• 27 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلوت نشینی پر اعتراض کا جواب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلوت نشینی
پر اعتراض کا جواب

حال ہی میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سیرتِ طیّبہ پر ایک بدقسمت معاند کا اعتراض پڑھنے کو ملا۔ جو سراسر بدظنی اور گندی ذہنیت کی بناء پر کیا گیا۔ حوالہ کتاب ’’ذکرِ حبیب‘‘ مصنّفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کا دیا گیا جس میں یہ لکھا ہے کہ:
’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عادت تھی کہ دن میں کسی ایک وقت ایک یا دو گھنٹہ کے واسطے سب سے بالکل علیحدہ ہو جاتے تھے۔‘‘

(ذکرِ حبیب، صفحہ27، مطبوعہ 2008ء)

اعتراض یہ اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن میں ایک دو گھنٹے تنہائی میں کیا کِیا کرتے تھے؟معترض بدظنی کا تخم سادہ لوح لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا چاہتا ہے۔ حالانکہ تنہائی میں وقت گزارنا کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ بلکہ ہر انسان کچھ وقت تو روزانہ تنہائی میں گزارتا ہے۔ بہر کیف، اس بات کا جواب حضرت اقدس علیہ السلام کے ملفوظات میں ہمیں ملتا ہے۔ آئیے دیکھئے کہ آپ خلوت میں کیا کِیا کرتے تھے۔

سن 1900ء کی آخری سہ ماہی کی بات ہے جبکہ آپؑ بعض نہایت اہم تصنیفات کرنے میں مصروف تھے۔ آپ کو کم فرصتی کی وجہ سے باہر احباب کے درمیان بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ اس عرصہ میں بعض مہمانوں کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں جن کو دور کرنے کے لئے آپ نےمؤرخہ 21؍ستمبر 1900ء کو ایک مختصر، ایمان افروز تقریر فرمائی۔ جسے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے تحریر میں محفوظ کر لیا اور بعد میں اپنے بعض دوستوں کو ارسال کی۔ حضورؑ نے ارشاد فرمایا:
’’میں آجکل بہت کم بیٹھتا ہوں۔ کسی نووارد مہمان کے دل میں خیال گزرے کہ اس کی خاطرداری میں تساہل ہؤا۔ بلکہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہاں سفید پوش اور کہنہ پوش میں امتیاز ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں تنہائی میں جو بیٹھتا ہوں تو اپنے دوستوں کے بہبود کے لئے یا تو ان کے لئے دعا کرتا ہوں بعض کے نام لے لے کے اور جن کے نام یاد نہیں انہیں خدا تعالیٰ کے علم کے حوالہ کرتا ہوں۔ یا انہیں کے علوم کی زیادت اور قوت ایمانی کی ترقی کے لئے کتابیں لکھتا ہوں۔‘‘

پھر مثال دے کر فرمایا :
’’مہربان ماں اپنے ناتواں بے کَس بچے کو چھوڑ کر باورچی خانہ میں جا کر تنہا بیٹھتی اور اس کے لئے کھانا تیار کرتی ہے ممکن ہے کہ نادان بچہ یا کوئی ناواقف خیال کرے کہ وہ ستم کر کے بچہ کو چھوڑ گئی ہے۔ مگر دانا جانتا ہے کہ اس کی تنہائی بھی بچہ کی خاطر ہے۔‘‘

فرمایا
’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس قدر مجھے فکر لگی رہتی ہے کہ کسی مہمان کا دل آزردہ نہ ہو۔ اور میں بجز متقی کے کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ میرا اصول یہی ہے اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ‘‘ [ترجمہ: بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ الحجرات: 14]

(اخبار الحکم قادیان، جلد 37، نمبر 1، مؤرخہ 14 جنوری 1934ء، صفحہ 4)

کیسی پاک خلوت نشینی تھی! اس ارشادِ مبارک میں جہاں جاہل معترض کا جواب ملتا ہے وہاں آپ کی مہمان نوازی اور تقویٰ پسندی پر روشنی پڑتی ہے۔

اپنا منہ ہی کر لیا گندا، پاگل نے جب چاند پہ تھوکا
جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِل اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقا

(کلامِ طاہر)

(فرحان حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

بہتان طرازی اور الزام تراشی کی شناخت اور اس کی اشاعت سے اجتناب کا حکم

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ