• 13 جولائی, 2025

پیشگوئی مصلح موعود کی تیسری علامت ’’وہ قربت کا نشان ہو گا‘‘

پیشگوئی مصلح موعود کی تیسری علامت
’’وہ قربت کا نشان ہو گا‘‘
یہ علامت بڑی شان کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات بابرکات میں پوری ہوئی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرکۃ الآراء تصنیف براھین احمدیہ کی اشاعت کے بعد مذہبی حلقوں میں تلاطم خیز طوفان آیا۔ اسلام مخالف مذاہب بالخصوص عیسائی اور آریہ لیڈران اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔ حقانیت اسلام و صداقت قرآن میں لکھی گئی کتاب نے انہیں مضطرب و بے چین کر دیا۔ قادیان کے آریہ بھی مخالفت اسلام میں پیش پیش تھے۔ ان حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت اور تائید حاصل کرنے کے لئے خصوصی دعاؤں اور چلہ کشی کی تحریک پیدا ہوئی۔ چنانچہ دعاؤں اور استخارہ کے بعد آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ آپ ہوشیار پور میں چلہ کریں۔

آپ 21 جنوری 1886ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ صرف تین آدمی تھے 1:حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب 2: حافظ شیخ حامد علی صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے پرانے خادم 3: فتح خان صاحب جو رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کے زمیندار دوست تھے۔ روانہ ہونے سے قبل آپ نے رئیس ہوشیار پور شیخ مہر علی صاحب جو آپ کے دوستوں میں سے تھے ان کو مناسب رہائش برائے چلہ کشی کا تحریر کر دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک مکان جو طویلہ کہلاتا تھا وہاں آپ کا انتظام کر دیا۔ آپؑ 21 جنوری 1886ء کو روانہ ہوئے۔ رات رسول پور قیام فرمایا اور 22جنوری 1886ء بروز جمعة المبارک ہوشیارپور پہنچے اور طویلہ کے بالاخانے میں قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے تینوں ساتھیوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں۔ اور خلوت نشینی میں اللہ تعالیٰ کے حضور مناجات شروع کیں۔ تنہائی کی عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان انکشافات ہوئے اور انہیں کی بنا پر آپ نے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار لکھ کر پیشگوئی مصلح موعود کا نشان بیان فرمایا۔یہ پیشگوئی بہت سے نشانات اور علامات کا مجموعہ تھی جو بڑی شان کے ساتھ پسر موعود حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی ذات با برکات میں پوری ہوئی۔

5، 6 جنوری 1944ء کی رات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر 13 ٹمپل روڈ لاہور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے گھر منکشف ہوا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں۔ چنانچہ آپ نے قادیان، ہوشیارپور، لاہور اور لدھیانہ میں جلسہ کر کے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ 20 فروری 1944ء کو آپ نے ہوشیار پور میں جلسے کے دوران مصلح موعود ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پیشگوئی مصلح موعود کی علامات بھی بیان فرمائیں اور اس کی تیسری علامت یوں بیان فرمائی:۔

تیسرے
’’وہ قربت کا نشان ہو گا‘‘

اس مضمون میں اس علامت کے حوالے سے تحریر کیا جا رہا ہے کہ کس طرح یہ علامت بھی بڑی شان کے ساتھ حضرت مصلح موعود ؓ کے وجود میں پوری ہو کر پیشگوئی کی صداقت جو دراصل زندہ خدا، زندہ رسولؐ، زندہ کتاب اور سچے مسیح موعود پر گواہ بنی ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ نے تیسری علامت یعنی ’’وہ قربت کا نشان ہو گا‘‘ بیان کرتے ہوئے اس کی تشریح میں فرمایا:۔
’’تیسرے وہ قربت کا نشان ہو گا۔ یعنی کچھ لوگ اس جماعت میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو گرانے اور جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے حملوں کا وہ دفاع کرے گا اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحیح مقام اور درجہ لوگوں پر ظاہر کر دے گا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 17 ص 165)

قربت کا نشان اپنے الفاظ کے لحاظ سے عظیم الشان حکمتیں رکھتا ہے اور اس سے جسمانی اور روحانی دونوں قربتیں مراد ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی قربت کا اعزازبھی ملا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ارجمند تھے اور روحانی قربت بھی حاصل ہوئی کہ آپ حضرت مسیح موعود کے جملہ دعاوی پر علی وجہ البصیرت ایمان لانے والے اور سلسلہ کے سچے مطیع و فرمانبردار تھے اور پھر خلیفۃ المسیح الثانی کے منصب پر فائز ہوئے۔یوں آپ کا وجود روحانی و جسمانی دونوں لحاظ سے قربت کا نشان ثابت ہوا۔ روحانی اور جسمانی قربتوں کے مقام پر فائز ہونے کے ساتھ آپ نے درحقیقت اس مقام کا حق ادا کیا کہ جس کی قربت حاصل تھی اس کے مقام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی بلکہ جب بھی کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو گرانے کی کوشش کی آپ فوراً اس حملہ آور کے سامنے مقام مسیح موعود کے دفاع کے لئے ننگی تلوار کے طور پر آگئے۔

جماعت میں افتراق ڈالنے کی کوشش
اوراس کا سد باب

حضرت مصلح موعود ؓ نے قربت کے نشان کی تشریح میں فرمایا تھا کہ کچھ لوگ جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو گرانے اور جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کریں گے اور مصلح موعود ان حملوں کا دفاع کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت اولیٰ میں بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی مقام کو گرانے اور جماعت میں افتراق ڈالنے کی خفیہ سازشیں کیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد وہ لوگ کھل کر سامنے آگئے اور جماعتی عقائد اور اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے اور خلافت احمدیہ سے الگ ہو گئے۔ان کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ اپنی تقریر فرمودہ 12 مارچ 1944ء بمقام لاہور میں بیان فرماتے ہیں:۔
’’لوگوں نے یہ سمجھا کہ حضرت مولوی صاحب تک ہی اِس سلسلہ کی زندگی ہے اِس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا مگر وہ خدائے واحدوقہار جس نے بانی سلسلہ احمدیہ کو خبردی تھی کہ تیرا ایک بیٹا ہوگا جو تیرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور دین اسلام کی شوکت قائم کرنے کا موجب ہوگا اُس نے مخالفوں کی اِس امید کو بھی خاک میں ملا دیا۔ آخر وہ وقت آگیا جب حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہوئی۔ اُس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ جماعت کے ایک برسراقتدار حصہ نے جس کے قبضہ میں صدرانجمن احمدیہ تھی، جس کے قبضہ میں خزانہ تھا اور جس کے زیر اثر جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ تھے کہنا شروع کردیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب جیسے سحرالبیان لیکچرار، مولوی محمد علی صاحب جیسے مشہور مصنف، شیخ رحمت اللہ صاحب جیسے مشہور تاجر، مولوی غلام حسین صاحب جیسے مشہور عالم جن کے سرحدی علاقہ میں اکثر شاگرد ہیں، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جیسے بارسوخ اور صاحب جائداد ڈاکٹر یہ سب ایک طرف ہوگئے اور اِن لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ایک بچہ کو بعض لوگ خلیفہ بناکر جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

وہ بچہ جس کی طرف ان کا اشارہ تھا میں تھا۔ اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے مجھے قطعاً علم نہیں تھا کہ میرے متعلق یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ میں جماعت کا خلیفہ بنوں۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے نہ میں اِن باتوں میں شامل تھا اور نہ مجھے کسی بات کا علم تھا۔ سب سے پہلے میرے کانوں میں یہ آواز شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش وئیر ہاؤس کی طرف سے آئی۔ میں نے سنا کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر سلسلہ کو تباہ کیا جارہا ہے۔ مجھے اُس وقت اُن کی یہ بات اتنی عجیب معلوم ہوئی کہ باہر نکل کر میں نے دوستوں سے پوچھا کہ وہ بچہ ہےکون جس کا آج شیخ رحمت اللہ صاحب ذکر کررہے تھے۔ وہ میری اس بات کو سُن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے وہ بچہ تم ہی توہو۔ غرض میں اِن باتوں سے اتنا بےبہرہ تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں زیر بحث ہوں اور میرے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت تباہ ہورہی ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی مشیّت یہی تھی کہ وہ مجھے دنیا کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود آگے کرے اور میرے سپرد جماعت کی نگرانی کا کام کرے۔ میں نے امن قائم رکھنے اور جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی بڑی کوشش کی مگر خداتعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے۔ آخر وہی ہوا جو اُس کا منشاء تھا۔ جوں جوں حضرت خلیفہ اوّل کی وفات نزدیک آتی گئی اِن لوگوں نے جماعت میں کثرت کے ساتھ پراپیگنڈا شروع کردیا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ جاری نہیں ہونا چاہئے۔ جس دن حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے دنیا نے کہا اَب یہ سلسلہ ختم ہوگیا کیونکہ جس شخص پر اِس سلسلہ کا تمام انحصار تھا وہ اٹھ گیا ہے۔ اُس دن جب مخالفوں کی زبان پر یہ تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ میں نے جماعت کو تفرقہ سے بچانے کے لئے مولوی محمدعلی صاحب سے گفتگو کی اور میں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی شخص کو خلیفہ مقرر کریں میں اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے اُن سے کہا کہ جب میں بیعت کرلوں گا تو وہ لوگ جو میرےساتھی ہیں وہ بھی میرے ساتھ ہی خود بخود بیعت کرلیں گے اور اس طرح تفرقہ پیدا نہیں ہوگا۔ مگر باوجود میری تمام کوششوں کے آخری جواب مولوی محمد علی صاحب نےیہ دیا کہ آپ جانتے ہیں جماعت والے کس کو خلیفہ مقرر کریں گے اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے۔ حالانکہ میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ جس دن عصر کی نماز کے وقت لوگوں نے میری بیعت کی اُسی دن صبح کے وقت میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ہمیں ضد نہیں کرنی چاہئے اگر وہ خلافت کو تسلیم کرلیں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کرلیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر اِن لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہلِ بیت نے اس امر کو تسلیم کرلیا۔ پھر میری یہ حالت تھی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے چند دن پہلے میں اُس مقام پرگیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کیا کرتے تھے اورمیں نے وضو کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ میری عمر اُس وقت اتنی چھوٹی نہ تھی مگر بڑی بھی نہ تھی۔ 25سال میری عمر تھی، میری والدہ موجود تھیں، میری بیوی موجود تھیں اور میرے بچے بھی تھے میں نے اُس وقت نیت کرلی کہ چونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری وجہ سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہورہا ہے اس لئے میں خاموشی سےکہیں باہر نکل جاؤں گا تاکہ میں تفرقہ کا باعث نہ بنوں۔ چنانچہ میں نے دعا کی کہ خدایا!میں اس جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والا نہ بنوں تُو میرے دل کو تقویت عطا فرما تا کہ میں پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقہ میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکل جاؤں اور میری وجہ سے کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔ اس کے بعد میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ کہیں نکل کر چلا جاؤں گا مگر خدا کی قدرت ہے دوسرے تیسرے دن ہی اچانک حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہوگئی اور میں اس جھگڑے میں پھنس گیا۔ تب جماعت کے غریب طبقہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کرلی اور وہ جو بڑے بڑے لوگ کہلاتے تھے جماعت سے الگ ہوگئے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے۔ انہوں نے وہاں سے روانہ ہوتے وقت ہماری عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو جاتے ہیں کیونکہ جماعت نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا لیکن تم دیکھ لوگے کہ دس سال کے عرصہ میں ان جگہوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہوجائے گا اور احمدیوں کے ہاتھ سے یہ تمام جائدادیں نکل جائیں گی۔ اس وقت میرے ہاتھ پر دوہزار کے قریب آدمیوں نے بیعت کی، باہر کی اکثر جماعتیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ ’’پیغام صلح‘‘ میں لکھا گیا کہ پچانوے فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے۔ مگر ابھی دو مہینے نہیں گزرے تھے بلکہ ابھی صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ساری کی ساری جماعت میری بیعت میں شامل ہوگئی اور پیغام صلح نے یہ لکھنا شروع کردیا کہ 95فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی ہمارے ساتھ۔ پھر میری مخالفت بھی تھوڑی نہیں ہوئی میرے قتل کی کئی بار کوششیں کی گئیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 17 ص 214 تا 216)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کا دفاع

آغاز سے ہی جماعت کے اندر اور باہر دونوں اطراف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو گرانے کی ناکام کوششیں ہوتی رہی ہیں۔حضرت مصلح موعود ؓ نے خلافت سے پہلے بھی اور منصب خلافت سنبھالنے کے بعد ان حملوں کا دلائل کے ساتھ دفاع کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقام کو آشکار کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا۔ اس کی چند مثالیں ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہیں۔

مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے

اس عنوان کے تحت آپ کا معرکۃ الآراء مضمون خلافت اولیٰ میں اپریل 1911ء کے رسالہ تشحیذالاذہان میں شائع ہوا۔ مضمون کے مسودہ کی اشاعت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو دکھانے کے بعد آپ کی اجازت سے ہوئی۔ یہ مضمون مخالفین احمدیت کے منفی پراپیگنڈے کا جواب تھا۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے آپ نے لکھا:۔
’’چند دنوں سے وطنؔ اورالمنیرؔ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح پر اعتراض کیا گیا ہے کہ آپ نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایک ذرا سے فرق پر اختلاف ڈلوایا اور لکھ دیا کہ ہم میں اصولی فرق ہے۔اسی طرح پیسہ اخبار میں کسی شوخ چشم نے ایک مضمون دیا ہے کہ امید ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اس فیصلہ کو واپس لیکر حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو باطل کر دیں گے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 1 ص 305)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس منفی پراپیگنڈا کا مدلل جواب لکھا اور قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی سے ثابت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سب ماموروں پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس میں کسی تفریق یا کمی بیشی کی اجازت نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والے حقیقی مومن نہیں ہو سکتے۔ مضمون کے آخر پر آپ نے تحریر فرمایا کہ ہم
’’بڑے شرح صدر کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے خدا کے مامور کو قبول کیا ہے اور اس کے ہر ایک حکم کو مدار نجات یقین کرتےہیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 1 ص 330)

2: کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے

انتخاب خلافت ثانیہ کے وقت بعض لوگوں نے خلافت حقہ احمدیہ سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ اس کی ضرورت سے بھی انکاری ہو گئے اور لوگوں کو اس کے خلاف ورغلانا شروع کیا۔ ان حالات کے تناظر میں حضرت مصلح موعودؓ نے منصب خلافت سنبھالنے کے ایک ہفتہ بعد 21 مارچ 1914ء کو ایک پر شوکت ٹریکٹ شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘۔ آپ نے اس کی وجہ تحریر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:۔
’’مجھے اس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں تفرقہ کے آثار ہیں اور بعض لوگ خلافت کے خلاف لوگوں کو جوش دلا رہے ہیں یا کم سے کم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خلیفہ ایک پریذیڈنٹ کی حیثیت میں ہو اور یہ کہ ابھی تک جماعت کا کوئی خلیفہ نہیں ہوا۔مگر میں اس اعلان کے ذریعہ سے تمام جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ خلیفہ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اور اس کی بیعت کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح حضرت خلیفہ اول کی تھی اور یہ بات بھی غلط مشہور کی جاتی ہے کہ جماعت کا اس وقت تک کوئی خلیفہ مقرر نہیں ہوا بلکہ خدا نے جسے خلیفہ بنانا تھا بنا دیا اور اب جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 2 ص 14)

آپ نے آیات قرآنی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے ثابت فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد خلافت کا قیام ضروری تھا اور خود حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے دور خلافت کے 6 سال اس بات پر شاہد ہیں اور خلیفہ اول ؓ اپنے زمانہ خلافت میں اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے نہ کہ انسان۔ بالکل اسی طرح خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے۔آپؓ نے فرمایا:۔
’’اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے۔خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے۔ اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا۔ اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور اگر سب کے سب خدا نخواستہ مجھے ترک کردیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 2 ص 18)

اسی ٹریکٹ میں آپ نے اس سلسلہ میں ہونے والے بعض اعتراضات کا رد کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئیوں سے ثابت کیا کہ آپ ہی موعود خلیفہ ہیں آپ نے فرمایا:۔
’’کیا تمہیں مسیح موعودؑ کی پیش گوئیوں پر اعتبار نہیں۔ اگر نہیں تو تم احمدی کس بات کے ہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے سبز اشتہار میں ایک بیٹے کی پیش گوئی کی تھی کہ اس کا ایک نام محمود ہو گا۔ دوسرا نام ’’فضل عمر‘‘ ہو گا اور تریاق القلوب میں آپ نے اس پیش گوئی کو مجھ پر چسپاں بھی کیا ہے۔ پس مجھے بتاؤ کہ عمر کون تھا۔ اگر تمہیں علم نہیں تو سنو وہ دوسرا خلیفہ تھا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 2 ص 16)

3: منصب خلافت

12 اپریل 1914ء کو عہد خلافت ثانیہ کی پہلی مجلس شوریٰ مسجد مبارک قادیان میں منعقد ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نمائندگان شوریٰ کے سامنے ابراھیمی دعا رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ کی روشنی میں منصب خلافت پر ایک معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جس میں مقام خلافت،فرائض خلافت اور تزکیہ نفوس کے طریق پر روشنی ڈالی اور پھر خلافت اور انجمن سے متعلق مسائل پر بحث فرمائی اور احباب جماعت پر مقام خلافت واضح فرمایا۔ خلیفہ کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’الغرض نبی کا کام بیان فرمایا: تبلیغ کرنا، کافروں کو مؤمن کرنا، مؤمنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر باریک در باریک راہوں کا بتانا، پھر تزکیہ نفس کرنا، یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں۔ اب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی کام اس وقت میرے رکھے ہیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 2 ص 30)

غیر مبائعین کے اس خیال پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہے اور خلیفہ عمومی نگرانی کے لئے انجمن کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے۔ اس پر آپ نے شدید تنقید کرتے ہوئے صحیح مسئلہ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’خلیفہ کا کام کوئی معمولی اور رذیل کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل اور امتیاز ہے جو اس شخص کو دیا جاتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے۔ تم خود غور کر کے دیکھو کہ یہ کام جو میں نے بتائے ہیں میں نے نہیں خدا نے بتائے ہیں کیا کسی انجمن کا سیکرٹری اس کو کر سکتا ہے؟ ان معاملات میں کوئی سیکرٹری کی بات کو مان سکتا ہے؟ یا آج تک کہیں اس پر عمل ہوا ہے؟ اور جگہ کو جانے دو یہاں ہی بتا دو کہ کبھی انجمن کے ذریعہ یہ کام ہواہے؟ ہاں چند وں کی یاد دہانیاں ہیں وہ ہوتی رہتی ہیں۔

یہ پکی بات ہے کہ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ کیلئے ضرور خلیفہ ہی ہوتا ہےکیونکہ کسی انجمن کے سیکرٹری کے لئے یہ شرط کہاں ہے کہ وہ پاک بھی ہو۔ ممکن ہے ضرورتاً عیسائی رکھا جاوے یا ہندو ہو جو دفاتر کا کام عمدگی سے کرسکے پھر وہ خلیفہ کیونکر ہو سکتا ہے؟

خلیفہ کے لئے تعلیم الکتاب ضروری ہے، اس کے فرائض میں داخل ہے سیکرٹری کے فرائض میں قواعد پڑھ کر دیکھ لو کہیں داخل نہیں۔ پھر خلیفہ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے اغراض و اسرار بیان کرے جن کے علم سے ان پر عمل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہوتی ہے۔ مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری انجمن کے سیکرٹری کے فرائض میں یہ بات ہے؟کتنی مرتبہ احکام ِ الہٰیہ کی حقیقت اور فلاسفی انجمن کی طرف سے تمہیں سکھائی گئی؟ کیا اس قسم کے سیکرٹری رکھے جا سکتے ہیں؟ یا انجمنیں اس مخصوص کام کو کرسکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔

انجمنیں محض اس غرض کیلئے ہوتی ہیں کہ وہ بہی کھاتے رکھیں اور خلیفہ کے احکام کے نفاذ کیلئے کوشش کریں۔ پھر خلیفہ کا کام ہے یُزَکِّیھِمْ قوم کا تزکیہ کرے۔ کیا کوئی سیکرٹری اس فرض کو ادا کرسکتا ہے؟ کسی انجمن کی طرف سے یہ ہدایت جاری ہوئی، یا تم نے سنا ہو کہ سیکرٹری نے کہا ہو کہ میں قوم کے تزکیہ کیلئے رورو کر دعائیں کرتا ہوں؟

میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ کام سیکرٹری کا ہے ہی نہیں اور نہ کوئی سیکرٹری کہہ سکتا ہے کہ میں دعائیں کرتا ہوں جھوٹا ہے جو کہتا ہے کہ انجمن اس کام کو کرسکتی ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی سیکرٹری یہ کام نہیں کرسکتا اور کوئی انجمن نبی کے کام نہیں کرسکتی۔ اگر انجمنیں یہ کام کرسکتیں تو خداتعالیٰ دنیا میں مأمور اور مرسل نہ بھیجتا بلکہ اس کی جگہ انجمنیں بناتا مگر کسی ایک انجمن کا پتہ دو جس نے کہا ہوکہ خدا نے ہمیں مأمور کیا ہے۔

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ30-31)

4: برکاتِ خلافت

خلافتِ ثانیہ کے پہلے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے جو تقاریر ارشاد فرمائیں وہ ’’برکاتِ خلافت‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہیں۔ پہلی تقریر میں آپ نے خلافت کے مقام، برکات اور فرائض کے حوالہ سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ انتخاب خلافت ثانیہ کے وقت جو فتنہ اور رخنہ اندازی کی کوشش ہوئی اس فتنہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و الہامات میں بھی ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فتنہ سے سلسلہ ٹوٹتا نہیں بلکہ بنتا ہے۔ مبارک ہے وہ انسان جو اس نکتہ کو سمجھے۔ آپ نے خلافت کی غیرمعمولی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومت یا دنیاوی عہدہ نہیں۔ خلیفہ کے دل میں تمام لوگوں کے دکھ درد بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ خلیفہ اور جماعت کے اس خوبصورت تعلق کو ان پُردرد الفاظ میں آپ نےبیان فرمایا:۔
’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سےروگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ
تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔

مگر ان کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کرسکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پربڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ158)

آپ نے اس تقریر میں بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت میں سلسلہ خلافت مقدر تھا۔ مزید برآں آپ نے اپنی خلافت کے ہونے کے بارہ میں 9 آسمانی شہادتیں بھی اس تقریر میں بیان فرمائیں جو آپ کی رؤیا پر مبنی تھیں جس میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے بارہ میں ہونے والے فتنے اور پھر آپ کے ذریعہ استحکام خلافت کی خبریں عطا کیں۔ یہ رؤیا آپ نے لوگوں کے سامنے بیان کئے ہوئے تھے اور ان کے گواہ بھی موجود ہیں۔ ان رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی خلافت کی خبر دی تھی۔ یوں آپ کے ذریعہ فتنہ خلافت کا قلع قمع بھی ہوا اور استحکام خلافت بھی ہوا۔

5: القول الفصل

اہل پیغام کے پہلے جلسہ سالانہ 1914ء کے موقع پر مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے جو حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی وفات کے وقت لندن میں تھے ’’اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیا اور پھر اس لیکچر کو ٹریکٹ کی صورت میں شائع کرواکر احمدی احباب میں تقسیم کیا گیا۔ 21جنوری 1915ء کو حضرت مصلح موعودؓ کو خواجہ کمال الدین صاحب کا یہ ٹریکٹ پڑھنے کا موقع ملا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ضروری سمجھا کہ اس میں اٹھائے گئے اعتراضات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب غلط عقائد کا جواب دیں تا احباب جماعت پر حقیقت آشکار ہوجائے اور کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ چنانچہ آپ نے اسی روز اس ٹریکٹ کا مفصل اور مدلل جواب تحریر فرمایا جو کہ ’’القول الفصل‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں خواجہ کمال الدین صاحب کے غلط خیالات کی تردید فرمائی۔ ان کے غلط خیالات کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت، مسئلہ خلافت، مسئلہ کفر اور غیر احمدیوں کی اقتدا میں نماز نہ پڑھنے کے حوالہ سے تھا۔

مسئلہ نبوت کی تشریح میں فرمایا کہ اس بارہ میں تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت فرمادی ہے کہ آپ مستقل نبوت جو بغیر کسی واسطہ کے ملتی ہے اس کے انکاری ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی اللہ کے مقام سے نوازا جو کہ آنحضرت ﷺ کی سچی اور کامل پیروی کے نتیجہ میں آپ کو ملی تھی۔ اپنی کتاب ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مسئلہ نبوت کی وضاحت فرمائی ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’مسئلہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود پر دو زمانے گزرے ہیں ایک تو وہ زمانہ تھا کہ آپ کو جب اللہ تعالیٰ کی وحی میں نبی کہا جاتا تو آپ اس پرانے عقیدہ کی بناء پر جو اس وقت کے مسلمانوں میں پھیلا ہوا تھا اپنے آپ کو نبی قرار دینے کی بجائے ان الہامات کے یہ معنی کرلیتے تھے کہ نبی سے مراد صرف ایک جزوی نبوت ہے۔ اور بعض دوسرے انبیاء پر جو مجھے فضیلت دی گئی ہے وہ بھی ایک جزوی فضیلت ہے اور جزوی فضیلت ایک غیر نبی کو نبی پر ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ ہر امر میں کسی نبی پر اپنے آپ کو افضل سمجھ لیتے تو اس سے یہ لازم آتا کہ آپ نبی ہیں کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ ایک نبی سے کمالات میں بڑھ جاتے لیکن پھر بھی نبی نہ بنتے۔ پس آپ عام مشہور عقیدہ کے ماتحت اپنی نبوت جزوی نبوت اور اپنی فضیلت جزوی فضیلت قرار دیتے رہے۔ لیکن بعد میں اللہ تعالی ٰ کی متواتر وحی نے آپ کو اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور آپ نے اپنے پہلے عقیدہ کو ترک کردیا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ281)

مسئلہ کفر کے حوالہ سے آپ نے بیان فرمایا کہ اس بارے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو مسئلہ نبوت کے بارہ میں بیان ہوچکا ہے پس جو حکم نبی کے انکار کے متعلق قرآن کریم میں ہے وہی حضرت مرزا صاحب کے منکر کی نسبت ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقة الوحی میں لکھا ہے کہ جو میرا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ میرے آقا حضرت محمد مصطفیؐ کا انکار کرتا ہے۔

غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہےکہ کسی مکفر مکذب کےپیچھے نماز نہ پڑھیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے خواجہ کمال الدین صاحب کے اس نظریہ کی تردید فرمائی کہ خلیفہ اوّلؓ بھی خلافت کے حوالہ سے ان کے نظریات کے مؤید تھے۔

6: حقیقة النبوة

’’القول الفصل‘‘ کی اشاعت کے بعد غیر مبائعین کے امیر مولوی محمد علی صاحب نے ایک رسالہ ’’القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار‘‘ کے نام سے شائع کیا جس میں القول الفصل کے سب مضامین کے بارہ میں تو نہیں مگر مسئلہ نبوت کے متعلق بحث کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کم تر کرنے کی کوشش کی گئی نیز حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں لکھا کہ میاں محمود فی الواقع مرزا صاحب کو حقیقی نبی مانتے ہیں۔ اس رسالہ کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی معرکة الاآراء کتاب ’’حقیقة النبوة‘‘ تصنیف فرمائی جو 3 مارچ 1915ء کو شائع ہوئی۔

آپ نے اپنی کتاب حقیقة النبوة کو تین فصلوں میں تقسیم فرمایا اور فصل اوّل میں آپ نے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا کہ آیا حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ پر دوزمانے آئے یا ہمیشہ آپ اپنی نبوت کو ایک ہی قسم کی خیال کرتے تھے۔ اس سوال کا جواب آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے لکھا اور بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے دعویٰ نبوت پر دوزمانے آئے ہیں چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا:۔
’’ہم نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ نبوت کے متعلق شروع سے ایک ہی رہا ہے یا اس میں کبھی تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت کیا ہے کہ اس عقیدہ میں 1900ء کے بعد تبدیلی ہوئی ہے اور سب سے آخری کتاب جس میں پہلے عقیدہ کا اظہار کیا گیا تھا تریاق القلوب ہے جو 1899ء کی ہے اور جو بعض موانعات کی وجہ سے 1902ء میں شائع ہوسکی۔ پس مسئلہ نبوت کے متعلق جب بحث ہو تو ہمیں ان تحریرات کو اصل قرار دینا ہوگاجو 1901ء سے لے کر وفات تک شائع ہوئیں۔

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ398)

فصل دوم میں حضرت مصلح موعودؓ نے مولوی محمد علی صاحب کے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا کہ کیا حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو آپ کی نبوت کس قسم کی تھی؟ اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے سب سے پہلے نبی کی تعریف بیان فرمائی اور ثابت کیا کہ قرآن کریم اور لغت عرب نے نبی کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے حضرت مسیح موعودؑ نبی ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:۔
’’ہم حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کی نبوت میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی اللہ کے لئے لغت و قرآن و محاورہ انبیائے گزشتہ سے لازمی معلوم ہوتی ہیں یعنی آپ کو کثرت سے امور غیبیہ سے خبر دی گئی اور پھر اہم تغیرات کے متعلق دی گئی جو انذار و بشارت دونوں حصوں پر مشتمل تھی اور پھر یہ کہ آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے نبی رکھا۔ پس آپ قرآن کریم و لغت و محاورہ انبیائے گذشتہ کے مطابق نبی تھے اور آپ کی صداقت کے ثابت ہوجانے کے بعد کوئی شخص آپ کی نبوت میں شک نہیں لاسکتا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ404)

مزید تحریر فرمایا:۔
’’چونکہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شخص براہ راست نبی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ آپ خاتم النبیین تھے اس لئے اب یہ بھی ضروری تھا کہ آپ اس بات کا بھی اعلان کرتے کہ میں پہلے انبیاء کے خلاف ایک نبی کی اتباع سے نبی ہوا ہوں اور مجھے جو کچھ ملا ہے آنحضرت ﷺ کے فیض سے ملا ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ410)

کتاب حقیقة النبوة کی فصل سوم میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر قرآن و حدیث سے مزید 20 دلائل درج فرمائے اور اس الزام کو ردّ فرمایا کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کو نبی مان کر نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے عشقِ مصطفٰی ﷺ کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:۔
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل حال کیا معلوم۔ اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمد ﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کرگئی ہے وہ میری جان ہے، میرا دل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے۔ اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خداتعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں۔ وہ خداتعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں۔ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ

؂ بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدہ کو جہاں تک ہوسکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 2 503)

سبحان اللہ! کیسا خوبصورت اظہار ہے عشق مصطفٰی ﷺ کا۔َ اللّٰھم صلّ علیٰ محمد وآل محمد وبارک وسلّم انک حمیدٌ مجید۔

مسئلہ نبوت کو سمجھنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب حقیقة النبوة کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کتاب کے پڑھنے کی تاکید بھی فرمائی تھی۔

7: چند غلط فہمیوں کا ازالہ

حقیقة النبوة ایک ضخیم اور مدلل کتاب حضرت مصلح موعودؓ نے تصنیف فرمائی تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد آپ نے اس کتاب کا اختصار ’’چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا تاکہ اس مضمون کی کثرت سے اشاعت ہوجائے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کرلیں کیونکہ ضخیم کتاب کی کثرت سے اشاعت ممکن نہیں ہوتی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے حوالے سے معترضین کی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور بیان فرمایا کہ:۔
’’میرا مذہب ہرگز یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہوئے۔ بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ شروع دعوے سے ایک سے ہی نبی تھے۔ ہاں پہلے آپ اپنے آپ کو جزوی نبی قرار دیتے تھے اور اپنے الہامات کی تاویل کرتے تھے۔ لیکن بعد میں الہامات میں جب بار بار آپ کو نبی قرار دیا گیا تو آپ نے ان الہامات کی تحریک سے اپنے اس عقیدہ کو بدلا کہ آپ جزوی نبی ہیں نہ کہ آپ کو جزوی نبی سے نبی بنادیا گیا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد3 صفحہ8)

کتاب کے آخر پر حضرت مصلح موعودؓ نے خلاصةً حضرت مسیح موعودؑ کے مقام نبوت کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا اور اپنی کتاب حقیقة النبوة کے مطالعہ کی بھی تحریک فرمائی:۔
’’مجھے خود اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رؤیا بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی تھے۔ پس میں آپ کو علیٰ وجہ البصیرت نبی مانتا ہوں نہ ایسا کہ آپ کوئی جدید شریعت لائے اور نہ ایسا کہ آپ آنحضرت ﷺ کی اتباع سے باہر تھے بلکہ ایسا کہ آپ کی سب زندگی قرآن کریم کی اتباع میں گزری۔ اور ایسا کہ آپ نے جو کچھ پایا آنحضرت ﷺ کی غلامی میں پایا اور اس سے آپ کی نبوت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اور آپ کا سب سے بڑا درجہ یہی تھا کہ آپ امت محمدیہ میں سب لوگوں سے زیادہ آنحضرت ﷺ کے فرمانبردار تھے۔ میں آخر میں یہ بھی ظاہر کردیتا ہوں کہ جن لوگوں نے نبوت مسیح موعودؑ کو سمجھنا ہو وہ میری کتاب حقیقة النبوة ضرور پڑھیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد3 صفحہ17)

8: ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب

ایک غیرازجماعت جو حضرت مسیح موعودؑ کی شخصیت اور تعلیمات سے متاثر تھے انہوں نے 13مارچ 1915ء کو سیکرٹری انجمن احمدیہ کے نام خط لکھ کر 5سوالات بھیجے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت خلیفة المسیح اس کے جوابات دیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے خط پڑھا تو مناسب جانا کہ ان سوالات کے جوابات خود ہی لکھوادیں۔ چنانچہ 9اپریل 1915ء کو آپ نے جوابات تحریر فرمائے جو 13اپریل کے الفضل میں شائع ہوگئے اور پھر آپ نے افادہ عام کے لئے پمفلٹ کی صورت میں شائع کروادئیے۔ پانچ سوالات دراصل ایک ہی قسم کے تھے جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے:۔

  1. اگر میں احمدیت کا اظہار کروں تو لوگ مجھے کافر سمجھیں گے۔
  2. احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اس طرح مجھے مسلم مساجد سے الگ ہونا پڑے گا۔
  3. احمدی نام اختیار کرنے سے مجھے تکلیف اٹھانی پڑے گی کیونکہ قرآن میں ہمارا نام مسلمان ہے۔
  4. قرآن وحدیث میں کسی جگہ مذکور نہیں کہ نجات کے لئے مسیح موعود اور مہدی کو اعلانیہ مانا جائے۔
  5. مذکورہ حالات میں میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ خفیہ طور پر ایمان رکھوں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ان سوالات کا اصولی جواب بھی دیا اور پھر الگ الگ تفصیل کے ساتھ بھی جوابات ارشاد فرمائے۔ آپ نے سوالات کا اصولی جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
’’میرے خیال میں ان سب سوالات کے جواب ہم صرف ایک سوال میں دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آیا حضرت مسیح موعودؑ خداتعالیٰ کی طرف سے تھے یا نہیں؟ اگر آپ حق پر نہ تھے تو ان سوالات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ جھوٹے آدمی کا ماننا خواہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر ہر طرح گناہ اور معصیت ہے۔ اور اگر آپ سچے تھے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور سچے تھے تو پھر بھی یہ سوال حل ہوجاتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی بیعت کرنے یا نہ کرنے، اپنے مخالفوں کے پیچھے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے وغیرہا سب مسائل کی بنا خداتعالیٰ کے الہامات پر رکھی ہے اور اپنی طرف سے ان مسائل پر کچھ نہیں لکھا۔ پس آپ کی صداقت ثابت ہوجانے کے بعد ایک دانا انسان کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ وہ ان سب باتوں کو قبول کرے کیونکہ ان کو رد کرنا خداتعالیٰ کے احکام اور اس کے فیصلہ کو رد کرنا ہے۔ اور ان کا قبول کرنا درحقیقت خداتعالیٰ کے فیصلہ کو قبول کرنا ہے۔ غرض کہ اصل جھگڑا صرف حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے متعلق ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا آپ خداتعالیٰ کی طرف سے تھے؟ اگر اس سوال کا جواب یہ ملے کہ ہاں خداتعالیٰ کی طرف سے تھے تو اب جو کچھ ان کا حکم ہے وہ ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد3 صفحہ22-23)

9: انوار خلافت

خلافت ثانیہ کے دوسرے جلسہ سالانہ منعقدہ دسمبر1915ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے حاضرین جلسہ سے چار معرکة الآراء خطابات فرمائے جو ’’انوار خلافت‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خطابات میں آپ نے مقام مسیح موعودؑ کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا اور احباب جماعت کو فتنوں سے بچنے کی تلقین فرمائی۔

27دسمبر 1915ء کی تقریر اوّل میں حضرت مصلح موعودؓ نے ’’اِسْمُھٗ اَحْمَدُ‘‘ کی تشریح و تفسیر بیان کرتے ہوئے ثابت فرمایا کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں اور آپ کا نام احمد تھا۔ آپ نے قرآن کریم سے 9دلائل دے کر ثابت فرمایا کہ اِسْمُھٗ اَحْمَدُ کی پیشگوئی سے مراد حضرت مسیح موعودؑ ہیں۔ آپؑ کا نام احمد تھا۔ اس کے ثبوت کے طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے دس ثبوت پیش فرمائے۔

27دسمبر بعد ظہر کی تقریر میں حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے مسئلہ کو کھول کر بیان فرمایا اور بعض اعتراضات کے جوابات دلائل کے ساتھ عطا کئے۔ آپ نے جماعتی عقائد کے حوالہ سے بعض مسائل سمجھنے اور ان پر عملدرآمد کی تلقین بھی فرمائی مثلاً غیرازجماعت کے پیچھے نماز پڑھنا منع ہے، غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا، غیراحمدیوں کو اپنی لڑکی نہ دینا وغیرہ۔

28دسمبر کی تقریر میں آپ نے استغفار کی تلقین فرمائی اور احباب جماعت کوفرمایا کہ قادیان آتے رہیں، فتنوں سے بچیں۔ خوارج وہ لوگ تھے جو مدینہ نہ آتے تھےاور وہ صحابہ اور حضرت عثمانؓ کے حالات کے واقف نہ تھے اس لئے فتنہ کا باعث بنے۔

30دسمبر کی تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرشن، بدھ، مسیح اور مہدی ہونے کے ثبوت تفصیل سے بیان فرمائے اور فرمایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو امتِ واحدہ بنانا تھا اس لئے ہر مذہب کے پیروکاروں کو آخری زمانہ میں کسی مقدس وجود کی خوشخبری سنائی گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کا بروز بناکر بھیجا اور ظلّی طور پر گزشتہ انبیاء کے ناموں سے سرفراز کیا تاکہ سب کو امتِ واحدہ بنادیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کےزیادہ نام یعنی کرشن، بدھ، مسیح، مہدی وغیرہ کیوں رکھے گئے؟ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی دس حکمتیں بھی بیان فرمائیں۔ یوں آپ نے مقام مسیح موعودؑ کا بھرپور انداز میں دفاع فرمایا۔

10: حقیقة الامر

نومبائعین کے امیر مولوی محمد علی صاحب کی ایک مطبوعہ چٹھی کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے 21ستمبر1918ء کو ’’حقیقة الامر‘‘ کے عنوان سے کتاب تصنیف فرمائی۔ اس میں بیان کردہ امور عقائد سلسلہ کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف سے قبل حضرت مصلح موعودؓ شدید بیماری سے گزرے تھے۔ آپ نے بیان فرمایا کہ بیماری کی حالت میں انسان کا دل نرم ہوجاتاہے خاص طور پر جب اسے گمان ہو کہ وہ جلد اللہ تعالیٰ سے ملنے والا ہے۔ اس وقت وہ اپنے غلط عقائد سے توبہ کرتا ہے اور درست عقائد کی طرف لوٹتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ اپنے عقائد اور مقام مسیح موعود کو ثابت کرنے میں مزید ثابت قدم ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے لکھا:۔
’’بجائے اس کے کہ یہ اوقات مجھے اپنے عقیدے سے متزلزل کردیتے یا موت کا سامنا میرے قدم کو لڑکھڑا دیتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِن عقائد پر میں نے اُس وقت کامل تسلی پائی اور ان کی اشاعت اور ان پر ثابت قدم رہنے کو میں اپنے لئے باعثِ مغفرت جانتا تھا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 4 صفحہ205)

مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا:۔
’’پس اگر بیماری نے عقائد کے متعلق کوئی تبدیلی پیدا کی ہے تو یہی کہ میں ان عقائد پر آگے سے بھی زیادہ یقین کے ساتھ قائم ہوں۔ اور واقعات نے اس پر شہادت دے دی کہ میں اپنی نفسانیت کی وجہ سے قائم نہیں ہوں بلکہ میرا دل اس بات پر مطمئن ہے کہ وہی حق بھی ہے۔ پس میں اس موقع سے فائدہ اٹھاکر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ بھی سچے دل سے ان تمام مخالفت کے سامانوں کو بھلاکر جو آپ کے دل کو مجھ سے نفرت دلانے کا باعث ہوئے ہوں اس امر پر غور کریں کہ خداتعالیٰ نے جس شخص کو نبی کہا ہے۔ نبی کریم ﷺ جسے نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں۔ پہلے بزرگ جسے نبی کہتے چلے آئے ہیں وہ خود فرماتا ہے کہ میں خدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں اور اس پر قائم ہوں جب تک کہ زندہ رہوں۔ اور جو کہتا ہے کہ میں صرف اس قسم کا نبی کہلانے سے منکر ہوں کہ گویا میں نئی شریعت لایا ہوں یارسول کریم ﷺ سے الگ ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 4 صفحہ206)

مولوی محمد علی صاحب نے اپنی اسی چٹھی میں لکھا تھا کہ اگر 12سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ کو خود نہ سمجھ سکے تو پھر کوئی آپؑ کے دعویٰ کو کس طرح سمجھ سکے گا۔ اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا کہ:۔
’’حضرت مسیح موعودؑ پرکبھی بھی کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ دعویٰ کو نہ سمجھ سکے ہوں۔ آپ شروع سے آخر تک اس مقام کو سمجھتے رہے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا ہے۔ ہاں صرف اس دعویٰ کے نام میں آپ احتیاط کرتے رہے ہیں۔ یعنی آیا اس کا نام نبوت رکھا جاوے یا محدثیت۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے اس بات کی صراحت نہ کی آپ اس کا نام محدثیت یا جزوی نبوت وغیرہ رکھتے رہے ہیں۔ لیکن بعد صراحت کے آپ اس امر پر قائم نہ رہے اور آپ نے اس مقام کا نام نبوت رکھ دیا۔ اور یہی بات ہے جو حضرت مسیح موعودؑ خود حقیقة الوحی میں تحریر فرماتے ہیں۔ اور اس بات میں آپ منفرد نہیں۔ پہلے انبیاءؑ کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا ہے۔ چنانچہ خود آنحضرت ﷺ جو سید وُلدِآدم تھے ایک عرصہ دراز تک حضرت موسٰیؑ اور حضرت یونسؑ پر اپنے آپ کو فضیلت دینے سے روکتے رہے۔ حالانکہ بعد میں آپ نے فرمایا کہ لَوْ کَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ مَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ

(الیواقیت والجواھر جلد2 صفحہ 23 مطبوعہ مصر 1321ھ)

اور فرمایا

اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ

(ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی ﷺ)

پس اگر آپ ذرا بھی تدبر سے کام لیں تو ان دو نبیوں پر اپنے آپ کو فضیلت نہ دینے کا بھی وہی باعث تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کے لئے اپنے مقام کا نام نبوت نہ رکھنے کا باعث ہوا اور وہ لوگوں کے رائج الوقت خیالات کا حتی الوسع احترام کرنا اور دین کے معاملہ میں جلد بازی سے کام نہ لینا تھا۔ اور یہی وہ صفت ہے جو متقی اور غیر متقی میں تمیز کردیتی ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 4 صفحہ211)

قارئین کرام!

حضرت مصلح موعودؓ کی ذات بابرکات میں پیشگوئی مصلح موعود کی علامت ’’وہ قربت کا نشان ہوگا‘‘ کس شان کے ساتھ پورا ہوا اس کی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓ تمام عمر اندرونی و بیرونی فتنوں کی قلعی کھولتے رہے اور ان کے سدّباب کے لئے کوششیں فرماتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ مقام ِ مسیح موعودؑ اور درست عقائد سلسلہ کی ترویج کے لئے مصروف عمل رہے نیز جن لوگوں نے مقام مسیح موعود کو گرانے یا بگاڑنے کی کوشش کی یا عقائد مسیح موعود میں رخنہ اندازی کی ان کا دلائل کے ساتھ منہ توڑ جواب دیا۔ آخر کیوں نہ کرتے؟ آپ ’’قربت کا نشان‘‘ جو تھے۔

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

(ایم۔ایم۔ طاہر)

پچھلا پڑھیں

افضل الانبیاء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2022