• 18 جولائی, 2025

حضرت مرزا غلام اللہ قادیانیؓ

حضرت مرزا غلام اللہ قادیانی رضی اللہ عنہ
صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے الہاماً فرمایا کہ ’’يَنْقَطِعُ اٰبَآؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ‘‘ یعنی ’’تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہو گا‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن، جلد22، صفحہ79)

نیز 20؍فروری 1886ء کی عظیم الشان پیشگوئی میں یہ بھی فرمایا کہ ’’ہر یک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گا۔ … لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اِرد گِرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا‘‘

(دیکھئے تذکرہ، صفحہ111 تا 112، مطبوعہ 2003ء)

چنانچہ یہ پیشگوئیاں نہایت شان کے ساتھ پوری ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے وقت آپ کے خاندان کے ستّر افراد زندہ تھے لیکن اُن ستّر میں سے صرف اُنہی کی نسل چلی جو بیعت کر کے آپ کی روحانی اولاد میں شامل ہو گئے۔

(بحوالہ تذکرہ، صفحہ111، حاشیہ، مطبوعہ 2003ء)

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب قادیانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جدّی خاندان کے ایک ایسے خوش قسمت وجود تھے جنہیں امامِ وقت کو پہچاننے اور صحابہ کے مبارک گروہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ خاکسار آپؓ کی سیرت و سوانح کے چند پہلو پیش کر رہا ہے۔

[نوٹ: اس مضمون میں درج کی گئی تمام روایات مکرم مرزا مسعود احمد صاحب (کینیڈا) نے بیان کی ہیں، جو حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ کے پوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سو سال پرانی باتیں ہیں جن کو میرے علاوہ اب کوئی اَورنہیں جانتا۔ چنانچہ خاکسار راقم الحروف سلسلہ کے ریکارڈ کے لئے یہ باتیں احاطہٴ تحریر میں لا رہا ہے۔]

مختصر خاندانی تعارف

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ تخمیناً 1852ء میں مرزا گاماں بیگ صاحب اور امیر بیگم صاحبہ کے ہاں قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ مرزا ہادی بیگ کی پندرہویں پُشت میں پیدا ہوئے اور آپ کا سلسلۂ نسب آٹھویں پُشت پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عالی نسب سے جا ملتا ہے۔ یعنی مرزا دلاور بیگ پر دونوں انساب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل چارٹ میں پیش کی جاتی ہے:

آپ کے ابتدائی حالات کے متعلق زیادہ معلوم نہیں۔ آپ کے تین بھائی تھے اور کوئی حقیقی بہن نہیں تھی۔ دو (2) بھائی آپ سے بڑے تھے اور ایک چھوٹا۔ سب سے بڑے بھائی کا نام مرزا محمد بیگ تھا۔ ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد حضرت مغلانی نور جان صاحبہؓ (وفات: 4؍جون 1938ء، بعمر 125 سال) سے ہوا جو صحابیہ تھیں اور جن کی روایات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ حصہ پنجم میں شامل کی ہیں

(دیکھئے روایات نمبر: 1354، 1372، 1375، 1385، 1392)

دوسرے بھائی کا نام مرزا نواب بیگ تھا۔ جبکہ آپ کے چھوٹے بھائی کا نام مرزا نظام الدین تھا۔ آپ کے بھائیوں میں سے آگے کسی کی نسل نہ چلی۔

آپ کا خاندان قادیان میں مسجد اقصیٰ کے علاقہ میں آباد تھا۔اور جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد جب صحابہ ؓ قادیان ہجرت کرنے لگے تو یہ جگہ ’’محلّہ انصار اللہ‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔

اتالیق بن کر ترکی جانا

1877ء یا 1878ء میں جب آپؓ 25یا26 سال کے ہوئے تو مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے آپ کو اپنے بیٹے مرزا اکبر بیگ صاحب کے ساتھ بطور اتالیق ترکی بھیجا۔ جہاں آپؓ مرزا اکبر بیگ صاحب کی تعلیم مکمل ہونے تک رہے۔

یہاں یہ تعارف پیش کرتا چلوں کہ مرزا اعظم بیگ صاحب لاہور کے بہت بڑے رئیس اورمتموّل شخص تھے۔ انہیں مغل بادشاہوں کی زمینوں میں سے بہت جائیداد ملی ہوئی تھی۔ لاہور میں اعظم آباد میں اُن کی بہت جائیدادیں تھی اور یہ اُنہی کے نام سے مشہور ہے۔ 1866ء سے 1868ء تک ڈسٹرکٹ گجرات کے اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی رہے۔

(Report on the Second Regular Settlement of the Gujrat District, Panjab, 1874, p. 18)

اور حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ اُن کے مختارِ عام تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
ایک ابتدائی خادم

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کو ابتداء سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت و محبت تھی۔ اس زمانہ میں جبکہ حضور علیہ السلام گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے، آپؓ حضور کی خدمت میں رہنا پسند کرتے اور حضورؑ کی اقتدا میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ لہٰذا آپ کا شمار حضرت اقدس علیہ السلام کے ابتدائی خدّام میں ہوتا ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے ’’حیاتِ احمد‘‘ میں آپ کا نام اُن سعادتمندوں میں شامل کیا ہے جنہیں ابتدائی زمانہ سے حضور کی خدمت کی توفیق ملتی رہی

(دیکھئے : حیاتِ احمد، جلد دوم، حصہ اوّل، صفحہ 105، جدید ایڈیشن مطبوعہ 2013ء)

مؤرخِ احمدت مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے آپؓ کا نام اُن گنتی کے چند اصحاب میں درج کیا ہے جو حضرت اقدس علیہ السلام کے اُس وقت ساتھی تھے جبکہ آپ بالکل گمنام تھے اور ابھی براہینِ احمدیہ کی اشاعت نہ ہوئی تھی۔

(دیکھئے: تاریخِ احمدیت، جلد اوّل، صفحہ 208، جدید ایڈیشن)

چنانچہ جن ایّام میں آپ ترکی جانے کی تیاری کر رہے تھے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے اس بات کا اظہار کیا کہ آپؑ کو کسی ایسے لڑکے کی ضرورت ہے جو کام کاج میں مدد کر سکے اور روٹی وغیرہ لایا کرے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے اس کی تفصیل ’’حیاتِ احمد‘‘ میں درج کی ہے:
’’مرزا اسمٰعیل بیگ جو آج کل قادیان میں دودھ فروشی کرتا ہے 1877ء یا 1878ء کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور آپ کی زندگی کے آخری ایام تک کسی نہ کسی نہج سے آپ کی خدمت میں رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے تایازاد بھائی مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم مرزا اعظم بیگ صاحب کے بیٹے اکبر بیگ صاحب کے ہمراہ ٹرکی جانے والے تھے۔ حضرت نے انہیں فرمایا کہ کوئی لڑکا ہے جو میرے لئے گھر سے روٹی وغیرہ لے آیا کرے۔ اس پر مرزا غلام اللہ صاحب نے عرض کیا۔ کہ میرا چچازاد بھائی اسماعیل بیگ ہے۔ نماز کا پابند ہے۔ آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ۔ میری والدہ سے پوچھ کر وہ مجھے جب کہ مَیں کھیلتا تھا اپنے ساتھ لے گئے۔ اگر چہ میں نے کہا کہ میں میاں جان محمد صاحب سے پڑھتا ہوں۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں وعدہ کر آیا ہوں تم چلو اور اس طرح پر وہ مجھے لے گئے۔ میری عمر اس وقت نو دس سال کی تھی۔ مجھے حضرت کے سامنے پیش کیا۔ اور میرے باپ کا نام سن کر آپ نے میری پشت پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ اس کا باپ نیک اور بھلا مانس تھا۔‘‘

(حیاتِ احمد، جلد اوّل، حصہ سوم، صفحہ433۔ جدید ایڈیشن، مطبوعہ 2013ء)

پس حضرت مرزا غلام اللہ صاحب اُن خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت ابتدائی زمانہ سے نصیب ہوئی اور حضورؑ کی خدمت کرنے کی سعادت ملی۔

این سعادت بزورِ بازو نیست
تا بخشد خدایِ بخشندہ

(سعدیؒ)

یعنی: یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ بخششوں والا خدا نہ عطا فرمائے۔

شادی اور اولاد

آپ ؓ کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی اہلیہ جب شادی کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئیں تو اُن کی چھوٹی بہن حضرت برکت بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا آپ کے عقد میں آئیں۔

حضرت برکت بی بی صاحبہؓ 1865ء میں پیدا ہوئیں۔ یہ مغل برلاس تھیں جو دھرم پور رندھاوا کے مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کا خاندان ’’قلعے والے مغل‘‘ کہلاتا تھا۔ سکھوں کی حکومت جب ہندوستان میں آئی تو اِس خاندان کو اپنی زمینیں اور جائیدادیں چھوڑنی پڑیں اور اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایمہ ضلع ہوشیارپور ہجرت کرنی پڑی۔ 1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی سعادت پائی اور بعمر 90سال مؤرخہ 14؍ اکتوبر 1955ء بروز جمعۃ المبارک علی الصباح وفات پائی۔ اُسی روز حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ بعد نمازِ جمعہ پڑھائی۔ چنانچہ الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا:
’’نمازِ جمعہ کے بعد حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم مرزا سلام اللہ صاحب آف قادیان کی والدہ محترمہ کی نماز جنازہ پڑھائی جن کی وفات کل صبح چنیوٹ میں ہوئی۔ مرحومہ قدیم صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام میں سے تھیں مقبرہ بہشتی میں مدفون ہوئیں۔ احباب بلندیٴ درجات کے لئے دعا فرمائیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل، مؤرخہ 16؍اکتوبر 1955ء، صفحہ1)

حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓ کے بطن سے آپ کے ہاں جو اولاد پیدا ہوئی اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
مرزا سلام اللہ صاحبؓ: 27؍ جنوری 1889ء کو قادیان دارالامان میں پیدا ہوئے۔ 1899ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ شفعیہ بیگم صاحبہ بنت مرزا حسین بیگ صاحب آف لنگروال تھیں۔ آپ نے 80 سال کی عمر میں مؤرخہ 3؍ اپریل 1969ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

سردار بیگم صاحبہ ؓ: 1891ءیا 1892ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ حضرت مرزا برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ ابن نواب مرزا ناصر علی بیگ آف لاہور(وفات: 22؍ مئی 1978ء) کی اہلیہ تھیں۔ آپ مکرم مرزا عطاء الرحمٰن صاحب، مکرم مرزا فضل الرحمٰن صاحب اورمکرم مرزا لطف الرحمٰن صاحب (مبلّغ سلسلہ) کی والدہ تھیں۔

مرزا منظور احمد صاحبؓ: 1900ء میں پیدا ہوئے اور پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الحی عرف حمیدہ بیگم صاحبہ تھیں جو مرزا محمد اسمٰعیل (پٹواری) آف کوٹلی مغلاں ریاست کپورتھلہ کی بیٹی تھیں۔ آپ نے مؤرخہ 3؍فروری 1980ء کو 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ مکرم مرزا مسعود احمد صاحب کے والد تھے۔

حفیظہ بیگم صاحبہ: تاریخِ پیدائش معلوم نہیں۔ مرزا عبد الرحمٰن صاحب آف سیالکوٹ کی اہلیہ تھیں۔ جوانی میں فوت ہوئیں۔

رشیدہ بیگم صاحبہ: 1908ء میں پیدا ہوئیں اور پیدائشی احمدی تھیں۔ آپ کی شادی مکرم قریشی عبد اللطیف صاحب سے ہوئی جو قریشی احمد دین صاحب آف گجرات کے بیٹے تھے۔ آپ نے 92 سال کی عمر میں مؤرخہ 15؍ مارچ 2000ء کو وفات پائی۔ آپ خاکسار راقم الحروف کی پڑدادی تھیں۔

مرزا سلیم احمد صاحب: تاریخِ پیدائش معلوم نہیں۔ بچپن میں فوت ہو ئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ چونکہ شروع سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدت مند تھے، آپؑ ہی کے خاندان کے فرد تھے اور اپنے آپ کو ابتداء سے حضورؑ سے ہی منسلک سمجھتے تھے، لہٰذا آپ نے اوائل زمانہ میں دستی بیعت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن غالباً حضرت حکیم الامّت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر دستی بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ اور اس طرح آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی روحانی اولاد میں شامل ہو گئے۔ بیعت کی معیّن تاریخ یا سن معلوم نہیں تاہم آپ کی بیعت ابتدائی زمانہ کی ہے اور آپ کا شمار پرانے صحابہ میں ہوتا ہے۔

(دیکھئے الفضل، 22؍دسمبر 1917ء، صفحہ1)

قبولِ احمدیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ اور آپ کے خاندان کو بے شمار برکات سے نوازا۔ آج آپؓ کی اولاد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی صداقت کی دلیل ہے کہ ’’يَنْقَطِعُ اٰبَآؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ‘‘ (’’تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہو گا‘‘)۔ جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اُن جدّی بھائیوں کی نسل آگے نہ چلی جو آپ کی روحانی اولاد میں شامل نہ ہوئے، وہاں اُن تمام افرادِ خاندان پر اللہ تعالیٰ کے افضال کی بارش ہوئی جنہوں نے آپ علیہ السلام کی غلامی اختیار کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
متعلق آپ کی روایات

’’سیرتِ احمد‘‘ مؤلفہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ میں آپؓ کی تین روایات درج ہیں۔ آپ بیان فرماتے ہیں:
(1) ’’میرے بھائی مرزا نظام الدین نے ذکر کیا کہ ایک دن میں حضرت مسیح موعود کے مکان کے پاس کھڑا تھا کہ ایک انگریز شاید کوئی پولیس آفیسر تھا۔ آیا اور مجھ سے پوچھا۔ مرزا صاحب کہاں ہیں۔ میں نے کہا آپ ٹھہریں میں ابھی ان کو اطلاع دیتا ہوں۔ میں نے اطلاع دی۔ آپ تشریف لائے۔ دو کرسیاں بچھائی گئیں۔ ایک پر انگریز بیٹھ گیا۔ ایک پر آپ۔ اس انگریز نے کہا۔ میں نے کچھ پوچھنا ہے۔ آپ نے فرمایا پوچھ لو۔ اس نے ایک کتاب نکالی۔ اور ورق گردانی شروع کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد حیران سا ہو کر بولا۔ جو پوچھنا تھا وہ بھول گیا ہوں۔ اور جو نوٹ کیا تھا۔ وہ ملتا نہیں۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر پوچھ لینا۔ جب یاد آئے۔ پھر وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ کی طرف چلا گیا۔‘‘

(2) ’’میرے بھائی مرزا نظام الدین صاحب نے ذکر کیا کہ جن دنوں حضرت صاحب سیالکوٹ میں نوکر تھے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے حضرت صاحب پڑھایا بھی کرتے تھے۔ آپ وہاں بھیم سین وکیل کو جو ہندو تھا۔ قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ اور اس نے تقریباً 14 پارہ تک قرآن حضرت صاحب سے پڑھا تھا۔ ایک دن حضرت صاحب نے صبح اٹھ کر بھیم سین کو مخاطب کر کے یہ خواب سنایا کہ آج رات میں نے رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا۔ آپ مجھ کو بارگاہ ایزدی میں لے گئے۔ اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی۔ جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کر دو۔ یہ میری خواب ہے اس کو لکھ رکھیو۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
دعا کی برکت سے معجزانہ شفایابی

(3) ’’مجھے ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا۔ جب میں سخت بیمار ہو گیا۔ میرا بیٹا حضرت صاحب کی خدمت میں آیا اور بیماری کا حال عرض کیا۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی نور الدینؓ صاحب کو لے جاؤ۔ چنانچہ وہ مولوی صاحب کو لے گئے۔ انہوں نے علاج کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ مرض بڑھ گئی۔ شام کے وقت میرا چچا اور میرا بیٹا پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور سے عرض کیا۔ بیماری بڑھ گئی ہے۔ حکیم صاحب کا خیال ہے کہ اب بچنا مشکل ہے۔ زندگی کی نسبت موت قریب ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا میں دعا کروں گا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد حالت میں تغیر ہو گیا۔ اور صبح تک میں بولنے لگا۔ اور دوپہر تک خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے خاصی طاقت ہو گئی۔ حتّٰی کہ اگلے دن میں نے مسجد اقصیٰ میں جا کر نماز جمعہ ادا کی۔‘‘

(سیرتِ احمد، صفحہ 150 تا 152۔ روایات نمبر 66، مرزا غلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان)

اخلاقِ حسنہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت گزاری

آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و عقیدت اور اطاعت گزاری ہے۔ چونکہ آپ کا تعلق حضرت اقدس علیہ السلام کے جدّی خاندان سے تھا، اس لئے آپ کے مراسم خاندان کے اُن افراد سے بھی تھے جو حضور علیہ السلام کی بیعت میں شامل نہیں تھے۔ آپ ان کو اکثر تبلیغ کرتے اور جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی تلقین کرتے رہتے۔

خاندان کے جن احباب سے آپ کے تعلقات تھے، اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد بھائی مرزا امام الدین صاحب، مرزا نظام الدین صاحب اور ان کی بڑی بہن حرمت بی بی صاحبہ عرف ’’تائی صاحبہ‘‘ (اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب) شامل ہیں۔

ایک دفعہ کسی گھریلو معاملہ کی وجہ سے آپؓ مرزا امام الدین اور نظام الدین سے سخت ناراض ہو گئے۔ یہاں تک کہ صلح کی گنجائش نہیں رہی اور آپ نےان سے تعلقات ختم کر دیئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا تو حضور علیہ السلام نے آپؓ سے فرمایا کہ ’آپ اُن سے ملتے رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اُن کو ہدایت دے دے۔‘‘ لہٰذا حضور علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں آپؓ نے ان لوگوں سے تعلقات بحال کئے اور ان سے رابطہ قائم کیا۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے یہ الفاظ کہ ’’ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اُن کو ہدایت دے دے‘‘ آپؑ کے دل میں اپنے اقرباء کی ہمدردی کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ یہی چاہتے تھے کہ کسی طرح آپ کے رشتہ دار آپ کی بیعت میں داخل ہو کر عافیت کے حصار میں آ جائیں۔ اور یہ مبارک الفاظ بڑی شان سے پورے ہوئے۔ اُنہیں جدّی بھائیوں کی اولاد میں سے سعید فطرت روحیں احمدیت کی آغوش میں آگئیں۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھاوجہ اور چچازاد بہن محترمہ حرمت بی بی صاحبہ اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب سے حضرت مرزا غلام اللہ صاحب کا بہت پیار کا تعلق تھا۔ ویسے تو عمر میں وہ آپ سے بہت بڑی تھیں، لیکن آپ انہیں ہمیشہ احمدیت قبول کرنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ جب بھی ملتے ان سے یہی کہتے کہ ’’بہن! میں آپ کا جنازہ نہیں پڑھوں گا۔ احمدی ہو جاؤ۔‘‘ اٹھتے بیٹھتے انہیں تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ بالآخرحرمت بی بی صاحبہ نے اوائل مارچ 1916ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ’’تائی آئی‘‘ کا الہام، جس میں ایک عظیم پیشگوئی پنہاں تھی، بڑی شان سے پورا ہوا۔

(الفضل قادیان، مؤرخہ 4؍مارچ 1916ء، صفحہ1۔ نیز الہام کی تفصیل کے لئے دیکھئے: تذکرہ، صفحہ665، مطبوعہ 2003ء)

’’تائی‘‘ حرمت بی بی صاحبہ نے نہایت اخلاص سے آخر دم تک اپنا عہدِ بیعت نبھایا۔ 5/1 کی وصیت کی۔ آپ نے مؤرخہ یکم؍ دسمبر 1927ء کو قریباً 100سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔

(دیکھئے الفضل قادیان، 6؍دسمبر 1927ء، صفحہ1)

محترمہ ’’تائی‘‘ حرمت بی بی صاحبہ کی اپنی اولاد کم سنی میں فوت ہو گئی تھی، اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ اور اسی طرح انہوں نے اپنی بھتیجی خورشید بیگم صاحبہ بنت مرزا امام الدین صاحب کو بیٹی بنا لیا تھا۔ پس انہوں نے خورشید بیگم صاحبہ کی شادی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے کرا دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دونوں بزرگوں کو جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدّی خاندان کے دیگر افراد بھی بفضلہٖ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہوئے جن میں مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا نظام الدین صاحب بھی شامل تھے۔ پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کہ آپ کے خاندان کے افراد کو ہدایت نصیب ہو مختلف رنگوں میں پوری ہوئی۔ اور آگے اُنہیں افراد کی نسلیں چلیں جو آپ کی روحانی اولاد میں شامل ہو گئے۔

غیرتِ دینی

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کی غیرتِ دینی کا اندازہ اِس بات سے ہو سکتا ہے کہ باوجود تعلّق اور رشتہ داری کے، آپ نے مرزا امام الدین صاحب کا جنازہ نہیں پڑھا۔ اس موقع پر آپ نے اپنے گھر کے تمام افراد کو منع کر دیا کہ تعزیت کے لئے ہر گز اُس کے گھر کوئی نہیں جائے گا۔ خاندانی رشتہ داری کے باوجود، آپ کی دینی غیرت اور آپ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و عقیدت نے گوارا نہ کیا کہ ایسے شدید مخالف کی وفات پر آپ کے اہلِ خانہ میں سے کوئی افسوس کا اظہار تک کرے۔ یہ بات دیگر رشتہ داروں کو ناگوار گزری۔ چنانچہ مرزا امام الدین کی بڑی بہن ’’تائی‘‘ حرمت بی بی صاحبہ نے پوچھا ’’غلام اللہ کتھے گیا اَے؟‘‘ (یعنی غلام اللہ کدھر گیا ہے)۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ’’او درس تے گئے نیں‘‘ (وہ درس پر گئے ہوئے ہیں) اور تعزیت کرنے نہیں آئے تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور بہت بُرا منایا۔ اور تمسخر سے چند نازیبا کلمات بھی کہے۔ لیکن حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ کو کسی کی ناراضگی کی کچھ پرواہ نہ تھی کیونکہ آپ دل و جان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے۔ بھلا آپؓ کو اپنے آقا کے دشمن کی وفات پر افسوس کیونکر ہوتا؟

جب مرزا امام الدین صاحب کے جنازہ کا وقت آیا تو آپؓ نے اُن کی نمازِ جنازہ ادا نہ کی۔ دوسری طرف سیّد محمد علی شاہ صاحب کلانوری تھے جو لاہور میں افسر محکمہ جنگلات تھے اور جن کے ہاں لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرا بھی کرتے تھے۔ انہوں نے جنازہ پڑھ لیا۔ اور پڑھ کر کہنے لگے کہ ’’دیکھو بھئی غیروں نے مرزا امام دین کا جنازہ پڑھ لیا۔ اپنوں نے نہیں پڑھا۔ ’’یہاں ’’اپنوں‘‘ سے اُن کی مراد حضرت مرزا غلام اللہ صاحب تھے۔ یہ بات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کسی نے عرض کر دی کہ سیّد محمد علی شاہ صاحب یہ کہتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے یہ سن کر نہ پوچھا کہ کس کے متعلق یہ بات کی گئی ہے بلکہ آپؑ سمجھ گئے کہ یہ مرزا غلام اللہ کے متعلق کہا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’ہم مرزا غلام اللہ صاحب سے خوش ہیں۔ محمد علی شاہ صاحب ہماری مجلس میں نہ آیا کریں۔‘‘ پھر جب آپؓ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے پوچھا ’’آپ نے جنازہ کیوں نہیں پڑھا؟‘‘ آپ نے جواباً عرض کی کہ ’’حضور! وہ تو دہریہ تھا۔ اُس کا جنازہ کیسا؟‘‘ حضور یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔

دین کو دنیا پر مقدم رکھنا

آپؓ نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت مرزا غلام اللہ صاحب ؓنے اپنے بڑے بیٹے مرزا سلام اللہ صاحب کو پٹواری کی service کے لئے فقیر افتخار الدین صاحب کے پاس بھیجا۔ فقیر صاحب بہت نامور شخصیت تھے جنہیں Companion of the Order of the Indian Empire جیسا بلند اعزاز حاصل تھا۔ وہ Settlement Officer تھے اور Punjab Chiefs’ Association کے ممبر بھی

(دیکھئے کتاب The Punjab Chiefs’ Association، مؤلفہ سردار پرتاپ سنگھ، صفحہ 84)

فقیر افتخار الدین صاحب آپؓ کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ آپ مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے مختارِ عام رہ چکے تھے۔ چنانچہ جب مرزا سلام اللہ صاحب ان کے پاس گئے، فقیر صاحب نے اُن سے پوچھا کہ ’’آپ مِڈل پاس ہیں؟‘‘ مرزا سلام اللہ صاحب نے جواب دیا کہ ’’نہیں، مڈل پاس نہیں ہوں‘‘ فقیر صاحب نے کہا ’’اگر تم مِڈل پاس ہوتے تو ہم تمہیں تحصیلدار بنا دیتے۔ ہم نے تو مرزا غلام اللہ صاحب کو golden sparrow دیا تھا مگر انہوں نے نہیں لیا۔ اگر وہ لے لیتے تو تمہیں اِس وقت نوکری کی ضرورت نہ پیش آتی۔‘‘ مرزا سلام اللہ صاحب کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ golden sparrow کسے کہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جب بعد میں دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اِس سے مراد سونے کی چڑیا ہے۔ قادیان واپس پہنچنے پر انہوں نے اپنے والد حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ فقیر صاحب نے آپ کو کونسی سونے کی چڑیا دی تھی جس کو آپ نے لینے سے انکار کر دیا؟ حضرت مرزا غلام اللہ صاحب نے کہا کہ ’’انہوں نے مجھے پانچ (5) مربّع زمین دینی چاہی، مگر میں نے نہ لی۔‘‘ مرزا سلام اللہ صاحب کے استفسار پر کہ اتنی وسیع زمین نہ لینے کی کیا وجہ تھی، آپؓ نے فرمایا ’’اگر مَیں وہ زمین لے لیتا تو ہم احمدی نہ ہوتے۔ ہم پھر دنیا کے کاموں میں پڑ جاتے۔‘‘

مہمان نوازی

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ میں مہمان نوازی کا وصف بہت نمایاں تھا۔ آپ کے پوتے مکرم مرزا مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمارے داداجان کی عادت تھی کہ جب مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے جاتے تھے تو وہ دیکھتے تھے کہ کوئی رہ گیا ہے یا نہیں؟ ایسی صورت میں کہ کوئی رہ گیا ہے اور اُس کی رہائش کا انتظام نہیں، تو اپنے گھر لے آیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس بہت سے گھر تھےجو ہمارے خاندان کےایسے لوگوں کے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی اور فوت ہو گئے تھے اور اُن کی پیچھے نسلیں بھی نہیں چلیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے گھرہمارے داداجان کی ملکیت میں آ گئے تھے اور ایک پوری گلی کے مالک بن گئے۔ یہ گھر مسجد اقصیٰ کے پاس تھے۔ اُس زمانہ میں رواج یہی تھا کہ مسافر مسجد میں پہنچ جایا کرتے تھے اور نمازی اُن کی رہائش کا انتظام کر دیا کرتے تھے۔ بہر کیف، ایک دفعہ ایک مہمان آیا، جبکہ مرزا نظام دین کی بیٹی کی شادی تھی۔ ہمارے داداجان منتظم تھے۔ اُس گھر میں سارے انتظام اِنہی کے ذمہ ہوتے تھے۔ داداجان شادی والے گھر سے فارغ ہوئے، تو ہمارے رواج ہوتا ہے کہ شادی والے گھر سے کھانا برادری کا ہی کھانا ہوتا ہے اور وہ پھر بہت زیادہ کھانا گھروں میں بھیجتے ہیں۔ کیونکہ گھروں میں نوکر چاکر وغیرہ ہوتے ہیں، اور اُن کو بھی آگے دینا ہوتا ہے اور اِسی طرح دیگر کام کرنے والوں کو بھی دینا ہوتا ہے۔ یہ رؤساء کا طریقہ تھا اُس زمانہ میں۔ داداجان وہیں سے نمازِ عشاء پڑھنے چلے گئے۔ اور گھر میں نہیں آئے۔ جب نماز پڑھی تو ایک مسافر تھا جس کو ساتھ لے کر گھر چلے آئے۔ ہماری دادی جان سے پوچھا کہ کوئی کھانا ہے؟ میرے ساتھ مسافر آیا ہے۔ دادی جان ناراض ہو گئیں۔ کہنے لگیں کہ بچے تو بھوکے تھے۔ گھر میں جتنا کھانا تھا، میں نے اُنہیں کِھلا کر سلا دیا ہے۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شادی کے گھر والوں کو احساس ہوا کہ ہم نے انہیں کھانا نہیں بھیجا۔ پس وہاں سے بہت سارا کھانا آگیا۔ میرے داداجان نے منع کر دیا دادی جان کو کہ یہ اِس مہمان کی قسمت میں کھانا ہے۔ کسی نے اِس کھانے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ اور جتنا کھانا آیا تھا، اُس مہمان کے سامنے رکھ دیا۔ اور وہ مہمان سارا کھانا کھا گیا۔ حالانکہ عام حالات میں ایک آدمی اُتنا کھانا نہیں کھا سکتا تھا، جتنا وہ کھا گیا۔ اور اُس نے کہا کہ مَیں کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔ مجھے کسی نے نہیں پوچھا۔‘‘

دیانتداری

مکرم مرزا مسعود احمد صاحب اپنے دادا حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ کی دیانتداری کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرے ابا جان (مرزا منظور احمد صاحب) کی پیدائش پر مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے ہدیۃً ہمارے داداجان کو زمین دی۔ اس پر خاندان کے لوگوں نے بہت بُرا منایا اور کسی کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ صرف حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ بہت اچھا ہوا ہے۔ مرزا غلام اللہ صاحب اتنے دیانتدار ہیں کہ اگر یہ گورنمنٹ کی سروس میں ہوتے تو انہیں اِس سے بڑھ کر اعزاز و اکرام ملتا۔‘‘

پھر مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’دیانتداری کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ مرزا اعظم بیگ صاحب کی زمین تھی جو ’’اعظم آباد‘‘ کے نام سے موسوم تھی۔ وہاں سٹور (store) میں گندم کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ میرے ابا جان (مرزا منظور احمد صاحب) چھوٹے تھے۔ جس طرح بچوں کی عادت ہوتی ہے، چنے بھنوانے کے لئے اباجان نے اعظم آباد کے سٹور سے گندم کے دانے لینے چاہے۔ وہاں دو ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ایک ڈھیر ہمارے دادا کی ملکیت میں تھا اور دوسرا ڈھیر کسی اَور کا تھا۔ اباجان کچھ دانے اپنی قمیص کے اگلے حصّے میں ڈال کر اُن کو بھنوانے جا رہے تھے کہ داداجان نے انہیں بازار کی طرف جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ داداجان نے پوچھا کہ یہ دانے کہاں سے لائے ہو؟ کس ڈھیر سے؟ میرے ساتھ واپس جاؤ اور دکھاؤ کہاں سے لائے ہو۔ چنانچہ جب دونوں سٹور میں پہنچے تو اباجان نے دکھایا کہ فلاں ڈھیر سے لایا ہوں۔ داداجان نے کہا کہ واپس رکھو۔ یہ ہمارا نہیں ہے۔ تم ہمارے گندم سے دانے لو۔ یہاں تک ان کی امانتداری اور دیانت کا معیار تھا۔‘‘

خلیفۂ وقت کی اطاعت اور اولوالعزمی

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ خلافتِ احمدیہ کے جاں نثار عاشق اور خلیفہٴ وقت کے ہر فرمان پر لَبَّیْک کہنے والے تھے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارک میں حضورؓ نے آپ کو حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا کی خواہش پر ارشاد فرمایا کہ ’’آپ اپنی بیٹی (سردار بیگم) کا رشتہ مرزا برکت علی سے کرا دیں‘‘۔ حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا نے حضرت مرزا برکت علی صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا اور ان سے بہت پیار کیا کرتی تھیں۔

پس جب حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد سنا تو اُسی وقت اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا۔ اور گھر آ کر اپنی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہ کو کہا کہ ’’میں نے سردار بیگم کا رشتہ پٹی والوں کے نواسہ سے کر دیا ہے‘‘۔ مراد مرزا برکت علی صاحب تھے، جن کی والدہ کا خاندانی تعلّق پٹی سے تھا۔ (پٹی امرتسر سے قریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک پرانا شہر ہے جو ایک زمانہ میں لاہور کی تحصیل میں آتا تھا۔) آپؓ کی اہلیہ نے یہ بات سن کر کہا ’’اودے کول تے زمین ہی نہیں ہے‘‘ (یعنی اس کے پاس تو زمین ہی نہیں ہے۔ (مالی وسعت نہیں ہے) حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ نے فرمایا ’’تواڈے کول تے ہے ناں؟ اونہوں وی کچھ دے دو تے او وی زمیندار بن جائے گا‘‘ (یعنی آپ کے پاس تو ہے ناں؟ اُس کو کچھ زمین دے دیں گے تو وہ بھی زمیندار بن جائے گا)۔ پس آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی آواز پر فوراً لَبَّیْک کہا اورحضورؓ کے ارشاد کے مطابق اپنی بیٹی کا رشتہ کر دیا۔

خلافتِ ثانیہ کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ آپؓ کی چچازاد بہن فضل بی بی صاحبہ کے بیٹے مکرم مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال نے بیان کیا ہے جس سے آپؓ کی اطاعت گزاری اور اولو العزمی نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ واقعہ سوانح فضلِ عمر جلد دوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع) رحمہ اللہ تعالیٰ نے درج فرمایا ہے۔ چنانچہ مرزا احمد بیگ صاحب بیان کرتے ہیں:
’’ابتدائے خلافت سے ہی حضور (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ۔ ناقل) کو احباب کی اصلاح کا شدید خیال تھا۔ چنانچہ میرے ماموں جان حضرت مرزا غلام اللہ مرحوم رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ فرمایا کہ مرزا صاحب دوستوں کو حُقّہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں۔ اب در حقیقت ماموں صاحب خود حقّہ پیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا بہت اچھا حضور۔ گھر میں آئے۔ اپنا حقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اس کا نیچہ ٹوپی وغیرہ توڑ دی۔ ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حُقہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لئے یہ فعل ناراضگی کا نتیجہ ہے لیکن جب انہوں نے کسی کو بھی کچھ نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا۔ آج حُقّے پر کیا ناراضگی آ گئی تھی۔ فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حُقّہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ اور مَیں خود حُقّہ پیتا ہوں۔ اس لئے پہلے اپنے حُقے کو توڑا ہے۔ پھر وہ نمازوں کے اوقات میں بھی اور دوسرے وقتوں میں لوگوں کو حُقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے اور خود مرتے دم تک حُقے کو منہ نہ لگایا۔‘‘

(سوانح فضلِ عمر، جلد دوم، صفحہ 34 تا 35)

یہ واقعہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنےخطبہ جمعہ مؤرخہ 10؍اکتوبر 2003ء میں بیان فرمایا۔ اور یہ حضور کی کتاب ’’شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں‘‘ کے صفحہ 230 پر زیر عنوان ’’اطاعت کے نادر نمونے‘‘ درج ہے۔ (مطبوعہ 2006ء)

وفات

حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات 65 سال کی عمر میں 18؍دسمبر 1917ء کو ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ کی وفات کے موقع پر الفضل کے پہلے صفحے پر مندرجہ ذیل اعلان شائع ہوا:
’’نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے۔ کہ مرزا غلام اللہ صاحب جو ایک مخلص اور پکے احمدی تھے۔ 18؍دسمبر کو مختصر سی علالت کے بعد فوت ہو گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ قادیان کے باشندے اور حضرت مسیح موعود کے پُرانے صحابہ میں سے تھے۔ اپنے دل میں سلسلہ سے سچی محبت اور جوش رکھتے تھے۔ اکثر نمازوں اور جمعہ کے دن بیماروں دیگر قسم کے ابتلاؤں وغیرہ میں پھنسے ہوئے احباب اور احمدیت کی اشاعت کے لئے دعاؤں کی تحریک کرتے رہتے تھے۔ احباب ان کا جنازہ غائب پڑھیں۔ اور دعائے مغفرت کریں۔‘‘

(الفضل، 22؍دسمبر 1917ء، جلد5، نمبر50، صفحہ1)

تاریخِ احمدیت جلد چہارم میں ’’1917ء کے متفرق مگر اہم واقعات‘‘ کی ہیڈنگ کے تحت تیسرا اہم واقعہ یوں درج ہے:
’’3۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمٰن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال۔‘‘

(تاریخِ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ 205، جدید ایڈیشن)

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، آپ اپنی زندگی میں اکثر ’’تائی‘‘ حرمت بی بی صاحبہ کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’بہن! مَیں تیرا جنازہ نہیں پڑھنا، تُسی احمدی نہیں ہو‘‘ (یعنی بہن! میں آپ کا جنازہ نہیں پڑھوں گا کیونکہ آپ احمدی نہیں ہیں)۔ لیکن حضرت مرزا غلام اللہ صاحب پہلے وفات پا گئے حالانکہ اُن سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔ وفات کے وقت تائی صاحبہ آپ کے گھر آئیں۔ اپنے چہرہ سے پردہ اٹھا کر بڑے درد سے کہا: ’’دھوکے بازا! دھوکہ دے گیا اے ناں!‘‘ مراد یہ تھی کہ تم کہتے تھے کہ مَیں تمہارا جنازہ نہیں پڑھوں گا مگر بالآخر خود ہی اِس سرائے فانی سے کوچ کر گئےہو اور اب مَیں تمہارا جنازہ پڑھوں گی۔

آپ کا جنازہ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔ مکرم مرزا مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’جب داداجان کی وفات ہوئی، اُس وقت سیکرٹری بہشتی مقبرہ ہی وصیت لکھا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے داداجان کی وفات کے موقعہ پر اُس وقت کے سیکرٹری بہشتی مقبرہ حضرت سیّد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مولوی صاحب! مرزا صاحب کی وصیّت ہے؟ جواباً حضرت مولوی سرور شاہ صاحبؓ نے عرض کی کہ حضور! اِنہوں نے مجھے کہا تھا کہ وصیّت لکھ لیں۔ لیکن میں لکھ نہیں سکا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اِن کا کیا قصور ہے پھر؟اِس طرح حضورؓ نے اُن کو بہشتی مقبرہ میں تدفین کی اجازت دے دی۔ اور اِسی لئے اُن کا وصیّت نمبر نہیں ہے۔‘‘

آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے اور آپؓ کی نسل کو ہمیشہ خلافتِ احمدیہ سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سیرالیون کے پورٹ لوکو ریجن میں مسجد کا بابرکت افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2022