ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
خوراک کی سادگی
قسط 10
نہ دل در تنعّم ہائے دنیا گر خدا خواہی
کہ مے خواہد نگار من تہیدستان عشرت را
(درثمین فارسی)
ترجمہ: اگر خدا کا طلبگار ہے تو دنیاوی نعمتوں سے دل نہ لگاکہ میرا محبوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں۔
خوراک لباس اور رہائش انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ ہر انسان اپنی قسمت، گنجائش اور ترجیحات کے مطابق آرائش اور آسائش حاصل کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف کردیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والوں کا اپنے محبوب میں استغراق انہیں دنیاوی نعماء سے بے رغبت کردیتا ہے وہ انتہائی صبروشکر اور استغناء کے ساتھ ان سے صرف اتنا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ قوت لایموت قائم رہے اور وہ خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہیں وہ صرف ایک کشتی کے سوار ہوتے ہیں۔ اپنے مولا کے پیار کی کشتی۔ اسی میں ان کا سکون ہے اسی میں ساری اعلیٰ لذات ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے پیاروں کی تربیت میں یہ امر شامل فرمادیتا ہے کہ وہ دنیا کے لئے نہیں بنے دنیا ان کے لئے بنی ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی
(طٰہٰ: 132)
ترجمہ: اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے اُن میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ اور تیرے ربّ کا رزق بہت اچھا اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ا حکام کی روح سمجھتے ہوئے اس پر بہترین عمل کرنے والے حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ جس قدر دنیا سے دور ہوں گے خدا سے قرب بڑھے گا۔ آپؐ پر ہر قسم کی تنگی ترشی اور فراخی وشاہی کا وقت آیا مگر آپؐ کے دستورالعمل میں فرق نہ آیا۔ آپ کی دعا تھی:
یا اللہ مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنا اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مسکینوں کی جماعت میں اٹھانا۔
(ترمذی کتاب الزہد باب 44)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرتؐ پر کھول دئے۔ سو آنجنابؐ نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا۔ نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ طیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کرکے دکھلائی اور وہ جو دلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرتؐ نے اپنے پاک ہاتھوںکو ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تونگری پراور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ289-290 حاشیہ نمبر11)
آپ ؐکے لئے یہ ساری کائنات اس میں موجود سب نعماء تخلیق کی گئی تھیں اور آپؐ اللہ تعالیٰٰ کے لئے تخلیق کئے گئے تھے اس لئے آپؐ کی ساری اعلیٰ لذات اپنے خالق و مالک میں تھیں۔ آپؐ صرف عبادت کے لئے زندہ رہنے کے لئے کھاتے پیتے آپؐ کی خوراک سادہ اور معمولی ہوا کرتی تھی اس کا ذکرکئی روایات میں ملتا ہے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ اس پر میں نے پوچھا خالہ! پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم کھجوریں کھاتے اور پانی پیتے تھے۔ سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے انصاری تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے وہ رسول اللہ کو ان کا دودھ تحفۃً بھیجتے تھے جو آپؐ ہمیں پلادیتے تھے۔
(بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا باب فضل الھبۃ)
آنحضرتؐ خیر الرازقین کی پیدا کی ہوئی ہر نعمت دسترس میں ہونے کے باوجود رضائے الٰہی کی خاطر ان سے دست کش رہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓکے زندگی بھر کے قریبی مشاہدہ کا نچوڑ ملاحظہ ہو۔ فرماتی ہیں :‘‘رسول اللہؐ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اپنے گھر میں کبھی کھانا خود سے نہیں مانگتے تھے۔ نہ ہی اس کی خواہش کرتے تھے اگر گھر والے کھانا دے دیتے تو آپ تناول فرمالیتے اور جو کھانےپینے کی چیز پیش کی جاتی قبول فرمالیتے۔
(ابن ماجہ کتاب الاقتصاد باب 94)
حضرت ابو ہریرہ ؓ آپؐ کی کم خوری اور سادگی کے ذکر میں روایت کرتے ہیں:
’’آنحضورؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔‘‘
(تجرید بخاری حصہ دوم صفحہ814)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی طشتریوں میں کھانا کھایا ہو اور نہ ہی آپ کے لئے کبھی چپاتیاں پکائی گئی ہیں، روٹی پکائی گئی اور نہ کبھی آپ نے تپائی (چھوٹی میز سامنے رکھ کر اونچی چیز پر) لگا ہوا کھانا باقاعدہ کھایا ہو۔ قتادہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس پر کھانا کھایا کرتے تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پہ۔ یعنی زمین پہ کپڑا بچھا لیتے تھے۔ اور اس پہ بیٹھ کے کھانا کھایا کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الاطعمۃ باب الخبز المرقق والاکل علی الخوان والسفرۃ)
آپؐ کی سادہ خوراک کے بارے میں سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی کھائی ہے؟۔ سہل ؓ نے جواب دیا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی۔ اس پرمَیں نے پوچھا کیا تمہارے پاس آنحضرتؐ کے زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا آنحضرتؐ نے اپنی بعثت سے لے کر وفات تک چھلنی نہیں دیکھی۔ ابوحازم کہتے ہیں مَیں نے سہل سے پوچھا آپ بغیر چھانے کے جَو کا آٹا کس طرح کھاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوٹنے کے بعد اسے پھونکیں مار لیتے اور اس طرح جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا اور باقی کو ہم بھگو کر کھا لیتے۔
(بخاری کتاب الاطعمۃ باب ما کان النبیؐ واصحابہ یاکلون)
حضرت مقداد ؓ آنحضورؐ کی کھانے سے بے نیازی کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
’’حضورؐ کے پاس چند بکریاں تھیں جن کے دودھ پر رسول اللہؐ کے مہمان صحابہ کا گزارا ہوتا تھا۔ دستور یہ تھا کہ ہم یعنی مقداد اور ان کے دو اور مہمان ساتھی بکریوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنا حصہ پی کر سوجاتے۔ باقی دودھ ایک پیالے میں ڈھک کر رسول اللہؐ کے لئے بچا رکھتے ایک دن دینی کاموں میں تاخیر کی وجہ سے آنحضورؐ کی گھر واپسی میں تاخیر ہوگئی۔ ادھر میری بھوک کی شدت اپنے حصے کے دودھ سے کم نہ ہوئی تو دل میں خیال آیا کیوں نہ آنحضورؐ کے حصے کا دودھ پی لیا جائے۔ یہ سوچ کر کہ حضورؐ کو تو انصار وغیرہ نے دودھ پلا دیا ہوگاوہ سیر ہوکر آئیں گے اٹھا اور دودھ پی کر خالی پیالہ اسی جگہ رکھ دیا۔ آنحضورؐ کا دستور یہ تھا کہ گھر واپس تشریف لاتے اگر لوگ سوئے ہوئے ہوتے تو بڑی خاموشی سے دوسروں کو جگائے بغیر آہستہ آواز میں سلام کہتے آپ تشریف لائے اور حسبِ معمول سونے سے پہلے اس طرف گئے جہاں دودھ کا پیالہ پڑا ہوتا تھا مگر پیالہ خالی تھا ادھر میں عرقِ ندامت سے پانی پانی ہورہا تھا کہ مجھ سے کیا حرکت سرزد ہوگئی۔ ادھر نبی کریمؐ نے بلند آواز سے یہ دعا کی کہ ‘‘یا اللہ اس وقت بھوک کی حالت میں جو بھی مجھے کھلائے اسے کھلا اور جو بھی مجھے پلائے تواسے پلا’’کہتے ہیں تب مجھے کچھ ڈھارس بندھی میں فوراََ اٹھا اور ان بکریوں کی طرف گیا جن کا دودھ پہلے دوہا جاچکا تھا۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب بکری کے تھن کو میرا ہاتھ پڑا تو اس کو دودھ سے بھرا ہوا پایا۔ میں نے دودھ سے اپنا برتن بھرا اور آنحضرتؐ کی خدمت میں لے کر آیا حضورؐ نے فرمایا پہلے تم پی لو۔ میں نے عرض کیا حضورؐ پہلے آپ پی لیں پھر میں آپ کو ساری بات عرض کروں گا۔ حضورؐ نے دودھ پی لیا پھر بھی باقی بچ گیا۔ حضورؐ نے مجھے فرمایا اب تم بھی پی لو۔ میں نے پیا جب خوب سیر ہوگیا تو بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ حضورؐ نے فرمایا مقداد کیا بات ہے؟ تب میں نے سارا قصہ سنایا کہ یا رسول اللہ میں تو اس خیال سے آپؐ کے دودھ کا حصہ پی گیا تھا کہ آپ باہر سے دودھ پی کر آئیں گے مگر جب آپ نے یہ دعا کی تو میں اٹھا اور پھر یہ عجیب نشان ظاہر ہواکہ خدا تعالیٰ نے ایک بکری کے تھنوں میں دوبارہ دودھ اتار دیا۔ میں ہنس اس لئے رہا ہوں کہ میں نے حضورؐ کے دودھ کا حصہ بھی پیا اور اپنا بھی اور دودھ دوہنے کے بعد پھر خدا نے مجھے پلایا اس طرح میرے حق میں حضورؐ کی یہ دعا بھی پوری ہوگئی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک برکت تھی اور یہ تمہارے ساتھی جو سو رہے ہیں ان کو اس میں سے کیوں حصہ نہ دیا…‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ4)
’’اگر کبھی دیر سے گھر واپس تشریف لاتے تو کسی کو زحمت دیتے نہ جگاتے بلکہ خود ہی کھانا یا دودھ تناول فرمالیتے۔‘‘
(مسلم کتاب الاشربہ)
’’آنحضرتؐ نے ایک دفعہ فرمایا دل کرتا ہے ایک دن بھوکا رہوں ایک دن سیر ہوکر کھا لوں جس دن بھوکا رہوں اپنے رب سے تضرع اور دعا کروں اور سیر ہو کر اللہ کا شکر بجا لاؤں۔‘‘
(ترمذی کتاب الزہد باب ما جاء فی الکفاف)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خوراک کے بارے میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ تحریر فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھاتا اور مومن ایک میں۔ مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا اور دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے جب مومن کا یہ حال ہو تو پھر انبیا ء اور مر سلین علیھم السلام کا تو کیا کہنا آنحضرتؐ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہوتا بلکہ ستو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی۔ اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت کم خور تھے۔ اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیوں کر رہ سکتا ہے خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے۔‘‘
(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحؓب435)
آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے۔ بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا…
(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب صفحہ735)
حضرت مفتی محمد صادق ؓ نے ابتدائی زمانے کی بڑی عمدہ تصویر کھینچی ہے:
’’ابتدا میں جب مہمان کم ہوتے تھے اور گول کمرے میں یا مسجد میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اس وقت عموماََ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی باہر مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔ آپ ایک روٹی ہاتھ میں لیتے اور اس کے دو ٹکڑے کرتے ایک ٹکڑا دستر خوان پر رکھ دیتے دوسرے کے پھر دو ٹکڑے کرتے پھر ایک ٹکڑا دسترخوان پر رکھ دیتے جو ہاتھ میں رہ جاتا اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹتے جو لمبائی چوڑائی میں ایک انچ سے کم ہوتااور اسے سالن کے کٹورے میں ڈالتے اسی طرح بہت تھوڑا سا سالن اس ٹکڑے کے ایک کنارے پر لگتا پھر اسے منہ میں ڈالتے اور دیر تک اسی کو چباتے اور مہمانوں کے ساتھ باتیں کرتے رہتے اور کبھی کبھی اپنے آگے سے کوئی کھانے کی چیز اٹھا کر کسی مہمان کو دیتے یا اچار یا مربہ یا کوئی اور خاص چیز دسترخوان پر ہوتی اس میں سے کچھ ایک روٹی پر رکھ کر کسی مہمان کو دیتے میری عادت تھی کہ میں بہ سبب محبت دسترخوان پر حضرت کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا میں دیکھتا تھا کہ حضور کے کھانے کی مقدار بہت کم ہوتی اور چند نوالوں سے زیادہ نہ ہوتی۔‘‘
(ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صفحہ9-10)
اللہ والوں کا یہی دستور ہے وہ کھانے کے لئے زندہ نہیں رہتے زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں۔ اس طرح ان کا کھانا بھی عبادت میں شامل ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اپنے آقا و مطاع کی اس ادا کو بھی زندہ کرکے دکھادیا۔
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے گورداسپور میں مقدمہ کے ایام میں جو کرم دین سے تھا ایک دن ایسا ہوا کہ مہمان کثرت سے آگئے لنگر خانہ بھی نہیں تھا تمام ملازمین مہمانوں کو کھانا کھلاتے حضرت صاحب کو کھانا کھلانا بھول گئے بارہ بجے کے قریب جب دن ڈھلنے کو آیا تو حامد علی نے آکر حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور کھانا تو ختم ہوگیا اور مجھے اب یاد آیا کہ حضور نے کھانا تناول نہیں فرمایا اگر حضور حکم دیں تو کھانا دوبارہ تیار کیا جائے۔ فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے ڈبل روٹی اور دودھ لے آؤ میں وہی بھگو کر کھالوں گا فوراً حامد علی دودھ اور ڈبل روٹی کے لئے گیا ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ نہ ملا۔ حامد علی نے عرض کیا حضور ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ کہیں نہیں ملتا فرمایا پانی میں بھگو کر کھالیں گے کوئی حرج نہیں ہے۔ اور حضور نے اسی طرح کچھ ڈبل روٹی پانی میں بھگو کر کھائی اور دن بسر کردیا۔
(سیرتِ احمدؑ مرتبہ قدرت اللہ سنوری صفحہ69)
اسی مقدمے کے دوران ایک دفعہ آپؑ کا کھانا لاہور سے آنے والے مہمانوں کو پیش کردیا گیا آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ دوسرا کھانا تیار کروایا جائے تو آپؑ نے فرمایا:
’’کوئی ضرورت نہیں اب شام میں تھوڑی دیر ہے۔ شام کوہی کھائیں گے اب تھوڑا سا مصری کاشربت پی لوں گا۔
چنانچہ حضور نے شربت پیا اور اسی طرح دن بسر کیا۔ آپ ؑ کا طریق یہ تھاکہ روٹی کا ایک ٹکڑا لے کراسے ریزہ ریزہ کرکے کھاتے ہوئے ان ریزوں کو سالن سے لگا کر کھالیا کرتے۔ کھانا بہت آہستگی سے تناول فرماتے سالن بہت ہی کم کھاتے تھے۔ استغراق اس قدر رہتا کہ اگر کسی نے کھانا لا کر سامنے رکھ دیا تو کھا لیا اور اگر گھر والوں نے بھول کر کھانا نہ بھجوایا توکھانے کا یاد بھی نہ کروایاکرتے تھے اور فاقہ کرلیا کرتے تھے۔ کبھی کسی خاص کھانے کی فرمائش نہ کی جو سامنے آیا کھالیا۔ کبھی کھانے پر اظہار ناراضگی نہیں فرماتے تھے کہ نمک زیادہ ہے یا سالن مزے دار نہیں وغیرہ۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا۔‘‘
(سیرتِ احمدؑ مرتبہ قدرت اللہ سنوری صفحہ69)
کھانے کے بارے آپ کا اپنا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو وقت بڑے آرام سے بسر کرسکتا ہوں… ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کرسکتا ہے اس کے امتحان کے لئے چھ ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھالیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے اس اثنا میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا اور مجھے اپنی حالت کا اخفا منظور تھا اس اخفا کی تدابیر کے لئے جوزحمت مجھے اُٹھانی پڑتی تھی شاہد وہ زحمت اوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہوگی۔ میں وہ دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کردیتا اس حال میں نماز پانچ وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت مولوی عبدالکریم ؓ صفحہ62)
ایک اور روایت ہے کہ حضرت مرزا اسمٰعیل بیگ صاحب جنہوں نے بچپن سے آخری عہد زندگی تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کی تھی کہتے ہیں۔ میں گھر سے سات روٹیاں لایا کرتا تھا۔ چار آپ کے لئے اور تین اپنے لئے۔ ان چار میں سے آپ کے حصہ میں ایک روٹی بھی نہیں آیا کرتی تھی۔ کھانے کے عین وقت پر عنایت بیگ آتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ حضور کا طریق تھا کہ ہمیشہ دروازہ بند رکھا کرتے تھے اور میں کھول دیا کرتا تھا دروازہ کھلنے پر آپ ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھا لیتا پھر وہ چلا جاتا اور میں دروازہ بند کرلیتا تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ دستک ہوتی اور میں دروازے پر جاتا تو ایک اور شخص موجود ہوتا جس کا نام حسینا کشمیری تھا اس کو اندر آنے کی اجازت ملتی ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھالیتا ۔اس کے بعد حافظ معین الدیں چلے آتے اسے بھی ایک روٹی سالن کا کچھ حصہ عنایت فرماتے اور اس طرح ساری روٹیاں دوسروں کو کھلا کر خود تھوڑا سا بچا ہوا شوربا پی لیتے۔ میں ہر چند اصرار کرتا مگر میری روٹی میں سے نہ کھاتے۔ میر ے اصرار کرنے پر بھی گھر سے اپنے لئے اور روٹی نہ منگواتے۔ کبھی جب میں بہت ضد کرتا کہ اگر آپ میرے حصے میں سے نہیں کھائیں گے تو میں بھی نہیں کھاؤں گا تو تھوڑی سی کھالیتے ایسا ہی شام کو بھی ہوتا۔ البتہ شام کو ایک پیسے کے چنے منگواکر کچھ آپ چبا لیتے۔ کچھ مجھے دیتے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ982)
کون چھوڑے خوابِ شیریں کون چھوڑے اکل و شرب
کون لے خارِ مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار
عِشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر
عِشق ہے جو سر جھکا دے زیرِ تیغِ آبدار
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)