• 29 اپریل, 2024

عجائبات عالم

دیوار چین

عجائبات عالم کا ذکر دیوار چین کے بغیر ادھورا ہے۔ اپنی تعمیر سے اب تک یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیا گیا سب سے بڑا سڑکچر ہے۔ حیرت میں مبتلاء کر دینے والی اس کی غیر معمولی لمبائی اور حجم کو دیکھتے ہوئے مشکل لگتا ہے کہ مستقبل میں کوئی تعمیر اس کے برابر بھی پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوار چین نے ہر دور میں عجائبات عالم کی فہرست میں جگہ بنائی ہے۔ عظیم دیوار چین جو 5 پانچویں صدی میں تعمیر کی گئی اپنی تعمیر سے ہی دنیا کے حیرت کدوں میں شامل ہے۔ اس عظیم دیوار کی تعمیر کا مقصد جنگجو منگولوں سے تحفظ تھا۔ اس دیورا پر 7000 چوکیاں بھی بنائی گئیں ہیں۔ یہاں پر موجود پہرے دار خطرے سے آگاہی کے لیے سموک سگنل دیا کرتے تھے۔ اس کی تعمیر میں 200 سال سے بھی زائد صرف ہوئے۔ اس کی کل لمبائی 21196 کلومیٹر ہے۔ موسمی تغیرات اور بیرونی حملہ آوروں کی دست برد کے باوجود یہ عظیم شاہکار اپنی تکمیل کو پہنچا۔

مجسمہ حضرت عیسی

حضرت عیسی کا مجسمہ ریوڈی جنیورو (برازیل) میں کروکواڈو پہاڑ پر نصب ہے۔ اس مجسمہ کی کل اونچائی 130 فٹ ہے۔ جسے ایک برازیلی انجینئر حیدر داس سلوا نے فرانسیسی انجینئر ایلبرٹ کاکوا کے ساتھ مل کر ڈیزائن کیا تھا۔ مجسمے کا چہرہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والے اسکلپچر لیونیڈا نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی تعمیر پر اس وقت تقریباً 250 ہزار ڈالر خرچ ہوئے۔

ماچو پیچو پیرو

ماچوپیچو کی تعمیرات پندرھویں صدی میں ہوئی۔ پتھروں سے بنائی گئی یہ عمارتیں آج بھی انسانی عقل کو حیرت میں مبتلاء کر دیتی ہیں۔ ان عمارتوں کی خاصیت ایک دوسرے جڑے ہونا ہے۔ محض پتھروں سے بنائی گئی یہ عمارتیں اتنے شاندار طریقے سے آپس جڑی ہوئی ہیں کہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی یہ دراڑوں سے پاک ہیں۔ سطح سمندر سے 2430 میٹر بلندی پر پتھروں سے ایسا شاہکار تعمیر کرنا اپنی ذات میں ایک عجوبہ ہے۔ یہاں ڈیڑھ سو سے زائد عمارتیں موجود ہیں جن میں مقبرے، حمام، مندراور تدفین کے لیے مختص مقامات ہیں۔ نیز یہاں سڑھیوں کا وسیع سلسلہ ہے جو عمارتوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ سیڑھیوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جگہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بنائی گئی تھی۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تعمیر کے محض سو سال بعد ہی فن تعمیر کے اس شاہکار کو متروک کر دیا گیا۔ یہاں کسی حملہ آور کے نشان نہیں ملتے البتہ یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ کسی وباء کی وجہ سے یہاں موجود لوگوں نے نقل مکانی کی۔

چیچن اتزا

میکسیکو میں واقع مایا تہذیب کا یہ ایک اور شاہکار ہے جو ان کی فن تعمیر میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے عروج میں یہ شہر تجارت کا مرکز تھا۔ یہاں بڑے پیمانے پر کپڑے، شہد، نمک اور غلاموں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ یہ مایا تہذیب کا سیاسی و سماجی اقدار کا گہوارہ تھا۔ یہاں موجود ایل کراکول کی عمارت سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

رومن کلوسیم

یہ عظیم اکھاڑہ 70 ق م میں بنایا گیا جو دنیا بھر میں روم کی وجہ شہرت بنا۔ افتتاح کے بعد 100 دن تک رومی باشندوں نے ان خونی کھیلوں کا مظاہرہ کیا جس میں غلاموں کو لڑایا جاتا تھا جنہیں Gladiators کہا جاتا تھا۔ اس عرصے میں تقریباً 9 ہزار جانور اور انسان موت کی بھینٹ چڑھے۔ اکھاڑے میں 50 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جس میں بادشاہ، امرا، مصاحبین، عام شہری اور غلاموں کے لیے الگ الگ درجہ بندی کی گئی ہے۔ اکھاڑے کی زمین پر ریت کی دبیز تہ بچھائی جاتی تھی تاکہ خون جذبے ہو سکے۔ یہ اکھاڑہ 500 سال تک استعمال انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور یہاں آخری کھیل چھٹی صدی میں کھیلا گیا۔ متعدد زلزلوں اور چوروں کے ہاتھوں کولوزیئم کو شدید نقصان پہنچا تاہم اس کے چند حصے اب بھی بہتر حالت میں موجود ہیں۔ کولوزیئم رومی طرز تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس کا نظارہ کرنے کے لیے اطالوی دار الحکومت آتے ہیں۔ آج 2000 سال گزرنے کے باوجود بھی بڑے بڑے کھیلوں کے میدان اس رومن کولوسیم کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔

تاج محل

مغل فن تعمیر کا شاہکار تاج محل کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اسے محبت کی لازوال داستانوں میں شمارکیا جاتا ہے جو اپنی تعمیر کے بعد سے ہر دور میں عجائبات عالم میں شامل رہا ہے۔ اس کا نقشہ عیسی شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے بنایا تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا ابتدائی خاکہ شاہ جہاں نے خود ڈیزائن کیا تھا۔

پیٹرا کے کھنڈرات

یہ موجودہ دور کے ادرن میں واقع ہے جہاں موجود کھنڈرات کو 2007ء میں سات عجائبات میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ قدیم شہر وادی موسی میں پہاڑوں کو کھود کر بنایا گیا تھا۔ ان پہاڑوں کے منفرد رنگ کی وجہ سے اسے روز سٹی بھی کہا جاتا ہے۔ نیز اسے گمشدہ شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے عروج میں یہ اہم تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کے انتظامات کی بدولت یہ شہر اپنی مثال آپ تھا جس کے آثار آج بھی باقیات میں دیکھے میں جا سکتے ہیں۔ پانی کے اس نظام کو ماضی میں زلزلوں کے باعث کافی نقصان پہنچا۔ حضرت موسیٰ کے عصاء سے جاری ہونے والے پانی کے چشمے جس جگہ سے جاری ہوئے وہ بھی پیٹرا میں ہے۔ صدیوں تک یہاں کے مقامی باشندےاجنبیوں کو اس علاقے میں گھسنے نہیں دیتے تھے۔ اٹھارہویں صدی میں ایک یورپی سیاح مدت تک مقامی بدوؤں کی زبان اور رہن سہن سیکھنے کے بعد ایک بدو کا بھیس بدل کر پیٹرا کے کھنڈرات تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ شہر کا اب تک صرف 15 فیصد حصہ ہی سیاحت کے لیے کھولا گیا ہے۔ 85 فیصد شہر ابھی زیر زمین اور دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

اہرام مصر

تمام تر عجائبات میں سے اہرام مصر کو سب سے پر اسرار انسانی تعمیر کہا جائے تو بےجا نا ہوگا۔ اہرام مصر کے بارے میں کئی دیومالائی کہانیاں منسوب کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر اس کے حجم کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کی تعمیر کسی خلائی مخلوق نے کی ہے یہ انسانی طاقت میں نہیں یہ ایسی تعمیر کر سکے۔ 3800 سال تک ان اہرام کا شمار انسانی ہاتھوں سے تعمیر کی گئی بلند ترین عمارت میں ہوتا تھا۔ یہاں موجود اہرام تعمیر کرنے لیے 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد کئی ٹن وزنی پتھر کی سلیں استعمال کی گئیں۔ مادی ترقی کے اس عوج میں بھی انسانی عقل حیران ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اتنے بڑے اور وزنی پتھروں کی نقل و حمل کیسے ممکن ہوئی۔ اس بارے میں کئی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں لیکن حتمی طور پر اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اہرام کے معمار کارکن اور انجینئر شاندار اور ہنر مند ریاضی دان تھے۔ جدید تحقیق اس خیال کو رد کرتی ہےکہ اہرام کی تعمیرات میں غلاموں کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہاں ملنے والے قبرستان سے انسانی باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعمیرات کے دوران زخمی ہونے والے کارکنان کا اچھے طریقے سے خیال رکھا جاتا تھا اور اس دور کے طبیب ٹوٹی ہڈیوں کا علاج کرنے میں بھی ماہر تھے۔ ان کی خوراک بھی اچھی تھی اور وہ بھیڑ کا گوشت بکثرت استعمال کرتے تھے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

سورۃ الشورٰی اور الزخرف کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2022