کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 31
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
چند احباب بتقریب نماز عید الاضحی دارالامان میں تشریف لائے اور انہوں نے بیعت کی۔ حضرت اقدس امام پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کھڑے ہو کر یہ تقریر فرمائی۔
فرمایا:۔ دیکھو جس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چند کلمات بطور نصیحت کے کہتا ہوں۔ چاہئے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں۔
آپ لوگوں کی یہ بیعت۔ بیعت توبہ ہے توبہ دو طرح ہوتی ہے ایک تو گذشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلاح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکا ہے ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کوکشش کرنا اور آئندہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ توبہ سے تمام گناہ جو پہلے ہوچکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ صدق دل اور خلوص نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغا بازی دل کے کسی کونہ میں پوشیدہ نہ ہو۔ وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتا ہے وہ کسی کے دھوکہ میں نہیں آتا پس چا ہئے کہ اس کو دھوکا دینے کی کوکشش نہ کی جاوے اور صدق سے نہ نفاق سے اس کے حضور توبہ کی جاوے۔
توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بےفائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنور جاتے ہیں۔ اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان میں دونوں میں آرام اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔
دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 202) اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی آرام و آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دیکھو درحقیقت رَبَّنَا کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ رب کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔ اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہیں اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے رب ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے رب ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا رب ہے غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے سا تھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کے اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَا کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے۔ تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دلسوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اوراسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانہ پر آتا ہوں۔
غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے رب اور ان کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا۔ بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزارہ ہی مشکل ہے بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں۔ سوان کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔ دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آسکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے۔ غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اس در کے نہ ہو۔ اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ ہیچ ہیں۔
آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے طرح طرح کے عذاب، خوف، خون، فقر و فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لیے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ۔
سچی توبہ ایک مشکل امر ہے۔ بجز خدا کی توفیق اور مدد کے توبہ کرنا اور اس پر قائم ہو جانا محال ہے۔ توبہ صرف لفظوں اور باتوں کا نام نہیں۔ دیکھو خدا قلیل سی چیز سے خوش نہیں ہو جاتا۔ کوئی ذرا سا کام کر کے خیال کر لینا کہ بس اب ہم نے جو کرنا تھا کر لیا اور رضا کے مقام تک پہنچ گئے یہ صرف ایک خیال اور وہم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک بادشاہ کو ایک دانہ دے کر یا مٹی کی مٹھی دے کر خوش نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس کے غضب کے مورد بنتے ہیں تو کیا وہ احکم الحاکمین اور بادشاہوں کا بادشاہ ہماری ذرا سی ناکارہ حرکت سے یا دو لفظوں سے خوش ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا وہ مغز چاہتا ہے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ284-287، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
نفس کے ہم پر حقوق
میری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو دھوکہ نہ دے۔ خدا تعالیٰ ایک ناکارہ چیز کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھو اگر ایک شخص دُنیوی بادشاہ کے پاس نکمّی سی چیز ہدیہ کے طور پر لے جاتا ہے تو اگرچہ وہ اس کو لے جا سکتا ہے مگر وہ ایسے فعل سے بادشاہ کی ہتک کرتا ہے۔
(البدر جلد2 نمبر9 مورخہ 20 مارچ 1903ء صفحہ66)
دیکھو خدا یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کے سا تھ کسی کو شریک کیا جاوے۔ بعض لوگ اپنے شرکاء نفسانی کے واسطے بہت سا حصہ رکھ لیتے ہیں اور پھر خدا کا بھی حصہ مقرر کرتے ہیں۔ سو ایسے حصہ کو خدا قبول نہیں کرتا وہ خالص حصہ چاہتا ہے۔ اس کی ذات کے سا تھ کسی کو شریک بنانے سے زیادہ اس کو غضبناک کرنے کا اور کوئی آلہ نہیں ہے۔ ایسا نہ کرو کہ کچھ تو تم میں تمہارے نفسانی شرکاء کا حصہ ہو اور کچھ خدا کے واسطے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں سب گناہ معاف کروں گا مگر شرک نہیں معاف کیا جاوے گا۔
یاد رکھو شرک یہی نہیں کہ بتوں اور پتھروں کی تراشی ہوئی مورتوں کی پوجا کی جاوے۔ یہ تو ایک موٹی بات ہے یہ بڑے بیوقوفوں کا کام ہے دانا آدمی کو تو اس سے شرم آتی ہے۔ شرک بڑا باریک ہے وہ شرک جو اکثر ہلاک کرتا ہے وہ شرک فی الاسبا ب ہے یعنی اسباب پر اتنا بھروسہ کرنا کہ گویا وہی اس کے مطلوب و مقصود ہیں جو شخص دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ امید ہوتی ہے جو دین و ایمان سے نہیں۔ نقد فائدہ کو پسند کرتے ہیں اور آخرت سے محروم۔ جب وہ اسباب پر ہی اپنی ساری کامیابیوں کا مدار خیال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو تو اس وقت وہ لغو محض اور بےفائدہ جانتا ہے اور تم ایسا نہ کرو۔ تم توکل اختیار کرو۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ288، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا۔ آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا کے پائی رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف: 24) اور آخر میں بھی دجال کے مارنے کے واسطے دعا ہی رکھی ہے۔ گویا اول بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے۔ حالت موجودہ بھی یہی چاہتی ہے تمام اسلامی طاقتیں کمزور ہیں۔ اور ان موجودہ اسلحہ سے وہ کیا کام کر سکتی ہیں؟ اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں۔ آسمانی حربہ کی ضرورت ہے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ318، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
اس کے بعد مفتی صاحب نے ایک مضمون سول ملٹری گزٹ سے سنایا جو کہ اسلامی عورتوں کے حقوق وغیرہ پر تھا۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔ ابھی کچھ دن ہوئے تھے کہ آنحضرتؐ کی شان میں ایک گندہ مضمون سنایا گیا تھا اب خدا نے اس کے مقابلہ پر فرحت بخش مضمون بھیج دیا ہے خدا کا فضل ہے کہ ہر ہفتہ ایک نہ ایک بات ایسی نکل آتی ہے جس سے طبیعت کو ایک تر و تازگی مل جاتی ہے۔
اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں عورتوں کو وہی حقوق دیئے ہیں جو کہ مردوں کو دیئے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اسلامی عورتوں میں پاکیزہ اور مقدس عورتیں بھی ہوتی ہیں اور ولیہ بھی ہوتی ہیں اور ان سے خارق عادت امور سرزد ہوتے ہیں اور جو لوگ اسلام پر اس بارہ میں اعتراض کرتے ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں۔ اس پر حضرت اقدس نے عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ
مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالح ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالح بن سکتی ہے قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ عورت تو درکناراور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے۔ اگر مرد کوئی کجی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں۔ غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بناتا ہے اس لیے لکھا ہے اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ۔ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ (النور: 27) اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزاروں ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا۔ جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا۔ ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے بھلا جب خاوند رات کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے، روتا ہے تو عورت ایک دن، دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور مؤثر ہوگی۔ عورت میں مؤثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کرسکتا جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے۔ خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی اثر کچھ اس پر نہیں ہوتا۔ خدا نے مرد عورت دونوں کا ایک ہی وجود فرمایا ہے۔
یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان میں نقص پکڑیں۔ ورنہ ان کو چا ہئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکر مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے۔
مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بد اثر قائم کرتا ہے تو پھر کس قدر بد اثر پڑنے کی امید ہے۔ مرد کو چاہئے کہ اپنے قویٰ کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے۔
مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے۔ اسی طرح وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت، حلم، صبر اور جیسے اسے پرکھنے کا موقعہ ملتا ہے وہ دوسرے کو مل نہیں سکتا۔ اسی لیے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ آخرکار ایک وقت پورا اخلا ق حاصل کرلیتی ہے۔
ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہو گئی۔ شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پردہ بھی چھوڑ دیا۔ غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی۔ خاوند نے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا تو اس نے بیوی کو کہا تو بھی میرے ساتھ مسلمان ہو اس نے کہا کہ اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے۔ یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑ گئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ301-303، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب پھر سول اخبار کا بقیہ مضمون سناتے رہے جس میں اسلامی عورتوں کا ذکر تھا اس پر حضرت نے فرمایا کہ:۔
کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلامی عورتیں صالحات میں نہ ہوں، گو تھوڑی ہوں، مگر ہوں گی ضرور جس نے عورت کو صالح بنانا ہو وہ آپ صالح بنے۔ ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی پرہیزگاری کے لئے عورتوں کو پرہیزگاری سکھاویں ورنہ وہ گنہگار ہوں گے اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی۔ جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیدا ہوتی ہے۔ اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی۔ اس لیے چاہئے کہ سب توبہ کریں۔ اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔ عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔ نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں۔ یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں۔ وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں۔ جب خاوند سیدھے رستہ پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی۔ ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک بھی دنیا میں نہیں ہے۔ اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے۔ جب عورت کا یہ اعتقاد ہو جاوے گا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے باہر رہے۔ سب انبیاؤوں اولیاؤوں کی عورتیں نیک تھیں اس لیے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے۔ جب مرد بدکار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں۔ ایک چور کی بیوی کو یہ خیال کب ہوسکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں۔ خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے؟ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء: 35) اسی لیے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی۔ ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہوگا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ309-310، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
(ترتیب وکمپوزڈ۔عنبرین نعیم)