• 14 جولائی, 2025

ربط ہے جان محمد ؐمری جاں کو مدام (قسط 12)

ربط ہے جان محمد ؐمری جاں کو مدام
’’قیصر، آتھم، کسریٰ، لیکھرام‘‘
قسط 12

سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں خدا تعالی نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آرہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے کو وہ عیسائی ہویا یہودی یا آریہ، یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔

؎محمد است امام و چراغ ہردوجہاں
محمد است فروزندۂ زمین و زماں
خدا نہ گویمش از ترس حق مگر بخدا
خدا نما ست وجودش برائے عالمیاں

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ157حاشیہ)

آتھم قیصر ہے یا قیصر آتھم ہے

’ھمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بڑے نشان تھے جو ایک اُن میں سے آتھم کے قصہ سے مشابہ اور دوسرا لیکھرام کے ماجرا سے مماثلت رکھتا تھا۔ اِس مجمل بیان کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ صحیح بخاری کے صفحہ ۵ میں مذکور ہے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط دعوتِ اسلام کا قیصر رُوم کی طرف لکھا تھا اور اُس کی عبارت جو صفحہ مذکورہ بخاری میں مندرج ہے یہ تھی۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰن الرَّحیمْ۔ من محمدٍ عبد اللّٰہ ورسُولہ الٰی ھرقل عظیم الرّوم۔ سلام علی من اتبع الھدیٰ۔ امّا بعد فانّی ادعوک بدعایۃ الاسلام اَسلِم تَسْلِم یؤتک اللّٰہ اجرک مرّتین۔ فان تولّیت فانّ علیک اثم الیریسیین۔ ویا اھل الکتاب تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہٖ شيئا ولا یتّخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دُون اللّٰہ فان تولّوا فقولوا اشھدوا باَ نّا مسلمون۔ یعنی یہ خط محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور اُس کا رسول ہے روم کے سردار ہرقل کی طرف ہے۔ سلام اُس پر جو ہدایت کی راہوں کی پیروی کرے اور اس کے بعد تجھے معلوم ہوکہ میں دعوتِ اسلام کی طرف تجھے بلاتا ہوں یعنی وہ مذہب جس کا نام اِسلام ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ انسان خدا کے آگے اپنی گردن رکھ دے اور اُس کی عظمت اور جلال کے پھیلانے کے لئے اور اُس کے بندوں کی ہمدردی کے لئے کھڑا ہو جائے اِس کی طرف میں تجھے بلاتا ہوں۔ اسلام میں داخل ہوجا کہ اگر تونے یہ دین قبول کرلیا تو پھر سلامت رہے گا اور بے وقت کی موت اور تباہی تیرے پر نہیں آئے گی اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر موت اور ہاویہ درپیش ہے اور اگر تو نے اسلام کو قبول کرلیا تو خدا تجھے دو اجر دے گا۔ یعنی ایک یہ کہ تو نے مسیح علیہ السلام کو قبول کیا اور دوسرا یہ اجر ملے گا کہ تو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا لیکن اگر تو نے منہ پھیر ا اور اسلام کو قبول نہ کیا تو یاد رکھ کہ تیرے ارکان اور مصاحبین اور تیری رعیّت کا گناہ بھی تیری ہی گردن پر ہوگا۔ اے اہل کتاب ! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو تم میں اور ہم میں برابر ہے یعنی دونوں تعلیمیں انجیل اور قرآن کی اس پر گواہی دیتی ہیں اور دونوں فرقوں کے نزدیک وہ مسلّم ہے کسی کو اِس میں اختلاف نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم محض اُسی خدا کی پرستش کریں جو واحد لاشریک ہے اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ شریک نہ کریں نہ کسی انسان کو نہ کسی فرشتہ کو نہ چاند کو نہ سورج کو نہ ہوا کو نہ آگ کو نہ کسی اور چیز کو اور ہم میں سے بعض خدا کو چھوڑ کر اپنے جیسے دوسروں کو خدا اور پروردگارنہ بنالیں اور خدا نے ہمیں کہا ہے کہ اگر اس حکم کو سن کر یہ لوگ باز نہ آویں اور اپنے مصنوعی خداؤں سے دست بردار نہ ہوں تو پھر ان کو کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خدا کے اس حکم پر قائم ہیں کہ پرستش اور اطاعت کے لئے اُسی کے آستانہ پرگردن رکھنی چاہیئے اور وہ اسلام جس کو تم نے قبول نہ کیا ہم اُس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ خط تھا جو ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف لکھا تھا اور اُس کو قطعی طورپر ہلاکت او رتباہی کا وعدہ نہیں دیا بلکہ اُس کی سلامتی اور ناسلامتی کے لئے شرطی وعدہ تھا۔ اور صحیح بخاری کے اسی صفحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قدر قیصر روم نے حق کی طرف رجوع کرلیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مُدت تک اُس کو مہلت دیؔ گئی۔ لیکن چونکہ وہ اُس رجوع پر قائم نہ رہ سکا اور اُس نے شہادت کو چھپایا اِس لئے کچھ مہلت کے بعد جو اُس کے رُجوع کی وجہ سے تھی پکڑا گیا۔ اور اُس کا رجوع اُس کے اِس کلمہ سے معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری کے صفحہ 4 میں اِس طرح پر مذکور ہے۔ فان کان ما تقول حقّافسیملک موضع قدمی ھا تین۔ وقد کنتُ اعلم انّہ خارج ولم اکن اظنّ انّہٗ منکم۔ فلوانّی اعلم انّی اُخلص الیہ لتجشّمتُ لقاءہ۔ ولوکنتُ عندہ لغسلتُ عن قدمیہ۔ اس عبارت کا ترجمہ کرنے سے پہلے یہ بات ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جبکہ قیصر رُوم نے ابوسفیان کو جو تجارت کی تقریب سے مع اپنی ایک جماعت کے شام کے ملک میں وارد تھا اپنے پاس بلایا اور اُس وقت قیصر اپنے ملک کا سیر کرتا ہوا بیت المقدس میں یعنی یروشلم میں آیا ہوا تھا اور قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ابو سفیان سے جو اُس وقت کفر کی حالت میں تھا بہت سی باتیں پوچھیں۔ اور ابوسفیان نے اِس وجہ سے جو اُس دربار میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر بھی موجود تھا جو تبلیغ اِسلام کا خط لے کر قیصر روم کی طرف آیا تھا بجز راست گوئی کے چارہ نہ دیکھا کیونکہ قیصر نے اُن اُمور کے استفسار کے وقت کہہ دیا تھا کہ اگر یہ شخص واقعات کے بیان کرنے میں کچھ جھوٹ بولے تو اس کی تکذیب کرنی چاہیئے سو ابو سفیان نے پردہ دری کے خوف سے سچ سچ ہی کہہ دیا اور جس قدر قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کچھ حالات دریافت کئے تھے وہ سچائی کی پابندی سے بیان کر دیئے گو اُس کا دِل نہیں چاہتا تھا کہ صحیح طور پر بیان کرے مگر سر پر جو مکذبین موجود تھے وہ خوف دامنگیر ہوگیا اور جھوٹ بولنے میں اپنی رسوائی کا اندیشہ ہوا جب وہ سب کچھ قیصر رُوم کے رُوبرو بیان کرچکا تو اُس وقت قیصر نے وہ کلام کہا جو مندرجہ بالاعربی عبارت میں مذکور ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں جو تو کہتا ہے تووہ نبی جو تم میں پیدا ہوا ہے عنقریب وہ اِس جگہ کا مالک ہو جائے گا جس جگہ یہ میرے دونوں قدم ہیں اور قیصر نجوم کے علم میں بہت دسترس رکھتا تھا۔ اِس علم کے ذریعے سے بھی اُس کو معلوم ہوا کہ یہ وہی مظفر اور منصور نبی ہے جس کا توریت اور انجیل میں وعدہ دیا گیا ہے۔ اور پھر اُس نے کہا کہ مجھے تو معلوم تھا کہ وہ نبی عنقریب نکلنے والا ہے مگر مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے نکلے گا اور اگر میں جانتا کہ میں اُس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں کوشش کرتا کہ اُس کو دیکھوں۔ اور اگر میں اُس کے پاس ہوتا تو اپنے لئے یہ خدمت اختیار کرتا کہ اُس کے پیر دھویا کروں۔ فقط یہ وہ جواب ہے جو قیصر نے خط کے پڑھنے کے بعد دیا یعنی اُس خط کے پڑھنے کے بعد جس میں قیصر کو اُس کی تباہی اور ہلاکت کی شرطی دھمکی دی گئی تھی اور گو قیصر نے اَسلم تَسلم کی شرط کو جو خط میں تھی پورے طور پر ادا نہ کیا اور عیسائی جماعت سے علیحدہ نہ ہوا لیکن تاہم اُس کی تقریر مذکورہ بالا سے پایاجاتا ہے کہ اُس نے کسی قدر اِسلام کی طرف رجوع کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُس کو مہلت دی گئی۔ اور اُس کی سلطنت پر بکلی تباہی نہیں آئی اور نہ وہ جلد تر ہلاک ہوا۔ اب جب ہم ڈپٹی آتھم کے حال کو قیصر رُوم کے حال کے ساتھ مقابل رکھ کر دیکھتے ہیں تو وہ دونوں حال ایک دوسرے سے ایسے مشابہ پائے جاتے ہیں کہ گویا آتھم قیصر ہے یا قیصر آتھم ہے۔ کیونکہ ان دونوں نے شرطی پیشگوئی پر کسی حد تک عمل کرلیا اس لئے خدا کے رحم نے رفق اور آہستگی کے ساتھ ان سے معاملہ کیا اور اُن دونوں کی عمر کو کسی قدر مہلت دے دی۔ مگر چونکہ وہ دونوں خدا کے نزدیک اخفائے شہادت کے مجرم ٹھہر گئے تھے اور آتھم کی طرح قیصر نے بھی گواہی کو پوشیدہ کیا تھا۔ کیونکہ اُس نے بالآخر اپنے ارکانِ دولت کو اپنی نسبت بدظن پاکر اِن لفظوں سے تسلی دی تھی کہ وہ میری پہلی باتیں جن میں مَیں نے اِسلام کی رغبت ظاہر کی تھی اور تمہیں ترغیب دی تھی وہ باتیں میرے دل سے نہیں تھیں بلکہ میں تمہارا امتحان کرتا تھا کہ تم کِس قدر عیسائی مذہب میں مستحکم ہو

(تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحات 372 تا 376)

لیکھرام اور کسری

لیکھرام کا حال کسریٰ سے یعنی خسرو پرویز سے مشابہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط پہنچنے پر اُس نے بہت غصہ ظاہر کیا اور حکم دیا کہ اُس شخص کو گرفتار کرکے میرے پاس لانا چاہیئے۔ تب اُس نے صوبہ یمن کے گورنر کے نام ایک تاکیدی پروانہ لکھا کہ وہ شخص جو مدینہ میں پیغمبری کا دعوؔ یٰ کرتا ہے جس کا نام محمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کو بلا توقف گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔ اُس گورنر نے اِس خدمت کے لئے اپنے فوجی افسروں میں سے دو مضبوط آدمی متعین کئے کہ تا وہ کسریٰ کے اِس حکم کو بجا لاویں۔ جب وہ مدینہ میں پہنچے او ر اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ظاہر کیا کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ آپ کو گرفتار کرکے اپنے خداوند کسریٰ کے پاس حاضر کریں تو آپ نے اُن کی اِس بات کی کچھ پرواہ نہ کرکے فرمایا کہ میں اِس کا کَل جواب دُوں گا۔ دوسری صبح جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خداوند نے تمہارے خداوند کو (جس کو وہ بار بار خداوند خداوند کرکے پکارتے تھے) اُسی کے بیٹے شیرویہ کو اُس پر مسلط کرکے قتل کردیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب یہ لوگ یمن کے اُس شہر میں پہنچے جہاں سلطنت فارس کا گورنر رہتا تھا تو ابھی تک اُس گورنر کو کسریٰ کے قتل کئے جانے کی کچھ بھی خبر نہیں پہنچی تھی اس لئے اُس نے بہت تعجب کیا مگر یہ کہا کہ اِس عدول حکمی کے تدارک کے لئے ہمیں جلد تر کچھ نہیں کرنا چاہیئے جب تک چند روز تک پایۂ سلطنت کی ڈاک کی انتظار نہ کرلیں۔ سو جب چندروز کے بعد ڈاک پہنچی تو اُن کا غذات میں سے ایک پروانہ یمن کے گورنر کے نام نکلا جس کو شیرویہ کسریٰ کے ولی عہد نے لکھا تھا۔ مضمون یہ تھا کہ ’’خسرو میرا باپ ظالم تھا اور اُس کے ظلم کی وجہ سے اُمورِ سلطنت میں فساد پڑتا جاتا تھا اِس لئے میں نے اُس کو قتل کردیاہے۔ اب تم مجھے اپنا شہنشاہ سمجھو اور میری اطاعت میں رہو۔ اور ایک نبی جو عرب میں پیدا ہوا ہے جس کی گرفتاری کے لئے میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا اُس حکم کو بالفعل ملتوی رکھو‘‘۔ اور جیسا کہ ابھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ قیصر اور آتھم کا قصہ بالکل باہم مشابہ ہے ایسا ہی ہم اِس جگہ بھی اِس بات کے لکھنے کے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اسی طرح لیکھرام کا قصہ کسریٰ یعنی خسرو پرویز کے قصیّ سے نہایت شدید مشابہت رکھتا ہے کیونکہ جس طرح کسی ہندو نے جو اپنے تئیں نو مسلم قرار دیتا تھا لیکھرام کے پیٹ پر حربہ چلایا اسی طرح شیرویہ نے خسرو کے پیٹ پر حربہ چلایا۔ اور اُن دونوں واقعات لیکھرام اور کسریٰ قصّے اُس وقت خبر دی گئی تھی جبکہ کسی کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ ایساواقعہ عنقریب ہم سنیں گے۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں جو کچھ آتھم اور قیصر روم کو عذابِ الٰہی پیش آیا وہ جمالی رنگ میں تھا اور آتھم اور قیصر روم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ شرطی تھی اور اُس شرط کے موافق جبکہ وہ دونوں اُس شرط کے کسی قدر پابند ہوگئے اُن کو ایک تھوڑے عرصہ تک مہلت دی گئی تھی لیکن جو غیب گوئی لیکھرام اور کسریٰ یعنی خسرو پرویز کی نسبت کی گئی تھی وہ بلا شرط تھی اور یہ دونوں وقوعہ کسریٰ اور لیکھرام کے جلالی رنگ میں ظہور میں آئے تھے اور جیسا کہ تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسریٰ کا مارا جانا ایک بڑا معجزہ تھا کہ وہ سخت دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ایسا ہی اگر مسلمان چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ لیکھرام کا مارا جانا بھی ایک بڑا معجزہ تھا کیونکہ وہ بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن اور بدزبان تھا۔۔ ہاں کسریٰ اور لیکھرام میں یہ فرق تھا کہ کسریٰ ایک بادشاہ تھا جو اپنی عداوت کے جوش میں تلوار سے کام لے سکتا تھا اور لیکھرام ایک برہمن عوام ہندوؤں میں سے تھاؔ جس کے پاس بجز بدزبانی اور فحش گوئی اور نہایت قابلِ شرم گالیوں کے اور کچھ نہ تھا اور کسریٰ ہمارے سیّد و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر حملہ کرنا چاہتا تھا اور لیکھرام نے آنجناب کی مقدس شان اور راستبازی اور نبوت کے پاک چشمہ پر حملہ کرنا چاہا اِس لئے خدا نے جو اپنے پیاروں کے لئے غیرت مند ہے۔ کسریٰ کے واقعہ سےتیرہ سو 1300برس بعد پھر اپنے پاک نبی کی عزت اور راستبازی کی حمایت کے لئے لیکھرام کی موت سے وہ معجزہ دوبارہ دِکھلایا جو فارس کے پایہ تخت میں خاص ایوانِ شاہی میں شیرویہ کے ہاتھ سے دِکھلایا گیا تھا۔ اِس سے ہر ایک انسان کو سبق ملتا ہے کہ خدا کے پیاروں اور برگزیدوں کی عزت یا جان پر حملہ کرنا اچھا نہیں ہے۔

؎گندم از گندم بروید جوزجو
از مکافاتِ عمل غافل مشو

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحات 376 تا 378)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع لجنہ اماء اللہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2022