جلسہ سالانہ پاکستان کی یادیں
ایک در بند تو سو کھلے
پاکستان میں جلسے پر پابندی لگی تو اللہ نے ساری دنیا کے ممالک میں جلسے جاری کر دئے الحمد للّٰہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ نے خوشی کی خبر دی تھی کہ:
میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا
اور ابھی سو سال بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو نہیں ہوئے تھے کہ اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا۔ اور دنیا کے ہر کونے اور ہر ملک میں اپنے مہدی و مسیح آخری الزماں علیہ السلام کا نام، کام ،جماعت اور سلسلہ پہنچا کے ایک نظام قائم کر دیا جس کے ذمہ اسلام کو ساری دنیا میں غلبہ دینا ہے۔ جہاں ہر ملک کے اپنے اپنے سالانہ جلسے ہوتے ہیں جو اس جلسے کی یاد کو تازہ کرتے ہیں جو 1891 ء کو قادیان میں ہوا تھا۔ اور جس میں صرف 75احمدی احباب و خواتین شامل تھیں۔
پھر ربوہ پاکستان کے آخری جلسے میں تقریباً تین لاکھ احمدی احباب و خواتین شامل ہوئے اور جن کی بہترین مہمان نوازی کرنا بھی ایک اللہ کا معجزہ تھا کہ اس وقت وسائل کم اور مسائل زیادہ ہوتے تھے۔ پھر بھی ان جلسوں کا معیار ہر دنیاوی میلوں ٹھیلوں اور جلسوں کے مقابلے میں بہترین اور خدا کے فضل کے نظاروں کے ساتھ ہوتا تھا۔ یورپ میں بسنے اور پلنے والے احمدی بچے اور نئی بیعت کرنے والے بے شک ہر ملک میں ان روحانی جلسوں کے فیوض سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اور اسی جذبے کے ساتھ جلسے میں ڈیوٹی بھی دیتے اور شامل ہوتے اور جدید وسائل سے سارے کام کرتے ہیں۔ لیکن محدود وسائل اور بہت سے مسائل کے ساتھ ان پاکستانی جلسوں کی بے مثال کامیابی اور معجزانہ رنگ اور خدا کے فضلوں کو دیکھ تو نہیں سکے لیکن ہم جو ایسے جلسوں کو اب تک یاد کرتے ہیں کی زبانی ہی جان سکتے ہیں۔ آئیے ربوہ کے جلسوں کے دن یاد کرتے ہیں۔
ربوہ پاکستان کے سالانہ جلسے اور ہماری تیاریاں
بہت سال پہلے کی بات ہے بے شک جلسہ سالانہ ربوہ دسمبر میں گزار کے واپس آتے تو پھر جنوری سے ہی اگلے آنے والے جلسے کی تیاری اور انتظار شروع ہو جاتا۔ ابا جان سارا سال گلے میں پیسے جمع کرتے اور دعائیں بھی کرتے کہ جلسہ کے لئے کسی بھی کسی قسم کی تنگی نہ ہو۔ اپنی زندگی میں نہ انہوں نے خود کوئی جلسہ چھوڑا اور نہ ہی ہمیں چھوڑنے دیا۔ الحمدللہ ۔
جو کمی پچھلے جلسے کے دنوں میں رہ گئی تھی۔ اگلے سال ان کمزوریوں کو ختم کرنے اور سب بہتر ہونے کی دعا کی جاتی رہتی۔ سال کے سال بہن بھائی بڑے ہوتے جاتے تو کچھ نہ کچھ تو چھوٹا بڑا ہوتا۔ اور اس کی بھی تیاری ضروری ہوتی تھی۔ سارا سال جو بھی نئے کپڑے تیار کئے جاتے یا عید کے جوڑے سنبھال سنبھال کے رکھے جاتے کہ جلسے کے دنوں میں پہنیں گے۔ امی جان نٹنگ کر کے سویٹر ،دستانے اور ٹوپیاں بھی تیار کرتیں۔ کہ اُن دنوں کی سردی سے بچاؤ کے سامان بھی ساتھ ہوں۔ سارا سال ربوہ میں گزرے وہ تین دن جلسے کے اپنی برکت اور معجزے لئے ساتھ رہتے۔ اور انتظار رہتا کہ کب یہ گیارہ ماہ گزریں اور ہم ایک بار پھر ربوہ کے بابرکت اور پر امن شہر میں داخل ہوں جہاں وقت کا امام اپنی پیاری جماعت کے ہر فرد کا منتظر رہتا ہے۔ اور جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اور جہاں کی ہر دیوار پے قرآن مجید کی آیات ،احادیث ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور اشعار اور خلفاء احمدیت کے ارشادات بھی لکھے ہوتے۔ اور سارے ربوہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ارشاد کے مطابق ایک غریب دلہن کی طرح سجا دیا جاتا تھا۔ اور مجھے تو اکثر دعائیں احادیث اور اشعار وہیں پڑھ پڑھ کے ہی یاد ہو جاتے تھے۔ پر افسوس اب ان دیواروں کی خوبصورتی بھی حاسدین اور شیطان صفت علما اور حکومت نے نہیں رہنے دی۔
؎بن بیٹھے خدا بندے دیکھا نہ مقام اس کا
شیطان کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اس کا
مہمانوں کی رہائش، ضیافت، صحت اور حفاظت کے لئے الگ الگ شعبے ہوتے۔ جلسہ گاہ کی تزئین، نظامت، اسپیکر، ترجمہ، اور اندرونی اور بیرونی انتظام گمشدگی اور حفاظت کے لئے بھی الگ الگ شعبے ہوتے۔ اسٹیج کی الگ ٹیم ہوتی جو حفاظت ،اسٹیج سیکریٹری ،انتظام ،میڈیکل اور دیگر ضروری انتظام کرتی اور ان سب سے پہلے تقاریر اور نظموں کا انتخاب بھی خلیفہ وقت کی منظوری سے ہو جاتا تھا۔ اور باقی سارے شعبے بھی خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق چلتے اور اسکی ساتھ ساتھ رپورٹ افسر جلسہ سالانہ خلیفہ وقت کو دیتے رہتے۔ سب سے ذمہ داری کا کام پانی پلانا اور باتھ رومز کی صفائی کا ہوتا تھا۔ اور بر وقت ہر چیز پہنچائی جاتی۔ اور اس سے بھی بڑھ کے ضیافت کی ٹیم جو سارے مراکز میں کھانا پہچانے کے ذمہ دار ہوتی۔ اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنا بے شک ایک مشکل کام ہوتا۔ کمیاں اور کمزوریاں بھی ہوتی تھیں۔ لیکن ہر احمدی اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ صبر اور برداشت کے سبق کے ساتھ فریضہ سر انجام دیتا رہتا۔ الحمد للّٰہ
پانی پلانے کے لئے زیادہ تر اطفال اور ناصرات ڈیوٹی دیتے۔ تاکہ انہیں بھی اس خدمت کو ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ لاکھوں کی تعداد میں سارے جلسہ گاہ میں جلسے کے دوران پانی پلانا ایک واقعی مشکل اور صبر آزما کام تھا۔ لیکن ہمارے بچے اپنے بڑوں کے شانہ بشانہ یہ بھی کر گزرتے۔ اور تو اور گرمیوں میں ربوہ اڈے پے بھی ہمارے بچے بسوں کے مسافروں کو پانی پلانے کا کام کرتے رہے۔ لیکن پھر ایک حادثے اور حفاظتی مسائل کی بنا پے یہ خدمت بند کرنا پڑی۔ یعنی اللہ نے اس منکر قوم کو اس نعمت سے بھی محروم کر دیا۔
مردانہ جلسہ گاہ کے سارے شعبہ جات لجنہ کی طرف بھی ہوتے۔ اور لجنہ کی جلسے کی افسر کو مردانہ جلسہ افسر کا پورا تعاون ہوتا جو ہر مشکل اور ضرورت کے وقت اپنی ٹیم کے ساتھ خواتین کے جلسے کے انتظام کو درست کرتے رہتے۔
سفر کی روئیداد، اسپیشل ٹرین اور اسپیشل بس
جب ہم کوئٹہ سے آتے تھے تو دو دن اور شاید دو رات کا سفر ہوتا۔ ابا جان سفر کی سہولت سے ہر چیز ساتھ رکھتے۔ کیونکہ ہم دسمبر کی ساری چھٹیاں بھی ربوہ ہی گزارتے۔ راستے کے لئے مٹی کے تیل کے چولہے کے ساتھ ساتھ انڈے ،دودھ ،پتی ،چینی، بسکٹ ،رس پاپے، برتن ہر چیز ساتھ ہوتی۔ یورپ میں جیسے لوگ گرمیوں میں چھٹیا ں منانے کیمپوں میں جا کے رہتے اور اپنے وقت کو انجوائے کرتے تو ابا جان ہمارے لئے وہ چھٹیاں ہی کیمپ بنا دیتے۔ اور ایک چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کی چیز بھی مس نہ ہونے دیتے۔ انہوں نے فوجی زندگی گزاری تھی۔ اس لئے بہت خیال رکھتے۔ راستے میں چائے بناتے، انڈے ابال کے دیتے۔ ،اور ساتھ ہمسفر مسافروں کو بھی کھلاتے۔ امی جان کے ہاتھ کے بنے مولی اور آلو کے پر اٹھوں کی لذت آج بھی منہ میں پانی بھر دیتی ہے۔
اسی طرح نو شہرہ اور حویلیاں سے بھی ہر جلسے کے لئے ایسے ہی تیار ہو کے جایا جاتا۔ راستے میں جلسے کی اہمیت، با جماعت نمازیں، دعائیں اور نظموں کا سلسلہ یاد رہتا۔ بیت بازی اور دینی معلومات کے سوال یاد کرا کے مقابلے بھی ہوتے ۔ ساتھ اگر کوئی احمدی فیملی ہوتی تو پھر تو مزے ہی دو بالا ہو جاتے۔ الحمد للّٰہ۔
وقت گزرتا گیا اور پھر جب ہم راولپنڈی رہائش پذیر ہوئے اور وہاں سے جانے والوں کی کثیر تعداد کی بنا پے اسپیشل ٹرین پنڈی سے روانہ ہوتی۔ اور ربوہ تک ہر اسٹیشن سے احمدی سوار ہوتے۔ اور ایسا پیارا روحانی اور خلوص سے بھرا ماحول ہوتا کہ سوچ کے آج بھی دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔
کہیں سے نظموں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تو کہیں فی البدیہہ تقاریر کے مقابلے ہو رہے ہیں تو کہیں بزرگ بچوں کو اپنے تجربے اور ماضی کے حسین واقعات اور معجزات سنا کے خدا کی محبت دلوں میں پیدا کر رہے ہیں۔ ہر ڈبے میں باقاعدہ با جماعت نماز ہوتی۔ اور کھانے بھی کلو جمیعا کے طور پے سب میں تقسیم کر کے کھائے جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔
سرگودھا گزرتا تو ربوہ اترنے کی تیاریاں شروع ہو جاتیں اور لالیاں کے بعد تو سب ہی کھڑکیوں دروازوں سے لٹک جاتے۔ نظموں کی آوازیں تیز ہو جاتیں اور پوری ریل گاڑی نعرہ ہائے تکبیر سے گونجتی رہتی۔ پیارے ربوہ کے اسٹیشن کی اپنی ہی رونق ہوتی۔ سادہ سا چاروں طرف سے کھلا یہ اسٹیشن ہمیں سب اسٹیشنوں سے پیارا تھا۔ دعاؤں اور خوش آمدید کے بینرز ہماری روح کو اور بھی تازہ کر دیتے ہمارا استقبال کرنے وہ لوگ بھی ہوتے جن کے کوئی بھی اس ٹرین میں نہ ہوتے پر اپنے احمدی ہوتے۔ خدام اور اطفال سامان اٹھانے میں مدد کرتے ۔عجیب روح پرور اور بھائی چارہ کے مناظر شاید روئے زمین پے کہیں بھی نہیں دیکھے جا سکتے جو صرف احمدی جلسوں کی زینت ہیں۔ پلیٹ فارم پے اور گاڑی کے اندر سے بھی نعرے مستقل گونجتے رہتے۔ خوشی کے آنسووں سے ہمارا استقبال ہوتا اور ہم بھی گیلی آنکھوں کے ساتھ خوشی خوشی اس پاک بستی کے سینے پے قدم رکھتے تو سینہ چوڑا ہو جاتا۔ فخر ہمارے انگ انگ سے نظر آتا کہ یہ ہمارے مسیح علیہ السلام کی بستی ہے۔ اور یہ سوچ اس قدر خوشی دیتی کہ اس کا پیارا خلیفہ یہاں رہتا ہے اور کچھ ہی دن بعد ہم اس کا دیدار بھی کریں گے۔ یہاں ایک معصوم اور پر مسرت واقعہ یاد آگیا کہ میرا چھوٹا بھائی خلیق احمد لکی بہت پیاری ڈرائنگ کرتا تھا جب وہ سات آٹھ سال کا تھا تو ایک بار اس نے ربوہ سے واپس آکر جو اپنی پہلی ڈرائنگ بنائی اس میں ربوہ کے اسٹیشن اور سامان اٹھائے ہوئی قلی کو کیپچر کیا جو بہت ہی خوبصورت ڈرائنگ تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے۔ یعنی اس قدر یہ جلسے اور ان کی محبت اور ربوہ کی ایک ایک یاد جیسے دل میں گڑھ سی جاتی تھی۔ اور آج بھی اس کی یادیں دکھ ، خوشی اور اللہ کے شکر کے حسین امتزاج سے آنکھوں کو گیلا کر جاتی ہیں۔
اسی طرح اسپیشل بسیں بھی چلتیں۔ اور وہ بھی قافلے کی صورت میں ہوتیں۔ ان کا انتظام بھی بہترین اور دعاؤں کے ساتھ ہوتا۔ ایک امیر قافلہ ہوتا۔ جس کی سب اطاعت کرتے۔ نمازوں اور کھانے کے وقفے ہوتے اور ساری بسوں میں بے شک الگ الگ خاندان ہوتے۔ لیکن احمدیت کی ایسی برکت ہوتی کہ لگتا ایک ہی خاندان کے سارے لوگ ہیں۔ اور یہی امت واحدہ اور اخوت کا معیار جو قرآن کہتا ہے۔ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور بھائی چارے کے ساتھ پیار اور محبت سے لوگوں کے حقوق ادا کرو اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں سکھاتے اور بتاتے رہے۔ اور اس جماعت نے انکی اطاعت میں یہ کر کے دکھا دیا۔ جماعت احمدیہ کا یہ اسلامی عملی نمونہ راستے میں ہر دیکھنے والے کے لئے ایک مثال اور بہترین نمونہ تھا۔ جس کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ جب یہ بسیں دار الضیافت یا مہمان خانہ جات جا کے رکتیں تو عجب سماں ہوتا۔ سارا ربوہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج رہا ہوتا۔ اور وہ فضائیں حمد و درود کی برکت سے لہرا رہی ہوتیں:
ربوہ کو تیرا مرکز توحید بنا کے
اک نعرہ تکبیر فلک بوس لگائیں
آج اگر پاکستان میں جلسے بند ہیں تو دنیا کے ہر ملک میں یہ جلسے ہو رہے ہیں اور اسپیشل جہاز اب یوکے اور انڈیا کے جلسے کے لئے اڑتے ہیں۔ اور پھر قادیان تک اور بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی اسپیشل بسیں جلسہ گاہ تک چلائی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ صد سالہ جوبلی کے جلسے اور کچھ سال سالانہ جلسوں کے لئے ہماری جماعت درامن اور اوسلو سے بھی اسپیشل بڑی کوچ جلسہ گاہ کی طرف چلائی گئیں جنہوں نے پاکستان کے جلسوں کی یاد تازہ کر دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا 1880ء میں ماموریت سے بھی پہلے کا ہونے والا الہام کہ جب صرف ایک کمرے میں دن رات اللہ کی عبادت کرنے ایک شخص کو اللہ یہ خبر دے رہا ہے۔ کہ اسے پتہ بھی نہیں کہ آگے مستقبل میں کیا ہونا ہے۔ پر سو سال گزرنے کے بعد دنیا گواہ ہے کہ الہام من و عن پورا ہوگیا۔ کہ :
یاتیک من کل فج عمیق و یاتون من کل فج عمیق
تیرے پاس اس قدر کثرت سے لوگ آئیں گے کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے۔
(براہین احمدیہ صفحہ 231)
اور ہم نے خود اپنی آنکھوں سے ستر اسی کے دہائی سے لے کے آج تک پورا ہوتے دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ ربوہ کی مٹی کو بٹھانے کے لئے کثرت سے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تاکہ کثرت افراد کی وجہ سے مٹی نہ اڑے۔ اور وہ گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو آج بھی دماغ اور نس نس میں بہار بن کے کھلی رہتی ہے۔ جہاں سڑکوں کے ایک طرف صرف مرد اور دوسری طرف صرف عورتیں ہوتیں۔ اور راستہ دکھانے کے لئے اطفال کالی سفید پٹیوں والے گلے میں اسکارف پہنے اپنا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے۔ جن کے ایک اشارے پے ہر راہ گیر عمل کرتا۔ اس وقت کی پولیس انتظامیہ اپنے جلسوں کے حساب سے کسی بھی مشکل اور بری گھڑی سے بچنے کے لئے پولیس سیکورٹی کے ساتھ ساتھ لیڈیز پولیس بھی متعین کر دیتی۔ لیکن تین دن کے ہمارے انتظام دیکھ کے حیران رہ جاتے اور یہ کہنے پے مجبور ہوتے کہ یہ جماعت تو دس سال کے بچے کی بات بھی مان لیتی ہے جو ڈیوٹی پے ہو۔ تو ہماری تو ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہم تو یہاں آرام کرنے اور انجوائے کرنے آتے۔ اور جو ایک سال آتا تو وہ ہر سال یہاں ڈیوٹی لگوانے کی کوشش کرتا۔ کہ ایسا اچھا روحانی ماحول کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بہرحال سن چوہتر سے سن تراسی تک پولیس ہمارے لئے آتی رہی۔ لیکن جب ضیا کا ظالم آرڈیننس بنا تو پھر یہی پولیس حکومت کی اطاعت میں کلمے مٹانے لگ گئی اور آج سینتیس سال کے طویل عرصے نے اسی کلمے کی اس پولیس کو اتنی مار ماری ہے کہ دنیا کی کرپٹ ترین پولیس ثابت ہو چکی ہے۔ اللہ ہی عقل دے آمین
جلسے کی تیاری کے پکوان
دسمبر کے شروع سے ہی امی جان باورچی خانہ میں مصروف نظر آتی تھیں۔ اور مزے مزے کے پکوان تیار کئے جاتے تھے، سوجی کی مٹھائی، شکر پارے، نمک پارے اور بیسن کی نمکین سویاں۔ اور اسکے ساتھ ہی بازار کے چکر۔ جہاں سے تازہ مونگ پھلی ،چلغوزے، ریوڑیاں، اور خشک میوہ جات خریدے جاتے۔ اور ان سب کھانے کی اشیاء کو ٹین کے ڈبوں میں احتیاط سے بند کر دیا جاتا تھا۔ اس لئے کہ یہ سب ربوہ جلسے کی تیاریوں کا حصہ ہوتی تھیں۔
ہمارا قیام ہمیشہ فیکٹری ایریا میں اپنی خالہ (کیپٹن ملک خادم حسین) کے گھر ہوتا تھا ہمارے علاوہ اور بھی بہت مہمان ہوتے تھے۔ اس لئے صحن میں خیموں میں پرالی بچھا کے سونے کے انتظام کئے جاتے ۔گنوں اور کنوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ اور ہماری امی جان کے تیار شدہ پکوان کے ڈبوں کی طرف سب کی نظر ہوتیں کہ یہ کب کھلیں گے۔ ایک طرف سے آواز بھی آ جاتی کہ خالہ جان سے زیادہ ان ڈبوں کا انتظار ہوتا ہے۔
سال بعد اور بعض اوقات چار پانچ سال بعد اکثر خاندان اور برادری والوں سے ملاقات ہوتیں۔ رت جگہ بھی ہوتا۔ فوت شدہ بزرگوں اور افراد خاندان کو یاد کیا جاتا۔ اور نئے جوڑے اور رشتے بھی یہیں بنتے۔ یہ بھی ایک برکت رہی ان جلسوں کی ۔ غرض یہ کہ جتنا یاد کرو اتنا ہی یادیں تازہ ہو کر رلاتی ہیں۔

لنگر کے کھانے اور جلسے کے تین دن
صبح صبح لنگر کے گرم گرم آلو گوشت کے ساتھ خالہ جان کے ہاتھ کے گرم گرم پر اٹھوں اور چائے کا مزہ آج بھی یاد ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1874 میں ایک خواب میں ایک روٹی دکھائی گئی اور یہ اس زمانے کا خواب ہے کہ جبکہ نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعوی تھا اور نہ ہی کوئی درویش کی جماعت لیکن پھر اللہ نے چند سالوں میں ہی ایک ایسی جماعت دے دی جو دین کو دنیا پے مقدم رکھنے والی تھی۔ اور ساتھ الہام ہوا:
’’یہ (نان) تیرے لیے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔‘‘
(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18 صفحہ584-585)
اور آج سو سال بعد یہ الہام پوری شدت کے ساتھ پورا ہوتا نظر آرہا ہے
جلسے کے دنوں میں ربوہ میں دار الضیافت کے علاوہ کئی بڑے بڑے لنگر خانے کام کرتے تھے پر کھانے کا ایک ہی ذائقہ ہوتا۔ جہاں سے ہر گھر کو ایک رسید دی جاتی تھی جو اپنے مہمانوں کی تعداد لکھوا کے کھانا لے سکتا تھا۔ صبح فجر کی نماز کے بعد ان لنگر خانوں کے باہر لائنیں لگ جاتیں۔ تاکہ بر وقت سب کھانا لے سکیں۔ اور کھانا بنانے والے ساری رات جاگ کے کھانا اور روٹی بناتے۔ اور یہ لنگر جلسے سے تین دن پہلے اور تین دن بعد تک جاری رہتا ماشا اللہ ہمارے گھر سے بھی بھائی اور کزنز بھائیوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کھانا لانے کی اور جب تازہ ناشتہ کچن میں آتا تو آلو گوشت اور دال کی خوشبو سے سارا کچن مہک جاتا۔ صبح کو آلو گوشت اور رات کو دال کے ساتھ چاول بھی ملتے۔ اور پرہیز ی کھانا بھی ملتا تھا۔ جو ہر گھر کی ضرورت کے لئے پورے سے زیادہ ہوتا۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کھانا کم ہوا۔ ایک بار کسی وجہ سے تھوڑی مشکل پیش آئی تو اعلان ہونے پر سارے جلسے کے شاملین نے ایک کی بجائے آدھی روٹی بھی کھائی۔ تاکہ سب کو کھانا پورا ہو سکے۔ سبحان اللہ۔ اسے کہتے ہیں مہدی کی جماعت۔ ہے کوئی ایسی مثال آج کے زمانے میں کسی اور جماعت میں۔ ؟ اور پھر ضیافت کی ٹیم ہر مہمان خانے۔ جلسہ گاہ اور جہاں ملک سے باہر سے آئے مہمان ٹھہرے ہوتے ان تک بھی کھانا بر وقت اور گرم پہنچاتے۔ جب اسپیشل ٹرینز اور بسز واپسی کا سفر شروع کرتیں تو ان کے لئے بھی راستے کا کھانا اور روٹیاں ساتھ ہوتیں۔ اور لنگر کی روٹیاں اگلے کئی دنوں تک ناشتے میں تل کے کھائی جاتیں۔
آج بھی ہر ملک کے جلسہ جات اور پروگرامز کے دوران یہی اللہ کے مہدی کے ایک نان کی برکت سے لاکھوں برکت لیتے ہیں۔ یہی نشان ہی صداقت کی پرکھ کے لئے کافی ہے۔ پر افسوس کہ کینہ ، بغض، نفرت، جھوٹ اور گمراہ کرنے والے قائدین کی پیروی کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پے مہر لگادی ہے۔ اب جب تک یہ خود تقویٰ سے کام نہیں لیں گے ہدایت نہیں پا سکیں گے۔
جلسہ گاہ کے لئے روانہ ہوتے تو درود شریف اور دعاؤں کا ورد کرتے جاتے۔ بہت دھند اور سردی ہوتی۔ جلسہ گاہ کی پرالی اور کرسیاں بھی ٹھنڈی ہوتیں۔ پر آہستہ آہستہ جب سورج چڑھتا تو موسم خوشگوار ہو جاتا۔
تلاوت قرآن کریم ،نظمیں ، تقاریر۔ سب سننا۔ جلسہ گاہ ،حلقہ خاص اور اسٹیج کی ڈیوٹیاں بھی یاد ہیں۔حضور کا خواتین کے جلسہ گاہ میں آنا کچھ اور ہی ایمان میں اضافے کا سبب بنتا۔ ثاقب زیروی صاحب کی مخصوص آواز اور طرز میں نئی نظمیں اور شبیر صاحب کا بھی منفرد آواز میں در ثمین میں سے کلام پڑھنا۔ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ اور پھر سارا سال ہی یہ نظمیں ورد زبان رہتی تھیں۔
جلسے کے دوران مٹی کے آب خوروں میں پانی پینے کا اپنا ہی مزہ تھا۔
لنگر کا کھانا بھی مٹی کے برتنوں میں ہوتا۔ مہمان خانہ مردانہ اور زنانہ ہر جگہ کھانے کا انتظام بر وقت اور سبھی کو مل جاتا۔ اور لاکھوں لوگوں کے لئے کھانا ایک ہی ذائقہ کا مختلف لنگر خانوں میں بننا بھی صرف خدا کی مدد اور برکت ہی تھی اور یہ ایک اس نان کی برکت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ کو خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اور آج اس ایک نان کی برکت دنیا کے ہر ملک کے دار الضیافت کی زینت بنی ہوئی ہے۔ اللہ نے ایک در بند کر کے اپنی پیاری جماعت کے لئے ہزاروں در کھول کے برکتیں اور معجزے جاری رکھے۔ کاش دیکھنے والی آنکھ یہ سب دیکھ کے سمجھ سکے اور ہدایت پا جائے آمین۔
وقفے کے دوران خاندان مبارکہ کی خواتین سے ملنا ،ان کے گھروں میں جانا اور ان سے تعارف حاصل کرنا اور کرانا۔ یہ سب امی جان کی کوششیں تھیں جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں خاندان مبارکہ کی محبت پیدا ہوتی تھی۔
جلسے کے ان ایام میں ارد گرد کے کتنے ہی گاؤں اور قصبوں کے لوگ روزی کمانے آ جاتے اور سارے سال کے لئے جوڑ لیتے۔
با جماعت نمازوں اور خلیفہ وقت کی دعاؤں سے سب حصہ پاتے۔
ان دعاؤں میں ملک کی سالمیت کے ساتھ ساتھ قوم اور امت مسلمہ کی ہدایت کے لئے بھی دعائیں کی جاتی تھیں۔ لیکن شیطان ہی ان پہ غالب رہا۔ کیونکہ جب اللہ کا انکار ہوتا ہے تو پھر اللہ برکتوں کی بجائے لعنتیں ڈالتا ہے۔

سالانہ جلسے کی برکات اور پابندی کے نقصانات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1891ء میں جلسہ سالانہ کا آغاز کیا چنانچہ پہلے سال صرف 75 افراد اس جلسہ میں شامل ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کی اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت وعدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں۔ سو میرے خیال میں بہترہے کہ وہ تاریخ 27 دسمبر سے 29 دسمبر تک قرار پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے۔ اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا۔جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں۔اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان کو بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے۔ وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوکر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے۔ اور روشناسی ہوکر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا۔ اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا۔ اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی۔اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پرایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھادینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلّ شانہ کوشش کی جائے گی اور روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو ان شاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گےاور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونےکا فکر رکھیں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ351-352)
یہ جلسے اللہ کے حکم سے اللہ کے مہدی نے اس زمانے کے لوگوں کی روحانی ، جسمانی اور مادی ترقی اور کامیابی کے لئے شروع کئے تھے جن کا مقصد مل جل کے ایک دوسرے کی مدد کرنا ،اخلاق سیکھنا اور ان پے عمل کرنا اور سال بھر کے لئے روحانی اعتبار سے تازہ دم رہنا۔ تاکہ برائیوں سے بچنے کی طاقت ملتی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معیشت کو بھی ترقی ملتی رہے۔ ان جلسوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا ہر ادارہ فائدہ اٹھاتا۔ ٹانگے رکشے والوں کی آمدنی بڑھتی۔ ارد گرد کے گاؤں کے کسان چرواہے ریڑھیوں پے سامان رکھ کے پھل فروٹ ، خشک میوے ،ثقافت کی چیزیں بیچنے والے۔ غرض یہ کہ دنیا اور دین کی ایسی کوئی بھی برکت نہیں تھی جو شاملین چاہے وہ احمدی ہوں یا نہ۔ سب کو بلا رنگ و نسل ملتی تھی۔ لیکن ایک حاسد طبقے کو غریب غربا پے اللہ کی یہ مہربانی پسند نہ آئی۔ اور انہوں نے جلسوں پے پابندی لگوا کے ایک تو اللہ کو ناراض کیا۔ اور دوسرے اس کی مخلوق سے اس کے دین اور دنیا کے بہت سے فائدے اور حقوق چھین لیے۔ آخر اللہ بھی ان سے ناراض ہوگیا۔ اور مختلف رنگ میں ان پے عذاب نازل ہونے شروع ہو گئے۔ پر یہ قوم آج بھی عبرت نہیں پکڑتی۔ ہزار کوشش کے باوجود ریلوے کا حکومتی نظام خسارے میں ہے۔ حکومتی بس ٹرانسپورٹ سروس ہی کوئی نہیں۔ اور ہر پرائیویٹ سروس گھاٹے میں جاتی ہے۔ کرائے زیادہ ہیں اور عوام الناس تکلیف میں ہے اس مہنگائی کی وجہ سے پی آئی اے تباہ ہو چکی ہے۔ ملاوٹ بڑھ گئی اور ذخیرہ اندوزی کے مافیا نے تجارت کا ستیا ناس کر دیا۔
غریب مزدور۔ کسان۔ چرواہے اور دودھ دہی بیچنے والے اللہ کو بھول کے ملاوٹ کر کے اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں پر برکت نہیں۔
اسی وجہ سے جہالت ، چوری اور برائیوں میں اضافہ ہوا ۔ سب مانتے ہیں کہ اس ملک کو کسی بڑے کی بد دعا ہے اور کوئی ہمارا اجتماعی گناہ ہے۔ پر یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ اپنا عمل اور کردار اور پابندیاں کیا ہیں؟
اللہ کے خلیفہ کو ملک سے باہر جانے پے مجبور کرنے کی سزا ہے کہ برکت ہی چلی گئی ہمارا سکون اور عبادتیں اور جلسے بند کرنے کے چکر میں اپنے ملک کا ہی نقصان کر لیا۔ اس ملک کے بزرگ خلیفہ کو ملک بدر ہونے پے مجبور کیا تو اس ملک سے اسکی برکت اور دعائیں بھی چلی گئیں :
دعا ولی کی تو برکت ہی گھر کی ہوتی ہے
اسے نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
سن چوراسی سے لے کے آج تک یہ ملک اپنے پیروں پے کھڑا نہیں ہو سکا۔
جب بھی دسمبر آتا ہے تو ہر دسمبر میں ایسی قیامت ملک پے ٹوٹتی ہے کہ مزید لعنتیں پڑتی ہیں۔ اس دسمبر سری لنکن شہری کے ہولناک قتل اور حادثے نے مزید معصوموں کی آہیں اس ملک کو لگا دی ہیں۔ ڈر ہے کہ اگر اللہ نے قبول کر لیں تو کیا ہوگا۔
کلمے مٹانے کی سزا اور بے حرمتی کی پرواہ نہیں اس قوم اور ملک کو کہ خود حکومتی ادارے اپنی نگرانی میں سب کر رہے ہیں۔ لیکن توہین رسالت کے نام نہاد قانون کا غلط اور جھوٹا استعمال کر کے معصوموں کی جان لینے والوں کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ۔سینتیس سال ہو گئے۔ اب نہ وہ جلسے ہیں اور نہ ہی وہ برکتیں۔ ظلم، دہشت گردی ، فحاشی ،بربریت اور نا انصافی نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور بھوک اور ننگ نے انہیں مردار کھانے پے مجبور کر دیا ہے۔
اسلام کی سچی تعلیم کی طرف سے ان کی آنکھیں بند ہیں:
- نوح کی کشتی میں کوئی نہ بیٹھے
- گدھے کھا رہے ہیں گدھے بن گئے ہیں
زلزلے ،حادثات ، جہازوں کا گرنا ،اسکولوں کے بچوں پر حملے ، بےحسی ، خدا خوفی کا مفقود ہونا اور ملاؤں اور حکمرانوں کی فرعونیت نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اب تو جب تک کوئی اس آئین کو توڑنے کی جرات نہ کرے یا ہماری ہی دعاؤں میں کمی ہے یا ہماری ہی اخلاقی اور روحانی حالتیں ایسی ہو گئی ہیں کہ ہماری آزمائش کا دورانیہ بھی لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے۔

اللہ کے حضور دعاؤں اور عبادات کے ذریعے یوم احتجاج
حضرت خلیفہ رابع ؒ نے ایک خطبہ جمعہ 20دسمبر 1985ء میں جماعت کو ایک تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جو چھبیس (26) کو ہونا تھا۔ تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ ہم اس دن کو ایک احتجاج کا دن منائیں۔ تمام دنیا میں سب احمدی احتجاج کریں۔ مگر کوئی ایک لفظ بھی احتجاج کا غیر اللہ کے سامنے نہ ہو۔ اس دن روزہ رکھا جائے۔ اس دن عبادتیں کی جائیں۔ دن کو بھی عبادت کی جائے۔ رات کو بھی عبادت کی جائے۔ اور تمام تر احتجاج رب اعلیٰ سے کیا جائے۔ رکوع میں بھی احتجاج کیا جائے اور سجود میں بھی احتجاج کیا جائے۔ اور کہا جائے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے لئے تو ساری عظمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرے سوا غیر اللہ سے ہم عظمتوں کی کلی نفی کرتے ہیں اور ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہے ہمیں دنیا کی عظمتوں کی اور ہمارے نزدیک صرف تو اعلیٰ ہے اور ہر غیر تیرا جو اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جھوٹا ہے اور لازما ناکام اور نامراد ہونے والا ہے۔ پس تیرے حضور اس دنیا کی عظمتوں کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اور تیرے حضور رب اعلیٰ کا دعوی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ کہ ہمارے نزدیک سوائے تیرے نہ کسی کو عظمت حاصل ہے اور نہ کسی کو غلو حاصل ہے اس روح کے ساتھ اور اس جذبے کے ساتھ چھبیس دسمبر کو یوم احتجاج منا لیں اور سارے عالم میں احمدی حمید الرحمان بن کر خدا کے حضور حاضر ہو کر یہ احتجاج بلند کریں۔‘‘
حضور انور اقدس نے بھی خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2011ء کو فرمایا:
’’اگر سو فی صد پاکستانی احمدی خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے۔‘‘
اے خدا! تو اپنے پیارے رسول صل اللہ علیہ و سلم اور اپنے مسیح علیہ السلام کے صدقے ہم پر رحم کر۔ ہماری اصلاح کر۔ ہماری ہدایت کے سامان پیدا فرما۔ اپنی قدرت دکھا۔ تیری تو صرف کُن کہنے کی دیر ہے۔ کُن کہ دے نا پیارے مولا کہ ہم بھی اپنی زندگی میں جماعت کو پر سکون دیکھ سکیں۔ آمین اللھم آمین
وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے
زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے
ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی
فسبحان الذی اخذ ی الا عاذی
ہمارے دسمبر کو پھر سے آباد کر دے مولا! اب تو کرونے کی وجہ سے قادیان کے جلسہ پہ بھی پاکستان سے احمدی نہیں جا سکتے۔ یہ کرونا بھی تو عذاب الہی ہے کہ جس میں گھن بھی پس رہا ہے یہ ایک ہی خوشی تھی پاکستانی احمدی کے لئے۔ اس کے لئے بھی ایسےحالات ہو گئے کہ راستے ہی بند ہیں۔
اے خدا! ہماری مدد فرما اور اس قوم کے مقابلے پے کوئی سلطان النصیر بنا کر بھیج۔ آمین
(قدسیہ نور والا۔ ناروے)