اطفال کارنر
تقریر
جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۱﴾
(حم السجدہ: 31)
اس دنیائے آب وگل میں کچھ ایسے لوگ بھی ہو گزرے ہیں جو تخت و تاج کے مالک تو نہ تھے مگر بڑے بڑے مغرور بادشاہ ان کی بارگاہ میں جھکتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ملک تو فتح نہیں کیے مگر دلوں کی اقلیمیں ضرور ان کے لیے مسخر تھیں۔ ان کا لاؤ لشکر اور جاہ و جلال تو نہیں تھا مگر وہ کسی جابر سے جابر شخص کوخاطر میں نہ لاتے تھے۔ یہ سب محبتِ الٰہی کا نتیجہ تھا۔ اگر چہ محبتِ الٰہی کے میدان میں شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جیتے ہیں۔ ان کا دل خوفِ خدا استقلال میں لغزش پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ مخالفت کا ہر دور ایک بانکپن کے ساتھ گزارتے ہیں اور یہ با نکپن انہیں خدا کے اس اعلان کے بعد حاصل ہوتا ہے کہ دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس اعلان کے سہارے وہ ظلم کا ہر وار ہنس کر سہہ جاتے ہیں۔ وہ کانٹوں کی پرواہ نہیں کرتے ان کے دل پھولوں کی نکہتیں محسوس کرتے ہیں۔ ہر طرف سے بے نیاز وہ خونِ دل سے چمن آراستہ کرتے چلے جاتے ہیں اور خدا کی محبت کے ساتھ اپنے آپ کو زندہ و جاوید کر جاتے ہیں۔ وہ چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے لوہے میں ڈوبے ہوئے دشمنوں کے سامنے جاتے ہیں۔ بے خوف، بے خطر، وہ خدا کے ہو جاتے ہیں تو خدا انہیں موت سے بے خوف کر دیتا ہے۔ وہ مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں نہ مرنے پر افسوس کرتے ہیں۔ وہ وقت کی سنگین چٹانون پر اپنے پنجے گاڑ دیتے ہیں۔
وہ خود تقدیر یزداں بن جاتے ہیں۔ نہ امارت و شہرت ان کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے اور نہ حکومت کا جاہ و جلال انہیں مرعوب کر سکتا ہے۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے بڑے بڑے بادشاہوں کی کھوپڑیاں تہہ کر دی جاتی ہیں۔ ان کی محفلوں میں حال کی تلخیوں اور مستقبل کے اَن جانے اندیشوں کے سائے دور دور تک نظر نہیں آتے۔ وہ خدا کی محبت اور عشق کے سفینہ پر سوار ہو کر ہر بحرغم کوعبور کر جاتے ہیں۔ سمندر انہیں پایاب معلوم ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایمان کا نور جلوہ گر ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ صدق و وفا کے جو چراغ انہوں نے روشن کیے زمانے کی تند و تیز آندھیاں انہیں کبھی بجھا نہیں سکیں۔ خدا ان کی ڈھال بن جاتا ہے وہ حادثوں کی گود میں پلتے ہیں اور زمانے سے ٹکرا جاتے ہیں۔ ان کی جرأت اور عزم و استقامت کے اردگرد لاالہ الااللّٰہ کا حصار ہوتا ہے جو ایک طرف تسخیر کائنات کا سبق دیتا ہے تو دوسری طرف تسلیم و رضا اور عبودیت کے آداب سکھاتا ہے۔ خدا کے فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں اور انہیں یقین و اطمینان کی دولت سے مالامال کر جاتے ہیں کہ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا نہ ڈرو اور نہ غم کرو میں تمہاری حفاظت کے لیے تمہارے دشمنوں کی گھات میں ہوں۔ تب وہ خدا سے تعلق، مان پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ
؎جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں!
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زارو نزار
دیکھو! سرور عالم کے جن کی لذت سے آشنا جان خدا کی راہ میں لاکھوں مصیبتیں اٹھا کر نہ اکتاتی۔ مکے ہی میں ساری عمر تکلیفیں اٹھاتے چلے جاتے مگر ادائے فرض کاخیال پیش نظر تھا اس لیے مکہ میں کامیابی کی رائیں مسدود پا کر مدینہ کو عازم سفر ہوئےکہ شائد وہاں نخلِ توحید پھلے پھولے بار آور ہو۔ ایک غار میں پناہ لی۔ دشمن وہاں بھی پہنچ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پیارے آقا دشمن سر پر آپہنچا۔ صدیق اکبر سر تا پا اضطراب اور رسول خدا ہمہ تن اطمینان فرمایا۔
لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ابوبکر مت گھبراؤ خدا ہماے ساتھ ہے۔ اطمینان صرف ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے جو خدا کے ہوتے ہیں۔
دنیا و آخرت میں صرف وہی سر بلند ہے جو عناصر کی ستم آرائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔
اس دور میں بھی جب مسیح محمدی پر ایک مقدمہ دائر کیا گیا اور اس بات کا کامل یقین تھا کہ آپ کو سزا ہو جائے گی خدام بہت مضطرب تھے۔ ان کی بے چینی دیکھ کر حضور علیہ السلام نے پر شوکت الفاظ میں فرمایا
’’خدا کے شیروں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے‘‘
(فرخ شاد)