• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 27)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 27

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

  • اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  • نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  • بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

  • یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایسا مقام ہے کہ آخر فنا ہے۔ اندر ہی اند اس فنا کا سامان لگا ہوا ہے وہ اپنا کام کر رہا ہے مگر خبر نہیں ہوتی اس لئے خدا شناسی کی طرف قدم جلد اُٹھانا چاہئے خدا تعالیٰ کا مزا اُسے آتا ہے جو اُسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق و وفا سے قدم نہیں اُٹھا تا اس کی دُعا کُھلے طور پر قبول نہیں ہوتی۔ اور کوئی نہ کوئی حصّہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذرا سی حرکت کرو گے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا۔ لیکن اول تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے یہ سنّت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے۔ پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃً ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے مکان کے کُل دروازے بند کر دے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا۔ خد اتعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہو گا کہ اس مکا ن میں اندھیرا ہو جاوے گا لیکن انسان کو اس کوچہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہئے

بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں۔ نماز بھی پڑی۔ روزے بھی رکھے۔ صدقہ خیرات بھی دیا۔ مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا۔ تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربُوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خداتعالیٰ کے لئے کئے ہوتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے۔ اسی وجہ سے اکثرلوگ شکوک و شبہات میں رہتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی پتہ نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں۔ ایک پارچہ سِلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے۔ ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے۔ اگر جنگل میں بھی انسان کو مِل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کا بنانے والا ضرور ہے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنا رکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائبات قدرت ہیں ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں۔ ایک طرف نشانات ہیں۔ وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ ایک عظیم الشان قدرتوں والا خدا موجود ہے وہ پہلے اپنے برگزیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرماتا ہے اور یہی بھاری شئے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام پیشگوئی ہے۔ ایک انسان کاغذ کا کبوتر بنا کر دکھلاوے تو اس کی نظیر دوسرے بھی کر کے دکھادیتے ہیں اور اُسے اعجاز میں شمار نہیں کیا جاتا۔ مگر پیشگوئی کا میدان وسیع ہے۔ اس کی نظیر پیدا کرنا انسان کا کام نہیں۔ ہزار ہزار برس پیشتر اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنے ارادہ سے اطلاع دے دیتاہے اور پھر وہ بات اپنے وقت پر پوری ہو کر رہتی ہے۔

(ملفوظات جلد6، صفحہ229 – 231، ایڈیشن 1984ء)

  • ضروری بات خداشناسی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور جزا سزا پر پکّا ایمان ہو۔ اسی کی کمی سے دنیا میں فسق و فجور ہو رہا ہے لوگوں کی توجہ دنیا کی طرف اور گناہوں کی طرف بہت ہے۔ دن اور رات یہی فکر ہے کہ کسی طرح دنیا میں دولت، وجاہت عزت ملے۔ جس قدر کوشش ہے خواہ کسی پیرایہ میں ہی ہو مگر وہ دنیا کے لئے ہے خدا تعالیٰ کےلئے ہر گز نہیں۔ دین کا اصل لُب اور خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو مگر اب مولوی وعظ کرتے ہیں تو ان کے وعظ کی بھی علّت غائی یہ ہوتی ہے کہ اسے چار پیسے مِل جاویں جیسے ایک چور باریک درباریک حیلے چوری کے لئے کرتا ہے ویسے ہی یہ لوگ کرتے ہیں ایسی حالت میں بجُز اس کے کہ عذابِ الٰہی نازل ہو اور کیا ہو سکتا ہے۔

(ملفوظات جلد6، صفحہ305 – 306، ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

  • غرض بات یہی ہے کہ خدایابی اور خداشناسی کے لئے ضروری امر یہی ہے کہ انسان دعاؤں میں لگا رہے۔ زنانہ حالت اور بُزدلی سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس راہ میں مردانہ قدم اُٹھانا چاہئے ہر قسم کی تکلیفوں کے برداشت کرنے کو تیار ہونا چاہیئے خدا تعالیٰ کو مقدم کر لے اور گھبرائے نہیں۔ پھر امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل دستگیری کرے گا اور اطمینان عطا فرمائے گا۔ ان باتوں کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان تزکیہ نفس کرے جیسا فرمایا ہے

قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰہَا

(الشمس: 10)

… میں اسی لئے تو کہتا ہوں کہ صبر کرنا چاہئے اور اس سے گھبرانا نہیں چاہیئے خواہ دل چاہے یا نہ چاہے۔ کشاں کشاں مسجد میں لے آؤ۔ کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہو مگر وساوس رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تو نے ایک حصہ پر تو قبضہ کر لیا۔ دوسرا بھی حاصل ہو جائے گا۔ نماز پڑھنا بھی تو ایک فعل ہے اس پر مداومت کرنے سے دوسرا بھی انشاء اللہ مل جائے گا۔

اصل بات یہ ہے کہ ایک فعل انسان کا ہوتا ہے اس پر نتیجہ مرتب کرنا ایک دوسرا فعل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ سعی کرنا، مجاہدہ کرنا یہ تو انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس پر پاک کرنا، استقامت بخشنا یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ بھلا جو شخص جلدی کرے گا کیا اس طریق پر وہ جلد کامیاب ہو جائے گا؟ یہ جلد بازی انسان کو خراب کرتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کے کاموں میں بھی اتنی جلدی کوئی امر نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ آخر اس پر کوئی وقت اور میعاد گذرتی ہے۔ زمیندار بیج بو کر ایک عرصہ تک صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرتا ہے۔ بچّہ بھی نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ پہلی ہی خلوت کے بعد بچہ پیدا ہو جاوے تو لوگ اسے بیوقوف کہیں گے یا نہیں؟ پھر جب دنیوی امور میں قانون قدرت کو اس طرح دیکھتے ہو تو یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے کہ دینی امور میں انسان بلا محنت و مشقت کے کامیاب ہو جاوے۔ جس قدر اولیاء، ابدال، مرسل ہوئے ہیں انہوں نے کبھی گھبراہٹ اور بزدلی اور بے صبری ظاہر نہیں کی۔ وہ جس طریق پر چلے ہیں اسی راہ کو اختیار کرو اگر کچھ پانا ہے۔ بغیر اس راہ کے تو کچھ مل نہیں سکتا۔ اور میں یقیناً کہتا ہوں۔ اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان جب نصیب ہوا ہے تو اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) پر عمل کرنے سے ہی ہوا ہے۔ مجاہدات عجیب اکسیر ہیں۔ سیّد عبدالقادر رضی اللہ عنہ نے کیسے کیسے مجاہدات کئے۔ ہندوستان میں جو اکابر گزرے ہیں جیسے معین الدین چشتی اور فرید الدین رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اُن کے حالات پڑھو تو معلوم ہو کہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں۔ مجاہدہ کے بغیر حقیقت کھُلتی نہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فقیر کے پاس گئے اور اس نے توجہ کی تو قلب جاری ہو گیا یہ کچھ بات نہیں۔ ایسے ہندو فقراء کے پاس بھی جاری ہوتے ہیں۔ توجہ کچھ چیز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ساتھ تزکیۂ نفس کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نہ اس میں کفرو اسلام کا کوئی امتیاز ہے۔ انگریزوں نے اس فن میں آج کل وہ کمال کیا ہے کہ کوئی دوسرا کیا کرے گا۔ میرے نزدیک یہ بدعات اور محدثات ہیں۔

شریعت کی اصل غرض تزکیہ نفس ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کو لے کر آتے ہیں۔ اور وہ اپنے نمونہ اور اُسوہ سے اس راہ کا پتہ دیتے ہیں جو تزکیہ کی حقیقی راہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا ہو اور شرح صدر حاصل ہو۔ میں بھی اسی منہاج نبوت پر آیا ہوں۔ پس اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میں کسی ٹوٹکے سے قلب جاری کر سکتا ہوں تو یہ غلط ہے۔ میں تو اپنی جماعت کو اسی راہ پر لے جانا چاہتا ہوں جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے ما تحت تیار ہوئی ہے۔ پس اَور راہ وغیرہ کا ذکر ہماری کتابوں میں آپ نہ پائیں گے اور نہ اس کی ہم تعلیم دیتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں۔ ہم تو یہی بتاتے ہیں کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو۔

(ملفوظات جلد7، صفحہ314 – 316، ایڈیشن 1984ء)

  • دنیا میں جس قدر مشورے نفس پرستی اور شہوت پرستی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ اُن سب کا ماخذ نفس امّارہ ہی ہے لیکن اگر انسان کوشِش کرے تو اسی امّارہ سے پھر وہ لوّامہ بن جاتا ہے کیونکہ کوشِش میں ایک برکت ہوتی ہے اور اس سے بھی بہت کچھ تغیرات ہو جاتے ہیں۔ پہلوانوں کو دیکھو کہ وہ ورزش اور محنت سے بدن کو کیا کچھ بنا لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ محنت اور کوشِش سے نفس کی اصلاح نہ ہو سکے۔ نفس امّارہ کی مثال آگ کی ہے جو کہ مشتعل ہو کر ایک جوش طبیعت میں پیدا کرتا ہے جس سے انسان حدّ اعتدال سے گذر جاتا ہے لیکن جیسے پانی آگ سے گرم ہو کر آگ کی مثال تو ہو جاتا ہے اور جو کام آگ سے لیتے ہیں وہ اس سے بھی لے لیتے ہیں مگر جب اسی پانی کو آگ کے اُوپر گرایا جائے تو وہ اس آگ کو بجھا دیتا ہے کیونکہ ذاتی صفت اس کی آگ کو بجھانا ہے۔ وہ وہی رہے گی۔ ایسے ہی اگر انسان کی رُوح نفس امّارہ کی آگ سے خواہ کتنی ہی گرم کیوں نہ ہو مگر جب وہ نفس سے مقابلہ کرے گی اور اس کے اُوپر گرے گی تو اسے مغلوب کر کے چھوڑے گی۔ بات صرف اتنی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ہر ایک بات پر قادرِ مطلق جانا جاوے اور کسی قسم کی بد ظنی اس پر نہ کی جاوے۔ جو بد ظنّی کرتا ہے وہی کافر ہوتا ہے۔ مومن کی صفات میں سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو غایت درجہ قادر جانے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت نیکیاں کرنے سے انسان ولی بنتا ہے۔ یہ نادانی ہے۔ مومن کو تو خدا تعالیٰ نے اول ہی ولی بنایا ہے جیسے کہ فرمایا ہے اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (البقرہ: 258)۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہزاروں عجائبات ہیں اور انہیں پر کھلتے ہیں جو دل کے دروازے کھول کر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بخیل نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص مکان کا دروازہ خود ہی نہیں کھولتا تو پھر روشنی کیسے اندر آوے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجُوع کریگا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کیطرف رجُوع کریگا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشِش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70)۔ میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشِش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجا لائے۔ یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نِکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔ ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔ ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔ لوگ دُنیا کی فِکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتٰی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفا داری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو اُدھرسے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں۔

ابراہیم علیہ السّلام نے صدق دکھلایا تو اُن کو ابوالانبیاء بنا دیا۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ دن بہت سخت ہیں اور کسی نے اب تک نہیں سمجھا تو آئندہ سمجھ لیوے۔ مجھے الہام ہواتھا

عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مَقَامُھَا

یہ ایک خطرناک کلمہ ہے جس میں طاعون کی خبر دی گئی ہے کہ انسان کے لئے کوئی مفر اور کوئی جائے پناہ نہ رہے گی۔ اس لئے میں تم سب کو گواہ رکھتا ہوں کہ اگر کوئی سچی تبدیلی نہ کرے گا تو وہ ہرگز اس لائق نہ ہوگا کہ مجھ کو دُعا کے لئے لکھے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کے بتلائے ہوئے صراط مستقیم پر چلیں گے وہی محفوظ رہیں گے۔ خدا تعالیٰ کا وعدہ ایسے ہی لوگوں کی حفاظت کا ہے جو سچی تبدیلی اپنے اندر کرتے ہیں۔ مطلق بیعت انسان کے کیا کام آسکتی ہے۔ پورا نسخہ جب تک نہ پئے تو مریض کو فائدہ نہیں ہواکرتا۔ اس لئے پُوری تبدیلی کرنی چاہئے جہانتک ہو سکے دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ وہ تم کو ہر ایک قسم کی توفیق عطا کرے۔

(ملفوظات جلد7، صفحہ290 – 292، ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

  • اس وقت ہر ایک نفس کو چاہیئے کہ اپنے نفس، اپنے بیوی بچّوں اور دوستوں پر رحم کرے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ رجُوع کرنے والوں پر اپنا فضل کر دیتا ہے اور یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔ پس چاہیئے کہ ہر شخص کوشِش کرے اور سچی توبہ اور پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔

(ملفوظات جلد7، صفحہ158، ایڈیشن 1984ء)

  • عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔‘‘

اور فرمایا:
’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘

ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورؑ اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا:
’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘

حضور بہت دیر تک معاشرتِ نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور با ایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محمود چار ایک برس کا تھا۔ حضرت معمولاً اندربیٹھے لکھ رہے تھے اور مسودات لکھے ہوئے سارے رکھے تھے۔ میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے۔ اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں۔ سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ حضرت کو کسی عبارت کا سیاق ملانے کے لئے گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی۔ اِس سے پوچھتے ہیں۔ خاموش۔ اُس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے۔ آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے۔ عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بد نداں کہ اب کیا ہو گا حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں:
’’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہو گی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘

اسی طرح ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے ایک مضمون حضرت مسیح موعودؑ کا گم ہو گیا۔ جس کی تلاش میں انہیں بڑی تشویش ہوئی۔ جب حضرتؑ کو خبر ملی، تو حضورؑ نے آ کر مولوی صاحب سے بڑا عذر کیا کہ کاغذ کے گم ہو جانے سے انہیں بڑی تشویش ہوئی۔ پھر فرمایا:
’’مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر دَوا دُو اور تگا پو کیوں کیا گیا۔ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہتر ہمیں عطا فرمائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد1، صفحہ418 – 419، ایڈیشن 2016ء)

(فضلِ عمر شاہد و خاقان احمد صائم۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 31)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2022