• 14 جولائی, 2025

اختتامی خطاب جلسہ سالانہ قادیان حضور انور ایدہ الله مؤرخہ 26؍دسمبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

اختتامی خطاب جلسہ سالانہ قادیان حضور انور ایدہ الله
مؤرخہ26؍دسمبر 2021ء
(بصورت سوال و جواب)

سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: آج قادیان کے جلسۂ سالانہ کا آخری دن ہےآخری سیشن ہے یہ، اِسی طرح افریقہ کے ایک ملک گنی بساؤ میں بھی جلسہ ہو رہا ہے اُنہوں نے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں بھی شامل کر لیں اور اِس لئے بعض جگہ ٹیلی ویژن پہ اُن کو بھی دکھایا جا رہا ہے۔

سوال: اسلام کی تعلیم کی بابت ہم کیا دعویٰ کرتے ہیں؟

جواب: اسلام کی تعلیم ہی اپنی اصلی حالت میں ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم ہے جو ایک خوبصورت معاشرہ قائم کرنے کے لئے اعلیٰ ترین تعلیم ہے، یہی وہ تعلیم ہے جس پر حقیقی رنگ میں اگر عمل کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے قریب بھی کرتی ہے اور پھر اُس قُرب کی وجہ سےاور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے ایک حقیقی مسلمان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی ایسی رہنمائی کرتی ہے جو بے مثال ہے۔

سوال: Covid19 کی بیماری کے تناظر میں کیا تذکرہ ہوا؟

جواب: یہ بیماری جس نے تمام دنیا کو آجکل ہلا کر رکھ دیا ہے یعنی Covid19 کی بیماری، اِس نے بھی دلوں کی کُدورتیں دُور نہیں کیں، قوموں کے ایک دوسرے پر فوقیت کے خنّاس کو دُور نہیں کیا۔ الله تعالیٰ کی اِس وارننگ سے کوئی سبق نہیں انسان حاصل کر رہا اور اگر یہ اِسی طرح قائم رہا جو رویّہ ہے لوگوں کا، قوموں کا تو بڑے خطر ناک نتائج پیدا ہوں گے۔

سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب کے نفسِ مضمون کی بابت کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: مَیں اِس وقت اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیم کے بارہ میں چند پہلو بیان کروں گاجن پر اگر حقیقت میں عمل ہو تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارا بن سکتی ہے، یہی باتیں ہیں جو دنیا کے امن کی ضمانت ہیں جو اسلام نے پیش کی ہیں، قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ باتیں مَیں بیان کروں گا۔

سوال: اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیم میں بڑا واضح فرق کیا ہے؟

جواب: وہ صرف اپنے مذہب اور اپنی تعلیم کو ہی سچا سمجھتے ہیں لیکن اِس تعلیم کے مطابق جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے مسلمان پر فرض ہے کہ یہ تسلیم کریں کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں اور جب ہر قوم میں نبی کو مانیں گے تو پھر وہ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے۔

سوال: اسلامی تعلیم اور تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے ایک غلط تصور کیا قائم ہو گیا ہے؟

جواب: اسلام شدّت پسند مذہب ہےاور زبردستی اِس تعلیم کی وجہ سےابتداء میں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا گیا ہے اور اب بھی اِسی طرح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ایک ایسا الزام ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، قرآنِ کریم کو جب ہم دیکھیں تو بے شمار جگہ قرآنِ کریم جبر کی تعلیم کی نفی کرتا ہے اور جبر سے روکتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا! وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّھُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (یونس:100) اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو جو بھی زمانہ میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تُو اُن لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے حتّی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں۔

سوال: پس تبلیغ کا حکم ہے، اسلام کا پیغام پہنچانے کا حکم ہے، دوسروں کو راستہ دکھانے کا حکم ہے اور یہ راستہ دکھا کر پھر الله تعالیٰ کیا فرماتا ہے؟

جواب: وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکھف:30) اور کہہ دے کہ حقّ وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہے پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ پس الله تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ یہ تعلیم سچی ہے تمہارے فائدہ کے لئے ہےمان لو تو بہتر ہے نہ مانو تو پھر تمہاری مرضی ہے، پھر الله تعالیٰ اگلے جہان میں حساب کتاب کرے گا، پھر دنیا کا معاملہ ختم ہو گیا۔

سوال: اگر آج بھی مسلمانوں کے عمل اِس تعلیم کے مطابق ہو جائیں تو دنیا کی اسلام کی طرف توجّہ پیدا ہو جائے اورمسلمان بھی دیکھیں گےکہ خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی رجوع سے اور دنیاوی خداؤں کو چھوڑنے سے جہاں دنیا میں امن قائم ہو گا وہاں مسلمانوں کی اپنی ساکھ اور عزت اور وقار بھی کئی گُنا بڑھے گا اور یہ کس وقت ممکن ہو گا؟

جواب: جب آنحضرتؐ کے غلامِ صادق اور زمانہ کے امام کو مانیں گے جو دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لئے الله تعالیٰ نے بھیجا ہے۔

سوال: امن قائم رکھنے کے لئے آنحضرتؐ نے ہمیں ایک سنہری اصول کیا بتایا ہے؟

جواب: ظالم و مظلوم دونوں سے ہمدردی کرو، اب مظلوم سے ہمدردی تو واضح ہے کہ کس طرح کرنی ہے۔ ظالم کی ہمدردی کس طرح کی جائے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک کر اُس سے ہمدردی کرو۔

سوال: پس ترقی یافتہ ممالک میں بھی اور ترقی پذیر ممالک میں بھی چاہے معاشرہ کی بنیادی اور چھوٹی اکائی کو دیکھیں یا ملکوں کے اندر مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے تعلقات میں دیکھیں یا ملکوں کی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کو دیکھیں، کس چیز کی بہت بڑی کمی نظر آتی ہے؟

جواب: جو بھی فریقین میں فیصلہ کرنے والے ہیں، امن قائم کرنے والےہیں اُن کا میلان ایک طرف ہوتا ہے۔ UNO بنی ہوئی ہے اُس کا میلان بھی آپ دیکھ لیں ایک طرف ہے یا تو مظلوم سے اِس حدّ تک ہمدردی کہ وہ ایک وقت میں آ کر ظالم بن جائے یا ظالم کی اِس حدّ تک طرفداری کہ مظلوم کا جینا دُو بھر ہو جائے۔

سوال: پائیدار اَمن کس وقت قائم ہو سکتا ہے؟

جواب: جب متوازن رویّہ ہر سطح کے بااختیار لوگ اپنائیں، دونوں طرف کی باتیں اور نقطۂ نظر سُنیں اور پھر سمجھائیں اور کُدورتوں کو دُور کریں۔

سوال: ایک بُرائی جس سے اسلام بڑی سختی سے روکتا ہے وہ کونسی ہے؟

جواب: بدّ ظنی۔

سوال: صحابہؓ کس حدّ تک حُسنِ ظن رکھتے تھے؟

جواب: کہ اِس کی مثال ہی نہیں ملتی۔

سوال: حضرت اقدس مسیحِ موعود ؑ اِس بارہ میں مزید کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں، جوان سے بُوڑھا ہو جاتا ہے مگر اُسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے؟

جواب: مثلًا گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اِس کو بالکل ایک معمولی سی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآنِ شریف نے اِس کو بہت ہی بُرا قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا! اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡهِ۔ خدا تعالیٰ اِس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اُس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کاروائی کرے جس سے اُس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اِس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہوتا ہو یا اُس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو، یہ سب بُرے کام ہیں۔

سوال: اَحمدیوں کو جنہوں نے حضرت مسیحِ موعودؑ کو مانا ہےاُنہیں کیسی مثالیں قائم کرنی چاہئیں؟

جواب: جیسی صحابہؓ نے قائم فرمائی تھیں۔

سوال: کوئی ہم پر یہ اُنگلی نہ اُٹھائے کہ یہ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم یہ فرق اور یہ فرق۔ ہم نے مسیحِ موعودؑ کو مان لیا تو فرق کیا پیدا کیا اپنے آپ میں مان کر، پس ہمارے فرق واضح نظر آنے چاہئیں۔ تبھی ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟

جواب: مسیحِ موعودؑ کو مان کر ہمارا آخرین میں شمار ہوا ہے۔

سوال: امن و سلامتی کو برباد کرنے میں ایک بہت بڑی وجہ کیا ہے نیزالله تعالیٰ کے فرمان! وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا کے حوالہ سے حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا تلقین فرمائی؟

جواب: تکبّر؛ یاد رکھوکہ اِس طرح کے لوگ حقوق غصب کر کےاور اِن سے فاصلہ رکھ کر قوم کے سردار نہیں بن سکتے، جبال سردار اور بڑے اُمراء کو بھی کہتے ہیں۔ پس تکبّر کر کے کوئی حقیقی مقام نہیں ملتے، عاجزی ہی ہے جو حقیقی سرداری دیتی ہے اور لیڈر بناتی ہے اور یہی سرداری ہے جو دیرپااَمن قائم کرنے والی بن سکتی ہے۔

سوال: حضرت المصلح الموعودؓ نے قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم نیز نےاِس آیت کا اصل مفہوم کیا بیان فرمایاہے کہ لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَھْرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا (النّساء:149)؛ الله سرِ عَام بُری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اَور الله بہت سُننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے؟

جواب: قوم کے اخلاق کو بگاڑنا؛ اِس کے لوگ مختلف معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اُسے بے شک اجازت ہے کہ وہ برسرِ عام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اِس کی اجازت نہیں مگر میرے نزدیک اِس آیت کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے۔ گویا الله تعالیٰ ہر ایک کو اِس طریقے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے تُو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ سمجھنا چاہئے کہ تُو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے۔

سوال: اسلام ایک کا حقّ دے کر دوسرے کا حقّ بھی کیوں قائم کرتا ہے؟

جواب: تاکہ امن اور سلامتی کی فضاء قائم رہے۔

سوال: کونسا اصول ہے جو ایک مسلمان کی صحیح تصویر کھینچتا ہے، جس سے دشمنیاں ختم ہوتی ہیں، معاشرہ میں صلح اور صفائی کی فضاء قائم ہوتی ہے نیزامن اور سلامتی کا پیغام حدّ تک پہنچتا ہے؟

جواب: غصّہ کو دبانا اور معاف کرنا۔

سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اختتامی دعا سے قبل کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: اب ہم دعا کریں گے، دعا میں خاص طور پر یہ دعا کریں کہ الله تعالیٰ جماعت کو بھی ہر شرّ سے محفوظ رکھے اور ہمیں حقیقی رنگ میں وہ حقّ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو بیعت کا حقّ ہے، حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے جو ہم سے توقع کی ہے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین فروری 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں