• 14 مئی, 2025

معاشرہ جب اپنی اقدار کھو بیٹھتا ہے

اسلام تو ایک امن اور سلامتی پھیلانے والامذہب ہے جو نہ صرف اس کی اعلیٰ تعلیمات سے عیاں ہے بلکہ لفظ ’اسلام‘ بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے لیکن افسوس کہ آج اس کے ماننے والے اس حقیقت اور سچائی سے نہ صرف کوسوں دور ہیں بلکہ دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ اس لئے ہوا کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں نے تکفیر بازی اور قتل وغارت اور انسانی حقوق کی پامالی کی وہ تاریخ رقم کی جو آئے روز ان کے انتشار اور اخلاقی گراوٹ کا باعث بنتی چلی جارہی ہے خدا سے دوری اور اس کے رسول سے دوری لازماً اس بات پر منتج ہوتی ہے کہ انسان اپنے کردار اوراخلاق کو کھو دیتا ہے اور جس طرح ایک مرکز یا نیوکلیس ایک ایٹم اور ان ذرات کو جو اس کے گرد گھومتے ہیں اپنے حفاظتی حصار میں لے کر ایک ایک مفید عنصر یا وجود بنادیتا ہے اسی طرح آج کےدور کے مسلمان بھی بدقسمتی سے اسے شہ دو جہاں رحمۃ للعالمین کی پاک تعلیم کے مرکز سے اس قدر دور ہٹ چکے ہیں کہ ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ آخری دور کی علامات پر غور کرکے خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی ہادی اور رہنما کی اطاعت کےدائرے میں شامل ہوئے بغیر وہ اپنی گزشتہ شان وشوکت حاصل کرسکیں اور حقیقی معنوں میں امتی اور ہدایت یافتہ کہلا سکیں۔ بڑے افسوس سے اب تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسلام کو عملی حالت میں دیکھنا ہے تو مغربی دنیا کو دیکھ لیں اور اگر (نام کے) مسلمان دیکھنا چاہتے ہو تو مسلمان ممالک کے حالات کا مشاہدہ کر لو۔ ایک غیر مسلم مفکر نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی تھی، کہ مغربی ممالک میں مسلمان نظر نہیں آتے لیکن اسلام نظر آتا ہے اور اسلامی ممالک میں مسلمان تو نظر آتے ہیں لیکن اسلام نظر نہیں آتا۔

اس تجزیہ میں ایک حد تک صداقت اور حقیقت نظر آتی ہے۔ اسلامی تعلیم میں جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے وہ مغربی اقوام میں نظر آتی ہیں۔ جیسے انسانیت کا احترام اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا، جھوٹ نہ بولنا، دیانت داری، ماپ تول میں انصاف، قتل و غارت گری سے اجتناب وغیرہ۔ جبکہ مسلمان ممالک میں اخلاقیات کا فقدان ہے بلکہ جنازہ ہی اٹھ چکا ہے۔ قتل وغارت اور دہشت گردی عام ہے، انسانیت کا احترام نہ ہونے کے برابر ہے، کفر کے فتوے مختلف فرقے ایک دوسرے پر آئے دن لگاتے رہتے ہیں۔ حقوق اللہ تو رسمی طور پرادا کرتےنظر آتے ہیں مگر حقوق العباد کا نام و نشان نہیں اور ایک دوسرے کو مارنے پر تلے رہتے ہیں، دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے ہاتھ میں تسبیح نظر تو آئے گی مگر اسلامی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ حج اس لئے کرتے ہیں کہ حاجی کے نام سے کاروبار جھوٹ بول کر چمکے ،آب زم زم کی بوتلوں میں غیر قانونی چیزیں چھپا کر لاتے ہیں۔ عورت کی عزت و احترام بھی نہ ہونے کے برابرہے۔ جھوٹ، بد دیانتی، حکومتی نظم و نسق میں کرپشن تو معاشرہ کا حصہ بن چکی ہے۔ حتٰی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر پورا اترتے نظر آتے ہیں کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اتباع کرو گے ۔یہ حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ اُس وقت اسلام صرف ایک رسم کے طور پر رہ جائے گااور دین کا رستہ دکھانے والے یعنی ملاں اُس دور میں آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ نیز ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرما دیاتھا کہ میری امت پر ایسے حالات بھی آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے جن میں ایسی مطابقت ہو گی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے ۔ بنی اسرائیل 72فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت 73فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقے کے سوا سب جہنم میں جائیں گے ۔ صحابہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یہ ناجی فرقہ کون سا ہو گا؟ فرمایا

مَا اَنَا علیہ واَصْحَا بِیْ

(ترمذی کتاب الایمان)

یعنی جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا۔

آج مسلمان، یہود و نصاریٰ کے قدم بقدم اتباع کرتے نظر آتے ہیں یعنی بُری باتیں مسلمانوں نے لے لیں اور اچھی باتوں کو ایک ایک کر کے خیر باد کہہ دیا۔

آج کل ہمارا پیارا اور جان سے عزیز ملک پاکستان بھی کچھ ایسے ہی حالات سے دوچار ہے اور آئے روز دلخراش، اندوہناک اور انسانیت سوز واقعات اور سانحے رونما ہو رہے ہیں جن کو دیکھ اور سُن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ہمارا ماٹو اور مذہب کی آزادی اس کے حصول کا پیش خیمہ بنی تھی۔ مگرآہستہ آہستہ اسلام سے دوری، مفاد پرستی اورعوام کے غلط لوگوں کے پیچھے چلنے کی وجہ سےلا قانونیت نے اس میں ڈیرے جما لئے۔

ابھی کچھ روز قبل سانحہ مری یعنی پاکستان کی ملکہ کوہسار کا واقعہ پیش آیا۔ جس میں برفانی طوفان نے آناً فاناً تباہی مچا کر رکھ دی۔ سیاح تو کیا گاڑیوں کی گاڑیاں برف میں دھنس گئیں جو بالآخران کے لئے موت کا سامان ثابت ہوئیں اور تابوت بن گئیں۔ اس اندوہناک واقعہ سےہر اس شخص کا دل دہل جاتاہے جو اپنے وطن سے سچی محبت رکھتا ہےاور اس کا دل ایسے واقعات پر تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ ظلم و بربریت کی انتہاء کرنے والے ظالموں نے ان بے بس ، مقہور و مجبور لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا۔ سردی سے ٹھٹھرتے لوگوں سے 3ہزار سے 5ہزار روپے کے کرایہ کے کمروں کا 30ہزار سے 50ہزار روپے تک کا کرایہ بٹورا گیا۔ بلیک میلنگ کا یہ عالم تھا کہ مجبور عورتوں نے اپنے زیور اتارے اور گروی رکھ کر ہوٹلوں میں رات بسر کی ۔ہوٹل مالکان اور گیسٹ ہاؤسز کی انتظامیہ نے نقد ادائیگی پر مجبور کرکے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور جب بعض سیاحوں نے ہوٹل مالکان سے بات چیت کے ذریعے پیسوں میں کمی کا مطالبہ یعنی Bargain کرنے کی کوشش کی تو انہیں دھتکار دیا گیا۔ کھانے پینے والی اشیاء کا یہ عالم تھا کہ سردی کی اذیت سے مرتے مردوں، عورتوں اور ننھے بچوں سے انڈا اور چائے جو عام حالات میں 50روپے میں مل جاتے ہیں اس کے 500روپے وصول کئے گئے۔ پراٹھے اور چائے کا بھی یہی عالم تھا۔ 30روپے والی پانی کی بوتل 200روپے میں بیچنے کی کوشش کی۔ اور کموڈ استعمال کروانے پر 500 روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ بچے بھوک سے روتے رہے مگر ان دکانداروں پر بچوں کی بلبلاہٹ نے ذرا اثر نہ کیا ۔ پیسے کی ہوس نے ان کو اندھا کر دیا تھااور اخلاقیات کے سبق کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا ۔کہنے کو یہ مسلمان ہیں بلکہ اسلام کے ٹھیکے دار ہی بنے بیٹھے ہیں ۔یہ پیسے کی ہوس ہی تھی کہ مری میں 3500گاڑیوں کی گنجائش ہونے کے باوجود ٹال پلازہ سے ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کو گزرنے دیا گیا۔

دوسری طرف حکومتی مشینری جس کو قبل از وقت پاکستان کے سب سے بڑے سیاحتی شہر مری میں اس قسم کی آفات اور پریشانیوں سے نمٹنے کے انتظامات کرنے کی بجائے ، ان بے بسوں کی بے بسی کا تماشہ دیکھتی رہی۔ وزراء سینٹرل اور صوبائی سطح پر اپنی اپنی میٹنگز میں ایک دوسرے کے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے منصوبے بناتے رہے۔ مگر کسی ماں کے لعل کوان قیمتی جانوں کو مرنے سے بچانے کی کارروائی کرنے یا کم از کم اس پر بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔

ہاں اس موقعہ پر مری کےان مقامی باسیوں کوخراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے جو اپنے گھروں سے بیلچے وغیرہ لے کر نکلے اور برف صاف کی۔ بے بس مجبور لوگوں کو کمبل مہیا کئے۔ اپنے گھر ان سیاحوں کے لئے کھول دئیے۔ جو اناج گھر میں تھا وہ پکا پکا کر ان سیاحوں کو کھلاتے رہے۔ اور یہی وہ اسوہ رسول اور حقیقی اسلامی طرز عمل ہے جو ایک ایک سچے مسلمان کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا بھی چاہئے جس کا آج کل فقدان نظر آتا ہےاور جس متاع کو آج مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے کھو دیا ہے۔

بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اس مملکت خداداد میں لفظ شرم کو شرما دینے والے ایسے واقعات بھی آئے روز واقع ہوتے ہیں جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک سری لنکن پر توہین رسالت کا الزام لگا کراور برہنہ حالت میں گلیوں میں گھسیٹتے ہوئے جس طرح انسانیت کا جنازہ نکالا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ کیا ان نام نہاد مسلمانی کی غیرت کا دعویٰ کرنے والوں کو اس وقت تک یہ بات بھول گئی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آگ اور پانی کے عذاب سے پناہ مانگی تھی، ان دو چیزوں کے ساتھ توکسی سے بھی مذاق نہیں کرنا چاہئے۔

کچھ عرصہ قبل ایک میاں بیوی کو ہتکِ رسول ؐ کا الزام لگا کر کوئلوں سے دہکتے اینٹوں کے بھٹے میں زندہ پھینک دیا گیا۔ گوجرانوالہ میں ایک حافظ ِ قرآن کو جس طرح گھسیٹا گیا وہ آج بھی پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ ساہیوال میں گاڑی میں معصوم شہریوں کے بچوں کے سامنے والدین کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔ فیصل آباد میں جس طریق پر بھیک مانگنے والی تین نوجوان خواتین پر چوری کا الزام لگا کر انہیں بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیا کہ شرف انسانی کی اقدار ہیں؟ بچیوں کا اغوا، ان کی بے حرمتی اور عصمت دری، ان کا قتل اور پھر کوڑے کے ڈھیروں پر لاوارث پھینک دینا تا کہ وہ جانوروں کی غذا بن جائیں یہ ایسے المیے ہیں جن کے لئے شاید المیہ کا لفظ بھی کم پڑنے لگ جائے۔ قبروں سے مردے نکالنا، ان کی بے حرمتی، ان کے کفن اور ہڈیوں کی فروخت ایک معمول بن چکا ہے۔ کسی نے اس قوم کے حوالہ سے کہا ہے کہ یہ بے ضمیر لوگ کفن کا بحران بھی پیدا کرنے سے نہ گھبرائیں۔ قتل و غارت تو عام ہے۔ معمولی معمولی رقم کے بدلے میں مخالف کو قتل کر دینا، دھمکیاں دینا تو عام ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیم تو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک انسان کو عمدًا مارنا پوری انسانیت کا قتل ہوجانا ہے۔

اگر معاشرے میں بڑھتا ہوا جھوٹ، چیزوں میں ملاوٹ وغیرہ کو دیکھیں تو نوزائیدہ بچوں کے دودھ میں زہریلی اشیاء کی ملاوٹ روزانہ کا معمول ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ

شور ہے، ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

یہ ہیں بے ایمانی کی وہ حدیں جو ہمارے ملک کے معاشرے میں آئے روز عبور ہوتی نظر آتی ہیں۔ حاجت مندوں اور لاچار لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر، طمع و لالچ میں ناجائز منافع حاصل کرنے والے ان لوگوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ ایسی ہی قوموں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ نے کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ ہوں۔ کیا ان پر اس آرٹیکل کے آغاز میں بیان ہونے والی احادیث کی علامات پوری نہیں اترتیں ۔یہاں اسلام ڈھونڈنے کو نہیں ملتا مگر نام کے مسلمان کثرت سے موجود ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان) مگر آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی جان کا دشمن بنا بیٹھا ہے۔ آنحضور ؐ نے تو فرمایا تھا کہ مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا خون اور اس کے مال محفوظ ہوں۔ (سنن نسائی کتاب الایمان) مگر آج ہمارا معاشرہ دوسرے کے خون کا پیاسا اور اس کے اموال کا متلاشی ہے۔

اسلام و ایمان دو ایسے الفاظ ہیں۔ جن میں سلامتی اور امن کے معانی پنہاں ہیں اور مسلمان کے معنی سلامتی بہم پہنچانے والا اور مومن کے معنی امن فراہم کرنے والا کے ہیں۔ آج یہ معنی غیروں میں نظر آتے ہیں۔ اپنے ان خوبیوں سے محروم ہیں۔ آج ہمارے پیارے ملک اور اسلام کا نام لینے والے دیگر نام نہاد ممالک میں جو سخت ابتلاء آرہے ہیں۔ آفتوں اور بیماریوں کے ابتلاء آ رہے ہیں۔ یہ نقشہ آج سے سوسال پہلے اس دور کے حَکم و عدل نے مِن و عَن ایسا ہی کھینچا ہے جو آ ج پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ آپ بھی اس پیش خبری کو پڑھیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں۔ زلزلے آرہے ہیں۔ قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بدعملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی۔ اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی۔ آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیاہونے والا ہے۔ اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ سو اے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہوجاؤ۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23، صفحہ444)

آج سے تین دہائیاں قبل جب ہمارے پاک و صاف پُر امن معاشرے میں بد امنی، کفر کے فتووں اور توہین رسول وغیرہ کے الزامات کی جاگ لگ رہی تھی۔ تو خاکسار نے لاہور اور اسلام آباد میں اس کی روک تھام کے لئے ملکی اخبارات و رسائل میں کئی ایک کالمز اور آرٹیکلز لکھے تھے جو صفحہ قرطاس کی زینت بنے تھے۔ جن میں خاکسار نے متنبہ کیا تھا بلکہ خبردار کیا تھا کہ آج کفر بازی ، توہین رسالت کی سزا کا دروازہ کھول دیا گیا تو پھر یہ رکے گا نہیں بلکہ ایک وقت آئے گا کہ نام نہاد ملاں ،توہین مولوی پر سزا کا مطالبہ کریں گے اور آج یہی کیفیت معاشرے میں نظر آتی ہے۔

ان بد اعمالیوں اور غیر اسلامی حرکتوں کے عروج کو چھونے کی ایک بڑی وجہ انہی نام نہاد ملاؤں کے بُنے ہوئے اس جال کی ہے جو انہوں نے اپنے مفاد کے حصول اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بُنا اور وہ آج قوم کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔

انہی کی ایماء پرہمارے بندوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ انہی کے کہنے پر مساجد کے مینار گرانے اور محراب مسمار کرنے کا کام شروع ہوا اور انہی کے اشاروں پر چل کر قوم نے ہمارے قبرستانوں کی قبروں کے وہ کتبے توڑ ڈالے جن پر کلمہ طیّبہ یا عربی عبارت کندہ تھیں۔ اور انہی کے واویلہ مچانے پر میتوں کی بے حرمتی کی گئی اور ان کو قبروں سے باہر نکالا گیا۔ اور بالآخر خلیفہ آف اسلام کوپاکستان سے ہجرت کرنا پڑی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کلیساؤں کے شہر لندن میں بیٹھ کر اسلام و احمدیت کی بھر پور تبلیغ ہو رہی ہے، اس کی رحمتوں کی بارشیں ہمارے چارسو ہورہی ہیں یہ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ تعویذ (خلافت) تھا جس کو قوم نے اپنے سے اتار پھینکا اور آج دوسری قومیں اس تعویذسے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

اللہ کی نصرت ہے خلافت کی بدولت
تبلیغ میں وسعت ہے خلافت کی بدولت
اسلام کی عظمت ہے خلافت کی بدولت
ملت میں اخوت ہے خلافت کی بدولت
جب تک رہی اسلام میں موجود خلافت
دنیا میں مسلماں رہے با عزت و عظمت
جس وقت چھنی اِن سے یہ اللہ کی نعمت
عزت رہی باقی نہ کوئی شان و شوکت

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

شعرا ء (مرد حضرات) متوجہ ہوں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2022