے لیے مستعد ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی اس عہد کو توڑے تو باقی سب مل کر اسے صلح پر مائل کر کے چھوڑتی ہیں یہ آیت اقوام متحدہ کی ناکامی کی وجہ بھی بیان کرتی ہے اسلام کسی نسلی اور قومی برتری کا قائل نہیں سب کو برابر قرار دیتا ہے اور اپنے گروہی مفادات کے لیے ویٹو پاور کو غلط قرار دیتا ہے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے 1924 میں انگلستان کا دورہ کیا تو اس وقت لیگ آف نیشنز قائم تھی آپ نے انگلستان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سب کو برابر کے حقوق نہیں دو گے تو لیگ ناکام ہو جائے گی اور جب 1945 میں یونائیٹڈ نیشنز قائم ہوئی تو حضور نے پھرمتنبہ کیا اگر تم نے اسے قرآنی اصولوں پر قائم نہیں کیا تو یہ بھی انصاف کے قیام میں ناکام ہو جائے گی۔

آج 75 سال کے بعد یونائیٹڈ نیشنز کئی معاملات میں مفید ہونے کے باوجود اپنے بنیادی مقاصد میں بری طرح ناکام ہے دنیا میں فتنے اور فساد اسی طرح جاری و ساری ہیں اور مظلوم بلبلا رہے ہیں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز اپنے دوروں اور تقریروں اور پیس سمپوزیم میں خطابات اور عالمی لیڈروں کے نام خطوط میں بار بار یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ اگر بڑی طاقتیں مل کر ظالم کا ہاتھ نہیں روکیں گی تو پھر انسان کا خون بہتا رہے گا اور اسی خون میں یہ بڑی طاقتیں بھی ڈوب جائیں گی۔

سیاسی امن کے لئے رسول اللہ کے معاہدات بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ جب آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں اور یہود کے مابین امن کا معاہدہ ہؤا اور اس کے آغاز میں لکھا گیا کہ مسلمان اور یہودی (سیاسی لحاظ سے) امت واحدہ ہیں سب مل کر رہیں گے اور مل کر دشمن کے حملہ کا جواب دیں گے۔

(عہد نبوی کا نظام حکمرانی ص 99۔ از ڈاکٹر حمید اللہ)

اس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ایک ملک کے تمام شہری اپنے حقوق اور فرائض کے لحاظ سے برابر ہیں اور مذہب کی بنا٫ پر کوئی امتیازی سلوک نہیں ہو گا آج تمام قومی ریاستوں کی بنیاد اسی فارمولے پر ہے اور وہی ملک کایاب اور امن سے ہیں جو سب شہریوں کے ساتھ بلا تمیز رنگ ونسل معاملہ کرتے ہیں۔

بے لاگ انصاف

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کے قیام کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ انصاف کے معاملہ میں امیر اور غریب میں فرق کرتی تھیں خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو دوسروں کی طرح وہ بھی سزا کی مستحق ہوتی اور کسی کی سفارش اس کے کام نہ آتی۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب۔ ذکر اسامۃ حدیث نمبر 3799)

آپ نے اپنی ذات کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور وفات سے کچھ عرصہ قبل فرمایا کسی نے مجھ سے بدلہ لینا ہو تو وہ لے لے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ایک جنگ میں صفیں درست کرتے ہوئے آپ کے نیزے کی نوک مجھے لگ گئی تھی بدلہ چاہیے رسول اللہ نے فرمایا آؤ بدلہ لے لو اس نے کہا میرے جسم پر اس وقت کپڑا نہیں تھا آپ نے جسم سے کپڑا اٹھا دیا تو اس صحابی نے آگے بڑھ کر آپ کا جسم چوم لیا اور کہا یا رسول اللہ آپ سے تو بے انصافی ناممکن ہے اور کسی کا بدلہ لینا بھی ناممکن ہے میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دے لوں (مجمع الزوائد جلد 9 ص27۔ کتاب علامات النبوۃ باب فی وداعہ)۔ وہ جو حقیقی انصاف قائم کرتے ہیں ان کے جسم اسی طرح چومے جاتے ہیں اور ان کی روحوں کی اسی طرح تعریف کی جاتی ہے پس انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انصاف کے عالمی ادارے بھی رسول اللہ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اعلی اخلاق کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اعلیٰ اخلاق کو بھی ان کی معراج تک پہنچانے آیا ہوں إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق (مسند البزار جلد15 ص364 حدیث نمبر 8949) اور آپ نے جو اخلاق انسان کو سکھائے آج وہی دنیا میں عزت کے قابل سمجھے جاتے ہیں اور آپ نے ایسا کر کے دکھا دیا۔ اخلاق کی ایک لمبی فہرست ہے جو قرآن کریم اور آپ کی سنت سے ظہور پذیر ہوئی جن میں سچائی، امانتداری، پڑوسیوں سے حسن سلوک، انسانیت کی فلاح، معاہدات کی پابندی اور دوسرے بیشمار اخلاق شامل ہیں انہی اخلاق کی پابندی کر کے انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

پیشگوئیوں کی دنیا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا تو ایک الگ جہان ہے آپ کی پیشگوئیاں چودہ سو سال سے پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں آج بھی جب دجال کے ہوائی جہاز ہوا میں اڑتے ہیں تو وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ خلاؤں پر بھی محمد مصطفی ﷺکی حکمرانی ہے اور جب وہ جہاز سمندروں کو پھاڑتے ہیں تو وہ بھی یہی اعلان کرتے ہیں اور جب سطح زمین پر تیز رفتار سواریاں چلتی ہیں تو وہ بھی محمد مصطفیﷺ کی عظمت کا اعلان کرتی ہیں۔ مسلم امہ کا زوال اور عیسائیت کا عروج۔ پرانے ذرائع سفر کا متروک ہونا اور جدید سواریوں کا استعمال، انسانوں کا امت واحدہ اور زمین کا گلوبل ولیج بن جانا۔ ان سب امور کی پیشگوئیاں قرآن اور فرمودات رسولﷺ میں موجود ہیں اور ہر پیشگوئی اس دور کے انسان کو یاد کراتی ہے کہ یہ رسول اس زمانہ کے لئے بھی رہنما اور اسوہ حسنہ ہے۔

دانشوروں کا اعتراف

دنیا کے غیر متعصب دانشور اور اہل علم رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ انگلستان کے مشہور مفکر برنارڈ شا نے لکھا تھا

مجھے یقین ہے کہ محمد جیسا انسان آج کی جدید دنیا کو مطلق العنان حکمران کے طور پر مل جاتا تو وہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور انسانیت کو مطلوب امن اور خوشحالی کی نعمت نصیب ہو جاتی۔

(Muhammad and Teachings of Quran by John Devenport page 127)

یہ تلاش اور خواہش اس قرآنی پیشگوئی کے عین مطابق ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ خدا تجھے مقام محمود پر فائز کرے گا عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (بنی اسرائیل: 80) یعنی مشرق سے مغرب تک تیری تعریف ہوگی اور ہر فرد بشر تجھے اپنا رہنما تسلیم کرے گا۔

سب گواہی دو

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں اسی زمانہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو ………. اے سننے والو اور اے سوچنے والو سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ9)

آج وہ حق اور نور ظاہر ہو رہا ہے اوراہل مغرب لفظوں میں اقرار کریں یا نہ کریں ان کے عمل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ہر نیک اور پائیدار عمل میں رسول اللہ ہی کی پیروی کر رہے ہیں اور جہاں جہاں ناکام ہیں وہی مقامات ہیں جہاں وہ رسول اللہ ﷺکے راستے سے ہٹے ہیں وہ وقت بھی آئے گا جب وہ منہ سے بھی رسول اللہ کی صداقت کا اقرار کریں گے اور آپ پر درود بھیجیں گے ہمارا کام تو حضرت مسیح موعود کی اتباع میں یہ پیغام دینا ہے کہ اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺہے۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 ص141)

ہم پہاڑوں کی بلندی سے پڑھیں گے قرآں کفرو الحاد نگوں سار نظر آئیں گے

اتنی رفعت پہ محمد کا رکھیں گے پرچم اس کے سائے میں جہاندار نظر آئیں گے۔

(عبد السمیع خان۔ ا ستاد جامعہ احمدیہ گھانا)

پچھلا پڑھیں

ابابیل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2021