• 29 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 7)

ارشاداتِ نور
قسط 7

روپیہ بت ہے

فرمایا۔ اس زمانہ میں سب سے بڑا بت لوگوں کے لیے جس کے لیے خدا تعالیٰ کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے اور آخرت کی مطلق پرواہ نہیں روپیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھانے کے لیے کہ اس زمانہ کی بت پرستی یہی ہے جس سے موحد مومن کو بچنا چاہئے اس پر بت کا نشان ہونے کا سامان کر دیا تاکہ تصویری زبان میں ہر وقت ان کو متنبہ کرتا رہے کہ میں بت ہوں ایسا نہ ہو کہ میرے لیے اپنے حقیقی مالک و محسن و معبود کو بھول جاؤ۔ پائی سے لے کر اکنی،دونی،چونی،اٹھنی، روپے اور پھر پونڈ تک بت ہے تا کہ بت پرست مشعر ہو اور اس کے حصول کے لیے لوگ خدا کی نافرمانی کرنے کی جرأت نہ کریں اور اس میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ وہی بھول جائے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ503)

سچا علم کون سا علم ہے؟

فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا (فاطر:29) اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والے ہیں تو اس کے بندوں میں سے عالم لوگ۔ گویا سچے علم کی پہچان یہ ہے کہ اس کے صاحب کا قلب خشیۃ اللہ سے لبریز رہتا ہے۔ بڑا تعجب ہے کہ اس زمانہ میں لوگ جوں جوں زیادہ پڑھتے ہیں تو ان کے دل سے خشیت الہٰی نکل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جو سب سے بڑا عالم ہونے کا مدعی ہو وہ سب سے بڑا اللہ سے نڈر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے۔ انہیں اپنی جناب سے وہ علوم دے جن کے پڑھنے سے خشیت الہٰی ان میں آئے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ504)

انسان محتاج ہے

فرمایا۔ انسان ان گنت چیزوں کا محتاج ہے کھانے کا، پینے کا، پہننے کا۔ پھر اس کے آگے چل کر موچی، بڑھئی، درزی وغیرہ کا۔ مگر ان سب احتیاجوں کا پورا کرنے والا ایک اللہ ہی ہے۔ فرض کرو عمدہ سے عمدہ کھانے دستر خوان پر چنے ہوئے ہیں مگر ہاضمہ درست نہیں۔ وہ کھانے زہر معلوم ہوں گے۔ لطیف سے لطیف اور شیریں شربت گلاس میں سامنے رکھا ہے مگر انسان کا گلا دکھتا ہے۔ وہ شیریں شربت اس کے کس کام کا۔ درزی اچھے سے اچھے کپڑے سی کر لاتا ہے مگر بیماری نے بستر پر ڈال رکھا ہے بھلا وہ عمدہ سوٹ کس کام۔ اس لیے ہر ایک چیز کے لیے انسان خدا تعالیٰ کا محتاج ہے اور غنی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ507-508)

شاہان سلف اور قرآن شریف

فرمایا کہ محمود غزنوی اور خلیفہ بغداد کے درمیان کچھ ناچاقی ہونے پر محمود غزنوی نے خلیفہ بغداد کو لکھا کہ تمہیں معلوم نہیں میرے پاس اس قدر ہاتھی اور لاؤ لشکر وغیرہ ہے کہ میں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ خلیفہ نے ایک خوبصورت کاغذ لے کر اس پر دو دفعہ الم الم لکھ کر قاصد کے ہاتھ محمود غزنوی کے پاس بھیج دیا۔ دربار کے اہلکاروں نے وہ کاغذ دیکھا اور حیران ہو گئے۔ الم الم پڑھتے مگر مطلب کو نہ سمجھ سکتے۔ محمود غزنوی فور اً تاڑ گیا۔ جب درباری اہلکاروں کو زیادہ حیران اور استعجاب میں پایا تو محمود غزنوی نے کاغذ لے کر فرمایا کہ کیا تم نے سمجھا دو دفعہ الم الم لکھنے سے خلیفہ کا کیا مطلب ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ محمود نے کہا میں اس کا مطلب سمجھ گیا ہوں اس میں سورة الفیل کی طرف اشارہ ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۲﴾ اَلَمۡ یَجۡعَلۡ کَیۡدَہُمۡ فِیۡ تَضۡلِیۡلٍ ۙ﴿۳﴾

(الفیل: 2-3)

نکتہ۔ محمود غزنوی نے ہاتھیوں کی دھمکی دی تھی۔ خلیفہ بغداد نے جسے قرآن شریف کے ساتھ محبت تھی قرآن شریف کی آیت سے بتلایا کہ دیکھو ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا جو تم مجھے ہاتھی کی دھمکی دیتے ہو۔ محمود جسے قرآن شریف کے ساتھ محبت تھی فوراً سمجھ گیا اور اس پرایسا اثر ہوا کہ خلیفہ بغداد کو عذر کا خط لکھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے بادشاہوں کو قرآن شریف سے محبت تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ تمام مادی طاقتیں ان کے سامنے ادنیٰ لونڈی کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی تھیں۔ جس طرف جاتے تھے فتح و نصرت کے شادیانے بجتے جاتے تھے۔ جب آدمی دین کو مقدم کرتا ہے تو دنیا خود بخود ہی درست ہو جاتی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ509-510)

بے انصاف مسلمان بادشاہ
زیادہ دیربادشاہت نہیں کر سکتا

فرمایا کہ بے انصاف کفار بادشاہوں کی سلطنتیں بہت دیرچلی جاتی ہیں مگر بے انصاف مسلمان بادشاہ کی سلطنت زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے انصاف مسلمان بادشاہ کے اعمال اور افعال کو اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اسلام کو بد نام کرنا نہیں چاہتا۔ تاریخوں کے اوراق پلٹا کر دیکھ لو مذہبی کتابوں کو ٹٹولو کبھی بے انصاف مسلمان بادشاہ کو زیادہ دیر تک تخت پر نہیں پاؤ گے۔ سبحان اللہ کیا عجیب اور معرفت کا نکتہ ہے۔ کیا اب بھی اسلام کی صداقت میں کچھ شک و شبہ رہ سکتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ510)

عباد الرحمٰن کون ہیں؟

جو متکبر نہ ہوں، متحیر نہ ہوں، سکونت اور وقار ان کا شیوہ ہو، سہولت سے کام لیں، فساد ان کے کسی فعل سے نہ پڑے، جاہلوں سے الگ تھلگ رہیں، بغیر حق کسی قتل کے مرتکب نہ ہوں، ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں، خرچ میں میانہ رو ہوں، لغو سے اعراض کرنے والے ہوں، آیات اللہ کی پوری تعظیم کرنے والے ہوں، اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے دعا میں لگے رہیں۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ7)

حضرت امام بخاریؒ کے سفر کا واقعہ

فرمایا۔ ایک وقت امام بخاری علیہ السلام جہاز میں سفر کر رہے تھے اور ان کے ہاں ایک ہزار دینار بھی تھے۔اچانک کسی بد معاش نے جو دیکھ پایا تو غل مچانے لگا کہ میرے ایک ہزار دینار کسی نے چرا لیا۔ حضرت نے جو سنا تو فوراً آہستگی سے دینار دریا میں ڈال دیا۔ جب سب کی تلاشی لی گئی تو ان کی بھی تلاشی لی گئی لیکن ان کے ہاں سے بھی نہ نکلے۔ اس بد معاش نے بعد میں پوچھا کہ حضرت آپ کے ہاں تو ایک ہزار دینار میں اپنی آنکھوں خود دیکھ چکا تھا، پھر آپ نے اسے کہاں غائب کیا۔ فرمایا۔ اوکمبخت! میں نے اپنی تمام عمر حدیث میں صرف کیا اور تو چاہتا تھا کہ مجھے متہم کر دیوے، اس لیے میں نے انہیں دریا میں ڈال دیا تا کہ متہم نہ ہو جاؤں ورنہ میری تمام عمر کی خدمت خاک میں مل جاتی۔

فرمایا۔ دیکھو اس کے بعد امام صاحب نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ تو نہیں پسارے۔ خداتعالیٰ انہیں خود ہی دیتا رہا۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ8-9)

(مرسلہ : فائقہ بُشریٰ)

پچھلا پڑھیں

اندھیری رات میں نور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2022