رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ ﴿۱۱۸﴾ۚۖفَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّ نَجِّنِیۡ وَ مَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ
(الشعراء: 118-119)
ترجمہ: اے میرے ربّ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ پس میرے درمیان اور ان کے درمیان واضح فیصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور اُن کو بھی جو مومنوں میں سے میرے ساتھ ہیں۔
یہ حضرت نوح عليه السلام کی مکذب قوم پر فتح حاصل کرنے کی دعا ہے۔
ہمارے پیارے قابلِ صد احترام آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں
رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ ﴿۱۱۸﴾ۚۖفَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّ نَجِّنِیۡ وَ مَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ – انبیاء اور ان کی جماعتوں کا اصل ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس زمانے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرما دیا ہے کہ ہماری کامیابی، ہماری فتوحات دعا کے ذریعے سے ہونی ہیں۔ نہ کہ کسی ہتھیار سے، نہ کسی احتجاج سے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر36 جدید ایڈیشن ربوہ)
نہ کسی اور ذریعے سے۔ پس دعاؤں کو مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانا یہی ہمارا فرض ہے اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
(خطبہ جمعہ 10؍ستمبر 2010ء)
(مرسلہ:مریم رحمٰن)