• 6 مئی, 2025

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 23)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط 23

ارشادات برائے بدر

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے نکلا جو اکڑ اکڑ کر چلتا تھا اور صاف ظاہر ہے کہ اس سے الله تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا کہ یہ وضع خداوند تعالیٰ کی نگاہ میں معیوب ہے مگر اس وقت محبوب ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی شان اور شوکت کا اظہار اور فریق مخالف پر ایک رعب پیدا ہو پس ایسی بہت سی مثالیں اور نظیریں ملیں گی جن سے آ خر کار جا کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بالکل صحیح ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ271-272 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں یہی رہا ہے کہ وہ پیشگوئیوں کےدیئے جانے پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر سچا ایمان رکھ کر بھی دعاؤں کے سلسلہ کو ہر گز نہ چھوڑتے تھے۔ اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غناءِ ذاتی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا کی شان لَا يُدْرَك ہے اور یہ سوءِ ادب ہے کہ دعانہ کی جاوے۔ لکھاہے کہ بدر کی لڑائی میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اضطراب سے دعا کر رہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ حضور! اب دعا نہ کریں خدا تعالیٰ نے آپ کوفتح کا وعدہ دیا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مصروف رہے۔

بعض نے اس پر تحریر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ نہ تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت بہت بڑھی ہوئی تھی اور ہر کہ عارف تر باشد خائف تر باشد۔ وہ معرفت آپ کو اللہ تعالیٰ کے غناء ِذاتی سے ڈراتی تھی۔ پسں دعا کا سلسلہ ہرگز چھوڑنا نہیں چاہیے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ67 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• خدا کا فضل ہے اسی طرح کے اشتہارات جو مخلافین کی طرف سے شائع ہوتے ہیں یہ خدا کی کارروائی میں مضر معلوم نہیں ہوتے کیونکہ جب تک تپش نہ ہو بارش نہیں ہوتی۔ ہم سب پر بدظنی نہیں کرتے انہیں میں سے لوگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم اول مخالف تھے گالیاں دیتے تھے مگر اب ایک راہ چلتے سے ایک اشتہار دیکھ کر بیعت کرتے ہیں اس سے پیشتر بھی یہ کارروائیاں چپ چاپ نہیں ہوئیں۔ مکہ میں کیا ہوتا رہا خدا تعالیٰ تماشا دیکھتا ہے کیا کفار امن سے رہتے تھے وہ بھی ہمیشہ ہر وقت لڑائیوں اور فسادوں میں رہتے تھے ابوجہل ہی کو دیکھو کہ بدر کی جنگ میں مباہلہ بھی کر لیا اَللّٰھُمَّ مَنْ كَانَ مِنَّآ اَقْطَعَ لِلرَّحْمِ وَاَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ فَاَحِنْهُ الْيَوْمَ یعنی ہم دونوں میں سے جو زیاد قطع رحم کرتا ہے اور زمین میں فساد ڈالتا ہے اس کو آج ہی ہلاک کر پھر اسی دن وہ قتل ہو گیا اس کوتو یہی خیال ہو گا کہ اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے فساد برپا کر دیا ہے بھائی بھائی سے جدا کر دیا ہے اور ہر روز کا فتنہ برپا ہے لوگ آرام میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے ناحق ان کو چھیڑ دیا ہے ان کا اسی بنا پر یہ خیال تھا کہ یہ ضرور مفسد ہے۔

ایک فتنہ لعنت ہوتا ہے اور ایک فتنہ رحمت ہوتا ہے کوئی نبی نہیں آیا جس نے فتنہ نہیں ڈالا ہمیشہ نوبت جدائی اور فساد کی پہنچتی رہی۔ پھر آخر انہی میں سے جو نیک تھے اللہ تعالیٰ ان کو لے آتارہا۔ دنیا میں ہمارے اسی سلسلہ کے متعلق گھر گھر شور ہے بعض آدی رافضیوں سے بڑھ گئے ہیں لعنت کی تسبیح رات دن پھیرتے ہیں اور انہی مخالفوں میں سے بعض ایسے نکلے ہیں کہ جان قربان کرنے کو تیار ہیں ہم تو الله تعالیٰ سے شرمنده ہیں ہماری طرف سے کوشش ہی کیا ہوئی ہے آسمان پر ایک جوش ہے وہی کشاں کشاں لوگوں کو لا رہا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ371-372 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• یہ جو اعتراض کیا جا تا ہے کہ بعض مخالف اسلام بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے۔ دیکھو ابوجہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر مخالف اعتراض نہ کرتے تو قرآن شریف کے تیس سپارے کہاں سے آتے۔ جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے۔ ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں اور مخالفت کرتے ہیں ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے۔ اب اگر مہر علی شاہ اتنا شور نہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھا جاتا۔

اس طرح پر جو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقاء کا بھی یہی باعث ہے تا کہ اسلام کے اصولوں کی خوبی اور حسن ظاہر ہو۔ اب دیکھ لو کہ نیوگ اور کفارہ کے اعتقاد والے مذہب اگر موجود نہ ہوتے تو اسلام کی خوبیوں کا امتیاز کیسے ہوتا۔ غرض مخالف کا وجودا گر مفید ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ107 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے احد

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• عکرمہ کا حال تم نے سنا ہوگا۔ احد کی مصیبت کا بانی مبانی یہی تھا اور اس کا باپ ابوجہل تھا لیکن آخر اسے صحابہ کرام ؓکے نمونوں نے شرمنده کر دیا۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خوارق نے ایسا اثر نہیں کیا جیسا کہ صحابہ کرام ؓ کے پا ک نمونوں اور تبدیلیوں نے لوگوں کو حیران کیا۔ لوگ حیران ہو گئے کہ ہمارا چچازاد کہاں سے کہاں پہنچا۔ آخر انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ خوردہ سمجھا۔ عکرمہ نے ایک وقت ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا اور دوسرے وقت لشکر کفار کو درہم برہم کیا۔ غرض آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ نے جو پاک نمونے دکھائے ہیں ہم آج فخر کے ساتھ ان کو دلائل اور آیات کے رنگ میں بیان کر سکتے ہیں۔ چنانچہ عکرمہ ہی کا نمونہ دیکھو کہ کفر کے دنوں میں کفر۔عُجب وغیرہ خصائل بد اپنے اندر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ بس چلے تو اسلام کو دنیا سے نابود کر دے مگر جب خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس کی دستگیری کی اور وہ مشرف بااسلام ہوا تو ایسے اخلاق پیدا ہوئے کہ وہ عجب اور پندار نام تک کو باقی نہ رہا اور فروتنی اور انکسار پیدا ہوا کہ وہ انکسار حجة الاسلام ہو گیا اور صداقت اسلام کے لئے ایک دلیل ٹھہرا۔ ایک موقع پر کفار سے مقابلہ ہوا۔ عکرمہ لشکر اسلام کا سپہ سالار تھا۔ کفار نے بہت سخت مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ لشکر اسلام کی حالت قریب شکست کھانے کے ہوگئی۔ عکرمہ نے جب دیکھا تو گھوڑے سے اترا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں اترتے ہیں۔ شاید ادھر ادھر ہونے کا وقت ہو تو گھوڑا مدد دے۔ تو اس نے کہا۔ اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا ہے جب میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ جان دے کر گناہوں کا کفارہ کروں۔ اب دیکھیے کہ کہاں سے کہاں تک حالت پہنچی کہ بار بار محامد سے یاد کیا گیا۔ یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رضا ان لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے جو اس کی رضااپنے اندر جمع کر لیتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے جا بجا ان لوگوں کو رضی اللہ عنہم کہا ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ ہرشخص ان اخلاق کی پابندی کرے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ128-129ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• خدا تعالےٰ قادر ہے کہ جس شئے میں چاہے طاقت بھر دیوے۔ پس اپنے دیدار والی طاقت اس نے اپنی گفتار میں بھردی ہے۔ انبیاء نے اسی گفتار پر ہی تو اپنی جانیں دے دی ہیں۔ کیا کوئی مجازی عاشق اس طرح کرسکتا ہے؟ اس گفتار کی وجہ سے کوئی نبی اس میدان میں قدم رکھ کر پھر پیچھے نہیں ہٹا اور نہ کوئی نبی کبھی بے وفا ہو ا ہے۔ جنگ اُحد کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خداکی اس وقت جلالی تجلی تھی اور سوائے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی۔ اس لئے آپ وہاں ہی کھڑے رہے اورباقی اصحاب کا قدم اُکھڑ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے اس صدق و صفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپ کو خدا سے تھا ایسا ہی ان الہٰی تائیدات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جو آپ کے شامل حال ہیں۔ مثلاً آپ کی بعثت اور رخصت کا وقت ہی دیکھ لو۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ130-131ایڈیشن 1984ء)

ارشادات برائے اراراٹ

• حضرت نوح ؑ کی کشتی کا ذکر تھا۔فرمایا:
’’بائبل اور سائنس کی آپس میں ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سوکنیں ہوتی ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور پچاس ہاتھ چوڑی تھی۔ اور اس میں حضرت نوح ؑ نے ہرقسم کے پاک جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کے کشتی میں چڑھائے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اول تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا جب تک پہلے رسول کے ذریعہ سے اس کو تبلیغ نہ کی ہو اور حضرت نوح ؑ کی تبلیغ ساری دنیا کی قوموں پر کہاں پہنچی تھی جو سب غرق ہو جاتے۔ دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف 300ہاتھ لمبی اور 50 ہاتھ چوڑی ہو۔ ساری دنیا کے جانور بہائم، چرند، پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیونکر سما سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہوگئی ہیں۔ تعجب ہے کہ بعض سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوں سے پاک ہے۔ اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے۔ اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے بلکہ صرف الارض لیکن وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی صرف اس کا ذکر ہے۔ لفظ اراراٹ جس پرنوح کی کشتی ٹھہری اصل اَرٰی رِیْت ہے۔ جس کے معنے ہیں۔ میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں۔ ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں۔ قرآن شریف میں الله تعالیٰ نے لفظ جُوْدِی رکھا ہے۔ جس کے معنے ہیں میرا جود و کرم یعنی وہ کشتی میرے جود و کرم پر ٹھہری۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ216-217ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• اسی طرح نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب نوح تبلیغ کرتے کرتے تھک گئے اور آخر انہوں نے دعا کی تونتیجہ یہ ہوا کہ ایک طوفان آیا جس نے شریروں کو ہلاک کر دیا اور اس طرح پرفیصلہ ہوگیا۔ آخر ان کی کشتی ایک پہاڑ پر جاٹھہر ی جس کو اب اراراٹ کہتے ہیں۔ اراراٹ کی اصل یہ ہے۔ ا َرَا رات یعنی میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں انہوں نے ایک پہاڑ کا سرا دیکھ کر کہا تھا اور اب اسی نام سے یہ مشہور ہوگیا اوربگڑ کر اراراٹ بن گیا۔ یہ زمانہ بھی نوح علیہ السلام کے زمانہ سے مشابہ ہے خدا تعالیٰ نے میرنام بھی نوح رکھا ہے اور وہی الہام جو کشتی کا نوح ؑ کو ہوا تھا یہاں بھی ہوا ہے۔ اسی طرح پر اب خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا چاہا ہے اور حقیقت میں اگر ایسانہ ہوتا تو ساری دنیادہریہ ہوجاتی اقبال اور کثرت نے دنیاکو اندھا کر دیا ہے۔

البدر میں ہے:۔ ’’راٹ عبرانی زبان میں پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں اور اَرٰی بمعنی میں نے دیکھ لیا۔ نوح علیہ السلام نے جب چاوروں طرف نظرماری اور پانی ہی پانی نظر آیا تو چونکہ پانی اتر چلا تھا اس لئے جودی پہاڑ کی چوٹی ان کو نظر آئی۔ اور اسی وجہ سے اس کا نام ارارت پڑگیا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ324 ایڈیشن 1984ء)

ارشاد برائے فاران

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
• اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعہ: 4) کا مصداق اور موعود ہے۔ وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔ میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ آپ نے اس زمانہ ہی کی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیا اترے گا۔ اب ہمارے مخالف، نہیں نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے خوب گلے مروڑ مروڑ کر یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَیَّ (آل عمران: 56) اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِیْ (المائدہ: 118) قرآن میں عجیب لہجہ سے پڑھتے ہیں۔ لیکن سمجھتے نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اگر کوئی ناصح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ نہ کریں۔ اتنا تو کریں کہ اس کی بات ہی ذرا سن لیں مگر کیوں سنیں؟ وہ گوش شنوا بھی رکھیں۔ صبر اور حسن ظن سے بھی کام لیں۔ اگر خدائے تعالیٰ فضل کے ساتھ زمین کی طرف توجہ نہ کرتا تو اسلام بھی اس زمانہ میں مثل دوسرے مذ ہبوں کے مردہ اور ایک قصہ کہانی سمجھا جاتا۔ کوئی مردہ مذہب کسی دوسرے کو زندگی نہیں دے سکتا لیکن اسلام اس وقت زندگی دینے کو تیار ہے لیکن چونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ کوئی کام خدا تعالیٰ بغیر اسباب کے نہیں کرتا۔ ہاں یہ امر جدا ہے کہ وہ اسباب ہم کو دکھائی دیں یا نہ لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے انوار اترتے ہیں جو زمین پر پہنچ کر اسباب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو تاریکی اور گمراہی میں مبتلا پایا اور ہر طرف سےضلالت اور ظلمت کی گھنگھور گھٹا دنیا پر چھا گئی۔ اس وقت اس تاریکی کو دور کرنے اور ضلالت کو ہدایت اور سعادت سے تبد یل کر نے کے لئے ایک سراج منیر فاران کی چوٹیوں پر چمکا یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ82-83 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

کچرے سے بجلی بنانے والا ملک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2022