• 14 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خط

ایک کمسن بچے نے اسکول اسمبلی میں الفضل کا ایک مضمون پڑھنے کی خواہش کر دی

ڈاکٹر نصیر احمد طاہر۔نیو پورٹ یوکے سے تحریر کرتے ہیں۔
27دسمبر 2021ء کے شمارہ الفضل میں ،قدسیہ نور والا صاحبہ کا مضمون ’’ایک در بند تو سو کھلے‘‘ سے مضامین کا ہمہ وقت انتظار رہتا ہے۔ اسی طرح دوسرے، مثلاً علمی اور تربیتی مضامین کا بھی اپنا ایک الگ مقام ہے جو الفضل کی اعلیٰ ترین ادارت اور مضمون نگاروں کی علمی قابلیت کے آئینہ دار ہیں اور الہٰی سلسلہ میں روحانیت کی شمعیں بھی ہیں لیکن سفر و روداد جلسہ سالانہ کے حوالے سے لکھے جانے والے مضامین یا واقعات جن میں سادگی، جذبہ، جوش ،ولولہ اور روحانیت کو جلا بخشنے کےحوالےسے بے شمار مواد ہوتا ہے، ان کو عام ہونا چاہئے۔ تاکہ اگلی نسلیں یاد رکھیں کہ جماعت احمدیہ یا ہمارے بزرگوں نے کیسے کیسے محنت طلب، کٹھن اور طویل قامت اسفار کیے اور اپنے خون میں ہمارے لئے ایمانی حرارت کو بچا ئےرکھا جو ایک بار خلیفۃالمسیح کے رخ انور سے نور کی لاٹ لے کر سارا سال اپنے نور ایمان کی شمع کو روشن رکھے رہے۔ الحمدللہ! یہ نور قسمت والوں کوہی نصیب ہوا کرتا ہے۔ ایسے واقعات پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزیدلکھ سکتے ہیں۔ نئی نسل کو ایسے واقعات سن کر اور چشم تصور میں محسوس کرکے یا ان سے گزر کر اپنے اندر یہ جذبہ، یہ حرارت ایمانی پیدا کرنی ہوگی۔ ایک ایسے ہی مضمون (طبع شدہ شمارہ 6 اکتوبر 2021ء) کو پڑھ کر میرے پوتے نے اپنی کمسنی کے باوجود ایک منفرد انداز میں جذبہ ایمانی کا اظہار کرتے ہوئےسکول کی انتظامیہ سے اس مضمون کا خلاصہ اسمبلی میں بیان کرنے کی اجازت چاہی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش کبھی وہ بھی ایسا سفر کرسکے۔ مجھے امید ہے اس مضمون سے اس کے اور ہم سب کے شوق اور جذبہ ایمانی کو مزید تقویت ملے گی۔ ان شاء اللہ۔

پچھلا پڑھیں

ساؤتومے میں جماعت احمدیہ کی مسجد (بیت الرحمٰن) کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ