• 7 مئی, 2025

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 15)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط15

ارشاد برائے سرینگر کشمیر

  • ریاست جموں کے ایک معزز ہندو اہلکار ساکن قادیان حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھے۔ اثنائے گفتگو میں انہوں نے کشمیر کی آب و ہوا کی تعریف کرتے ہوئے عرض کیا کہ جناب بھی کبھی کشمیر کی سیر کے واسطے تشریف لاویں۔

فرمایا:۔ ہمارا یہ مذہب نہیں کہ صرف تفریح کے واسطے یا سیر و تماشا کے واسطے کوئی سفر کریں۔ ہاں جس دینی کاروبار میں ہم مصروف ہیں اگر اس کی ضرورتوں میں ہم کو کوئی سفر پیش آجاوے۔ اور خدمت دین کے واسطے کشمیر جانا بھی ضروری پڑ جاوے تو پھر ہم تیار ہیں کہ اس ملک کو جاویں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ228 ایڈیشن 1984ء)

ارشادات برائے پنجاب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • انسان کا کمال یہ ہے کہ اس میں حقیقی معرفت اورسچی فراست جو ایمانی فراست کہلاتی ہے (جس کے ساتھ اللہ کا ایک نور ہوتا ہے جو اس کی ہر راه میں راہنمائی کرتا ہے) پیدا ہو۔ بدوں اس کے انسان دھوکے سے نہیں بچ سکتا اور رسم و عادت کے طور پر کبھی کبھی نہیں بلکہ بسا اوقات سم قاتل پر بھی خوش ہو جا تا ہے۔ پنجاب و ہندوستان کے سجاده نشین اور گدیوں کے پیرزادے قوالوں کے گانے سے اورھُوَحَقّ کے نعرے مارنے اور الٹے سید ھے لٹکنے ہی میں اپنی معرفت اور کمال کا انتہا جانتے ہیں اور نا واقف پیر پرست ان باتوں کو دیکھ کر اپنی روح کی تسلی اور اطمینان ان لوگوں کے پاس تلاش کرتے ہیں۔ مگر غور سے دیکھو کہ یہ لوگ اگر فریب نہیں دیتے تو اس میں شک نہیں ہے کہ فریب خوردہ ضرور ہیں۔ کیونکہ وہ سچارشتہ جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان ہے جس کے حقیقی پیوند سے ایک نور اور روشنی نکلتی ہے اور ایسی لذت پیدا ہوتی ہے کہ دوسری لذت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کو ان قلابازیوں سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہم نہایت نیک نیتی کے ساتھ اور الله تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری نیت کیسی ہے۔ پوچھتے ہیں کہ اگر اس قسم کے مشغلے عبادت الہٰی اور معرفت الٰہی کا موجب ہو سکتے ہیں اور انسانی روح کے کمال کا باعث بن سکتے ہیں، تو پھر بازیگروں کو معرفت کی معراج پر پہنچا ہوا سمجھنا چا ہیے۔ اور انگریزوں نے تو ان کھیلوں اور کرتبوں میں اور بھی حیرت انگیز ترقیاں کی ہیں اور با وجود ان ترقیوں کے ان کی معرفت خدا کی نسبت یا تو یہ ہے کہ وہ سرے سے ہی منکر اور دہریہ ہیں اور اگر اقرار بھی کیا ہے تو یہ کہ ایک ناتواں بیکس انسان کہ جو ایک عورت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا، خدا بنالیا۔ اور ایک خدا کو چھوڑ کر تین خداؤں کے قائل ہوئے۔ جن میں سے ایک کو ملعون اور ہاویہ میں تین دن رہنے والا تجویز کیا۔ اب اے دانشمندو! سوچو اور اے سلیم الفطرت والو! غور کرو کہ اگر یہی الٹا سیدھا لٹکنا اور طبلہ اور سارنگی ہی کے ذریعہ خدا کی معرفت اور انسانی کمال حاصل ہوسکتا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس فن میں ماہر اور موجد انگریزوں کو جو قسم قسم کے با جے اور گانے کے سامان نکالتے ہیں، ایسی ٹھوکر لگتی کہ وہ خدا کے بالکل منکر یا تثلیث کے قائل ہو گئے۔ باوجودیکہ دنیوی امور میں ایجادات و اختراعات میں ان کی عقلیں ترقی پذیرسمجھی جاتی ہیں۔ پھر اس پر اور بھی غور کرو اور سوچو کہ اگر یہی معرفت کا ذریعہ تھا تو تھیڑوں میں ناچنے والے اور تمام ناچنے گانے والے پھر اعلیٰ درجہ کے صاحب دل اور صاحب کمال ماننے پڑیں گے! افسوس ان لوگوں کو خبر ہی نہیں کہ خدا کی معرفت ہوتی کیا ہے؟ اور انسانی کمال نام کس کا ہے؟ وہ شیطانی حصہ کی شناخت نہیں کر سکے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ369-370 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • غرض یہ حرب ہمارا کام ہے جس کی آج ضرورت ہے۔ اس سے علوم کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور مخالف بھی حجت اور بینہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اور یہ خدا کا فضل ہے کہ پنجاب کے لوگ جن معارف اور حقائق سے آگاہ ہوتے جاتے ہیں بلا دشام اور دیگر ممالک اسلامیہ میں ان کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس لئے ہم پر تو یہ مصیبت آچکی ہے۔ ہر طرف سے حملہ پر حملہ ہورہا ہے۔ اس لئے ہم کوقوت متفکرہ سے کام لینا پڑتا ہے اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے حضور ان مشکلات کو پیش کر نا پڑتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہماری دستگیری فرماتا ہے اور اپنی کتاب کے حقائق اور معارف سے اطلاع دیتا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ جس قوت کو چالیس دن استعمال نہ کیا جائے وہ بے کار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک ماموں صاحب تھے وہ پاگل ہو گئے۔ ان کی فصد لی گئی اور ان کو تاکید کی گئی کہ ہاتھ نہ ہلائیں۔ انہوں نے چند مہینے تک ہاتھ نہ ہلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ لکڑی کی طرح ہو گیا۔ غرض یہ ہے کہ جس عضو سے کام نہ لیا جائے وہ بے کار ہو جا تا ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ212-213 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جولوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الہٰی سے ان کو بچالیتا ہے۔ میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو۔ میں نصحاً للہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو۔ اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو۔ استغفار، عذاب الہٰی اور مصائب شد ید ہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے۔ قرآن شر یف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: 34) اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہٰی سے محفوظ رہو، تو استغفار کثرت سے پڑھو۔

گورنمنٹ کو اختیار ہوگا کہ مبتلا اشخاص کو علیحدہ رکھا جائے۔ گویا وہ لوگ جو علیحدہ کئے جاویں گے قبروں میں ہی ہوں گے۔ امیر وغریب، مرد وعورت، بوڑھے، جوان کا کوئی لحاظ نہ کیا جاوے گا۔ اس لیے خدانخواستہ اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو۔

اکثر مقامات میں سنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا۔ میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے، جو خطرناک جرم ہے۔ ہاں گورنمنٹ کا بیشک یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افسر مقرر کرے جو خوش اخلاق، متدین اور ملک کے رسم ورواج اور مذہبی پابندیوں سے آگاہ ہوں۔ غرض تم خودان قوانین پر عمل کرو اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو ان قوانین کے فوائد سے آگاہ کرو۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ دعاؤں کا وقت یہی ہے معلوم ہوتا ہے اس وبا نے پنجاب کا رخ کرلیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک متنبہ اور بیدار ہو کر دعا کرے اور توبہ کرے۔ قرآن شریف کا منشا یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ191-192 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • اسی طرح پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جاده مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: 20) مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔

دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیع الرسن کر دیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا۔ اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نےخلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیزکوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے۔ مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندارہستی ہے یا نہیں۔ غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپؐ ایسے خلیق تھے۔ باوجودیکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے۔ اپنے سودے خودخرید لایا کرتے تھے ایک بار آپؐ نے کچھ خریدنا تھا ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور مجھے دے دیں آپ نے فرمایا کہ جس کی چیز ہو اس کو ہی اٹھانی چاہیے اس سے یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا بھی اٹھا کر لا یا کرتے تھے غرض ان واقعات سے یہ ہے کہ آپ کی سادگی اور اعلیٰ درجہ کی بےتکلفی کا پتہ لگتا ہے آپؐ پا پیادہ بھی چلا کرتے تھے اس وقت یہ کوئی تمیز نہ ہوتی تھی کہ کوئی آگے ہے یا پیچھے۔ جیسا کہ آج کل وضعدار لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ کوئی آگے نہ ہونے پاوے یہاں تک سادگی تھی کہ بعض اوقات لوگ تمیز نہیں کر سکتے تھے کہ ان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی داڑھی سفیدتھی لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب حضرت ابو بکر نے اٹھ کر کوئی خادمانہ کام کیا اور اس طرح پر سمجھا دیا کہ آپ پیغمبرؐ ہیں تب معلوم ہوا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ268-270 ایڈیشن 2016ء)

  • بعض انگریزحکام کی قدرشناسی پرفرمایا کہ:۔

اب زمانہ بدل گیا ہے اور پنجابیوں کے ساتھ انگریزوں کی ساری قوم کا حسن ظن ہے اور بعض ایسے انگر یز ہوتے ہیں کہ ان کا ارادہ ہوتا ہے کہ ماتحت کو فائدہ پہنچاویں تا کہ وہ ان کو یاد رکھے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ482-483 ایڈیشن 2016ء)

  • بعد نماز مغرب مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے ایک پنجابی نظم سنانے کی درخواست کی جس میں انہوں نے الفاظ بیعت اور شرائط بیعت کو منظوم کیا ہوا تھا جب وہ سنا چکے تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :۔ اگر ان تمام (نظموں) کا ایک مجموعہ تیار کر کے چھاپا جاوے اور یہ گاؤں بہ گاؤں لوگوں کو سناتے پھریں تا کہ خلق خدا کو ہدایت ہو تو یہ بہت مفید ہو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ351 ایڈیشن 2016ء)

  • اس کے بعد امرتسری صاحب نے اپنی پنجابی نظم سنائی۔ جس میں انہوں نے اپنے ایک خواب کا ذکر اور حضرت اقدسؑ کی زیارت کا شوق اور بیعت کی کیفیت اور حضرت کے فیوض و برکات کا ذکر در د دل اور دلکش پیرایہ میں کیا ہوا تھا۔ حضرت خود بار بار زبان مبارک سے فرماتے تھے کہ

’’درد اور رقت سے لکھا ہوا ہے‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ369 ایڈیشن 2016ء)

  • عشاء سے قبل قدرے مجلس کی اور اخبارات انگریزی سنتے رہے۔ ایک مقام پر فر مایا کہ:۔ خدا تعالیٰ جونشان دکھلا تا ہے اشتہاری دکھلاتا ہے۔ کسوف وخسوف بھی اشتہاری تھا اور وہ آسمانی تھا۔ اب یہ طاعون بھی اشتہاری ہے اور ز مینی ہے۔ اگر آج سے ایک ہزار برس پیشتر تک کی تواریخ پنجاب کی دیکھتے جاؤ تو جیسی طاعون اب ہے اس کی نظیر نہ ملے گی۔ ابھی تو اس کے پاؤں جمے ہیں۔ اگر یہ سرسری ہوتی تو اس کا دورہ ختم ہو جا تا۔ موت اور خوف بھی خدا کے رعب کا نظارہ ہے اور اصلاح کا وقت ہے ہر ایک قسم کی قبیح رسم خود بخو ددور ہوجائے گی۔ ابھی تو کارروائی شروع ہے کسی کا قول ہے

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

(ملفوظات جلد3 صفحہ436 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • زمانہ کی رسم کے موافق اب لوگ طاعون کو کہتے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے۔ یہ ایک قسم کا عام ارتداد ہے جو پھیل رہا ہے۔ جو لوگ ڈاکٹر ہوتے ہیں وہ نیم دہر یہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے علاج اور اسباب پر اس قدر توکل اور تکیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ خدا سے ان کو کوئی تعلق نہیں رہتا۔

پنجاب میں طاعون کا حملہ بہت بڑھ کر ہے۔ بمبئی کراچی کا کوئی اوسط اس کے ساتھ مقابلہ نہیں کھاتا۔ اور یہ بہت بڑھی ہوئی تعداد موت کی ہے۔

پنجاب پر طاعون کا حملہ کیوں ہو رہا ہے؟ ہمارے نزدیک اس کی یہ وجہ ہے کہ خدا نے یہاں ایک سلسلہ قائم کیا ہے تو اول المکذبین یہی لوگ ہوئے ہیں اور انہوں نے ہی کفر کے فتوے دیئے ہیں۔ بعض آدمیوں نے کہا کہ یہ طاعون گو یا ہماری شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔ یہ آواز کوئی نئی آواز نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کہا گیا تھا يَطَّيَّرُوْابِمُوْسیٰ (الاعراف: 132) مگر مجھے یہ تعجب ہے کہ یہ لوگ طاعون کو ہماری شامت اعمال کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ لیکن مبتلا خود ہوتے ہیں حالانکہ اگر ہماری شامت اعمال تھی تو چاہیے تھا کہ طاعون کی خبرتم کو دی جاتی۔ مگر یہ کیا ہوا کہ خبر بھی ہم کو دی گئی اور موتیں تم میں ہوتی ہیں۔ برخلاف اس کے ہماری حفاظت کا وعدہ کیا جاتا اور اسے ایک نشان ٹھہرایا جاتا ہے۔ کچھ تو خدا سے ڈرو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ213-214 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

سالانہ جلسہ ریجن اپواسو Appoisso، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2022