کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 34
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادار کٹھے کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں
- نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ الله تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور الله تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پرمقدم کرلے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لئے طیار ہو جائے جب یہ حالت انسان میں پیدا ہوجائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچا اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھلاتا اس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں۔
بہت سی مخلوق ایسی ہے کہ لوگ ان کو مومن اور راست باز سمجھتے ہیں مگر آسمان پر ان کا نام کافر ہے۔ اس واسطے حقیقی مومن اور راستباز وہی ہے جس کا نام آسمان پر مومن ہے۔ دنیا کی نظر میں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ کہلا تا ہو۔ حقیقت میں یہ بہت ہی مشکل گھاٹی ہے کہ انسان سچا ایمان لاوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل اخلاص اور وفاداری کا نمونہ د کھلاوے۔ جب انسان سچا ایمان لاتا ہے تو اس کے بہت سے نشانات ہو جاتے ہیں۔ قرآن شریف نے سچےمومنوں کی جو علامات بیان کی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں۔ ان علامات میں سے ایک بڑی علامت جو حقیقی ایمان کی ہے وہ یہی ہے کہ جب انسان دُنیا کو پاؤں کے نیچے کچل کر اس سے اس طرح پر الگ ہوجاتا ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی سے باہر آجاتا ہے۔ اس طرح پر جب انسان نفسانیت کی کینچلی سے باہر آ جاتا ہے تو وہ مومن ہوتا ہے اور ایمان کامل کے آثار اس میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129) یعنی بے شک الله تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں یعنی محسنین ہوتے ہیں۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 365-366 ایڈیشن 2016ء)
- میں ابھی جماعت میں بزدلی کو دیکھتا ہوں اور جب تک یہ بزدلی دور نہ ہو اور عبد اللطیف کا ساایمان پیدا نہ ہو۔ یقیناً یاد رکھو کہ وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ (البقرة: 10) میں داخل ہے۔ مومنوں میں وہ اس وقت داخل ہوں گے جب وہ اپنی نسبت یہ یقین کر لیں گے کہ ہم مُردے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب دشمنوں کے مقابلہ پر جاتے تھے وہ ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا گھوڑوں پر مُردے سوار ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اب ہم کو موت ہی اس میدان سے الگ کرے گی۔
اللہ تعالیٰ لاف و گزاف کو پسند نہیں کرتا وہ دل کی اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ اس میں ایمان کا کیا رنگ ہے۔ جب ایمان قوی ہوتو استقامت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی جان و مال کو ہرگز اس ایمان کے مقابلے میں عزیز نہیں رکھ سکتا اور استقامت ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا لیکن جب استقامت ہوتی ہے تو پھر انعامات الٰہیہ کا دروازہ کُھلتا ہے دعا ئیں بھی قبول ہوتی ہیں، مکالمات الٰہیہ کا شرف بھی دیا جا تا ہے یہاں تک کہ استقامت والے سے خوارق کا صدورہونے لگتا ہے۔ ظاہری حالت اگر اپنی جگہ کوئی چیز ہوتی اور اس کی قدروقیمت ہوتی تو ظاہر داری میں تو سب کے سب شریک ہیں عام مسلمان نمازوں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک شرف اور بزرگی اندرونہ سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ کی فضیلت اور بزرگی ظاہری نماز اور اعمال سے نہیں ہے بلکہ اس کی فضیلت اور بزرگی اس چیز سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ حقیقت میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شرف اور عُلُوّ دل ہی کی بات سے مخصوص ہے مثلا ایک شخص کے دو خدمتگار ہوں اور ان میں سے ایک خدمت گار تو ایساہو جو ہر وقت حاضر رہے اور بڑی جانفشانی سے ہر ایک خدمت کے کرنے کو حاضر اور طیار رہے اور دوسرا ایسا ہے کبھی کبھی آجاتا ہے۔ ان دونوں میں بہت سے بڑا فرق ہے جو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے آقا بھی خوب جانتا ہے کہ یہ محض ایک مزدور ہے جو دن پورے ہو جانے پر تنخواہ لینے والا ہے اور اسی کے لیے کام کرتا ہے اب صاف ظاہر ہے کہ اس کے نزدیک قدرو قیمت اور محبت اسی سے ہوگی جو محنت اور جانفشانی سے کام کرتا ہے نہ کہ اس مزدور سے۔
پس یاد رکھو کہ وہ چیز جو انسان کی قدر و قیمت کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑ ھاتی ہے وہ اس کا اخلاص اور وفاداری ہے جو وہ خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے ورنہ مجاہدات خشک سے کیا ہوتا ہے؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے ایسے لوگ بھی مجاہدات کرتے تھے جو چھت سے رسہ باندھ کر (اپنے) آپ کو ساری رات جاگنے کے لیے لٹکار کھتے تھے لیکن کیا وہ ان مجاہدات سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ ہو گئے تھے؟ ہر گز نہیں۔#
نامرد، بزدل، بے وفا جوخدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں ہے۔ ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بناء پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے۔ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38)۔ ابراہیم وہ جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی۔ آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کومنظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے لیے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بےآب و دانہ جنگل میں چھوڑ آ۔ انہوں نے فی الفور اس کو قبول کر لیا ہر ایک ابتلا کو انہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گویا عاشق الله تھا۔ درمیان میں کوئی نفسانی غرض نہ تھی۔ اسی طرح پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ابتلاء پیش آئے۔خویش و اقارب نے مل کر ہر قسم کی ترغیب دی کہ اگر آپ مال و دولت چاہتے ہیں تو ہم دینے کو طیار ہیں اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو اپنا بادشاہ بنا لینے کو تیار ہیں اگر بیویوں کی ضرورت ہے تو خوبصورت بیویاں دینے کو موجود ہیں مگر آپ کا جواب یہی تھا کہ مجھے الله تعالیٰ نے تمہارے شرک کے دور کرنے کے واسطے مامور کیا ہے جو مصیبت اور تکلیف دینی چاہتے ہودے لو میں اس سے رک نہیں سکتا کیونکہ یہ کام جب خدا نے میرے سپرد کیا ہے پھر دنیا کی کوئی ترغیب اور خوف مجھ کو اس سے ہٹا نہیں سکتا۔ آپ جب طائف کے لوگوں کوتبلیغ کرنے گئے توان خبیثوں نے آپ کے پتھر مارے جس سے آپ دوڑتے دوڑتے گر جاتے تھے لیکن ایسی مصیبتوں اور تکلیفوں نے آپ کو اپنے کام سے نہیں روکا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کے لیے کیسی مشکلات اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے اور کیسی مشکل گھڑ یاں ان پر آتی ہیں مگر باوجود مشکلات کے ان کی قدر شناسی کا بھی ایک دن مقرر ہوتا ہے اس وقت ان کا صدق روز روشن کی طرح کھل جاتا ہے اور ایک دنیا ان کی طرف دوڑتی ہے۔
عبد اللطیف کے لیے وہ دن جواس کی سنگساری کا دن تھا کیسا مشکل تھا وہ ایک میدان میں سنگساری کے لیے لایا گیا اور ایک خلقت اس تماشا کو دیکھ رہی تھی مگر و ہ دن اپنی جگہ کس قدر، قدر و قیمت رکھتا ہے۔ اگر اس کی باقی ساری زندگی ایک طرف ہو اور وہ دن ایک طرف، تو وہ دن قدر و قیمت میں بڑھ جاتا ہے زندگی کے یہ دن بہرحال گذرہی جاتے ہیں اور اکثر بہائم کی زندگی کی طرح گذرتے ہیں لیکن مبارک وہی دن ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت و وفا میں گذرے۔ فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس لطیف اور عمدہ غذائیں کھانے کے لیے اور خوبصورت بیویاں اور عمدہ عمدہ سواریاں سوار ہونے کو رکھتا ہے بہت سے نوکر چاکر ہر وقت خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں مگر ان سب باتوں کا انجام کیا ہے؟ کیایہ لذتیں اور آرام ہمیشہ کے لیے ہیں؟ ہرگز نہیں ان کا انجام آخر فنا ہے۔ مردانہ زندگی یہی ہے کہ اس زندگی پر فرشتے بھی تعجب کریں۔ وہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اس کی استقامت، اخلاص اور وفاداری تعجب خیز ہو۔ خدا تعالیٰ نامردکو نہیں چاہتا۔ اگر زمین و آسان بھی ظاہری اعمال سے بھر دیں لیکن ان اعمال میں وفا نہ ہوتو ان کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ کتاب اللہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک انسان صادق اور وفادار نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی نمازیں بھی جہنم ہی کو لے جانے والی ہوتی ہیں۔ جب تک پورا وفادار اور مخلص نہ ہو ریا کاری کی جڑ اندر سے نہیں جاتی ہے۔ لیکن جب پورا وفادار ہوجاتا ہے اس وقت اخلاص اور صدق آتا ہے اور وہ زہریلا مادہ نفاق اور بزدلی کا جو پہلے پایا جاتا ہے دور ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ382-385 ایڈیشن 2016ء)
نفس کے حقوق
- یادرکھو الله تعالیٰ روح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے وہ ظاہری اعمال پرنظر اور نگاہ نہیں کر تاوہ ان کی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان اعمال کی تہہ میں خودغرضی اور نفسانیت ہے یا الله تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص مگر انسان بعض وقت ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یا وہ تہجد و اشراق پڑھتا ہے بظاہر ابرار واخیار کے کام کرتا ہے تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو تو پوست پسند ہیں۔
یہ پوست اور قشر ہے الله تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو بے و فا آدمی کتے کی طرح ہے جو مردار دنیا پرگرے ہوئے ہوتے ہیں وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہیں، لیکن افعال ذمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیده بد چلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں جو نمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں ان نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائدہ؟
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 364-365 ایڈیشن 2016ء)
- ایک استفسار کہ جواب میں کہ آج کل کے پیر اور گدی نشین وظائف وغیرہ اور مختلف قسم کے اَور اد بتاتے ہیں۔ آپ کا کیا ارشاد ہے؟
فرمایا کہ:۔ مومن جو بات سچے یقین سے کہے وہ ضرور مؤثر ہوتی ہے کیونکہ مومن کا مطہر قلب اسرار الٰہی کا خزینہ ہے جو کچھ اس پاک لوح انسان پر منقش ہوتا ہے وہ آئینہ خدانما ہے۔ مگر انسان جب ضعفِ بشریت سے سہوو گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر ذرہ بھی اس کی پروا نہیں کرتا تو دل پر سیاہ زنگ بیٹھ جاتا اور رفتہ رفتہ قلب انسانی کی خشیتِ الہٰی سے گداز اور شفاف تھا سخت اور سیاہ ہوتا جاتا ہے۔ مگر جونہی انسان اپنی مرضِ قلب کو معلوم کر کے اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور شب وروز نماز میں دعائیں، استغفار وزاری وقلق جاری رکھتا ہے اور اس کی دعا ئیں انتہا کو پہنچتی ہیں تو تجلیاتِ الہٰی اپنے فضل کے پانی سے اس ناپاکی کو دھو ڈالتی ہیں اور انسان بشرطیکہ ثابت قدم رہے ایک قلب لے کر نئی زندگی کا جامہ پہن لیتا ہے گویا کہ اس کا تو لدثانی ہوتا ہے۔
دو زبردست لشکر ہیں جن کے درمیان انسان چلتا ہے ایک لشکر رحمٰن کا دوسرا شیطان کا۔ اگر یہ لشکر رحمن کی طرف جھک جاوے اور اس سے مدد طلب کرے تو اسے بحکمِ الہٰی مدد دی جاتی ہے اور اگر شیطان کی طرف رجوع کیا تو گناہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ گناہ کی زہریلی ہوا سے بچنے کے لئے رحمٰن کی حفاظت میں ہو جاوے۔ وہ چیز جو انسان اور رحمٰن میں دوری اور تفرقہ ڈالتی ہے وہ فقط گناہ ہی ہے جو اس سے بچ گیا اس نے الله تعالیٰ کی گود میں پناہ لی۔ دراصل گناہ سے بچنے کے لیے دوہی طریق ہیں۔ اوّل یہ کہ انسان خود کوشش کرے۔ دوسرے الله تعالیٰ سے جو زبر دست ما لک و قادر ہے استقامت طلب کرے یہاں تک کہ اسے پاک زندگی میسر آوے اور یہی تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 145-147 ایڈیشن 2016ء)
بنی نوع کے حقوق
- انسانی زبان کی چھُری تو رک سکتی ہی نہیں۔ جب خدا کا خوف کسی دل میں نہ ہو۔ انسانی زبان کی بے با کی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کا دل سچے تقویٰ سے محروم ہے۔ زبان کی تہذیب کا ذریعہ صرف خوفِ الٰہی اور سچا تقویٰ ہے۔ ان کی گالیوں پر ہمیں کیا افسوس ہو۔ انہوں نے تونہ خدا کو سمجھا اورنہ حق العبادکو۔ ان کو خبرہی نہیں کہ زبان کس چیز سے رُکتی ہے۔
تمام قوت اور توفیق خداہی کو ہے۔ اور اس کی عنایت اور نصرت سے ہی انسان کو کچھ لکھ پڑھ سکتا ہے۔ شایداس کتاب کے خاتمہ کے لکھے جانے سے اس قوم کی قوت وہمت اور دلائل کا خاتمہ ہوجاوے۔
میں نے کل سوچا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ جب کوئی صادق خدا کی طرف سے آتا ہے تو اس کو لوگ کتوں کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ اس کی جان، اس کا مال، اس کی عزت و آبرو کے درپے ہو جاتے ہیں۔ مقدمات میں اس کو کھینچتے ہیں۔ گورنمنٹ کو اس سے بدظن کرتے ہیں غرض ہر طرح سے جس طرح ان سے بن پڑتا ہے اور تکلیف پہنچاسکتے ہیں اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ ہر پہلو سے اس کے استیصال کرنے پر آمادہ اور ہر ایک کمان سے اس پر تیر مارنے کو کمر بستہ ہوتے ہیں۔ چا ہتے ہیں کہ ذبح کر دیں اورٹکڑے ٹکڑے کر کے قیمہ کردیں۔ ادھر تو یہ جوش اٹھتا ہے مگر دوسری طرف اس کے پاس ہزار در ہزار لوگ آتے ہیں۔ شرک و بدعت میں مبتلا ہوتے اور حق اللہ انسان کو دیا جاتا ہے مگر ان میں مولویوں کو اس امر کی پروا نہیں۔ ہزاروں کنجر اور لنگوٹی پوش فقیر بنتے اور خلق اللہ کو گمراہ کرتے ہیں مگر ان لوگوں کوقتل اور کفر کافتویٰ کوئی نہیں د یتا ان کی ہر حرکت بدعت اور شرک سے پُر ہوتی ہے۔ ان کا کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جو سراسر اسلام کے خلاف نہ ہو۔ مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ ان کے لیے کسی دل میں جو ش نہیں اٹھتا غرض اس میں میں سوچتا تھا کہ کیا حکمت ہے تو میری سمجھ میں آیا کہ الله تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ صادق کا ایک معجزہ ظاہر کرے۔ کہ باوجود اس قسم کی ممانعت کی اور دشمن کے تیر وتبر کے چلانے کے صادق بچایا جاتا اور اس کی روز افزوں ترقی کی جاتی ہے خدا کا ہاتھ اسے بچاتا اور اس کو شاداب و سر سبز کرتا ہے۔ خدا کی غیرت نہیں چاہتی کہ کاذب کو بھی اس معجزہ میں شریک کرے۔ اسی و اسطے اس کی طرف سے دنیا کے دلوں کو بے پروا کر دیتا ہے۔ گویا اس جھوٹےکی کسی کو یہ پروا نہیں ہوتی۔ اس کا وجود دلوں کو تحریک نہیں دے سکتا۔مگر بر خلاف اس کے صادق کا وجود تباہ ہونے والے دلوں کو بے قرار اور بے چین کر کے ایک رنگ میں ایک طرح سے خبر دیتا ہے اور ان کے دل بے قرار ہوتے ہیں۔ کیونکہ دل اندرہی اندر جانتے ہیں کہ یہ شخص ہمارا کاروبارتباہ کرنے آیا ہے۔ اس واسطے نہایت اضطراب کی وجہ سے اس کے ہلاک کرنے کو اپنے تمام ہتھیاروں سے دوڑ تے ہیں مگر اس کا خدا خود محافظ ہوتا ہے۔ خدا خود اس کے واسطے طاعون کی طرح واعظ بھیجتا اور اس کے دشمنوں کے واعظوں پر اسے غلبہ دیتا ہے۔ وہ خدا کے واعظ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اب دیکھیے کہ اتنے لوگ جو ہر جمعہ کو جن کی نوبت اکثر پچاس ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے انکو کون بیعت کے لیے لاتا ہے؟ یہی طاعون کا ڈنڈا ہے جو ان کو ڈرا کر ہماری طرف لے آتا ہے ورنہ کب جاگنے والے تھے اسی فرشتہ نے ان کو جگایا ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 244-246 ایڈیشن 2016ء)
- مستورات کا ذکر چل پڑا۔ ان سے متعلق احمدی احباب میں سے ایک سر برآورده ممبر کاذ کر سنایا کہ ان کے مزاج میں اوّل سختی تھی۔ عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیں اور ذ راوہ نیچے اتر تیں تو ان کو مارا کرتے لیکن شریعت میں حکم ہے عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النِّساء: 20) نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقو یٰ کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ قصاب کی طرح برتاؤ نہ کرے کیونکہ جبتک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا مجھ پر بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ عورتوں کو پھراتے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا علاج پھرانا ہے جب ان کی طبیعت زیا دہ پریشان ہوتی ہے تو بدیں خیال کہ گناہ نہ ہو کہا کرتا ہوں چلو پھر ا لاؤں اَور بھی عورتیں ہمراہ ہوتی ہیں۔
پھر خدا تعالیٰ کے مکالمہ اور مخاطبہ کی نسبت ذکر پر فرمایا کہ :۔
مجازی عدالتوں کی طرف سے جو ایک لقب انسان کو ملتا ہے تو اسے کتنا فخر ہوتا ہے۔ ستارۂ ہند لقب وغیرہ بھی ملتے ہیں تو کیا اب حقیقت میں ان لوگوں میں وہ خواص ہوتے ہیں؟ جولقب ان کو ملتا ہے صرف استعارہ ہوتے ہیں۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ252 ایڈیشن 2016ء-حاشیہ)
(ترتیب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد، لٹویا)