• 28 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 18)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
(قسط18)

ارشادات برائے ہندوستان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
انسان کا کمال یہ ہے کہ اس میں حقیقی معرفت اور سچی فراست جو ایمانی فراست کہلاتی ہے (جس کے ساتھ الله کا ایک نور ہوتا ہے جو اس کی ہر راه میں راہنمائی کرتا ہے) پیدا ہو۔ بدوں اس کے انسان دھوکے سے نہیں بچ سکتا اور رسم و عادت کے طور پر کبھی کبھی نہیں بلکہ بسا اوقات سم قاتل پر بھی خوش ہو جا تا ہے۔ پنجاب و ہندوستان کے سجادہ نشین اور گدیوں کے پیر زادے قوالوں کے گانے سے اور هُوَحَقّ کے نعرے مارنے اور الٹے سیدھے لٹکنے ہی میں اپنی معرفت اور کمال کا انتہا جانتے ہیں اور نا واقف پیر پرست ان باتوں کو دیکھ کر اپنی روح کی تسلی اور اطمینان ان لوگوں کے پاس تلاش کرتے ہیں۔ مگر غور سے دیکھو کہ یہ لوگ اگر فریب نہیں دیتے تو اس میں شک نہیں ہے کہ فریب خوردہ ضرور ہیں۔ کیونکہ وہ سچا رشتہ جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان ہے جس کے حقیقی پیوند سے ایک نور اور روشنی نکلتی ہے اور ایسی لذت پیدا ہوتی ہے کہ دوسری لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کو ان قلابازیوں سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہم نہایت نیک نیتی کے ساتھ اور الله تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری نیت کیسی ہے۔ پوچھتے ہیں کہ اگر اس قسم کے مشغلے عبادت الہٰی اور معرفت الٰہی کا موجب ہو سکتے ہیں اور انسانی روح کے کمال کا باعث بن سکتے ہیں، تو پھر بازیگر وں کو معرفت کی معراج پر پہنچا ہوا سمجھنا چاہیے۔

(ملفوظات جلد1صفحہ369 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اب رہا مکان کےمتعلق۔ سو یاد رہے کہ دجال کا خروج مشرق میں بتایا گیا ہے۔ جس سے ہمارا ملک مراد ہے چنانچہ صاحب حجج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کاظہور ہندوستان میں ہورہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ظہور مسیح اسی جگہ ہو جہاں دجال ہو۔

(ملفوظات جلد1صفحہ43 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ہم اس اعتراض کا واضح جواب دینے سے پیشتر ایک ضروری امر اور بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک مسلمان کو یادر ہے کہ ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دارالحرب نہیں کہتے اور یہی ہمارا مذہب ہے؛ اگر چہ اس مسئلہ میں علماء مخالفین نے ہم سے سخت اختلاف کیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ہم کو تکلیف دہی کا انھوں نے باقی نہیں رکھامگر ہم ان عارضی تکالیف اور آنی ضرررسانیوں کے خوف سے حق کو کیونکر چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز ہرگز دارالحرب نہیں ہے۔ ہمارا مقدمہ ہی دیکھ لو۔ اگر یہی مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت میں ہوتا اور دوسری طرف ان کا کوئی گر و یا برہمن ہوتاتو بدوں کسی قسم کی تحقیق وتفتیش کے ہم کو پھانسی دے دینا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر انگریزوں کی سلطنت اور عہد حکومت ہی کی یہ خوبی ہے کہ مقابل میں ایک ڈاکٹر اور پھر مشہور پادری ہے لیکن تحقیقات اور عدالت کی کارروائی میں کوئی سختی کا برتاؤ نہیں کیا جا تا۔ کیپٹن ڈگلس نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کی کہ پادری صاحب کی ذاتی وجاہت یا ان کے اپنے عہدہ اور درجہ کا لحاظ کیا جاوے؛ چنانچہ انہوں نے لیمار چنڈ صاحب سے جو پولیس گورداسپور کے اعلیٰ افسر ہیں، یہی کہا کہ ہمارا دل تسلی نہیں پکڑتا۔ پھر عبدالحمید سے دریافت کیا جاوے۔ آخر کار انصاف کی رو سے ہم کو اس نے بری ٹھہرایا۔ پھر یہ لوگ ہم کو ارکان مذہب کی بجا آوری سے نہیں روکتے، بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے، جس کی وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کی اشاعت کا خاطر خواہ موقع ملا اور اس قسم کا امن اور آرام نصیب ہوا کہ پہلی حکومتوں میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر صریح ظلم اور اسلامی تعلیم اور اخلاق سے بعید ہے کہ ہم ان کے شکر گزار نہ ہوں۔ یاد رکھو! انسان جو اپنے جیسے انسان کی نیکیوں کا شکر گزار نہیں ہوتا، وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا؛ حالانکہ وہ اسے دیکھتا ہے۔ تو غیب الغیب ہستی کے انعامات کا شکر گزار کیونکر ہو گا، جس کو وہ دیکھتا بھی نہیں، اس لیے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہیں کہتے۔

ہاں! ہمارے نزدیک ہندوستان دارلحرب ہے بلحاظ قلم کے۔ پادری لوگوں نے اسلام کے خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ اس میدان جنگ میں وہ نیزہ ہائے قلم لے کر نکلے ہیں نہ سنان وتفنگ لے کر۔ اس لیے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیار لے کر نکلنا چاہیے وہ قلم اور صرف قلم ہے۔ ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جاوے۔ اللہ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آزار حملے کئے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے۔ کیا اُمہات المومنین یا دربار مصطفائی کے اسرار جیسی گندی کتاب دیکھ کر ہم آرام کر سکتے ہیں، جس کا نام ہی اس طرز پر رکھا گیا ہے۔ جیسے ناپاک ناولوں کے نام ہوتے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ در بارلنڈن کے اسرار جیسی کتابیں تو گورنمنٹ کے اپنے علم میں بھی اس قابل ہوں کہ اس کی اشاعت بند کی جائے مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کی دلآ زاری کرنے والی کتاب کو نہ روکا جائے۔ ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کی درخواست کرنا ہرگز ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہی نامناسب خیال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اپنے میموریل کے ذریعہ سے واضح کر دیا،لیکن یہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہی ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا خیال رکھے۔ بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادی دے رکھی ہےکہ اگرعیسائی ایک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں تو مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ اس کا جواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردید میں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے۔

(ملفوظات جلد1صفحہ200-201 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ہماری جماعت یا در کھے کہ ہم ہندوستان کو بلحاظ حکومت ہرگز ہرگز دَارُالْحَرْب قرارنہیں دیتے بلکہ اس امن اور برکات کی وجہ سے جو اس حکومت میں ہم کوملی ہیں اور اس آزادی کو جو اپنے مذہب کے ارکان کی بجا آوری اور اس کی اشاعت کے لیے گورنمنٹ نے ہم کو دے رکھی ہے۔ ہمارا دل عطر کے شیشہ کی طرح وفاداری اور شکر گزاری کے جوش سے بھرا ہوا ہے، لیکن پادریوں کی وجہ سے ہم اس کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔ پادریوں نے چھ کروڑ کے قریب کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی ہیں۔ میرے نزدیک وہ لوگ نہیں ہیں جو ان حملوں کو دیکھیں اور سنیں اور اپنے ہی ہم وغم میں مبتلار ہیں۔ اس وقت جو کچھ کسی سے ممکن ہو وہ اسلام کی تائید کے لیے کرے اور اس قلمی جنگ میں اپنی وفاداری دکھائے، جبکہ خود عادل گورنمنٹ نے ہم کو منع نہیں کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تائید اور غیر قوموں کے اعتراضوں کی تردید میں کتابیں شائع کریں، بلکہ پریسں، ڈاک خانے اور اشاعت کے دوسرے ذریعوں سے مدد دی ہے، تو ایسے وقت میں خاموش رہنا سخت گناہ ہے۔ ہاں ضرورت ہے اس امر کی کہ جو بات پیش کی جاوے، وہ معقول ہو۔ اس کی غرض دل آزاری نہ ہو۔ جو اسلام کے لیے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیں اورجتنی تدابیر اپنی دنیوی اغراض کے لیے کرتا ہے۔ اسی سوزش اور جلن اور درددل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول الله صلی علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہورہے ہیں، میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟ اور اگر کچھ اور نہیں ہو سکتا تو کم ازکم پر سوز دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کروں؟ اگر اس قسم کی جلن اور درددل میں ہوتو ممکن نہیں کہ سچی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔ اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے تو اس پر بھی رنج ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک سوئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسا ایمان اور اسلام ہے کہ اس خوفناک زمانہ میں کہ اسلام پر حملوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔ امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سورہے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہفتہ وار اور ماہواری اخباروں اور رسالوں کے علاوہ ہر روز وہ کس قدر دو ورقہ اشتہار اور چھوٹے چھوٹے رسالے تقسیم کرتے ہیں جن کی تعداد پچاس پچاس ہزار اور بعض وقت لاکھوں تک ہوتی ہے؟ اور کئی کئی مرتبہ ان کو شائع کرنے میں کروڑہا روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد1صفحہ202-203 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
محسن کے احسانات کی شکر گزاری کےاصول سے نا واقف جاہل ہمارے اس قسم کے بیانات اور تحریروں کو خوشامد کہتے ہیں مگر ہمارا خدا بہتر جانتا ہے کہ ہم دنیا میں کسی انسان کی خوشامد کر سکتے ہی نہیں۔ یہ قوت ہی ہم میں نہیں ہے۔ ہاں احسان کی قدر کرنا ہماری سرشت میں ہے اور محسن کشی اور غداری کا نا پاک مادہ اس نے اپنے فضل سے ہم میں نہیں رکھا۔ ہم گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانات کی قدر کرتے ہیں اور اس کو خدا کا فضل سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک عادل گورنمنٹ کو سکھوں کے پر جفا زمانہ سے نجات دلانے کے لئے ہم پر حکومت کرنے کو کئی ہزار کوس سے بھیج دیا۔ اگر اس سلطنت کا وجود نہ ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ ہم اس قسم کے اعتراضوں کی بابت ذرا بھی سوچ نہ سکتے، چہ جا ئیکہ ہم ان کا جواب دے سکتے۔
اب ہم ان اعتراضوں کا جواب بڑی آزادی سے دے سکتے ہیں۔ پھر اگر تم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی قدر نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ بڑے نا قدر شناس اور ناشکر گزار ہوں گے۔ ہم کو غور و فکر کا موقع ملا، دعاؤں کا موقع ملا اور اس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ابواب ہم پر کھولے؛اگر چہ مبدء فیض وہی ہے لیکن انسان اپنے میں ایک شے قابل بناتا ہے۔ اس پر بلحاظ اس کی استعداد اور ظرف کے فیض ملتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس تقریب کی وجہ سے ہندوستان اور پنجاب کے رہنے والے جو ہر قابل بن رہے ہیں اور ان کی علمی طاقتیں بھی ترقی کر رہی ہیں۔

(ملفوظات جلد1صفحہ213-214 ایڈیشن 2016ء)

پھر ڈاکٹر رحمت علی صاحب کچھ اپنے مقامی حالات سناتے رہے۔ اور گورنمنٹ انگلشیہ کی حکومت کی برکات کا ذکر کرتے رہے کہ اس نے فوجوں میں نماز اور اپنے مذہب کی پابندیوں کے لئے پورا وقت اور فرصت دے رکھی ہے۔ بشرطیکہ کوئی کرنے والا ہو۔ ہر مذہب کے لوگوں کے لئے ایک ایک مذہبی پیشوا مقرر کر رکھا ہے اور نماز کے اوقات میں کوئی کام نہیں رکھا۔ ہاں جمعہ کی تکلیف ہے۔ حضرت اقدس نے فر مایا کہ:
’’یہ تکلیف بھی جاتی رہتی۔ اگر سب مسلمان مل کر درخواست کرتے مگر ان کم بختوں نے تو ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جمعہ کی فرضیت کو ہی اڑانا چاہا ہے۔ افسوس!‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ222 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ سخت غلطی کرتے ہیں دیکھو جوشخص باغ لگاتا ہے یا عمارت بناتا ہے تو کیا اس کا فرض نہیں ہوتا یا وہ نہیں چاہتا کہ اس کی حفاظت اور دشمنوں کی دست برد سے بچانے کے لیے ہر طرح کوشش کرے؟ بناغات کے گرد کیسے کیسے احاطے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور مکانات کو آتشزدگیوں سے بچانے کے لیے نئے نئے مصالح طیار ہوتے ہیں۔ اور بجلی سے بچانے کے لیے تاریں لگائی جاتی ہیں۔ یہ امور اس فطرت کو ظاہر کرتے ہیں جو بالطبع حفاظت کے لیے انسانوں میں ہے پھر کیا الله تعالیٰ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرے؟ بے شک حفاظت کرتا ہے اور اس نے ہر بلا کے وقت اپنے دین کو بچایا ہے۔ اب بھی جب کہ ضرورت پڑی اس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے۔ ہاں یہ امر حفاظت کا مشکوک ہو سکتا یا اس کا انکار ہو سکتا تھا۔ اگر حالات اور ضرورتیں اس کی مؤید نہ ہوتیں۔ مگر کئی کروڑ کتا بیں اسلام کے رد میں شائع ہو چکی ہیں اور ان اشتہاروں اوردو ورقہ رسالوں کا تو شمار ہی نہیں جو ہر روز اور ہفتہ وار اور ماہوار پادریوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں۔ ان گالیوں کو اگر جمع کیا جاوے جو ہمارے ملک کے مرتد عیسائیوں نے سید المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک ازواج کی نسبت شائع کی ہیں تو کئی کو ٹھے ان کتابوں کے بھر سکتے ہیں اور اگر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر رکھا جاوے تو وہ کئی میل تک پہنچ جائیں۔ عماد الدین، صفدر علی اور شائق وغیرہ نے جیسی تحریریں شائع کی ہیں وہ کسی پر پوشیده نہیں۔ عماد الدین کی تحریروں کے خطرناک ہونے کابعض انصاف پسند عیسائیوں کو بھی اعتراف ہے چنان لکھنؤ سے جو ایک اخبار شمس الاخبار نکلا کر تا تھا اس میں اس کی بعض کتابوں پر یہ رائے لکھی گئی تھی کہ اگر ہندوستان میں پھر کبھی غدر ہوگا تو ایسی تحریروں سے ہوگا ایسی حالتوں میں بھی کہتے ہیں کہ اسلام کا کیا بگڑا ہے اس قسم کی باتیں وہ لوگ کر سکتے ہیں جن کو یا تو اسلام سے کوئی تعلق اور درد نہیں اور یا وہ لوگ جنہوں نے حجروں کی تاریکی میں پرورش پائی ہے اور ان کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے پسں ایسے لوگ اگر ہیں تو ان کی کچھ پروا نہیں ہاں وہ لوگ جو نورقلب رکھتے ہیں جن کو اسلام کے ساتھ محبت اور تعلق ہے اور زمانہ کے حالات سے آشناہیں ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت کی عظیم الشان مصلح کا وقت ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ236-237 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

بہتان طرازی اور الزام تراشی کی شناخت اور اس کی اشاعت سے اجتناب کا حکم

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ