قرآنی انبیاء
اور طوفان آ گیا
قسط 3
بعض لوگوں کا خیا ل تھا کہ اگر طوفان بڑھ گیا تو وہ کسی پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لیں گے۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا نازل ہوتی ہے تو پہاڑ تو کیا تمام دنیا کے وسائل بھی انسان کے کام نہیں آ سکتے………!
طوفان اس قدر شدید تھا کہ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ لہریں یوں بلند ہو رہی تھی کہ گویا سب کچھ ساتھ بہا کر لے جائیں گی۔ پہاڑوں جیسی بلند لہروں میں آخر کسی کا بچ جانا ممکن بھی کب تھا۔
لیکن اس تمام افراتفری کے عالم میں ایک کشتی بڑے سکون کے ساتھ اس لہروں پر سفر کر رہی تھی اور اس میں بیٹھے ہوئے نیک لوگ جو حضرت نوحؑ پر ایمان لئے تھے آج خوش ہو رہے تھے کہ وہ مومنین کی جماعت میں شامل ہو گئے ورنہ آج وہ بھی انکار کرنے والوں کے ساتھ ہلاک کر دیئے جاتے۔ اس طوفان سے کچھ وقت پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی وحی اور حکم کے ماتحت اس کشتی کوبنانا شروع کیا تھا۔ عام دنوں میں جب کہ کشتی کی کوئی بھی ضرورت نہ تھی یہ فعل مخالفین کے لئے حیرت انگیز تھا۔ وہ لوگ جب حضرت نوحؑ کے پاس سے گزرتے تو ہنستے اور مذاق کرتے کہ دیکھو خشکی میں کشتیاں چلنے لگیں؟ حضرت نوحؑ ان کو جواب میں کہتے تھے کہ تم آج بے شک ہنسی کر لو لیکن ایک دن آئے گا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں تباہ و برباد کرے گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی ہنسی اور مذاق کے باوجود حضرت نوح علیہ السلام نے وہ کشتی مکمل کی اور بالآخر طوفان کا دن آ گیا۔
حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے تمام پیروکار اس کشتی میں سوار ہو گئے۔ جب کہ وہ مخالفین جو اب تک ان پر ہنسا کرتے تھے حسرت کے ساتھ اس طوفان میں ہلاک ہو گئے۔ یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ آسمان سے بھی پانی برس رہا تھا اور زمین سے بھی چشمے ابل پڑے تھے اور کوئی جائے پناہ نظر نہ آتی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اگر طوفان بڑھ گیا تو وہ کسی پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لیں گے۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نازل ہوتی ہے تو پہاڑ تو کیا تمام دنیا کے وسائل بھی انسان کے کام نہیں آ سکتے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا بھی ان نادان لوگوں کے ساتھ شامل ہو گیا اور جب آپ نے اسے بلایا کہ آؤ اور میرے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ تو اس نے کہا نہیں! میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا بلکہ اگر طوفان بڑھ گیا تو میں کسی پہاڑی پر چڑھ کر جان بچا لوں گا۔ لیکن افسوس کوئی پہاڑ اسے نہ بچا سکا اور وہ بھی وقت کے نبی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس سیلاب کی نذر ہو گیا اور صرف وہی لوگ بچائے گئے جو وقت کے نبی کے ساتھ تھے اور اس پر ایمان لائے تھے اور اس کے ساتھ ہجرت میں شریک ہوئے تھے۔
حضرت نوحؑ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے اور احادیث کے مطابق آپ پہلے شرعی نبی تھے۔ روایتوں کے مطابق آپ کے والد کا نام ’’لمک‘‘ تھا اور آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پوتے تھے۔
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عراق کے رہنے والے تھے آپ کو جب اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا تو آپ نے اپنی تمام قوم کو خدائے واحد کی طرف بلایا۔ قرآن کریم کے مطابق آپ نے بڑی محنت کے ساتھ اپنے لوگوں کو پیغام پہنچایا لیکن ان کی قوم نے ایک نہ سنی۔ قرآن کریم ان کی حالت کا نقشہ یوں کھینچتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے خدا میں نے اپنی قوم کو دن کے وقت بھی پکارا اور رات کے وقت بھی ان کو تبلیغ کی لیکن میری پکار نے ان کو مجھ سے متنفر ہونے کے سوا اور کچھ نہ دیا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ دور بھاگنے لگے۔ اے میرے خدا میں نے جب کبھی بھی ان کو تیری بخشش کی طرف بلایا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اپنے سروں پر اور کانوں پر کپڑے لپیٹ لئے اور انہوں نے ضد کی کہ ہم ہر گز نہیں مانیں گے۔ لیکن میں پھر بھی ان سے مایوس نہیں ہوا اور انہیں تیری راہوں کی طرف بلاتا رہا بازاروں میں نکل کر بلند آواز سے انہیں تبلیغ کی اور مخفی اشاروں سے بھی ان راہوں کی طرف ان کی راہنمائی کرتا رہا۔ میں نے انہیں ان کا ماضی یاد دلایا زمین و آسمان سے متعلق فطری دلائل انہیں دیئے۔ یوم آخرت سے انہیں ڈرایا لیکن وہ برابر میری تکذیب کرتے چلے گئے اور میری بات نہ مانی۔ میری نیکیوں اور نیک سلوک کے جواب میں انہوں نے میری خلاف تدبیریں کرنا شروع کر دیں بڑے بڑے مکر میرے خلاف استعمال کیے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔تب اس تمام تبلیغ کے بعد اور اپنی طرف سے پوری کوشش کر چکنے کے بعد حضرت نوحؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
اے اللہ میری تمام تر تبلیغ کے جواب میں یہ قوم تکذیب کرتی چلی جا رہی ہے۔ پس اب میری دعا ہے کہ کافروں میں سے اس زمین پر کوئی باقی نہ چھوڑ کیونکہ یہ لوگ سوائے گمراہی پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کر رہے۔
پیارے ساتھیو! اس دعا کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی کافر باقی نہ رہے اور سب مومن ہو جائیں یایہ کہ جو کافر ہیں اور کفر پر اصرار کر رہے ہیں انہیں تباہ و برباد کر دے۔
بالآخر آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر مخالفین کی ہلاکت کی پیشگوئی فرمائی اور کہا کہ دیکھو! میں نے یہ چاہا تھا کہ تم بچ جاؤ اور میں تمہارا خیر خواہ تھا لیکن تمہاری شوخیوں کی وجہ سے اب اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں عذاب دے گا اور تم تباہ کر دیئے جاؤ گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایمان لانے والوں کے سوا باقی تمام قوم طوفان میں غرق ہو گئی۔
حضرت نوح علیہ السلام کی امت 950 سال تک قائم رہی یعنی آپ کی امت یا قوم کی عمر950 سال ہے۔
(فرید احمد نوید ۔پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)